مسجد، امام و مؤذن کی اہمیت اورہماری ذمہ داریاں
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
اللہ تعالیٰ نے انسا نوں اور جنوں کو اپنی عبا دت کے لیے پیدا فر ما یا ،ارشاد باری تعالیٰ ہے۔اور میں نے جنات اور انسا نوں کوصرف اسی لیے پیدا کیاکہ وہ میری بندگی کریں(قرآنی مفہوم،سورہ الذا ریات) عبادت کے طریقے بھی بتا ئے اور عبادت خا نہ کی جگہ بتا ئی گر چہ امت محمدی میں ہر پاک وصاف جگہ میں نماز ادا کی جاسکتی ہے پھر بھی اللہ نے عبادت کے لیے مسجد کو بہتر فر مایا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فر مایا۔ اللہ تعالیٰ کو سب جگہ سے زیادہ محبوب مسجدیں ہیں اور سب سے مبغوض(قابل نفرت) بازار ہیں(صحیح مسلم،کتا ب المساجدج،اول ص،۳۳۹،حدیث۳۱۴،بہار شریعت ،ج ۳،ص۶۴۲) اور اس محبوب جگہ کو کون آباد کرے گا اسکی بھی نشاندہی فرمائی۔اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَاللّٰلہِ مَنْ اٰ مَنَ بِاللّٰہِ وَا لْیَوْ مِ ا لْاٰ خِرِ وَ اَقَا مَ الصَّلٰوۃَ وَاٰ تَی ا لزَّ کٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِ لَّاا للّٰہَ فَعَسَ اُ ولٰٓءِکَ اَنْ یَّکُوْ نُوْ ا مِنَ ا لْمُھْتَدِ یْنَ۔تر جمہ: مسجدیں وہی آباد کر تے ہیں، جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے اورر نماز قا ئم کی اور ز کوٰۃ دی اور خدا کے سوا کسی سے نہِ ڈرے، بے شک وہ راہ پانے والوں میں سے ہوں گے،( القر آن،سورہ توبہ۹،آیت ۱۸)قرآن واحا دیث میں مسجد کی فضیلت و اہمیت اور احکام بہت تفصیل سے بیان ہو ئے ہیں۔ مشہور مفسر قرآن حضرت امام رازی رحمۃاللہ علیہ نے سورہ تو بہ۹،کی آیت ۱۱۸ کی تفسیر میں فر ما تے ہیں کہ تعمیر کے خواہاں وذمہ دار(مراد،خدمت گار COMMITTEE ) والوں کے لیے کم ازکم ان خو بیوں کا ہونا ضروری قرار دیا ہے:
(۱)اللہ اور آخرت ایمان
(۲) نماز کا اہتمام کر نایعنی نماز کی پا بندی کرنا
( ۳) ادائیگی زکوٰۃ کا اہتمام کر نا
(۴) صرٖف اور صرف اللہ کا خوف رکھنا۔
نماز کے اہتمام سے مسجد کی رونق بڑھتی ہے افسوس صد افسوس آج بہت کم ہی ذمہ دارانِ مسجدنمازی ہو تے ہیں زیادہ تر مسجدوں کے ذمہ داران بھی سیاسی و دبنگ لوگ ہو تے ہیں ان کو اللہ کے خوف سے دور دور تک واسطہ نہیں ہو تا ہے متولی،اور صدر وسکر یٹر ی کا عالم با عمل ہو نا ضرو ری ہے،اگر میسر نہ ہو سکے تو کم از کم صوم وصلاۃ کاپا بند ہو نا،با اخلاق ہو نا،رحم دل ہو نا،اہل علم کی تعظیم کر نے والا ہو نا چا ہیے اللہ کی عبا دت کے لیے مسلما نوں کے لیے جو جگہ بنا ئی جاتی ہے اس کو مسجد کہتے ہیں، مسجد کا لغوی مطلب ہے سجدہ کرنے کی جگہ ار دو سمیت مسلمانوں کی اکثر زبا نوں میںیہی لفظ استعمال ہو تا ہے انگر یزی اور یور پی زبانوں میں اس کے لیے’’موسک‘‘MOSQUE کا لفظ استعمال کر تے ہیں ،مساجد مسلما نوں کے مذہبی مرا کزہیں مسلمان مسجد کو اللہ کا گھر سمجھتے ہیں چا ہے اس کا تعلق مسلمانوں کے کسی بھی فر قہ سے ہو ایمان والوں کے ساتھ ساتھ اللہ رب ا لعزت کے یہاں بھی مسجد کو دوسرے مقامات کی بنسبت بر تری حاصل ہے جو عام جگہوں کو حاصل نہیں اوپر حدیث گزرچکی ہے۔ اسی لئے اسلام میں مسا جد کو بہت زیادہ اہمیت اور عظمت حاصل ہے۔مسجد میں جانے عبادت کر نے اور مسجد سے واپس لوٹنے پر شریعت نے آداب معین کئے ہیں جن کا ہمیں خاص خیال رکھنا چاہیے تفصیل کے لیے اسلامی کتب قانون شریعت، بہار شر یعت، وغیرہ کا مطالعہ فر مائیں ۔آدابِ مسجد حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ار شاد فر مایا ایک زما نہ آئے گا کہ لوگ مسجدوں میں دنیوی گفتگو کریں گے۔ ان کے پاس مت بیٹھنا کہ اللہ کو ان کی کو ئی حاجت نہیں،( شعب ا لا یمان للبیہقی،ج۴،ص۳۸۷،حدیث۲۹۶۲، بہار شریعت ج۳،ص۶۴۹اور۶۴۸) مخبر صا دق ﷺ کا فر مان 100%سو فیصد سچ ثا بت ہو رہا ہے لوگ مسجدوں میں بیٹھ کر دنیوی با تیں کر تے ہیں ہنسی مذاق میں لگے رہتے ہیں افسوس اس میں اہل علم بھی رہتے ہیں، ایسے لو گوں کے ساتھ آپ ﷺ نے بیٹھنے سے منع فر مایا۔ہم کو چا ہیے نہ ایسی محفلوں میں بیٹھیں اور نہ ہی مسجدوں میں بیٹھ کر دنیا وی با تیں کریں۔ آداب مسجد میں سے ہے کی مسجد میں پا ک و صاف ہو کر داخل ہوں یادرہے یہ شرط اول ہے ناپاک آد می مسجد میں نہیں داخل ہو سکتا۔مسجد میں دوڑ کر چلنا یا قدم زور سے رکھنااوراونچی آ واز میں بات کر نا تہذیب وشا ئستگی کے خلاف ہے وعذاب الٰہی کا بھی موجب ہے صاف ستھرا لباس پہن کر مسجد میںآنا چا ہیے حکم الٰہی ہے۔یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْ زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍوّ …… الخ ترجمہ: اے اولاد آدم! ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت پہن لیا کرو۔القرآن،سورہ۷،آیت۳۱، (یہاں زینت سے مراد مکمل لباس،آرائش وزیبا ئش بنا ؤ سنگار کر لیا کرو)اللہ رب ا لعزت کی عبا دت میں کھڑے ہو نے کے لیے صرف اتنا کا فی نہیں،مسجد کے بہت احکام ہیں مسلما نوں کو چاہیے اسلامی کتب کا مطالعہ فر مائیں اور مسجد کے آداب وضروریات کا پورا پورا خیال رکھیں امام کی فضیلت: قرآن کریم واحادیث طیبہ میں امامت کے فضائل مو جود ہیں،سورہ نساء۴،آیت۹۔سورہ سجدہ۳۲،آیت۲۴، سورہ البقرہ ۲، ارشاد الٰہی ہے وَاِذِبْتَلَیٰٓ اِبْرٰ ھِیْمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِنَّاسِ اِمَاماًقَالَ وَ مِنْ ذُرِّ یَتِیْ قَا لاَ یَنَالُ عَھْدِ ی ا لظّٰلِمِیْنَ ۔تر جمہ:اور(وہ وقت یاد کرو)جب ابراھیم (علیہ السلام)کو ان کے رب نے کئی با توں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں،(اس پر) اللہ نے فرمایا:میں تمھیں لو گوں کاپیشوا(امام) بناؤں گا، انھوں نے عرض کیا:(کیا)میری اولاد میں سے بھی؟ارشادہوا:ہاں!مگر میرا وعدہ ظالموں کو نہیں۔ یعنی یہ وعدہ تمھاری اولادکے ان لوگوں سے ہے جو صالح ہوں ان میں سے جوظالم ہوں گے ان کے لیے یہ وعدہ نہیں ہے۔حضرت ابرا ھیم علیہ السلام کے بعد جتنے انبیاء اور رسول آئے وہ سب آپ ہی کی اولاد میں سے ہیں ہما رے نبی کریم ﷺ بھی آپ ہی کی اولاد میں سے ہیں۔اما مت کا عہدہ اللہ کے نزدیک بھی بہت با عزت وعظمت والا ہے اسی لیے فر مایا جو میری اطاعت وفر ماں برداری کرے گا اسے امامت سے نوازیں گے ظا لموں بد عملوں کو یہ نعمت نہیں ملے گی،امامت کے ساتھ ساتھ اذان دینے والا بھی اچھااور نیک ہونا چا ہیے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول ا للہ ﷺنے فر مایا:’’تم میں کے اچھے لوگ آذان کہیں’’اورقرّ اء‘‘ امامت کریں‘‘ نبی کر یم ﷺ کے زمانے میں جو زیادہ قر آن پڑھا ہوتا وہی علم میں زیادہ ہوتا۔ حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امامت کا زیادہ مستحق اقراء یعنی زیادہ قرآن پڑھا ہوا(سنن ابو داؤد،حدیث۵۹،(۲)صحیح مسلم، کتاب المساجد حدیث ۷۸۲)عبرت ناک حدیث پاک ملاحظہ فر مائیں: حضرت سلامہ بنت ا لحر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے کہ آ قا ﷺ نے فر ما یا:’’ قیامت کی علامت میں سے کہ باہم اہل مسجد اما مت ایک دوسرے پر ڈا لیں گے، کسی کو امام نہیں پا ئیں گے کہ ان کو نماز پڑھا وے۔( یعنی کسی میں امامت کی صلاحیت نہ ہو گی)۔(مسلم با ب ا لمساجد،حدیث۵۸۱)نیک ومتقی اور اہل علم وافضل شخص کو ہی امام بنایاجائے،کم ازکم قرات قرآن اورمسائل نمازکے جانکاری رکھتا ہو۔شریعت مطہرہ میں امام کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں(اسلامی کتب کا مطالعہ کریں) امام کی عزت واکرام کرے جیسا کی اس کی شان کے لائق ہو اس کو اپنا مذہبی پیشوا RELIGIOUS LEADER اور سردار سمجھیں،امام،مؤذن کو دیگر ملازمین اور نو کروں کی طرح سمجھنا منصب اما مت کی سخت تو ہین ہے یہ بہت گناہ اور معصیت کا سبب ہے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
اذان کی اہمیت: آذان اللہ کے بندوں کو فلاح(بھلا ئی،نیکی،نجات،سلامتی،)کی طرف بلانے کا پیغام ہے پو رے دن میں پانچ بارمیں مشکل سے10منٹ ہی لگتے ہیں افسوس آذان کی یہ آوازیں ان لو گوں پر بڑی گراں گزر تی ہیں،جواس ملک میں اسلام اور مسلمانوں سے ہمیشہ سے دشمنی رکھتے ہیں۔اسی لیے جب کب مسجدوں سے لاؤڈسپیکر اتار نے کی بات کر تے ہیں بیمار ذہن کے لوگ اپنی خوا ہش کو پو را کر نے کے لیے عدالتوں میں کیس درج کئے ہیںNATIONAL GREEN TRIBUNALمیں حال ہی میں ایک عر ضی داخل کی گئی ہے، این جی ٹی کے چیئرمین جسٹس سوتنتر کمار نے دہلی سرکار اوردہلی پالوشن کنٹرول کمیٹی کوحکم دیاہے کہ ضا بطوں کے خلاف ورزی کر نے والوں پر سخت کار روائی کی جائے اس عرضی کا نپٹارہ کر تے ہوئے ٹریبو نل نے مسجدوں کی جانچ کا حکم دیا ہے کہ وہاں سے تیز آواز تو نہیں آرہی ہے۔ غیر سر کاری تنظیم اکھنڈ بھارت مور چا نے کئی جگہ کیس دائر کئے ہیں ان کا مقصد مسلما نوں کو پریشان کر ناہے،مسلمان تو پریشان ہیں لیکن یا د رکھیں یہ اللہ اکبر کی صدا تا قیامت بند نہیں ہو گی یہ قدرتی نظا م صبح قیامت تک چلتا رہے گا ۔بہت پیاری بات ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہی ہے۔
یہ نغمہ فصلِ گل ولا لہ کا نہیں پابند * بہار ہوکہ خزاں،لا الہٰ الااللہ
خو دی کاسرِنہاں لا الہ الا اللہ * خودی ہے تیغ،فساں لا الہ الااللہ
یہ دوراپنے برا ہیم کی تلاش میں ہے * صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الااللہ
کیا ہے تونے متاع غرور کا سودا * فریب سود وزیاں،لاا لہ الا للہ
یہ ما ل و دولت دنیا،یہ رشتہ وپیوند * بتاں وہم و گماں،لا ا لہ الا للہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنا ری * نہ ہے زماں نہ مکاں،لا الہ الااللہ
اگرچہ بت ہیں جما عت کی آستینوں میں * مجھے ہے حکم اذاں،لا ا لہ الا اللہ
اعلان توحید آذان ہمیشہ بلند ہو تے رہے گی،آذان پکار نے والے موذن وامام کی بہت فضیلتیں ہیں مسلما نوں کو چاہیے کی وہ اللہ کے گھر’’ مسجد‘‘ کا احترام کریں اور ’’ امام ‘‘ و ’’ موذن ‘‘ کا خیال کریں وہ بھی ہما رے معاشرے کا حصہ ہیں اور ہم پر ان کی خبر گیری رکھنا اسلامی واخلا قی فریضہ ہے امام مؤذن کی ذمہ داری سے لیکر بچے کی پیدا ئش کے بعدآذان اقا مت سے لے کر نکاح، گھر میں بیماری سے لے کر جنا زہ تک دفن سے لے کر ایصال ثواب تک ہر ہر قدم پر امام ومؤذن اپنی ذمہ داری نبھا تے ہیں ہما رادینی و اخلا قی فریضہ ہے کی ہم بھی ان کے سکھ دکھ میں قدم قدم پر ساتھ دیں ذرا نظریں اٹھا کر دیکھیں دنیا کے ہر شعبے میں لو گوں کی کیا تنخواہیں ہیں، یہاں تک مز دوروں کی مز دوری کتنی ہے ما ہانہ کتنی آ مد نی ہے لیکن افسو س صد افسوس آج امام وموذن مسجد کے خد مت گزاروں کی تنخو ا ہیں انتہا ئی کم ہیں،چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے( الا ما شا ء اللہ) ہر جگہ برا حال ہے۔ قوم یہ سمجھتی ہے امام و موذن کو قومِ موسیٰ کی طرح من وسلویٰ اتر تا ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے، انگر یزوں نے جان بو جھ کر امام مسجد کی تنخواہ،خاکروب کے برا بر مقر ر کرکے اسلام سے بیزا ری کاثبوت دیا تھا،انگریز تو چلے گئے لیکن اب ہم مسلمان ہو کر بھی اپنے امام ومؤذن کو ان کا حقیقی مقام دینے کو تیار نہیں۔ مسلما نوں کو اما موں ، مؤذنوں کو سر کاری TEACHERS کے برا بر تنخواہ دینا چا ہیے اور ریٹا ئر ہونے یا معذور ہونے پر معقول پینشن دینا چا ہیے تا کہ امام اور مؤذن جومسلم معا شرے کا با وقار (عہدہ)حصہ ہے اسے بھی معا شرے میں عزت اور وقار سے زندہ رہنے کا حق ہے اسے حاصل ہو نا چا ہئے، مسجد کے ذمہ داران و اہل محلہ اس طرف سنجید گی سے سو چیں اور عمل کریں ور نہ اللہ کے یہاں پکڑ ہو گی تیار رہیں اللہ ہم سب کو عمل کر نے کی تو فیق دے آمین ثم آمین۔
—–
Hafiz Mohammad Hashim Quadri Misbahi
Imam Masjid-e-Hajra Razvia
Islam Nagar, Kopali, P.O.Pardih, Mango
Jamshedpur, Jharkhand.
Pin-831020
Mob. : 09386379632