فلم ” پدماوت ، تاریخ، فسانہ
یا ناسٹلجیائی سامراج کی گمشدہ اذیّت کی افسانوی بازیافت
احمد سہیل
میں نے ہمت کرکے بنسالی کی متنازعہ فلم دیکھی۔
میں نے بچپن میں اپنی نانی اور والدہ سے ” چتوڑ کی رانی” { میکا وتی} کے کئی قصے کہانیاں سنی ہیں۔ جب میں نے سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ” میکا وتی دیکھی تو یہ فیصلہ کرنا میرے لیے مشکل ہوگیا کہ اپنے بزرگوں کی تاریخی آگہی یا ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کے فلمی وژن میں سے کس کو تسلیم کروں –
پدماوتی 2017 میں بھارت میں آنے والی تاریخی رزمیہ فلم ہے۔ یہ فلم پدماوتی پر بنائی گئی ہے۔اسے بھارت کے معروف ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی بنا رہے ہیں۔اس فلم کے مرکزی کرداروں میں شاہد کپور، دیپیکا پڈوکون اور رنوریر سنگھ شامل ہیں۔ اب تک وہ ’باجی راؤ مستانی‘ جیسی شاندار فلم بھی بنا چکےہیں جبکہ ’خاموشی‘، ’گزارش‘، ’بلیک‘، ’ہم دل دے چکے صنم‘، ’دیو داس‘ اور ’رام لیلا‘ جیسی عمدہ فلمیں بھی اِن کے کھاتے میں سنہری حروف میں درج ہیں۔
پدماوت کی کہانی کی کلی تردید اور کلی تائید کے ساتھ ساتھ بہت سے محققین نے اس کہانی سے جزو طور پر بھی اتفاق کیا ہے۔ محمد احتشام الدین دہلوی کا خیال ہے کہ اس کہانی میں بیان کردہ واقعات کو سچ تسلیم کر لیا جائے تو کچھ تاریخی وجوہ کی بنا پر اس واقعے کو سلطان غیاث الدین خلجی سے مانا جا سکتا ہے جو علا الدین خلجی کے دو سو برس بعد مالوہ کا تاجدار ہو گزرا ہے۔ اس کی حدود سلطنت چتوڑ سے باہم ملی ہوئی تھیں اور ان میں باہم لڑائیاں بڑے تواتر کے ساتھ تاریخ میں ملتی ہیں۔ رانی پدماوتی کی خیالی کہانی سب سے پہلے مغل بادشاہ بابر کے زمانے کے صوفی شاعر ملک محمد متوفی ۱۵۴۲ عیسوی نے چتوڑ قلعے کے محاصرے کے کوئی ۲۳۷ سال کے بعد اپنی نظم میں تحریر فرمائی۔ گویا ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں کی طرز پر صوفی ملک محمد صاحب نے ایک دیومالائی کہانی تصنیف کی جس میں بیان کیا کہ علاء الدین خلجی کو رانی پدماوتی کے حسن کی بابت راجہ رتن سین کا مہا پنڈت راگھو چیتن بتاتا ہے جس کو راجہ رتن سین اس جرم میں ملک بدر کردیتا ہے کہ وہ رانی پدماوتی اور راجہ رتن سین کو خلوت میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ راجہ رتن سین سے انتقام لینے کی غرض سے مہا پنڈت علاء الدین خلجی کو رانی پدماوتی کے حسن کی تفصیلات بتا کر میواڑ پر چڑھائی کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ رانی کے حسن کی تفصیل سے متاثر ہوکر علاء الدین خلجی دہلی سے میواڑ چڑھائی کرنے پہنچ جاتا ہے لیکن راجہ رتن سین کی موت اور قلعہ فتح کرنے کے باوجود وہ رانی پدماوتی کو حاصل نہیں کرپاتا کیونکہ قلعہ فتح ہونے سے قبل ہی راجہ رتن سین کی موت کا سن کر رانی پدماوتی اپنے محل کی سینکڑوں داسیوں کو لیکر آگ میں کود جاتی ہے تاکہ علاء الدین خلجی اور اس کے سپاہیوں کے "ناپاک” وجود سے خود کو بچا سکیں۔ آگ میں کُودنے کی اس رسم کو "جوہر” کہا جاتا ہے اور اس رسم کو ادا کرنے کی وجہ سے رانی پدماوتی کو ہندوؤں کی لوک کہانیوں میں دیوی مانا جاتا ہے۔ سلطان علاؤ الدین خلجی کا عہد حکومت ۵۹۲۱ء تا ۶۱۳۱ء ہے، اس کے ٹھیک دو سو چھبیس سال بعد ۰۴۵۱ء میں مشہور شاعر ملک محمد جائسی نے ایک رزمیہ داستان لکھی، جس میں راجپوت راجا رتن سین اور رانی پدمنی (پدماوتی) کی محبت کا قصہ بڑے چٹخارے لے لے کر بیان کیا گیاہے، شاعر نے اپنے رزمیہ کو پُر اثر بنانے کے لئے سلطان علاؤ الدین خلجی کو بھی اس میں شامل کرلیا، اور یہ دکھلایا کہ رانی پدمنی اتنی خوب صورت اور حسین و جمیل خاتون تھیں کہ ہندو راجوں مہاراجوں کے ساتھ ساتھ مسلم سلاطین بھی اس کے حسن پر فریفتہ تھے، خلجی نے محض اسے حاصل کرنے کے لئے چتور گڑھ کے قلعے پر حملہ کیا، مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ پورا قصہ محض فرضی ہے اس زمانے میں کوئی رانی اس نام سے چتور گڑھ میں موجود ہی نہیں تھی، گویا ان واقعات کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے، اس کے باوجود راجپوت گھرانوں میں ان واقعات کو تقدس کا درجہ حاصل ہے، مضحکہ خیز صورت حال یہ ہے کہ ایک صاحب نے دعوی کیا ہے کہ وہ رانی پدماوتی کی سینتسویں پشت میں سے ہیں۔
ملک محمد جائسی نے اپنے رزمیئے میں بتلایا ہے کہ علاؤ الدین خلجی اپنے ایک برہمن درباری کی زبانی رانی پدماوتی کے حسن وجمال کا حال سن کر اسے حاصل کرنے کے لئے بے قرار وبے تاب ہوجاتا ہے، اور چتور گڑھ کے قلعے کا محاصرہ کرلیتا ہے، مگر آٹھ برس تک بھی قلعہ فتح نہیں ہوتا، چتور گڑھ کے باشندے محاصرے کی تاب نہ لاکر سلطان سے صلح کرلیتے ہیں، انہیں قلعے میں آنے کی دعوت دی جاتی ہے، شراب وکباب کی محفلیں سجتی ہیں، سلطان راجہ رتن سین کے اخلاق اور مہمان نوازی سے بہت متأثر ہوتا ہے، ابتدا میں وہ رانی پدماوتی کو بہن کہتا ہے لیکن اس کے حسن کی ایک جھلک پاکر پھر بے تاب ہوجاتا ہے، قلعے سے واپس آکر وہ راجہ کو اپنے خیمے میں بلاتا ہے اور اسے گرفتار کرلیتا ہے، ادھر رانی اپنے راجہ کے فراق میں ماہیِ بے آب کی طرح تڑپتی ہے اس کے دماغ میں راجہ کو خلجی کی قید سے چھڑانے کے لئے یہ ترکیب آتی ہے کہ وہ خود کو سلطان کے سامنے پیش کردے، سلطان رانی کی پیش کش کو سن کر خوشی سے نہال ہوجاتا ہے، رانی نہایت کروفر کے ساتھ خلجی کے محل میں پہنچتی ہے اور اپنے ساتھ آنے والوں کی مدد سے راجہ کو خلجی کی قید سے چھڑا لیتی ہے، خلجی اس ناکامی سے طیش میں آکر چتور گڑھ پر فیصلہ کن حملہ کرتا ہے، اور قلعہ فتح کرلیتا ہے رانی پدماوتی خلجی کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بہتر یہ سمجھتی ہے کہ قلعے کی دیگر خواتین کے ساتھ مل کر آگ کے الاؤ میں کود جائے اور خود کو ختم کرلے۔ یقینا یہ فلم شاعر کی شاعرانہ داستان پر بنی ہوگی، ابھی ریلیز نہیں ہوئی، ہوسکتا ہے فلم ساز نے بھی کچھ مرچ مصالحہ لگایا ہو، اگر فلم کی کہانی یہی ہے تو اس میں ہنگامہ برپا کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے، بدنامی کے سارے تیر تو خلجی کی طرف چلے ہیں، وہ عشق کا رسیا ہے، ایک غیر عورت کو حاصل کرنے کے لئے ایک قلعے پر حملہ کرتا ہے، آٹھ سال تک قلعے کا محاصرہ کرتا ہے، اس کے شوہر کو گرفتار کرلیتا ہے، وہ عورت حسن تدبیر سے کام لے کر اپنے شوہر کو سلطان کے قید سے آزاد کرالتی ہے، آخر میں خلیجی کی خواب گاہ کی زینت بننے کے بجائے خود کو آگ کے حوالے کردیتی ہے، بتلایئے اس کہانی میں کس کی عزت پر حملے کئے گئے ہیں، کسے بدنام اور رسوا کیا گیا ہے، رانی کے کردار کو تو بے داغ دکھلایا گیا ہے، اس کے باوجود ملک میں ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔فلم ساز کو اس کی پرواہ نہیں کہ اس کی کہانی سے ہندوستان کے ایک عدل پرور، منصف مزاج، عالی ظرف، وسیع نظر بادشاہ کی عزت خاک میں مل رہی ہے، اس دور کی سب سے معتبر تاریخ ”تاریخ فیروز شاہی“ میں ضیاء الدین برنی نے اس واقعے کا ذکر ہی نہیں کیا، حالاں کہ وہ انتہائی متعصب اور تنگ نظر مؤرخ تھا، اس نے علاؤ الدین خلجی کے سلسلے میں ایسے ایسے واقعات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لکھے ہیں جن سے اس پر کوئی الزام عائد ہوتا ہو مگر اس واقعے کا کوئی ذکر اس کی تاریخ میں نہیں ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس واقعے کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے، یہ محض افسانہ ہے جسے اس کی موت کے دو سو ڈھائی سو برس بعد تراشا گیا ہے۔جائسی کی کہانی کا راوی تو ہیرامن طوطا ہے جو رانی پدماوتی کے لئے شوہر تلاش کرتا ہے اور کئی موقع پر اپنی جان بچاکر اس کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔عام فہم اودھی اور ہندی میں دوہا اور چوپائی کی صورت میں لکھی گئی پدماوت کو اس کی بہت سی خوبیوں کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔رہی بات دلی کے سلطان علاءالدین خلجی کی تو وہ پدماوتی کے حسن کی کہانی سنکر اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے اور جنگ میں ناکام ہونے کے بعد اپنی چالاکی کی وجہ سے ایک دن رتن سین کی دعوت پر اس کے محل میں جاتا ہے اور آئینے میں پدماوتی کے حسن کا دیدار کر لیتا ہے۔ پھر رتن سین کو دھوکے سے قید کرکے دلّی لے آتا ہے۔ بعد میں پدماوتی، رتن سین کو اس کی قید سے آزاد کرا لیتی ہے۔ اس کے بعد جنگ ہوتی ہے۔ پھر وہ اور ناگمتی اپنے شوہر رتن سین کے ساتھ ستی ہو جاتی ہیں۔ اس کہانی میں ایسی ایسی حیران کر دینے والی عبارتیں ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے ہم جائسی کے ساتھ کسی اوڈیسی پر نکلے ہیں۔ اس فلم میں خلجی اور ان کے غلاموں کے انچارج جنرل ملک کافور کے درمیان ’تعلقات‘ کو بھی دکھا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ فلم میں رنویر سنگھ ہم جنس پرست کا کردار بھی نبھا رہے ہیں۔ملک کافور کون تھے، خلجی کا ان کے ساتھ کیا تعلق تھا، کیوں کہ اس کی کہانی بہت دلچسپ ہے، تو اس کے بارے میں جاننے کے لیے، تاریخ کے صفحات کو پلٹنا ہوگا۔
کافور دراصل دلی کے سلطان علاؤ الدین خلجی کے غلاموں کے فوجی کمانڈر تھے ۔
تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ خلجی کے جنرل نصرت خان نے گجرات پر چڑھائی کے دوران ملک کافور کو پکڑ کر غلام بنا لیا تھا اس کے بعد وہ ترقی کرتے گئے۔ہندوستان میں آر ونیتا اور ایس قدوائی کی کتاب ‘بھارت میں ہم جنس پرستی’ میں کہا گیا ہے کہ ملک کافور نے علاؤالدین خلجی کی فوج میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور انہیں ’ہزار دیناری‘ کہا جانے لگا۔ تاریخ دان مکھیا کا کہنا ہے کہ ‘غلاموں کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا مرد ہونا ہوا کرتی تھی کہ وہ کتنے بہادر سپاہی اور کتنے وفادار ہیں۔ کافور میں یہ دونوں خصوصیات تھیں۔کافور بہت اہم ہو گئے تھے کیونکہ انہوں نے ہی خلجی کے لیے کئی جنگیں لڑیں اور جیتیں۔ ہربنس مکھیا کا کہنا ہے کہ وہ ہم جنس پرست نہیں تھے۔انہوں نے کہا کہ ‘نہ تو کافور ہم جنس پرست تھے اور نہ ہی خلجی سے ان کا جسمانی تعلق تھا‘۔ مَلِک کافوُر ( وفات 1316ء ) , اسکا اصل نام صابور بھائی ولد جیرا بھائی تھا, جو سولانسکی خاندان کا ایک زمیندار راجپوت تھا, کافور غلام تھا جس نے اسلام قبول کیا اور سلطنت دہلی کے سلطان علاؤالدین خلجی کی فوج کا 1296 – 1316ء تک سپہ سالار رہا. کافور کو دراصل علاؤالدین کی فوج نے کھمبھت شہر پر قبضہ کے بعد چھین لیا تھا. کافور کو خسی (آختہ) کر کے اسے مخنث (خواجہ سرا) بنا دیا گیا. "فرہنگِ آصفیہ” کے مرتب مولوی سید احمد دہلوی گو کہ کافور کی بہادری اور دلیری کے قائل ہیں, لیکن وہ خواجہ سرائی کے پس منظر میں ملک کافور کا زکر کیا ہے۔اُن کے 721 سال بعد یہ فلم ’پدماوتی‘ بن رہی ہے، جبکہ ملک محمد جائسی کی نظم 1540ء میں لکھی گئی، جب ہندوستان کا حکمران شیر شاہ سوری تھا۔ علاؤالدین خلجی نے جب چتوڑ فتح کیا تو اُن کے ہمراہ معروف موسیقار، شاعر اور عالم امیر خسرو بھی تھے۔ اُس وقت کے مورخین میں، امیر خسرو سمیت کسی کی لکھی ہوئی تاریخ میں اِس قصے کا کوئی تذکرہ تو دور کی بات جھلک تک نہیں ملتی۔
اِیک طویل عرصے بعد تاریخ فیروز شاہی لکھی گئی، جس میں سلطان علاؤالدین خلجی کی کمزوریوں اور خرابیوں کو بھی بیان کیا گیا، مگر اُس تاریخ میں بھی پدماوتی کے ساتھ کسی تعلق کا تذکرہ نہیں ملتا، لہٰذا اِس تناظر میں سب سے زیادہ ناانصافی کسی کے ساتھ ہوئی ہے تو وہ ہندوستانی راجپوت یا سنجے لیلا بھنسالی نہیں، نہ ہی مہارانی پدماوتی اور دپیکا پڈوکون ہے، بلکہ وہ تاریخ کا معروف حکمران علاؤالدین خلجی ہے، جس کے کردار کو پہلے ایک نظم میں مسخ کیا گیا، اور اُسی مسخ شدہ تصور کی توسیع زیرِ نظر فلم پدماوتی میں کی گئی۔ کھمان راسا کی لوک روایت میں علا الدین خلجی کے ہم عصر چتوڑ کے راجا کا نام رتن سین نہیں، بلکہ "لکہم سی” اور اس کے چچا کا نام "بھیم سی” آیا ہے۔ اس کہانی میں دلچسپی کے سارے عناصر جیسے لگن، شوق، جذبہ، تجسس، تحیر، شجاعت، وفاداری، حسد، دھوکہ، ایڈونچر، سب موجود ہیں۔ تاہم ان کرداروں کی شناخت میں خود کو شامل سمجھنے والی قوم کے لئے غالباٌ سب سے اہم شجاعت اور غیرت کا مظاہرہ ہے جس کی سب سے بڑی علامت پدماوتی کا خود کو دیگر ہزاروں عورتوں کے ساتھ ستی کرلینا یعنی جل کر مرجانا ہے۔ بھارت میں راجپوتوں کی ایک ملک گیر تنظیم کے صدرٹھاکر ابھیشک سوم کا بیان اس کی تصدیق کرتا ہے: ’جو بھی سنجے لیلا بھنسالی اور دیپیکا پاڈوکون کا سر لائے گا اسے پانچ کروڑ روپے کا انعام دیا جائے گا۔ رانی ماں پدماوتی نے بارہ ہزار عورتوں کے ساتھ اپنی جان کی قربانی (جوہر) پیش کی تھی۔ بھنسالی نے اپنی فلم میں اسے بری روشنی میں دکھا کر اس کی شجاعت پر سوال اٹھایا ہے‘۔
اس فلم میں سنی خیز بہت ہے اور اسی سنسنی خیر واقعات کو فلمی پردے پر بڑی مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔ اس فلم میں خلجی کی شخصیت کو نہایت غلیظ، کرہیہ، ٹھرکی اور دل پھیک دکھا یا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے محمد شاہ رنگیلا ور خلجی میں بہت مشاہبت تھی۔ ۔ فلم ” پدماوت” کو اچھی فلمی فنکاریت کے ساتھ بنایا گیا۔ جس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ اس فلم میں بہتریں شاعرانہ مکالمات، بہتریں سیٹ ، اور بہتریں پوشاکیں اس فلم کو حقیقت سے قریب کردیتی ہیں۔ فلم میں ” منجنیقوں” کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اور بڑی مہارت سے ان منجنیقوں کو استعمال کرتے ہوئے بھی دکھایا کیا ہے۔ اس فلم پر جتنی بھی تنقید کی جائے یا اسے مسترد کیا جائے مگر یہ ایک اچھی تفریحی فلم ہیں۔ جس سے عام لاگ محصوظ ہوں گے۔ اردو میں ” پدماوت” کے قصے کو سمجھنے کے لیے ان نسخوں کا مطالعہ کرنا چاہیے:
مرزا عنایت علی بیگ لکھنوی، پدماوت بھاکا مترجم۔ مطبوعہ 1898ء کانپور۔
احمد علی رسا، پدماوت بھاکا مترجم۔ 1899ء کانپور
سالک رام، پدماوت یعنی ایک سچی داستان۔ لاہور 1898ء
پنڈت بھگوتی پرشاد پانڈے انوج، پدماوت بھاکا۔ لکھنؤ
میر عبدالجلیل بلگرامی۔
نوشیروان جی مہربان جی آرام۔ منظوم اردو ڈراما، بمبئی
محمد اکبر علی خاں افسوں شاہجہانپوری، محبت کی پتلی یعنی رانی پدماوتی۔ ابوالعلائی پریس آگرہ۔
بہاری لال بیدل، مثنوی پدم سماخ اردو۔ 1885ء بجنور
پنڈت سروپ چند دسوڑ کھیڑی، طابع شمبھو دیال دینا ناتھ، دریبہ کلاں دہلی، اواخر 1800ء
سی ایچ حکم چند، ہیرامن طوطا پدماوت ناز۔ مطبوعہ دہلی۔
{احمد سہیل}