برہان الدین جانم کے چند نایاب اور غیر مطبوعہ مرثیے
(تدوینِ متن کے ساتھ)
پروفیسر ابوالفضل سید محمود قادری
سابق صدر شعبہ اردو
عثمانیہ یونیورسٹی پی جی کالج حیدرآباد
مرثیہ ، عربی لفظ ’’رثا ‘‘ سے مشتق ہے ۔ اس کے لغوی معنی میّت پر رونے کے ہیں۔ کسی کی موت پر عزا داری کا تصور مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں کے ادب میں یکساں نہیں ہے۔ ایامِ جاہلیت کے دور کے بھی عربی زبان کے مرثیئے موجود ہیں، جن میں بجائے موت پر رونے کے مرنے اولے کی تعریف اور توصیف کا تصور واضح رہا ہے۔فارسی زبان میں مرثیہ گوئی کا ابتدائی دور کم و بیش عرب شاعری کے مرثیہ کی روایات سے متاثر رہا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہہ صنف واقعاتِ کربلا سے متعلق ہوتی گئی اور ملا حسین واعظؔ کا شفی کی مشہور تصنیف ’’روضتہ الشہدا‘‘ نے اس کو ایک نیا روپ دیا۔
دکنی شاعری بھی فارسی زبان کی ان روایات کی زد سے نہیں بچ سکی ، چنانچہ عہدِ بہمنی ، برید شاہی ، عادل شاہی اور قطب شاہی میں ہمیں ابتدا ہی سے مرثیہ نگاری کی روایات ملتی ہیں، دکنی زبان میں واقعاتِ کربلا کے موضوع پر اشرفؔ کی ’’ نوسر ہار‘‘ پہلی مکمل تصنیف ہے، لیکن اس کی نوعیت روایاتی مرثیہ نگاری کے انداز سے مختلف ہے اور یہہ ایک طرح سے دکنی زبان کا پہلا مکمل شہادت نامہ ہے ۔ ’’ نوسر ہار‘‘ کا سنہ تصنیف ۹۰۹ ہجری مطابق ۱۴۸۸ء ہے۔
دکنی زبان کا ابتدائی ادبی دور صوفیائے کرام کا مرہون منت رہا ہے کہ انہو ں نے رشد و ہدایت اور تبلیغ دین مبین کی خاطر دکنی زبان کو اپنے اور عوام کے درمیان ایک وسیلہ کی زبان بنائے رکھا اور بعد کو ہم دیکھتے ہیں کہ بیجاپور اور گولکنڈہ کی سلطنتوں کے قیام کے بعد ان کے سلاطین نے دکنی شاعری کو بازار سے دربار تک پہنچایا اور اس زبان کی فیاضانہ سرپرستی کی ۔ اس کا لازمی نتیجہ دکنی شاعری کی مختلف اصنافِ سخن کی توریج اور ترقی کے روپ میں جلوہ گر ہوا ۔ ان سلاطین کے مذہبی معتقدات سے ادبی ماحول کا متاثر ہونا ضروری تھا۔ اس کا نتیجہ یہہ ہوا کہ دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ دکنی میں صنفِ مرثیہ کی بھی داغ بیل پڑی۔
ہم ذیل میں بیجاپور اور گولکنڈہ کے چند مشہور اور اہم شعرأ کے مرثیہ جات کے متن کو تدوین کے بعد پیش کرتے ہیں۔ دکنی کے یہہ قدیم مرثئیے سب کے سب غیر مطبوعہ ہیں اور ان کے قلمی مخطوطے حیدرآباد کے کتب خانۂ سالار جنگ ، ادارۂ ادبیاتِ اُردو اور اسٹیٹ سنٹرل لائبریری میں موجود ہیں۔ بیجاپور اور گولکنڈہ کے جن شعرأ کے مرثیوں کے متن کی تدوین کی گئی ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
برہان الدین جانم ؒ
حضرت برہان الدین جانمؔ دکن کے مقبول و معروف شاعر ہیں ان کا شمار بیجاپور کے صوفیائے کبار میں ہوتا ہے۔ ہمیں جانمؔ کے دو مرثیئے دستیاب ہوئے ہیں۔ ان میں مرثیہ کے موضوع کے ساتھ ساتھ تصوف اور وحدانیت کے مسائل کی بھی عالمانہ توضیحات موجود ہیں۔
مرثیہ
دیک چاند ہر عاشور کا ، عالم پہ غم پیدا ہوا
تب تے ، شفق کا گھن اُپر ، خونی علم پیدا ہوا
اس دُک کی سب سن کر خبر ، روتے ملائک گھن اُپر
ناتاب لیا ، اس دُک ستے ، چندر میں خم پیدا ہوا
لالہ کا دل کر جوشِ خوں ، بلبل سدا نعرا کرے
نرگس کے دیدیاں میں دیکھو ، شبنم کا ضم پیدا ہوا
اور رو حرم جو شاہ کا ، اس دھات سوں کہنے لگے
کس پر نہیں سو آج لگے ، ہم پر یو غم پیدا ہوا
کیا ظلم کیتے کافراں ، ناڈر کوں حق سوں ، شہ اُپر
جس واسطے آسماں زمیں ، لوح و قلم ، پیدا ہوا
جن و ملک ، انساں سگل ، کہتے دیکھو اس دھات سوں
حضرت نبی کی آل پر ، یو کیا ستم پیدا ہوا
غمگیں علی کوں دیک کر ، سرور حسین کے غم سنے
آدم صفی ھور نوح کوں ، رونے کوں غم پیدا ہوا
یاراں ، تمہیں اندیش کر ، دیکھو ، حسینا او اھے
قدرت سوں جس کے واسطے ، باغِ اِرم پیدا ہوا
شہ کا صفت کہنے ستے ، دیکھو دنیاں ھورین کا
جم جانمؔ سیانے اچھو ، فضل و کرم پیدا ہوا
مرثیہ
محرم کا چندر ، پھر گھن پہ لے ماتم ، ہوا پیدا
محباں کے دلاں میں ، سب شہاں کا غم ، ہوا پیدا
دکھی ہوا حدیت میانے ، نکل وحدت منے آنے
یو غم عالم پہ دکھلانے ، صفی آدمی ، ہوا پیدا
او واجب تخم غم بویا ،سو ممکن خواب میں رویا
اُجالا ممتنع کھویا ، ہو عارف غم ، ہوا پیدا
مکاں سٹ کینچ مخفی کا ، کرے سب بھینس سفلی کا
پھر اکر اِسم علوی کا ، یو سب عالم ، ہوا پیدا
ہو ظاہر روح کے جسماں ، ہوئے قدرت کے گرِ قسماں
طلسم ، اس قسم کے رسماں پکڑ محکم ، ہوا پیدا
ہوا ہور باؤمل ، پانی ہوئے درخاکِ جسمانی
ولے اس نور نورانی میں ، نارا کم ہوا پیدا
لیانا سوت حیوانی ، سو ملکوت نور کے پانی
ہوا جبروت روحانی ، جولا ھوت دم ہوا پیدا
مدینہ علم جیؤں سرور ، علی بابھا رہبر
سو معنیٰ علم کا مظہر ، شہ اکرم ہوا پیدا
میں کیا کھوں حال عالم کا ، کلِمہ بول خاتم کا
ولے اُس اسمِ اعظم کا نکوئی محرم ہوا پیدا
فلک اس غم سوں ہو کے خم ، بسایا جگ اُپر ماتم
کریں سب و مبدم یو غم ، جدھاں تے ، غم ہوا پیدا
شہاں کے تئیں سرانے کوں ، نہایت غمکا پانے کوں
یو دُوک شہ کا پچھانے کوں ، سو جامِ جم ہوا پیدا
رھیا طاقت نہ طاقت کوں ، دیئے سب چھوڑ ، راحت کوں
سو اس غم کے جراحت کوں ، نہ کئیں ، مرہم ہوا پیدا
لگیا دُک شاہ کا جس رے ، نسوجھے غم ، بجز نس رے
خبر نئیں غم کی ہے کس رے ، جو غم ہمدم ہوا پیدا
حسینا گئے ہیں جس رہ پر ، سو واضح کاں ہے گمرہ پر
سمیا جو آ کھڑیا شہ پر ، سو ایسا کم ہوا پیدا
نہیں آرام کس یک دن ، گھٹے سک دک بدھے دن دن
جو کرنے بدل ، پل چھن چھن ، یو سب عالم ہوا پیدا
جناور سب سٹے زوجاں ، دریا کے کھلبلے موجاں
شمر جب کفر کر ، فوجاں لے ، شہ کے سم ، ہوا پیدا
ہوا ماتم رسول اُوپر ، علی پر ھور بطول اوپر
نین نرگس کے پھول اوپر ، انجو شبنم ہوا پیدا
جتے قلبے میں غم بستا ، سواو جی میں عیاں دستا
یو ہو سری سوں وابستا ، خفی جانمؔ ہوا پیدا
مشمولہ: مقالات محمود قادری ۔ مرتبہ۔ ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان
—–