جمہوری انتخابات کی حقیقت ۔ ایک جائزہ
مفتی کلیم رحمانی
پوسد (مہاراشٹر)
09850331536
کسی بھی نظام حکومت کے چلانے اور بدلنے میں ایک پڑھے لکھے شخص کی رائے میں اور ایک بے پڑھے لکھے کی رائے میں اسی طرح ایک مومن اور ایک کافر ،اور اچھے اور بُرے شخص کی رائے میں زمین و آسمان کافرق ہوتا ہے ،اور دونوں کی رائے کو برابر کا درجہ دیدینا سب سے بڑی نا انصافی ہے،یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی موجودہ جمہوری طریقے سے حکومت کا نظام چل رہا ہے وہاں ہر جگہ نا انصافی پھیلی ہوئی ہے ،اور خاص طور سے یہ جمہوری طریقے سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصا ن پہنچایا جارہا ہے ۔
دینِ اسلام حکومت کے چلانے اور بدلنے کے سلسلہ میں انصاف کو ملحوظ رکھتا ہے اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ چونکہ اس پوری کائنات کا اصل خالق و مالک اور حاکم اللہ ہے اسی لئے نظامِ حکومت کے تمام معاملات میں اللہ کا حکم سب سے مقدّم رہے گا ،اور حضرت محمد ﷺ چونکہ آخری رسول ہیں اس لئے اللہ کے حکم کے بعد حکومت کے تمام معاملات میں حضرت محمد ﷺ کا حکم مقدم رہے گا ،مطلب یہ کہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے حکم کے خلاف حکومت کا کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا اور جہاں تک اسلامی خلیفہ کے انتخاب کی بات ہے تو اس سلسلہ میں تحریک اسلامی کے ذمہ دار ایمان ،علم ،عمل اور تقوے کی بنیاد پراپنے میں سے انتخاب کریں گے، اور اسلامی حکومت کے کسی بھی شعبہ میں رائے کی قدر و قیمت صرف انسان ہونے کی بنیاد پرمتعین نہیں ہوگی ، بلکہ ایمان ،علم ، عمل ،قابلیت اور تقوے کی بنیاد پر متعین ہوگی۔ کیونکہ انسانوں میں بہت سے انسان جنگل کے درندوں سے بھی زیادہ خوں خوار ہوتے ہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ایسے ہی انسانوں کے متعلق فرمایا ،اِنَّ شَرَّ الدَّوْآبِّ عِنْدَللہِ الصُّمُّ البُکْمُ الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِقِلُوْنَ (سورہ انفال آیت ۲۲) ترجمہ:بیشک اللہ کے نزدیک سب سے بُرے چوپائے وہ لوگ ہیں جو بہرے گونگے ہیں جو سمجھتے نہیں ۔ مطلب یہ کہ جو لوگ صحیح بات کو سنتے، سمجھتے اور بولتے نہیں وہ زمین پہ چلنے والے جانوروں میں سب سے بُرے جانور ہیں ،ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو جانوروں سے بدترین قرار دیا اور جن لوگوں کو اپنا محبوب قرار دیا ،کیا نظامِ حکومت کے چلانے اور بدلنے کے سلسلہ میں دونوں گروہ کی رائے کو
ایک ہی قدر و قیمت میں رکھا جا سکتا ہے؟جبکہ نظام حکومت کے شعبہ کو امانت سے تعبیر کیا گیاہے چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ’اِذَا وُسِّدَ ا الْاَمْرُ اِلیٰ غَیْرِ اَھْلِھِ فاَنْتَظِرِ السّا عَۃَ۔(بخاری) مشکوٰۃ۔یعنی جب حکومت نااہلوں کے سپرد کردی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو ۔ مطلب یہ کہ جب کے حکومت کے معاملات نا اہلوں کے ہاتھ میں ہونگے تو تباہی و بربادی ہی آئے گی ،یہی وجہ ہے کی آج دنیا کی حکومتوں پر جمہوری طریقے سے زیادہ تر نا اہل حکمراں ہی بیٹھے ہوئے ہیں تو پوری دنیا تباہی و بربادی سے دوچار ہے،اور جب تک دنیا کی سیاست و حکومت سے موجودہ جمہوری طریقہ ختم نہیں ہوتا اور اس کی جگہ اسلامی سیاست و حکومت کا طریقہ رائج نہیں ہو تا تب تک دنیا تباہی و بربا د ی سے دو چار رہے گی ۔سیاست و حکومت کے متعلق موجودہ جمہوری طریقہ کی ناکامی و ناانصافی کو یوں تو نظامِ زندگی کی بے شمار مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے،لیکن ایک عام فہم مثال جس کو ایک جاہل اور کم عقل شخص بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے وہ یہ کہ اگر کسی تعلیمی یونورسٹی ،کالج یا دارالعلوم کے ضابطہ دستور میں یہ بات درج ہوکہ اس ادارے کے تمام انتظامی و تعلیمی امور میں پرنسپل اور ناظم کی رائے کی جتنی اہمیت ہو گی اتنی ہی اہمیت ادارے میں کام کرنے والے ہر فرد اور چپراسی کی بھی ہو گی،تو ہر جاہل اور کم عقل فوراً سمجھ لے گا کہ یہ ادارہ کا سب سے بڑا نقص ہے اور کوئی بھی تعلیمی ادارہ اس طرز پر نہیں چل سکتا ،تو سوال یہ ہے کہ کیا حکومت چلانے اور بدلنے کا ادارہ کالج اوردارلعلوم سے کم تر ہے جس میں ملک میں بسنے والے تمام لوگوں کی رائے کو ایک ہی درجہ دے دیا گیا ہے ؟ ویسے دیکھا جائے تو جمہوری نظام نا ممکنُ العملْ ہے اس لئے کہ جمہوریت اکثریت کو کہتے ہیں مطلب یہ کہ ۱۰۰ میں سے ۵۱ کو جمہوریت کہتے ہیں ،اب لحاظ سے دنیا کی حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو دنیا کی آبادی اس وقت تقریباً ساڑھے چھ عرب ہے تو عالمی سطح پر کسی ایسے نظریے اور افراد کی حکومت ہونی چاہئیے تھی جو تین عرب چھبیس کروڑ افراد کی نمائند گی کر سکے ،لیکن دنیا کے سیاسی حالات سے با خبر افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا کی حکومتوں کی پا لیسی یہود کے اشارے پر بنتی اور چلتی ہے اور پوری دنیا میں یہو دیو ں کی کُل تعداد دیڑھ کروڑ ہے جو دنیا کی پوری آبادی کا پاؤ فیصد حصہ سے بھی کم بنتی ہے ،اگر پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد ساڑھے چھ کرور ہوتی ہے تو پھر کہا جا سکتا تھا کہ دنیا کی کُل آبادی میں یہودیوں کی آبادی کا حصہ ایک فیصد ہے لیکن چونکہ دیڑھ کروڑ ہی ہے اس لئے ان کاحصہ پاؤ فیصد سے بھی کم بنتا ہے ،اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ دنیا میں جمہوریت کے نام پر دراصل دنیا کی اقلیت ترین قوم یعنی یہود کی حکومت ہے ،اور سرمایہ دار اور میڈیا اس یہودی نظام کے دو ستون ہیں ،چنانچہ یہودی، سرمایہ دار اور میڈیا کے ذریعے جس ملک میں جو حکومت لانا چاہتے ہیں وہ حکومت آجاتی ہے اور جو حکومت گِرانا چاہتے وہ حکومت گِر جاتی،گویا کہ جمہوری ممالک میں عوام کی حیثیت سرمایہ دار اور میڈیا کے پیچھے اندھے بہرے گونگے بنکر چلنے کی ہیں؟اور پھر جمہوریت کے ذریعہ حکومت کے انتخاب کا طریقہ کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں جمہوریت کے ذریعے منتخب ہونے کے لئے ملک کی کُل ووٹر آبادی کا (اکّاون)۵۱ فیصد حصہ حاصل کرنا ضروری نہیں ہے ،مثلاً کسی ملک کی کُل ووٹر آبادی اگر ایک کروڑ ہے تو کسی بھی حکومت کے منتخب ہونے کے لئے اکاون لاکھ ووٹ حاصل کرنا ضروری نہیں ہے جو کہ ملک کی آبادی کا اکّاون فیصد حصہ ہوتا ہے اور یہ کم سے کم حصہ ہے جس پر جمہوریت کا اطلاق ہو سکتا ہے ،یقیناًیوروپ کے کچھ ممالک میں کسی بھی حکومت کو منتخب ہونے کے لئے الیکشن میں اکاون فیصد ووٹ حاصل کرنے کا قانون ہے ،لیکن ا س قانون کا اطلاق بھی صرف اُن ووٹروں پر ہوتا ہے جنہوں نے ووٹنیگ میں حصہ لیا ،مطلب یہ کہ کسی ملک کی ووٹر اآبادی ایک کروڑ ہے لیکن ووٹنگ صرف پچاس فیصدہوئی، یعنی پچاس لاکھ تو اب اگر کسی پارٹی یا فرد کو صرف چھبیس لاکھ ووٹ ملے تو وہ پارٹی یا فرد قانونی طور پر اکاون فیصد ووٹ حاصل کرنے والا شمار ہوگا اور منتخب قرار پائے گا،جبکہ حقیقی طور پر دیکھا جائے تو اس کو ملک کے صرف چھبیس فیصد ووٹ ملے ہیں ،جو کہ جمہوریت سے بہت کم ہے ، یہ تو اُن ممالک کا حال ہے جو جمہوریت کے بانی او رباوا آدم کہلاتے ہیں ،رہا اُن ممالک کا حال جو جمہوریت کی صرف نقّالی کرتے ہیں ،یا جمہوریت کا ڈرامہ کرتے ہیں ان کا حال تو اوربھی بُرا ہے ،ان ہی میں ہندوستا ن ،پاکستان ،بنگلہ دیش ہے۔چنانچہ ان ممالک کے دستور میں آج بھی کسی فرد پارٹی کو منتخب ہونے کے لئے کسی حلقہ کے ڈالے ہوئے ووٹوں میں سے بھی پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری نہیں ہے ،بلکہ اس حلقہ میں جتنے امیدوارکھڑے ہوئے ہیں ان میں سے سب سے زیادہ ووٹ لینا ضروری ہے مثلاً ،کسی حلقہ میں کُل ووٹر آبادی ایک لاکھ ہے اور ووٹنگ ہوئی پچاس فیصد یعنی پچاس ہزار اور اُس حلقہ میں چار امیدوار کھڑے ہوئے ہیں اور ان میں سے تین امیدواروں کو بارہ بارہ ہزار ووٹ ملے اور ایک امیدوار کو چودہ ہزار ووٹ ملے تو یہ حلقہ کا جمہوری طریقہ سے منتخب نمائندہ قرار پا ئے گا،جس کو حلقہ کے کُل ایک لاکھ ووٹروں میں سے صرف چودہ ہزار ووٹ ملے جو کہ کُل ووٹروں کا چودہ فیصد ہی حصہ بنتا ہے اور ڈالی ہوئی ووٹنگ کا ۲۸ فیصد حصہ ،اب اگر اس کے منتخب ہونے کا صحیح تجزیہ کیا جائے تو جو صورت سامنے آئے گی وہ یہ کہ اس کے حلقہ انتخاب کے پچاس فیصد ووٹ جنھوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اس کے متعلق غیر جانب دار رہیں یعنی نہ اس کے حامی ہوئے نا اس کے مخالف ،اور حلقہ کے جن پچاس فیصد ووٹروں نے ووٹنگ میں حصہ لیا ان میں سے اکثریت نے اس کے خلاف ووٹ دیا اور وہ بھی معمولی اکثریت نے نہیں بلکہ حلقہ میں جو ووٹنگ ہوئی ان میں سے ۷۲ فیصد ووٹروں نے اس کو گرانے کے لئے ووٹ دیا اور حلقہ کے صرف ۲۸ فیصد ووٹ اس کے حق میں پڑے ،لیکن اسکے باوجود وہ اس لئے الیکشن میں کامیاب ہوگیا کہ اس کے مخالفین کے ووٹ تین امیدواروں میں تقسیم ہوگئے اور تینوں ہی امیدوار الیکشن میں ہا ر گئے لیکن یہاں جمہوریت نوازوں سے جمہوریت ہی کا واستہ دے کر سوال کیا جا سکتا ہے کہ ۷۲ فیصد کا نام جمہوریت ہے یا ۲۸ فیصد کا نام جمہوریت ہے؟تمہارے دستور اور ضابطے کے مطابق تو ۲۸ فیصد وٹ جمہوریت ٹھہرے اور ۷۲ فیصد ووٹ اقلیت ٹھہرے ،جبکہ ریاضی کا مسلمّہ اصول یہ بتاتا ہے کہ ۷۲ فیصد ووٹ اکثریت ہوتے ہیں اور ۲۸ فیصد اقلیت ہوتے ہیں ،اب اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہو ری ممالک کے الیکشن میں اکثریت ہارتی ہے اور اقلیت جیتتی ہے ،لیکن اس کو عوام اس لئے سمجھ نہیں پاتے کہ اقلیت کو اکثریت کا لیبل لگا کر کامیاب کیا جاتا ہے اور اکثریت کو اقلیت کا لیبل لگا کر ناکام کیا جاتا ہے۔لیکن بہرحال حقیقت ،حقیقت ہوتی ہے اسے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ۔
مذکورہ مثال میں جمہوری انتخابات اور نتائج سے متعلق جو تجزیہ پش کیا گیا ہے برّ صغیر کے تمام ممالک ہندوستان ، پاکستان ،بنگلہ دیش کے تمام انتخابات پر اور نتائج پر پورے طور پر صادق آتا ہے ،اس لئے کہ ہر انتخاب میں ایک ہی حلقہ میں اتنے زیادہ امیدوار ہوتے ہیں کہ ملکی سطح پر ہر حلقہ میں چُہار رُخی مقابلہ کاتناسب آ ہی جاتا ہے ، اورانتخابی عمل سے عام لوگ اتنے زیادہ بیزار اور مایوس ہو گئے ہیں کہ تمام پارٹیوں اور امیدواروں کی سر توڑ کوشش کے باوجود ووٹنگ کا تناسب ملکی سطح پر تقریباً پچاس( ۵۰) فیصد ہی آتا ہے،چنانچہ آج سے ایک سال پہلے سن ۲۰۱۴ ء کے بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں صرف دس فیصد ووٹنگ ہوئی لیکن اس کے باوجود حسینہ واجد جمہوری طریقہ سے منتخب ،وزیرِ اعظم قرار پائی، اور پوری دنیا نے بھی اسے قبول کرلیا کیونکہ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کو غیر قانونی قرار دے کر اس کے لاکھوں افراد کو جیلو ں میں ڈال دیا اور ہزاروں کو قتل کر دیا اور سیکڑوں کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایادیا ، اور یہی صورتِ حال دنیاکے تقریباً ہر ملک کی ہے ،وہ یہ کہ جس پارٹی یا جس لیڈر کو بھی دنیا کی جمہوریت کے ٹھیکداروں سے بہت جلد جمہوریت یا امن پسندی کا سرٹفیکٹ حاصل کرنا ہو اس کا آسان راستہ یہی ہے کہ اسلام کو نظامِ زندگ کی حیثیت سے دہشت گردی کا دین قرار دیا جائے اور جو بھی مسلمان دین اسلام کو مکمل نظام زندگی کے طور پر پیش کر رہے ہیں انھیں اسلامی دہشت گرد ٹھہرایا جائے ،تاکہ انھیں قتل کرنا ،جیلوں میں ڈالنا آسان ہو جائے ۔ اسی سے ملتی جُلتی صورت پاکستان کے عام انتخابات اور اس کے نتائج کی ہے وہاں بھی سیاست کا اصل مُدّعا جمہوریت کے نام پر اسلامی نظاِم سیاست کو دبانا ،کمزور کرنا اور بد نا م کرنا ہوتا ہے،جمہوری سیاست کے عام انتخابات اور اس کے نتائج کے سلسلہ میں جہاں تک ہندوستان کی بات ہے تو یقیناًاس سلسلہ میں اس کی حالت ،پاکستان ،بنگلہ دیش سے کس قدرت بہتر ہے ،لیکن جہاں تک جمہوری سیاست کی تباہ کاری و بربادی کی بات ہے تو اس سے ہندوستان بھی محفوظ نہیں رہا ،چنانچہ ہندو مسلم جو صدیو ں سے ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ رہ ر ہے تھے، جمہوری سیاست نے ان کے درمیان دشمنی اور عداوت کی ایسی گہری خلج پیدا کردی ،جس کے نتیجے میں آزادی کے بعد سے اب تک ہزاروں فسادات ہو چکے ہیں، جن میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ مارے گئے ہیں اور مارے گئے لوگوں میں پچانوے (۹۵) فیصد سے بھی زیادہ مسلمان ہی ہیں ،کیونکہ یہاں مسلمان اقلیت میں ہے،اور جمہوری سیاست کی اصل مار اقلیت قوم پر ہی پڑتی ہے ان فسادات کو ہندو مسلم فسادات کہنے کی بجائے جمہوریت کے ذریعے مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی کی مہم کہنا زیادہ صحیح ہے ۔اور جہاں تک جمہوریت کی یہ تعریف کہ عوام کی حکومت عوام پر یا اکثریت کی حکومت اقلیت پر ،اس کی حقیقت سمجھنے کے لئے ۲۰۱۴ ء کے ہندوستان کے عام انتخاب کے نتیجہ کو سرسری دیکھ لینا ہی کافی ہے –
لوک سبھا کی کُل پانچ سو تینتالیس(۵۴۳) سیٹوں میں سے بھارتیہ جنتاپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو تین سو چالیس سیٹیں حاصل ہوئی جو کہ دو تہائی کے قریب ہو جاتی ہے،لیکن الیکشن کمیشنر کی طرف سے مختلف پارٹیوں کو ملنے والے ووٹوں کے اعداد و شمار جو اخبارات میں شائع ہوئے اس کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کو ڈالے گئے کُل ووٹروں میں سے صر ف تیس (۳۰) فیصد ووٹ ملے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کے ستّر فیصد ووٹروں نے بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے خلاف ووٹ دیا اور اس لئے ووٹ دیاکہ بی جے پی اور اس کے حلیف پارٹیاں اقتدار میں نہ آئے ،لیکن اس کوباوجودجمہوری قانون کی رو سے ستّر فیصد ووٹروں کی رائے نا قابلِ قبول ٹھہری اور اس کے مقابلہ میں تیس (۳۰)فیصد ووٹروں کی رائے قابل قبول ٹھہری ،اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ اگر بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو صرف پچیس (۲۵) فیصد ووٹ بھی مل جاتے تو انہیں اکثریت حا صل ہو جاتی جو کہ دو سو بہتّر (۲۷۲) ہوتی ہے ،اب یہ جمہو ری نظام کا کمال یا جادو ہے کہ تیس فیصد ووٹ ستّر فیصد ووٹوں کو شکست فاش دیتے ہیں ،جبکہ حقیقی جمہوریت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ جب کسی پارٹی یا گروہ کو صرف تیس (۳۰)فیصد ووٹ ملے ہیں تو لوک سبھا میں ان کے ممبران کی تعداد بھی تیس فیصد ہی ہونی چاہیے تھی ،یہ کون سی جمہوریت ہے کہ لوک سبھا کے الیکشن میں تو پارٹی کو تیس فیصد ووٹ ملے اور لوک سبھا کے ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ ممبران منتخب ہوئے ،شاید یہی جمہوریت کا فائدہ ہے کہ کم ووٹ لے کر بھی جمہوریت کے ذریعے زیادہ ووٹوں کو شکست فاش دی جا سکتی ہے ،گویا کہ نقلی اور جعلی جمہوریت سے حقیقی اور اصلی جمہوریت کو بآسانی ہرایا جا سکتا ہے۔ایک دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو تو معلوم ہوگا کہ خود جمہوری ممالک میں عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے نمئندوں کی حیثیت حکومت کے معاملات میں ایک سفارشی یا علامتی یا بے بس تماشائی گروہ کی ہوتی ہے،حکومت کے کسی بھی کام میں کسی بھی عوامی نمائندہ کا کسی قسم کا براہِ راست عمل دخل نہیں ہوتا ۔چاہے وہ ملک کا وزیرِ اعظم ہو،یا ریاست کا وزیرِ اعلی ہو ،یا گرام پنچا یت کا سرپنچ ہو،یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں اگر برسوں بھی لوک سبھا،وِدھان سبھا،گرام پنچایت کا نظام مُعطّل رہے تو حکومت کے کام کاج پر ایک دن بھی اثر نہیں پڑتا ،اور ہر جمہوری ملک ہر سال اس طرح کی صورتِ حال سے گزرتا بھی ہے،چاہے وہ وقت پر الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے ہو،یا کسی پارٹی کو پارلیمنٹ ،اسمبلی یاگرام پنچایت میں اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے ہو،یا پھر پارلیمنٹ ،اسمبلی یا گرام پنچایت کے صحیح کام نہ کرنے کی بنا پر بر خاستگی کے وقت صدر راج،یا گورنر راج کا نفاذ ہو۔گویا کے خود جمہوری ممالک نے اپنے دستور اور طریقہ کار سے یہ ثابت کردیا کہ ملک کی حکو مت کا نظام چلانے میں پارلیمنٹ ،اسمبلی ،کارپریشن ،نگر پریشد ، ضلع پریشد ،پنچایت سمیتی اور گرام پنچایت کی حیثیت ایک اضافی ،علامتی اور بوجھ کی ہے بلکہ حکومت کے بہت سے کاموں میں رُکاوٹ کی بھی ہے، کیونکہ بہت سے ایماندار افسران اور ملازمین کو یہ سیاسی ادارے اور پارٹیاں ایمانداری سے کام نہیں کرنے دیتی،چنانچہ روز انہ ا خبارات میں کسی نہ کسی ایماندار ار فرض سناش افسر یا ملازم کی ہلا کت یا قتل کی خبر ضرور ہوتی ہے،اور تحقیق کے بعدجو بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ چونکہ یہ افسر یا ملازم بد عنوانی اور بے ایمانی میں سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کا ساتھ نہیں دے رہا تھا اسلئے اسے قتل کر دیا گیا۔اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کسی جمہوری نظام میں اگرکوئی افسر یا ملازم ایمانداری سے کام کرنا چاہے بھی تو وہ نہیں کر سکتا ،یا تو اُسے بر خاست کر دیا جاتا ہے یا پھر اسے قتل کر دیا جاتا ہے اور یہ سب جمہوری نظام کی بقا اور اصلاح کی خاطر کیا جاتا ہے۔گویا کہ بد عنوانی اور بے ایمانی جمہوری نظام کا لازمی حصہ ہے ،جس کو جمہوری نظام سے جُدا نہیں کیا جاسکتا،ویسے جمہوری نظام میں ایمادار افسران اور ملازمین کا تقرر تقریباً نا ممکن ہوتاہے ،لیکن اگر غلطی سے کوئی ایماندار افسر یا ملازم کا تقرر ہوبھی جائے تو اس کے لئے ایمانداری سے کام کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا ہے اور یہ حقیقت جمہوری نظام کے تمام لیڈران ،افسران اور ملازمین اچھی طرح جانتے ہیں اور اعتراف بھی کرتے ہیں،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ جمہوری نظام کو بُرا نہیں سمجھتے بلکہ اسی نظام کے ذریعہ وہ سیاسی و حکومتی بدعنوانی کو ختم کرنا چاہتے ہیں،یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہوئی کہ کوئی پیدائشی اندھے سے راستہ دکھانے کی امید لگائے بیٹھے، ظاہر ہے کسی اندھے سے راستہ دکھانے کی امید نہیں لگائی جاسکتی ،اسی طرح جمہوری نظام پیدائشی طور پر ہی ایمانداری اور اچھی سیاست اور حکمرانی کی کی صفت سے محروم ہے،اونہ صرف اچھی حکمرانی کی صفت سے محروم ہے ،بلکہ اُس ذات ہی میں اچھی سیاست و حکمرانی کو دبانے اور ختم کرنے کی اتنی زبردست قوت ہے جو دنیا کے کسی بھی سیاسی نظام میں نہیں ہے،نہ بادشاہت میں نہ کمیونزم میں،نہ قومیت میں،یہی وجہ ہے کہ بادشاہی نظام ،قومی نظام او ر کمیونزم کے خلاف جو بھی اصلاحی تحریک اٹھی اسے تھوڑی قربانیوں کے بعد ہی کامیابی مل گئی ،لیکن تا حال جمہوری نظام کے خلاف عالمی سطح پر کوئی اصلاحی و انقلابی تحریک ہی نہیں اٹھی،اس سلسلہ میں اسلامی تحریکات ہی سے کچھ امید لگائی جاسکتی تھی،لیکن بد قسمتی سے بیشتر اسلامی تحریکات خود جمہوری نظام کی تائید کرکے جمہوری نظام ہی کی چھُری سے بُری طرح ذُبح ہوگئیں، یا پھر اُن کا کمزور حالت میں صرف جسم باقی رہ گیا اور روح ختم ہو کر رہ گئی انہی ہی میں سے مِصر کی اخوان المسلمون ،جماعتِ اسلامی پاکستان ،جماعت اسلامی بنگلہ دیش ہے ،اس وقت عالمی سطح پر صرف دو ایسی اسلامی تحریکیں ہیں جنہوں نے جمہوری نظام کے طریقہ کو اختیار نہیں کیا تو آج بھی وہ بہت حد تک جسم و جان کے ساتھ باقی و محفوظ ہیں ،ان میں سے ایک افغانستان کی طالبان تحریک ہے اور دوسری فلسطین کی حمّاس تحریک ہے ،جبکہ دنیا کی سُپر پاور طاقت امریکہ، اسرائیل اور ان کے ہمنوا ممالک ان کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ،لیکن انہیں اسلئے کامیابی نہیں مل رہی ہے کہ ان دونوں تحریکات نے مغرب کے وضع کردہ جمہوری طریقہ کو اختیار نہیں کیا بلکہ انہوں نے اسلامی نظام کے لئے اسلامی جہاد ہی کو اختیار کیا۔اور وہ ہے حاکمیت کا حق صرف اللہ کے لئے اور امیر کا انتخاب ایمان،علم ، عمل اور تقوی کی بنیاد پر، تحریک اسلامی کے ذمہ داروں کی طرف سے ،اور عام مومنین کا بیعت کے ذریعہ امیر کی اطاعت سے جُڑنا۔اور اسلامی اقتدار کے قیام و بقا کے لئے غیر اسلامی فوج سے مسلح جہاد،جس طرح آنحضورؐ نے دورِ مدنی میں کیا۔
کسی بھی اسلامی تحریک کے لئے مغرب کا وضع کیا ہوا جمہوری طریقہ کتنا خطرناک اور بُرا ہے خود حمّاس کی ایک سیاسی غلطی سے سمجھا جا سکتا ہے وہ یہ کہ ۲۰۰۴ ء کے فلسطین کے الیکشن میں حمّاس نے بھی حصہ لیا اور اس میں کامیابی بھی حاصل کرلی ۔لیکن جیسا کہ جمہوری مفکرین کے نزدیک طئے ہے کہ کسی اسلامی تحریک کو اس راستہ سے اقتدار میں نہیں آنے دینا ہے اسلئے حمّاس کو فوراًہی فلسطین کے اقتدار سے ہٹا دیاگیا،اگر چہ حماس نے فوراً اسلامی جہاد کے ذریعہ غزاء میں دوبارہ اپنا اقتدار قائم کر لیا اورتا حال قائم ہے بلکہ پہلے کی بہ نسبت بہت مضبوط بھی ہوگیا ،لیکن صرف الیکشن میں حصہ لینے کی وجہ سے حمّاس صرف غزاء کی تحریک ہو کر رہ گئی اور فلسطین کے دوسرے حصہ میں حماس کی حریف تنظیم اور اسرائیل نواز اَلْفَتح پارٹی کا قبضہ ہوگیا۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر حماس الیکشن میں حصہ نہیں لیتی تو اس وقت وہ پورے فلسطین کی حکمران تنظیم ہوتی،لیکن بہر حال غلطی ،غلطی ہوتی ہے آخرت کے لحاظ سے وہ معاف ہو بھی جائے تو دنیا میں اس کا نتیجہ بر آمد ہو کر رہتا ہے ۔ جیسے چند صحابہ کرام سے جنگِ اُحد میں اللہ کے رسول ؐ کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی تھی اور اللہ نے ان کی اس غلطی کو معاف بھی کر دیا لیکن دنیا میں اس کا نتیجہ بر آمد ہو کر رہا وہ یہ کہ خود اللہ کے رسول ؐ زخمی ہو گئے ،ستّر صحابہ شہید ہوگئے،اور ستّر زخمی ہوگئے۔اور ایک طرح سے فتح شکست میں تبدیل ہو گئی،اور مشرکین مکہ یہودِ مدینہ اور منافقین کے حوصلے بلند ہو گئے۔لیکن ایسا لگتا ہے حماس نے اس غلطی سے بہت سے بڑا سبق حاصل کر لیاہے ۔چنانچہ اس کے بعد کبھی وہ الیکشن کے چکّر میں نہیں پڑی تو اسرائیل کی فوج کو لوہے کے چنے چبوانے کے موقف میں آگئی ،کاش کہ دوسری تحریکاتِ اسلامی حماس اور طالبان سے سبق حاصل کرتی تو باطل حکمراں ان کی یہ درگت کرنے میں کامیاب نہ ہوتے۔جمہوری نظام دنیا کے تمام باطل نظاموں سے اسلئے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے کہ حکومت کے عملہ کی بدعنوانی اور بے ایمانی کے باوجود حکومت کے کسی بھی افسر اور ملازم کو نہ عوام کے سامنے رُسوا ہونا پڑتا ہے اور نہ عدالت کے سامنے رسواہونا پڑتا ہے ،بلکہ حکومت کا ہر بد عنوان اور بے ایمان افسر اور ملازم اپنی بد عنوانی اور بے ایمانی کا الزام الیکشن میں کامیاب ہونے والے افراد پر ڈال کر بڑی آسانی کے ساتھ عوام اور عدالت کی ناراضگی سے بچ جاتا ہے اور الیکشن میں کامیاب ہونے والے افراد اپنی بد عنوانی بے ایمانی کا الزام سرکاری افسران اور ملازمین پر ڈال کر عوام اور عدالت کی جوابدہی سے بچ جاتے ہیں۔عوام ان سے ناراض ہو کر زیادہ سے زیادہ انہیں الیکشن میں شکست دے کر چند مہینوں اور سالوں کے لئے سیاسی عہدہ سے محروم رکھ سکتے ہیں اس کے علاوہ ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے،لیکن ان سیاسی لیڈران پر الیکشن میں ہارنے کا اسلئے کچھ بھی اثر نہیں ہوتا کہ صرف ایک الیکشن میں کامیابی کی بنیاد پر انہیں اتنی دولت اور عزت مل جاتی ہے جو انہیں زندگی بھر کافی ہو جاتی ہے بلکہ ان کی اولاد کے لئے بھی کافی ہو جاتی ہے۔جمہوری نظام کی اس حقیقت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جمہوری نظام کے بانیین نے بڑی چالاکی اور مکاری سے نظام حکومت کا ایسا ڈھانچہ تشکیل دیا کہ حکومت کی بد عنوانی اور بے ایمانی پر عوام کی ناراضگی کا کوئی اثر نہ پڑے اور نہ عدالت کی ناراضگی کوئی اثر پڑے ،بلکہ عوام اور عدالت کا فیصلہ بد عنوانی اور بے ایمانی کے لئے بچاؤاور ڈھال ہو جا ئے ۔چنانچہ جمہوری نظام میں آئے دن روزانہ ہزاروں بد عنوان بے ایمان سیاسی لیڈران،حکومت کے افسران و ملازمین جمہوری انتخابات اور عدالت کے فیصلوں سے اپنی بد عنوانی اور بے ایمانی کا داغ دھلتے رہتے ہیں۔نہ صرف دُھلتے رہتے ہیں بلکہ اپنی بد عنوانی اور بے ایمانی کا الزام ان لوگوں پرلگاتے دیتے ہیں جو ان کی بد عنوانی اور بے ایمانی پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ سب وہ جمہوری نظام کی مدد سے کرتے ہیں،گویا کہ جمہوری نظام ملک میں بد عنوانی اور بے ایمانی کو بڑھاوا دینے میں مدد کرتا ہے نہ کہ بد عنوانی اور بے ایمانی کے خاتمہ میں ،اور اس مقصد کے حصول کے لئے جمہوری نظام کے بانیین اور حاملین نے نظام حکمرانی کے دو شعبے تشکیل دیے ایک سیاسی شعبہ اور دوسرے حکومتی شعبہ ،سیاسی شعبہ میں تو کچھ حد تک عوام کی رائے کی اہمیت رکھی گئی ہے اور ہر پانچ سال میں سیاسی عہدیداران کے لئے انتخابات بھی ہوتے ہیں ۔لیکن حکومتی شعبہ میں کی رائے کی قطعاًگنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔ بلکہ حکومت کے ہر عہدیدار اور ملازم کا انتخاب صرف تقرر کی بنیاد پر عمل میں آتا ہے نہ کہ عوام کی رائے شماری سے جبکہ جمہوریت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ جمہوری حکومت کا ہر عہدیدار اور ملازم عوام کی رائے سے منتخب ہوتا مطلب یہ کہ کسی ضلع کے کلکٹر کے انتخاب کے لئے پورے ضلع کے ووٹروں سے رائے لی جاتی اور جس کے حق میں اکاون فیصد ووٹ آتے وہ ضلع کا کلکٹر بنتا اسی طرح حکومت کے ہر عہدیدار اور ملازم کے انتخاب کے لئے علم و قابلیت کی شرط کے ساتھ اس کے دائرہ کار میں جتنے ووٹر آتے ہیں ان میں سے اکاون فیصد ووٹ حاصل کرنا اس کے لئے لازم ہوتا، تب کہا جا سکتا تھا کہ اس کا انتخاب جمہوری طریقہ سے ہوا ،لیکن کسی بھی جمہوری ملک میں حکومت کے کسی بھی شعبہ میں نہ اعلیٰ افسر کے تقرر کے لئے عوام کی رائے کی شرط ہے اور نہ حکومت کے ادنیٰ ملازم کے لئے عوام کی رائے شرط ہے،گویاکہ تمام جمہوری ممالک کی حکومت مین تمام عہدیداران اور ملازمین کاتقرر غیر جمہوری طریقہ سے ہوتا ہے۔۔اگر حکومت کے تمام عہدیداران اور ملازمین کے انتخاب کے لئے عوام کی رائے کی وہی شرط ہوتی جو سیاسی عہدیداران کے لئے ہوتی ہے تو آج جو جمہوری نظام میں بد عنوانی اور بے ایمانی ہے اس میں پچاس فیصد کی کمی آسکتی تھی،لیکن ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جمہوری نظام کے حاملین سرکاری عہدیداران اور ملازمین کے تقرر اور انتخاب کے لئے عوام کی رائے شماری کے لئے کبھی تیار نہیں ہونگے۔کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے حکومت کے افسران اور ملازمین کے تقرر کے لئے عوام کی رائے کی بھی شرط رکھی اور پھر عوام ان افسران اور ملازمین کے طرزِ عمل سے خوش ہیں یا نہیں اس کو جاننے کے لئے ہر پانچ سال میں ان سے متعلق عوام کی رائے لینے کی شرط رکھی اور جس کے حق میں عوام کی اکثریت نہ ہو اس کو حکومت کے عہدہ اور ملازمت سے برخاست کرنے کی شرط رکھی تو یہ عہدیداران اور ملازمین ضرور عوام کا بھی خیال کریں گے ،اور ان کی مرضی کونظر انداز کر دیں گے،اس لئے جمہوری نظام کے بانیین اور حاملین نے بڑی چالاکی سے حکومت کے تمام افسران اور ملازمین کو عوام کی رائے سے الگ رکھا تاکہ وہ مَن مانے طریقہ سے کام کرے ، اور من مانے طریقے سے اُن سے کام لیا جا سکے۔جمہوری نظام کی یہ کتنی کھُلی ہوئی نا انصافی ہے کہ سیاسی پارٹیوں اور افراد کے انتخاب کے لئے تو کچھ نہ کچھ عوام کی رائے کی شرط بھی رکھی گئی اور ہر پانچ سال کی مدّت میں دوبارہ عوام کی رائے معلوم کرنے کی شرط رکھی اور جس پارٹی اور فرد کے حق میں عوام کی مطلوبہ رائے نہ آئے اُس پارٹی اور فرد کو اقتدار سے معزول کردینے کی شرط ہے ،اسی جمہوری نظام میں حکومت کے کسی بھی بڑے سے بڑے افسر اور کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے ملازم کے تقرر و انتخاب کے لئے ایک مرتبہ بھی عوام کی رائے کی شماری کی شرط نہیں،نہ ملازمت کے شروع میں نہ ملازمت کے درمیان میں اور نہ ملازمت کے اخیر میں جبکہ حکومت کے تمام معاملات میں سیاسی پارٹیوں اور سیاسی افراد سے کہیں زیادہ حکومت کے افسران اور ملازمین کا عمل دخل ہوتا ہے۔بلکہ حکومت کے افسران اور ملازمین کے سامنے سیاسی عہدیداران کی حیثیت ایک رَبر اسٹیمپ کی ہوتی ہے ،اور اس حقیقت کو سیاسی پارٹیاں اور عہدیداران اچھی طرح جانتے ہیں لیکن چونکہ جمہوری نظام کی رشوت کی خیرات ان سیاسی پارٹیوں اور افراد کو بھی ملتی ہے اسلئے وہ اپنی بے بسی کے باوجود جمہوری نظام کے خلاف کچھ نہیں بولتے بلکہ اُلٹے اس کے گُن گاتے ہیں ۔جبکہ ان سیاسی پارٹیوں اور لیڈران میں ذرا بھی عقل اور غیرت ہوتی تو وہ جمہوری نظام کے حاملین سے پوچھتے کہ جب ہمیں عوام کی رائے کے بغیر جمہوری نظام مین کوئی سیاسی عہدہ نہیں ملا تو اسی نظام کی حکومت میں عوام کی رائے کے بغیر افسران اور ملا زمین کو بڑے بڑے عہدے اور بڑی بڑی تنخواہیں کیوں مل گئیں،اسی طرح جب افسران اور ملازمین کی بد عنوانی اور بے ایمانی کے سبب ہمیں الیکشن میں ہار کا منہ دیکھنا پرا ،آخر ہماری ہار کا ان افسران اور ملازمین کی ملازمت اور عہدوں پر کیوں اثر نہیں پڑا جبکہ حکومت کے عملہ کی نا اہلی اور بد عنوانی ہی سے ہماری شکست ہوئی تو جس طرح ہم اقتدار سے محروم ہوگئے تو حکومت کے افسران اور ملازمین بھی بر طرف ہو جانے چاہئیے تھے ،لیکن یہ حق بات سیاسی لیڈران کے منہ سے اسلئے نہیں نکل سکتی کہ ان کے منہ میں بھی جمہوری نظام کا حرام کا لقمہ گیا ہوا ہے اور جس منہ میں حرام کا لقمہ چلا جاتا ہے پھر اس منہ سے حق بات نہیں نکل سکتی۔بہر حال جمہوری نظام کی یہ کتنی بڑی دوغلی اور دو رُخی پالیسی ہے کہ سیاسی پارٹیوں اور افراد کے اقتدار میں پہونچنے کے لئے تو عوام کی ایک مطلوبہ رائے شماری کا حاصل کرنا ضروری ہے اور اقتدار میں بر قراری کے لئے بھی ہر پانچ سال میں الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے،لیکن جمہوری نظام کی حکومت کے بڑے سے بڑے عہدے تک پہنچنے کے لئے عوام کے ایک ووٹ کی بھی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ اس عہدے کو صرف سرکاری علم کی ڈگریوں پر رکھا گیا ہے ،گویا کہ جمہوری نظام کی حکومت کا پورا کا پورا عملہ کلاس وَن افسر سے لے کر کلاس فور تک یہاں تک کہ چپراسی تک غیر جمہوری طریقے سے منتخب ہوتا ہے،اور عہد ہ اور ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے تک بھی غیر جمہوری طریقہ سے ہی بر قرار رہتا ہے،جبکہ جمہوریت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ حکومت کے ہر افسر اور ملازم کے تقرر کے لئے تعلیمی ڈگری کی شرط کے ساتھ کچھ نہ کچھ عوام کی رائے کی بھی شرط ہوتی ،اسی طرح ہر پانچ سال کی مدت کے بعد ان کی کار کر دگی کے متعلق عوام کی رائے معلوم کرنے کی بھی ہوتی ، اور جس افسر اور ملازم کے متعلق اُس حلقہ کے پچاس فیصد سے زائد ووٹ اس کی حمایت میں پڑتے اسے عہدہ اور ملازمت پر برقرار رکھا جاتا ،اور اگر اس کے حلقہ کے پچاس فیصد سے زائد ووٹ اس کے خلاف پڑے تو اس کو عہدہ اور ملازمت سے بر خاست کر دیا جاتا اور اس کی تنخواہ بھی ختم کردی جاتی ۔ لیکن ظاہر ہے حکومت کے عملہ کے متعلق عوامی رائے کی یہ شرط خود جمہوریت کے حاملین کے حلقوں سے نیچے نہیں اُترے گی، کیونکہ وہ صرف جمہوریت کا نام استعمال کرکے اپنی ڈِکٹر شپ چلانا چاہتے ہیں اور ڈِکٹر شپ کی برقراری میں چونکہ سیاسی شعبوں میں کچھ عوامی رائے شماری کی ضرورت تھی اسلئے انہوں نے اس شعبہ میں کچھ عوامی رائے شماری کی شرط رکھی ،لیکن اس شعبہ میں بھی الیکشنی نظام کا ایسا طریقہ ایجاد کیا کہ عوام کی رائے کا گلا عوام کی رئے ہی سے گھونٹا جائے،اور ہر پانچ سال میں عوام ،حکومت کے عملہ کی بد عنوانی اور بے ایمانی کا غصہ صرف سیاسی پارٹیوں اور لیڈران پر ہی نکالے،کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں اگر ہم نے عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا تو ہمارا جمہوریت کے نام پر ڈِکٹر شِپ کا نظام ہی خطرہ میں پڑ جائے گا، اور عوام اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے ،اسلئے انہوں نے بڑی چالاکی سے انتخابات کا طریقہ ایجاد کیا تاکہ عوام کے غصہ اور ناراضگی کا اثر صرف سیاسی پارٹیوں اور سیاسی افراد پر پڑے اور جمہوری حکومت کا پورا نظام اور عملہ اس سے محفوظ رہے ،چنانچہ ان ہی انتخابات کا نتیجہ
ہوتا ہے کہ ایک سیای پارٹی عوامی الیکشن میں بُری طرح ہار جاتی ہے،لیکن حکومت کے کسی افسر اور کسی چپراسی پر اس ہارکا ذرہّ برابر کوئی اثر نہیں پڑتا، جبکہ عوام نے تو حکومت کی بد عنوانی ہی کی وجہ سے اس پارٹی کے خلاف ووٹ دیا تھا ،اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ سیاسی پارٹی کو ہرانے والے بد عنوان افسران اور بے ایمان ملازمین الیکشن میں جیت گئے اور سیاسی پارٹی ہار گئی جو صرف حکومت ک ایک مکھوٹہ تھی اور اصل حکومت تو جوں کا توں باقی رہی ،یقیناًانتخابات کے نتیجہ کے دن حکومت کے رشوت خور افسران اور ملازمین خوشیاں مناتے ہو ں گے اور جمہوری نظام کا شکریہ ادا کرتے ہوں گے کہ ہماری بے ایمانی اور بد عنوانی کی سزا صرف سیاسی پارٹیوں اور لیڈران کو ہی ملی،اگر الیکشن کا نظام نہیں ہوتا تو عوام کا غصہ سیاسی پارٹیوں اور لیڈران کی بجائے ہم پر پڑتا۔
جمہوری نظام کے بانیین اور حاملین کے نزدیک بھی انتخابات کا بنیادی اور پہلا مقصد یہی ہے کہ جمہوری حکومت کی بد عنوانی اور بے ایمانی عوامی غصہ سے محفوظ رہے،انتخابات کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ سیاست میں قابل و مخلص اور عوام کے صحیح خیر خواہ افراد کو نہ آنے دیا جائے۔چنانچہ جمہوریت کے بانیوں نے انتخابات کا ایسا طریقہ وضع کیا جس میں ایک سچے اور مخلص شخص کے لئے امیدوار بننا ہی مشکل ہو جائے ،اور اگر وہ اپنی سچائی اور ایمانداری سے سمجھوتہ کرکے امیدوار بن بھی جائے تو اس کا انتخا ب میں کامیاب ہونا تقریباً نا ممکن ہو جائے ،اور اگر وہ اتّفاق سے کامیاب ہو بھی جائے تو اس کے لئے صحیح کام کرنا اتنا مشکل ہو جائے کے اس کے لئے انتخاب میں کامیاب ہونا زندگی کی سب سے بڑی غلطی بن جائے،اس سب کے باوجود اگر اس نے عوام کی بھلائی کی خاطر سب کچھ برداشت کر لیا تو وہ زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک اس عہدے پربر قرار رہ سکتا ہے،پانچ سال کی مدت کے بعد خود بخود اس عہدہِ سیاست کی مدّت ختم ہو جائے گی ، اب اس کو میدان سیاست میں رہنے کے لئے دوبارہ انتخاب لڑنا ہوگا،اگر اس نے ہمت کرکے اور پہلی غلطی کو نظر انداز کرکے دوبارہ الیکشن لڑنے کا ارادہ کر لیا تو پھر اس کے خلاف ایسے ماہر اور چالاک سیاسی فر د کو کھڑا کیا جائے گا جو ایک ہی تقریر میں اس کی پانچ سالہ سچائی اور ایمانداری پر پانی پھیر دے گا، اور دوسری تقریر میں اسے سب سے زیادہ بد عنوان اور رشوت خور شخص ثابت کر دے گا،اور تیسری تقریر میں وہ پورے حلقہ کا ہر دلِ عزیز امیدوار بن جائے گا، اور الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائے گا، اور جس نے پانچ سال تک حلقہ میں ایمانداری اور سچائی سے کام کیا تھا اس کی ضمانت ضبط ہو جائی گی۔ کچھ لوگ جمہوری انتخابات کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ اس سے نظام نہیں بدلتا البتہ حکومت کے ہاتھ بدل جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کہ ہاتھ بھی جوں کے توں باقی رہتے ہیں صرف جمہوری انتخابات کے ڈرامہ میں کردار ادا کرنے والے بدلتے ہیں۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جمہوریت کے بانیوں نے جمہوری سیاست کو اچھے افراد سے پاک رکھنے اور بُرے افراد کو سیاست میں باقی رکھنے اور مضبوط کرنے کے لئے ہر پانچ سال کی مدت میں انتخاب کا جو منصوبہ بنایا تھا اس میں انہیں اب تک پورے طور پر کامیابی ملی ہوئی ہے،چنانچہ پوری دنیا کے جمہوری انتخابات میں وہی پارٹیاں اور افراد کامیابی حاصل کرتے ہیں جو سیاست میں بد عنوانی اور بے ایمانی کو بڑھاوا دینے والے ہوتے ہیں اور اگر کوئی اچھی پارٹی یا فرد انتخاب میں کامیاب ہو بھی جائے تو اسے پانچ سال کے بعد انتخاب میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اگر جمہوریت کے بانیین ہر پانچ سال کی مد ت میں انتخاب کی شرط سیاسی پارٹیوں اور افراد کے ساتھ ساتھ حکومت کے پورے عملہ کے لئے بھی رکھتے تو ہو سکتا ہے حکومت کے معاملات کی کچھ اصلاح ہو جاتی اور عوام کی ناراضگی کے ڈر سے بہت سے بد عنوان افسران اور ملا زمین بد عنوانی سے باز آجاتے یا کم از کم جمہویرت کے بانیوں اور حامیوں کو یہ کہنے کا حق حاصل ہو جاتا کہ جمہوری حکومت کے کام عوام کی رائے سے چلتے ہیں ورنہ ٓج تک کی تاریخ میں تو جمہوریت کے بانیوں اور حامیوں کو یہ کہنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے کہ جمہوری حکومت عوام کی مرضی سے بنتی اور چلتی ہے ،بلکہ جمہوریت کے ماضی و حال سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جمہوری حکومت دنیا کے چند سرمایہ داروں کے اشارہ پر بنتی اور چلتی ہے ،جن میں یہودی پیش پیش ہیں ،اور عوامی اتخابات کا صرف ڈھونگ رچایا جاتا ہے،غرض یہ کہ انسانی تاریخ میں آج تک جتنے خطرناک اور ظالمانہ نظامِ زندگی وجود میں آئے ہیں ان میں سب سے زیادہ خطرناک اور ظالمانہ نظامِ زندگی جمہوریت ہی ہے ،بادشاہت اور کمیونزم کا ظلم و سفّاکی مہوریت کی سفّاکی کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے ،چنانچہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کا ایٹم بم گرانا جس میں کروڑوں بے گناہ لوگ مارے گئے جمہوریت کی ہی بناء پر ممکن ہو سکا،اسی طرح امریکہ کی طرف سے افغانستان اور عراق پر بِلا سبب بمباری جس میں لاکھوں بے گناہ مارے گئے جمہوریت ہی کی بناء پر ممکن ہو سکا اسی طرح مصر کے عوام کی رائے سے منتخب صدر ڈاکٹر مُرسی کو اقتدار سے ہٹا کر جیل میں دالنا جمہوریت ہی سے ممکن ہو سکا ،اگر دنیا میں جمہوری نظام رائج نہ ہوتا تو جمہوریت کے علمبردار اتنا ظلم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے ،یا کم از کم انہیں اَمن کے ٹھیکدار ہونے کا سرٹفکیٹ نہیں ملتا جو انہیں اب ملا ہوا ہے۔لیکن افسوس ہے کہ جمہوری نظام کی اتنی سفّاکی اور نا انصافی دیکھنے کے بعد بھی بہت سے لوگ اسی نظام کی تائید و حمایت کرتے ہیں اور سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض مسلمان اسلام کے ساتھ بھی جمہوریت کا لفظ جوڑدیتے ہیں جبکہ اسلام کے ساتھ جمہوریت کا لفظ جوڑنا یہ اسلام کی توہین ہے،کیو نکہ جمہوریت پورے طور پر اسلام مخالف نظریہ ہے،جمہوریت کی ہر ایک بات اسلام سے ٹکراتی ہے اور اسلام کی ہر بات جمہوریت سے ٹکراتی ہے ،کیونکہ اسلام کی بنیاد حاکمیت رب اور اطاعت خدا اور اطاعت رسول پر ہے۔جبکہ جمہوریت کی بنیاد حاکمیت ناَسْ اور اطاعتِ نفس پر ہے ،یعنی دونوں کا بیج اور دونوں کی جڑیں بالکل الگ الگ ہے،اسلئے جس انسانی معاشرہ میں بھی یہ بیج دالے جائیں گے ان کے پیڑھ بھی الگ الگ ہونگے اور جب پیڑھ الگ الگ ہونگے تو شاخیں بھی الگ الگ ہونگی اور ظاہر ہے دونوں درختوں کے پھل بھی الگ الگ ہونگے ،با لکل اسی طرح کہ بَبُول کے بیج سے ببول کا درخت ہی اُگتا ہے اور آم کے بیج سے آم کا درخت ہی اُگتا ہے اورببول کے درخت کو ببول ہی کی ٹہنیاں اور پھل آتے ہیں اور آم کے درخت کو آم ہی کی ٹہنیاں اور پھل آتے ہیں ۔یہ بات اور ہے کہ نئی نئی ایجادات اور تحقیقات سے درختوں کے درمیان تو کچھ پیوند کاری کی جاسکتی ہے لیکن اسلام اور غیر اسلام میں کوئی پیوند کا ری نہیں کی جاسکتی ،اللہ تعالیٰ نے اسلام اور غیر اسلام کے اس فرق کو قرآن مجید کے سورہ ابراھیم میں کلمہ طیّبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثال سے سمجھایا ۔ویسے جمہوریت ایک ناقص اور بے دلیل نظریہ زندگی ہے اور اسلام ایک کامل اور مدلّل نظریہ زندگی ہے۔ جمہوریت کے ناقص نظریہ زندگی ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ آج بھی جمہوریت کے علمبراداروں کے پاس انسانوں کی انفرادی زندگی سے متعلق رہنمائی کا کوئی دعوی اور نظام نہیں ہے،بلکہ صرف سیاسی اور حکومتی زندگی سے متعلق کچھ دعوے اور جھوٹے اصول و ضابطے ہیں جن کی ناکامی خود جمہوریت کے علمبرادار اپنی آنکھوں سے روزانہ دیکھتے رہتے ہیں ،اور یہ اسلئے ناکام ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جمہوریت کے بانیوں اور علمبرادروں نے کسی انسان کے ایک عضو تَک کو نہیں بنایا اور نہ ان میں اس کی طاقت ہے،اسی طرح انھوں نے زمین کے ایک ذرہِ تک کو نہیں بنایا اور نہ ان میں اس میں اس کی طاقت ہے،ظاہر ہے جو جس چیز کا خالق او موجد نہ ہو وہ اس چیز کی حقیقت ہی نہیں جانتا تو اس کے متعلق وہ رہنمائی کیسے کر سکتا ہے؟اور جو حقیقت کو جانے بغیر رہنمائی کرے اس کی رہنمائی کیسے صحیح ہو سکتی ہے ، چنانچہ آج تک جتنے خطرناک اور ظالمانہ نظامِ زندگی وجود میں آئے ہیں ان میں سب سے زیادہ خطرناک اور ظالمانہ نظامِ زندگی جمہوریت ہی ہے ،نظا مِ جمہوریت دراصل نظام کفر ہے ،جس کی بنیاد اسلام کی مخالفت پر مبنی ہے یہی وجہ ہے کہ جو پارٹیاں او ر افراد جمہوری طریقہ سے اسلام کو سیاست اور حکومت میں لانا چاہتے ہیں وہ پارٹیاں اور افراد بھی جمہوریت کے مخالف گردانے جاتے ہیں۔اسی طرح جمہوریت کا ایک نعرہ اور دعوی اظہارِ رائے کی آزادی ہے،لیکن یہ نعرہ بھی اس وقت تک قابلِ قبول ہے جب تک اظہارِ رائے کی آزادی کا استعمال اسلام کی مخالفت میں ہو،اگر کوئی اظہارِ رائے کی آزادی کا استعمال اسلام کے حق میں کرے گا تو یہ عمل بھی جمہوریت مخالف ہوجائے گا یہی وجہ ہے کہ یوروپ کے بہت سے جمہوری ملکوں میں عورتوں کے برقعہ کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی،کیونکہ وہ اسلام کے ایک حکم کے طور پر برقعہ استعمال کر رہی تھیں۔اسی طرح ہر جمہوری ملک میں اسلام کو بحیثیتِ نطام زندگی کے پیش کرنا اور اس کے لئے جدّو جہد کرنا ،جمہوریت کے خلاف سمجھا جاتا ہے،اور جہاں تک اسلام ہی ایک مکمل اور مدلّل نظامِ زندگی کی بات ہے تو یہ اسلام کا صرف دعوی ہی نہیں بلکہ وہ اس دعوے پرعلمی ،عقلی ، عملی و تاریخی دلیل بھی رکھتا ہے،وہ یہ کہ دین اسلام اُس اللہ کا بنایا ہوا ضابطہِ زند گی ہے جس نے تمام انسانوں کو پیدا کیا اور اس پوری کائنات کو پیدا کیا،لہذا وہی صحیح جان سکتا ہے کہ انسانوں کے لئے کیا ضابطہِ زندگی صحیح ہو،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق مکمل رہنمائی فرمادی اور آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے اُس نظام زندگی کو انسانی معاشرہ میں نافذبھی کیا اور آپ ؐ کی وفات کے تیس (۳۰) سال بعد تک یہ معاشرہ میں مکمل غالب بھی رہا ،البتہ اہل ایمان کی غفلت اور باطل کی سازشوں کی وجہ سے بعد میں مکمل غالب نہیں رہ سکا۔لیکن پھر بھی تاریخ کے ہر دور میں اہل ایمان کی ایک حق پرست جماعت اسلام کو بحیثیت نظامِ زندگی کے غالب کرنے کی جدّو جہد کرتے رہی ہے۔اگرچہ تاریخ کے ہر دور میں اسلام کو سیاسی لحاظ سے غالب کرنے کا کام مشکل سے مشکل تر رہا ہے ،کیونکہ بہت سے مسلم حکمراں بھی اسلام کو سیاسی لحاظ سے غالب نہیں ہونے دینا چاہتے پھر بھی اہل حق ان کی پرواہ کئے بغیر اسلام کو سیاسی لحاظ سے غالب کرنے کا کام کرتے رہے ہیں اگرچہ بہت سے حق پرستوں کو اس راہ میں بڑی بڑی اازمائشوں سے گزرنا پڑا بہت سو کو شہید کر دیا گیا ،بہت سو کو جیل میں ڈال دیا گیا بہت سو کو جِلا وطن کر دیا گیا بہت سوں کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔جبکہ یہی حق پرست اسلام کو اگر صرف عقائد،عبادات ،اخلاقیات کے طور پر پیش کرتے تو باطل حکمراں ان کو کچھ نہیں کرتے بلکہ بڑے بڑے انعامات سے نوازتے ،لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین کے اتنے بڑ ے بڑے مجدّین مفکّرین اورفقہائے اکرام نے آخر کیوں حکمرانوں کی مخالفت اور دشمنی مول لی؟تو اس کا جواب واضح ہے کہ انھوں نے قرآن و حدیث ،سیرت رسول ؐ ،سیرت صحابہ سے جو اسلام سیکھا تھا ،اس میں مکمل نظامِ زندگی کا پیغام تھا اور اس میں اسلام کو مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت سے قبول کرنے کی دعوت تھی ،اور لوگوں کے سامنے بھی مکمل نظامِ زندگی کے حیثیت سے پیش کرنے کی دعوت دی،اور ملک و معاشرے میں مکمل غالب کرنے کی جدو جہد کا حکم تھا ،اور چونکہ نظامِ زندگی کا اہم اور اعلیٰ شعبہ نظامِ حکمرانی ہے اسلئے انہوں نے اس شعبہ میں اسلام کو غالب کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں باطل حکمراں ان کے مخالف اور دشمن ہوگئے ،آج بھی دنیا میں جو اہلحق اسلام کو نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں اور اسلام کو سیاسی شعبہ میں بھی پیش کرنے اور غالب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،آج کے باطل حکمراں بھی انہیں شہید کر رہے ہیں کچھ کو جیلوں میں ڈال رہے ہیں کچھ کو جِلا وطن کر رہے ہیں کچھ کو گھروں میں بند کر رہے ہیں ،اور جس طرح ماضی میں غیر مسلم حکمرانوں کے ساتھ ،مسلم حکمرانوں نے بھی اہل حق کو تکلیفیں دیں،اسی طرح آج کے دور میں بھی اہل حق کو تکلیفیں دینے میں غیر مسلم حکمرانوں کے ساتھ ساتھ مسلم حکمراں بھی شامل ہیں۔بلکہ بہت سے مسلم ممالک میں اہل حق کو تکلیفیں پہونچانے میں غیر مسلم حکمرانوں سے زیادہ مسلم حکمراں پیش پیش ہیں،ان مسلم حکمر ا نوں کے ساتھ ،مُسلم کا لفظ صرف دنیا کے قاعدہ اورتعارف کے پر استعمال کیا جاسکتا ہے ،ورنہ قرآنی و دینی لحا ظ سے یہ مسلم حکمراں ،فاسق ،فاجر ،ظالم ،مشرک ،منافق کی تعریف میں آتے ہیں۔
——