دل درد مند اور فکر ارجمند کی حامل شخصیت
مفتی محمدجمشید صاحب حقی قاسمی مد ظلہ العالی
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
07207326738 Mob:
بہارکی مٹی میں مردم سازی کی صفت ہے ، یہاں کی فضاء میں عشق و محبت اور الفت و پیار کی خوشبو ہے ، یہاں کی عطر بیز آب و ہوا، کردار و عمل کی بلندی اور فکر و نظر کی بالیدگی عطا کرتی ہے ۔اس سرزمین نے بڑے بڑے جنید و شبلی ، رومی و غزالی کو جنم دیا ہے جس نے پوری دنیا کو فیض پہنچایا ، علم و حکمت کے چراغ روشن کئے ، معرفت کے دئے جلائے ، سنت و شریعت کی قندیلیں فروزاں کیں ۔ خلوص و وفا اور سادگی و پاکبازی اسی مٹی میں آنکھیں کھولنے والے اور علم و معرفت کی نور سے ایک بڑے حلقے کو جلا بخشنے والے مرد حکیم و دانا کا نام ہے مفتی محمد جمشید حقی قاسمی ہے۔
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شرر تیشہ سے ہے خانہ فرہاد
علم و عمل کی پاکیزہ شخصیتیں جو اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں ، ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو چکی ہیں ، جن کی روشن زندگی کا آفتاب عالم تاب غروب ہو چکا ہے، ظاہر ہے کہ ان سے نفع اٹھانے اور ان کی صحبت سے اپنے آئینہ دل کو صاف کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں رہ جاتی ہے گو کہ ان کی تحریروں کو پڑھ کر اور ان کے فیض یافتہ کی صحبت اٹھاکر تبدیلی پیدا کرنے کا امکان ضرور ہے، لیکن کردار و عمل کے غازی ، گفتار کے رازی ،آفتاب کی روشنی اور ماہ تاب کی چاندنی سے براہ راست فائدہ اٹھانے کا موقع ملے تو اس سے بہترین سعادت اور کیا ہوگی، اس لئے فکر و نظر کے روشن مینار سے واقف کرانا وقت کا تقاضہ اور ملی و دینی جذبہ ہے تاکہ ان کی زندگی کا پر تو حاصل کرکے اپنی زندگی کو ان کے نقشے پر ڈھالا جاسکے مولانا علی میاں لکھتے ہیں
آپ اپنی زندگی کے لئے ایک شخصیت کا انتخاب کرلیں یہ حقیقت ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ کوئی بھی مخلص بندہ آپ کو کہیں مل جائے تو اس کو آپ اپنا رہنما مان کر اپنی زندگی کی نئی تعمیر شروع کریں ، اس میں آپ کو پورا ختیار ہے کہ جس کو چاہیں ، جہاں چاہیں ایشیا یا ایشیا سے باہر دنیا کے کسی گوشے میں آپ اس کودریافت کرلیں، بلکہ میں آگے بڑھ کر یہاں تک کہتا ہوں کہ زندوں میں آپ کو کوئی ایسا نظر نہ آئے تو ماضی کی شخصیتوں میں اس کو تلا ش کیجئے اور جہاں کہیں یہ بندۂ خدا آپ کو ملے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیجئے ، انسان میں یہ صفت بہت نمایاں طور پر ہے کہ وہ جس چیز کوچاہتا ہے اس کی نقل کرلیتا ہے آپ اس کی ہر چیز کی نقل اتارئیے ، اس کے بعد اس کے بعد آپ بڑے ہو سکتے ہیں ، آپ اس سے بھی آگے نکل سکتے ہیں اور ایسی جگہ پہنچ سکتے ہیں جہاں آپ کو اس تعلق کی ضرورت نہ ہوگی اگر چہ یہ بات بہت کم لوگو ں کو حاصل ہوتی ہے (پاجا سراغ زندگی ص: ۳۲)
درمیانہ قد ، قدرے گورا رنگ ، چوڑی پیشانی ، سر پر پانچ کلی ٹوپی ،ملنسار و مرنجا مرنج طبیعت اور دلِ دردمند و فکرِ ارجمند کی حامل شخصیت ہیں مفتی جمشید صاحب ، آپ ذہانت و فطانت ، شرافت و سنجیدگی کے پیکر مجسم ہیں ، علم و عمل اور تقوی و طہارت کے پاسبان ہیں ، آپ کی فکر و نظر میں رفعت و بلندی ہے ، سادگی و وضع داری ، تواضع و مسکنت ، عاجزی و انکساری ، مہمان نوازی و کرم گستری ، غرباء پروری و خدمت خلق کے ساتھ حسن اخلاق و حسن کردار جیسے صفات سے آپ متصف ہیں ،آپ اس زمانے میں پچھلی صدی کی یاد گار اور آئندہ نسل کے لئے آئینہ ہیں ، ایک ایسا آئینہ جس میں کردار و عمل کی زلفیں سنواری جاسکتی ہیں ،بے عملی و ناکامی کی گندی تصویر کو آپ کی صحبتِ فیض رسا سے بدلا جا سکتا ہے ، قلب و جگر میں لگ گئے زنگ اور بد نگاہی و معصیت سے جھریاں پڑ گئے چہرے کو آپ کی معیت کے غازہ سے خوبصورت و خوشنما بنا جا سکتا ہے ۔
آپ کی زندگی کا آفتاب صوبہ بہار کے شہر بھاگل پور کے مردم خیز علاقہ چمپانگر میں ۔۔۔میں ہوا ، ابتدائی تعلیم محلے کی معروف ادارہ اصلاح المسلمین میں حاصل کی ، یہاں آپ نے استاذِ وقت ،بزرگ اور رجال ساز عالم دین مولانا نیاز الدین قاسمی ؒ سے تعلیم حاصل کی ، مولانا نیاز الدین صاحبؒ ،حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کے خوان علم کے خوشہ چینوں میں سے تھے ، آپ علاقے میں اپنا خاص اثر رکھتے تھے ، عوام میں مقبول اور خواص میں محبوب تھے ، پوری زندگی خدمت خلق و خدمت دین میں گزاری ، کتنے ہوں گے جنہوں نے آپ کے فیض تربیت سے اپنی زندگی کے دھارے کو بدلا ، ایک عہد نے آپ سے علم کی تشنگی بجھائی اور ایک جم غفیر نے اپنے قلب و جگر کو زندگی بخشی اللہ تعالی موصوف کو جزائے خیر عطافرمائے ۔
متوسطات کی تعلیم مشرقی یوپی کے مشہور ادارہ مدرسہ ریاض العلوم میں حاصل کی ، اور فراغت کے بعد افتا بھی اسی مدرسہ میں کیا ، یہاں آپ کے اساتذہ میں فقہ و فتاوی کے درِّنایاب مفتی محمد حنیف صاحب جونپوری ؒ ،اخلاص و تقوی کے تاج محل مفتی عبد اللہ صاحب بستوی حامل قرآن و سنت ، ماحی شرک وبدعت مفتی محمد ارشاد صاحب بھاگل پوریؒ تھے ، جو سب کے سب آفتاب و ماہ تاب تھے ، تعلیم کی تکمیل اس الہامی ادارے سے کی جہاں سے درس نظامی کی نشاۃ ثانیہ ہوئی ہے ، جو اس وقت علوم شریعت کا سب سے بڑ ا مرکز ہے ، اور اپنی تعلیم اور مسلمانوں کی رہبری میں سب سے نمائندہ ادارہ ہے، جس کی ایک خاص شان اور پہچان ہے یعنی ام المدارس دارالعلوم دیوبند ، جہاں کے خوشہ چینوں نے چہار دانگ عالم میں دینی علوم کی شمع جلا رکھی ہے ، یہاں آپ کے اساتذہ میں علم حدیث کے اخترِ تاباں شیخ نصیر خاں صاحب اور بخاری کے در آب دارشیخ عبد الحق اعظمی ؒ وغیرہ ہیں ۔
درس و تدریس :
فراغت کے بعد آپ نے جامعہ شرعیہ فیض العلوم اعظم گڈھ سے تدریس کا آغاز کیا ، اور اپنے اساتذہ کو جس راہ پر چلتے دیکھا تھا اور ان کے خوانِ کرم سے جوحاصل کیا تھا، تشنگان علوم نبوت میں وہی تقسیم کرنا شروع کردیا، قدوری کافیہ نحو و صرف کی کتابوں سے فیضان کا آغاز ہوا ، لیکن ایک سال دو ماہ کے بعد یہ سلسلہ موقوف ہوگیا اور آپ اپنے استاذ مفتی حنیف صاحبؒ کے ساتھ عروس البلاد ممبئی تشریف لے آئے ۔ یہاں ذہن میں ایک سوال آنا چاہئے کہ جس نے اپنے عزم و ارادے سے تدریسی زندگی میں قدم رکھا تھاآخر کون سی رکاوٹ پیدا ہوئی جس نے ان کے استقلال کا امتحان لیا اور ان کے عزم کو چیلینچ کیا ہم نے اس کی تہ تک جانے کی کوشش نہیں کی ہے ،لیکن حالات بتاتے ہیں کہ انہوں سے معاشی زندگی سے مجبور ہو کر ایسا قدم اٹھایا ہوگا، میں نے بہت سے ذی علم اور بلند فکر و نظر کے حامل لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ مدرسہ کو اس لئے خیر آباد کہ دیتے ہیں کہ ان کی معاشی زندگی ان کو اس پر مجبور کرتی ہے ، آج ارباب مدارس یہ شکوہ کناں نظر آتے ہیں کہ قابل اور با صلاحیت لوگ نہیں ملتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ذمہ دار خود ارباب مدارس ہیں کہ وہ قابل اور کام کے لوگوں کو قبول نہیں کرپاتے ہیں، ان کی ضرورتوں کا خیال نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے بڑے قابل، علم و فن کے گوہر اور فکر ونظر کے جوہر ہاتھ سے نکل جاتے ہیں ۔مفتی صاحب بے پناہ صلاحیت کے مالک ہیں ان کے بارے میں ان کے استاذ مفتی ارشاد کی رائے تھی کہ اگر وہ تدریس سے جڑے ہوتے تو ابھی شیخ الحدیث ہوتے ، گو کہ ممبئی آنے کے بعد ان کا تعلیمی ، تدریسی و اصلاحی سلسلہ موقوف نہیں ہوا بلکہ مزید وسیع ہوا تا ہم یہ ارباب مدارس کے لئے لمحۂ فکریہ ہے اس پر سنجید گی سے غور ہونا چاہئے ۔
عروس البلاد ممبئی میں:
۱۹۹۱ ء میں آپ ممبئی تشریف لائے ، یہاں آپ نے امامت کے ذریعہ اپنی مصروفیت کا آغاز کیا ، چھ سال تک مسجد میں رہے ، امامت کی ، اصلاح امت کا فرض اد ا کیا ، لوگوں کے دلوں کو ایمان و عمل سے مجلی کیا ، وہ لوگ جو دنیا کو سب کچھ سمجھ کر زندگی گزار رہے تھے، انہیں آخرت کی یاد دلائی ، خطابت کے سوز دروں سے لوگوں میں عشق و محبت اور فکرِ آخرت کی آگ لگائی ، نتیجہ یہ ہوا کہ مقبولیت و محبوبیت آپ کا مقدر بن گئی ، جب انسان اپنے آپ کو اپنی قوم و سماج کے لئے تپاتا ہے ، اپنے کو گھلاتا ہے، تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لوگ اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنا اپنے لئے فخر تصور کرتے ہیں آپ کی ساتھ ایسا ہی ہوا ،جب آپ نے امامت سے استعفی دیا تو عقیدت مندوں نے آپ کو ضائع ہونے نہیں دیا اور اللہ تعالی نے آپ کے لئے کام کے میدان کو اور وسیع کردیا ۔
۹۹۸ ۱ ء میں آپ نے نیو ممیئی کے علاقہ واشی میں جہاں علم نبوت کے چراغوں میں بڑی مدھم روشنی تھی ، اس کی لو میں گرمی باقی نہیں تھی ، اور بے دینی کی تیز و تند ہوا سے باقی ماندہ روشنی پر عدم کا خطرہ منڈلا رہا تھا، وہا ں آپ نے دارالعلوم حقانی کی شکل میں ایک شمع جلائی جس کی روشنی قریب و بعید ہر جگہ پھیل رہی ہی ہے ،اس طرح بہار کی سرزمین سے نمودار ہونے والا یہ مہ و انجم اپنی چاندنی و تابانی سے ممبئی کی علاقے کو روشنی بخش رہا ہے ،یہ ادارہ وہاں کے باشندوں کے فکر و نظر کے زاوئیے تبدیل کرنے میں سنگ میل ثابت ہو ا ہے ، اس کے ذریعہ لوگوں نے قرآن کی روشنی سے اپنے گھروں کو آباد کیا ہے ۔
کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں ایک چراغ جلادیا
آپ اخلاق کے بلند اور کردار کے غازی ہیں ، آپ کی طبیعت میں سادگی ہے ، شہرت و ناموری اور نمود و ریاکاری سے کوسوں دور ہیں آج ہم ریڈیائی دور سے نکل کر میڈیائی دور میں داخل ہو چکے ہیں ، جہاں کاموں کو شہرت دینا ، ناقص کو کامل بتا کر پیش کرنا ، ادھورے کاموں پر کامیابی کا ٹھپہ لگانا، متعدی مرض کی طرح پھیل رہا ہے ، لیکن مفتی صاحب کی زندگی اس سے خالی نظر آتی ہے ، عزت کی طلب کرنا ایک فطری امر ہے، لیکن اس کے لئے غیر ضروری وسائل کااستعمال کرنا طالبِ دنیا کا کام ہے ، آپ ممبئی میں اقامت پذیر ہیں ، اللہ تعالی نے ہر طرح کی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے ، آپ چاہتے تو وسائل استعمال کرکے شہرت و ناموری کی بلندی کو حاصل کرسکتے تھے ، لیکن اللہ کی نیک ، خدا ترس اور فکر آخرت سے معمور بندے تواضع و انکساری کی صفت کو اپنا زیور بناتے ہیں ، اور اللہ تعالی ان کو گم نامی میں بھی عزت کی عظیم بلندیوں پر فائز کردیتا ہے ۔
خطابت کی جولانی:
اللہ تعالی نے زبان و بیان کی خوبیوں سے بھی نوازا ہے ، آپ ایک کامیاب ،شیریں بیاں خطیب ہیں ، آپ کا خطاب عوامی سطح پر بہت مقبول ہے ، آپ خطابت کے تمام عناصرسے اچھی طرح واقف ہیں، زمانہ طالب علمی سے ہی آپ میں خطابت کا ملکہ پیدا ہوگیا تھا ، دارالعلوم دیوبندکی دارالحدیث میںآپ تقریر کیا کرتے تھے اور طلبہ میںآپ کی تقریر بہت مقبول تھی ، آپ کا تقریر ی مجموعہ’’ زمزۂ انقلاب‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ، جو آپ نے دارالحدیث میں کی تھی ، ممبئی میں جہاں آپ نے ضرورت محسوس کی اور جہاں آپ کو مدعو کیا گیا آپ نے اپنی خطابت کی گرمی سے لوگوں کو گرمایااور لو گوں میں سنت و شریعت پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا کیا ۔آپ بھاگل پور چمپا نگر عید گاہ کے امام و خطیب ہیں ، ممبئی کے علاقہ گوونڈی کی جامع مسجد میں ہر جمعہ بیان کرتے ہیں ، اس کے علاوہ ممبئی کے مختلف علاقوں میں آپ کا خطاب ہوتا ہے، جس میں مسجد تقوی بھیکلہ اور مسجد نور محمدی ہل روڈ باندرہ شامل ہے ، آپ کی خطابت کی نرالی شان ہے ، آواز کی چاشنی ، انداز و لب و لہجہ کا اتار و چڑہاؤ ، واقعات سے استنباط اور ان سب پر مستزاد آپ کا سوز دروں جس نے آپ کی خطابت میں جان پیدا کردی ہے ،خلوص و تقوی اور امت کی غم خواری سامعین کے دل پر مزید اثر پیدا کرتی ہے ، بقول کلیم عاجز
یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
قرطاس و قلم کا سفر:
آپ زبان و بیان کے ساتھ ساتھ قرطاس و قلم کے بھی عظیم شہسوار ہیں ،آپ کی کئی کتابیں منظر عام پر آ کر داد تحسین وصول کر چکی ہیں ، آپ کی کتابوں میں موضوعیت کا خاص خیال ہوتاہے ، چھوٹے چھوٹے موضوع پر بھی ‘آپ نے جامع کتاب لکھی ہے ، آپ کی صلاحیت کی پختگی کا اندازہ اس بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے طالب علمی کے زمانہ میں ہی قرطاس و قلم کواپنا ساتھی بنا لیا تھا، اسی زمانہ سے آپ کی کتابیں منظر عام پر آ رہی ہیںآپ کی تحریری نگارشات میں (۱) سن ہجری تاریخ کی روشنی میں (۲) زمزمۂ انقلاب (۳) شرعی داڑھی (۴) قنوت نازلہ (۵)حقیقت دعا (۶) پیشاب سے بے احتیاطی اور عذاب قبر (۷) انمول تحفہ (۸)شرح نخبۃ الفکر (غیر مطبوعہ ) (۹)میزان الاثر (غیر مطبوعہ ) (۱۰)سفینۂ حیات (غیر مطبوعہ ) شامل ہیں پہلی کتاب آپ نے دورۂ حدیث کے سال اور دوسری کتاب افتاء کے سال میں تحریر کی ہے۔
خدمات:
آپ مختلف دینی ، ملی ، او رسماجی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں ، اور ہر جگہ نیک نام ہیں ، کامیاب ہیں اور کامیابی کی منزلیں طے کر رہے ہیں، آپ اپنے ادارے میں مفتی کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں، ایک زمانہ تک آپ کے فتاوی اردو ٹائمز ممبئی میں آپ کے مسائل اور ان کا حل کے عنوان سے شائع ہوتا تھا ، آپ دارالعلوم حقانی کے بانی و مہتمم ہیں ، جمعیۃ علماء نوی ممبئی کے صدر عالی قدر ہیں اور اس کے علاوہ ادارہ فیض السنہ رائے گڈہ کے صدر اور مختلف دینی وملی اداروں سے وابستہ ہیں ۔
تصوف و سلوک:
علماء کے لئے اصلاح نفس اور تربیت سلوک ایک لازمی امر ہے اور حضرات اکابر کے عام معمولات میں داخل ہے، مفتی صاحب فراغت کے بعد ہی اصلاح باطن کی طرف متوجہ ہوگئے تھے، سب سے پہلے آپ مولانا مسیح اللہ خان صاحب الہ آبادی کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے ، اس کے بعد حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب جون پوری ؒ سے بیعت ہوئے ان کے انتقال کے بعد محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ؒ سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا اور اخیر میں حضرت مولانا حکیم مسعود صاحب گنگوہی المعروف بہ حکیم اجمیری نے آپ کو سالکین کی تربیت کااہل پا کر خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا ۔
قرطاس و قلم کا مسافر ، زبان و بیان اور وعظ و خطابت کادرّ شہوار اور تصوف و سلوک کا یہ مرد کامل الحمد للہ آج ہمارے درمیان ہے ہماری ہے دعا ہے
سدا جاری رہے فیضان تیری علم و حکمت کا