علمِ اشیاء اور علمِ ہدایت میں فرق
مفتی کلیم رحمانی
پوسد (مہاراشٹر)
mob: 09850331536
علم کے سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ایک علم تو وہ ہے جو فطری ذاتی اور پیدائشی ہے جو تمام مخلوقات کو حاصل ہے یہاں تک کہ بے جان مخلوقات کو بھی حاصل ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے قرآن کی ایک آیت کافی ہے۔وَ اِنْ مِّنْ شَیْ ءِِ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمدِ ہِ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ اِنَّہُ کَانَ حَلِیْماً غَفوُراً(نبی اسرائیل آیت ۴۴) ترجمہ :اور نہیں کوئی بھی چیز مگر یہ کہ وہ اُس کی حمد کرتی ہے لیکن تم سمجھ نہیں سکتے بیشک وہ یعنی اللہ بڑا بُردبار بخشنے والا ہے ۔
سورہ زِلزال میں زمین کی گواہی کا ذکر ہے چنانچہ اللہ نے فرمایا ،یَوْمَءِذِِ تُحَدِّث اَخْبَارَھاَ۔یعنی اُس دن زمین اپنی خبریں بیان کریگی۔ ظاہر ہے زمیں ہماری نظروں میں بے جان چیز شمار ہوتی ہے ،لیکن جب وہ خبریں بیان کرے گی تو گویا اسمیں خبریں محفوظ رکھنے کی صلاحیت بھی ہے اور یہ دونوں ہی صلاحتیں اس کے علم کو ظاہر کرتی ہے، اسی طرح سورہ بقرہ کی ایک آیت ۷۴ میں پتھروں کے اللہ کے ڈر سے گرنے کا تذکرہ ہے ،جبکہ پتھر بھی ہماری نظر میں بے جان مخلوق شمار ہوتے ہیں ،لیکن جب وہ اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں تو اس سے ان کے علم و شعور کا بھی پتہ چلتا ہے۔جہاں تک انسانوں کے علاوہ دوسری جاندار مخلوقات کے ذاتی و پیدائشی علم کی بات ہے تو ہر انسان اس کا مشاہدہ کر سکتا ،ہے ،بلکہ بعض حیثیتوں سے انسانوں کے ذاتی و پیدائشی علم سے جانوروں کا ذاتی و پیدائشی علم زیادہ ترقی یافتہ ہے،چنانچہ سورہ مائدہ کے چھٹے رکوع میں حضرت آدم علیہ سلا م کے دو بیٹوں کا تذکرہ ہے جن کے نام مورخین نے ہابیل اور قابیل لکھے ۔دونوں نے قربانی پیش کی تو ہابیل کی قربانی قبول ہوئی اور قابیل کی قبول نہیں ہوئی تو قابیل نے ہابیل کو ناحق قتل کر ڈالا اور ہابیل کی نعش کو ٹھکانہ لگانے سے متعلق سوچنے لگا لیکن کوئی تدبیر اس کو سجھائی نہیں دی۔ایسا لگتا ہے کہ یہ پہلی انسانی موت تھی اور ابھی انسان کو زمین میں گڑھا کرنے کا علم حاصل نہیں ہوا تھا یا اس کی طرف توجہ نہیں ہوئی تھی۔تو اللہ تعالیٰ نے ایک کوّے کو بھیجا ،کوے نے قابیل کے سامنے اپنے پیر کے پنجوں سے زمین میں گڑھا کیا اور ایک مرے ہوئے کوّے کو اپنی چونچ سے پکڑ کر اس گڑھے میں ڈال دیا ۔قابیل نے اپنی آنکھوں سے جب یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا قاَلَ یٰوَیْلَتیٰ اَنْ اَکُوْنَ مَثْلَ ھٰذَا الْغُرَابِ۔ہائے افسوس میرے لئے کہ میں کوّے سے بھی گیا گزرا ہوگیا ۔اس بات سے یہ بات واضح ہوئی کہ انسان کو زمین میں گڑھا کرنے کا علم اللہ تعالیٰ نے ایک کوّے کے ذریعے سکھایا ۔اسی طرح دنیا کے تمام پرندوں کو پیدائشی طور پر ہوا میں اڑنے کا علم اور صلاحیت حاصل ہے،جبکہ انسان نے ہزاروں سال گزرنے کے بعد ہوائی جہاز کے ذریعے ہوا میں سفر کرنے کا علم اور اس کی صلاحیت حاصل کی۔
جس طرح سے تمام جانوروں اور پرندوں کی تمام ضروریات زندگی کا علم اللہ تعالیٰ نے ان کی پیدائشی فطرت میں رکھ دیا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی تمام ضروریاتِ زندگی کا علم ان کی پیدائشی فطرت میں رکھ دیا اور یہ بات سورہ بقرہ کے چوتھے رکوع کی ایک آیت میں مذکور ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وَ عَلّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآء کُلَّھَا ۔‘‘یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو تمام ناموں یعنی تمام چیزوں کا علم دے دیا ۔اس سے مراد ضروریاتِ زندگی کی وہ تمام چیزوں کا علم ہے جو اب تک ایجاد ہوئیں اور قیامت تک ایجاد ہونگی ،چنانچہ یہ صلاحیت حضرت آدم ؑ کے ذریعے ان کی اولاد میں پیدائشی طور پر وقت و حالات کے لحاظ سے منتقل ہو رہی ہیں۔
لیکن چونکہ انسانوں کی پیدائش کااصل مقصد بندگی رب ہے اسلئے اللہ تعالیٰ نے ضروریاتِ بندگی کا علم بھی دیا مگر وہ پیدائشی طور پر نہیں دیا بلکہ وحی کے ذریعے اپنے رسولوں اور نبیوں پر نازل کیا اس علم کو قرآنی لحاظ سے علم ہدایت کہا جاتا ہے۔اور سورہ بقرہ کے چوتھے رکوع کے اخیر میں حضرت آدم ؑ اور ان کی بیوی کو خطاب کرکے اللہ تعالیٰ نے اسی علم ہدایت کے بھیجے جانے کی خبر دی تھی اور پیروی کی صورت میں ڈر اور غم سے نجات کی بشارت دی تھی ۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے ۔قُلْنا اَھبِطُو امِنْھَا جَمیِعاً فَاَِ ماّ یاْ تِیَنّکُمْ مِنّی ھُداً فَمَنْ تَبِعَ ھُداَ یَ فَلاَ خَوف’‘ عَلَیھیمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُونَ۔(بقرہ آیت ۳۸)ترجمہ:ہم نے کہا تم سب یہاں سے اُتر جاؤ پس
جب جب بھی میری جانب سے تم کو ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری ھدایت کی پیروی کرے گا، اُن پر نہ کوئی ڈر ہونگا اور نہ وہ غم میں ہونگے۔چونکہ اس خطاب میں جمع کاصیغہ ہے اس لئے اس میں ایک طرح سے تمام ہی بنی آدم شامل ہے ،اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہدایت کا علم اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدائشی طور پر نہیں دیا بلکہ نبیوں اور رسولوں کو کتابوں اور صحیفوں کے ذریعہ دیا،پھر انہوں نے اس علم ہدایت کو انسانوں تک پہنچایا ۔اور اس علم ہدایت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سورہ بقرہ کے اسی چوتھے رکوع کے شروع میں حضرت آدم ؑ کو تمام چیزوں کا علم دئے جانے کا تذکرہ ہے لیکن اس سے مراد علم الاشیاء ہے اور یہ حضرت آدم ؑ سے تمام انسانوں کا پیدائشی تعلق ہونے کی بناء پر ہر انسان کو حاصل ہے کسی کو کم کسی کو زیادہ مگر دنیا میں گمراہی سے بچنے اور آخرت کی نجات کے لئے ئی پیدائشی علم کافی نہیں ہے۔بلکہ اس کے لئے علم ہدایت سے واقفیت ضروری ہے۔مطلب یہ کہ انسان علم اشیاء کی بنیاد پر صرف جسمانی وجود کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے،روحانی وجود کے ساتھ زندگی گذارنے کے لئے علم ہدایت ضروری ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف علم الاشیاء کی بناء پر انسان اپنے ازلی دشمن ابلیس کے مکر و فریب سے نہیں بچ سکتا ،جس طرح تما م انسانوں کے باپ حضرت آدمؑ تمام چیزوں کے علم کے باوجود جنت میں شیطان کے مکر و فریب سے نہیں بچ سکے اور شیطان نے بڑی آسانی کے ساتھ حضرت آدم کو ھَل اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکِِ لاَّیَبْلٰی کہہ کر بہکا دیا یعنی شیطان نے کہا کیا میں تمہیں جنّت میں ہمیشہ رکھنے والا درخت اور کبھی نہ ختم ہونے والی بادشاہت بتاؤں۔چونکہ حضرت آدم ؑ کو علم ہدایت آسمان پر نہیں دیا گیا تھا بلکہ زمین پر دیا گیا اسلئے حضرت آدمؑ بڑی آسانی کے ساتھ شیطان کے بہکاوے میں آگئے ،اگرچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو ضرور اس حکم کے ساتھ جنت میں داخل کیا تھا کہ اس درخت کے قریب بھی مت جاناورنہ تم ظالموں میں ہو جاؤ گے،لیکن بہت بڑا فرق ہے کسی چیز کا حکم دینے میں اور کسی چیز کی ہدایت دینے میں ۔اور ایسا لگتا ہے کہ حضرت آدم ؑ سے یہ واقعہ اسلئے صادر فرمایا گیا تاکہ تمام آدمیوں کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ جس طرح تمہارے باپ آدم ؑ علم الا شیاء کی بنا ء پر جنت میں بھی شیطان کے بہکاوے سے نہیں بچ سکے تو تم زمین پر صرف علم الا اشیا ء کی بناء پر شیطان کے بہکاوے سے کیسے بچ سکو گے۔
یہاں علم اشیاء اور علم ہدایت کی بحث اسلئے پیش کردی گئی کیونکہ اس وقت دنیا علمِ اشیاء کی ترقی کے باوجود علمِ ہدایت کے زوال سے گزر ہی ہے ،اور ستم ظریفی یہ کہ علمِ ہدایت کو علم کے دائرہ سے ہی خارج کر دیا گیا ہے،اور اسکے مضر اثرات مسلمانوں پر بھی پڑے ہوئے ہیں ۔اسلئے آ ج کے دور کے اہلِ ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم کے سلسلہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے علم صحیح حقیقت اور مقصد کو واضح کرے اور یہ بات بھی واضح کردے کہ چیزوں کا علم تو فرضِ کفاریہ کے درجہ میں آتا ہے،لیکن ہدایت کا علم فرض عین کے درجہ میں آتا ہے،ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کر دے کہ چیزوں کا فائدہ بھی انسانوں کو اسی وقت پہنچتا ہے جبکہ یہ چیزیں علمِ ہدایت کے مطابق استعمال ہوں،چنانچہ آج دنیا کی چیزیں اور نئی نئی ایجادات علم ہدایت سے آزاد ہو چکی ہیں تو اسے انسانوں کو نقصان ہی پہنچ رہا ہے۔مثلاً اس وقت دنیا کی حکومتیں علمِ ہدایت سے آزاد ہیں تو ان حکومتوں سے انسانوں کو نقصان ہی پہنچ رہا ہے۔چنانچہ اس وقت دنیا میں جو فساد اور نا حق خون خرابہ ہے اس کا بنیادی سبب حکمرانی کے میدان میں اللہ کی بھیجی ہدایت کو نظر انداز کر دینا ہے،اسلئے آج کے دور کے علماء اور اہل ایمان کی یہ اوّلین ذمہّ داری ہے کہ وہ دنیا کی چیزوں کو علم ہدایت کے تابع کرنے کی بھر پور کوشش کرے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ذمہ دای اسی وقت صحیح ادا کی جاسکتی ہے جبکہ پیش کرنے والوں کی زندگیاں علم ہدایت کے تابع ہوں گی،علم ہدایت کا اصل سر چشمہ قرآن اور حدیث ہے،اسلئے قرآن و حدیث کے علم کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے،تاکہ انسانوں کی زندگیوں میں پھیلا ہُوا کفر ذرا سمٹے، اسلئے یہ فطری بات ہے کہ جو چیز زیادہ پھیلتی ہے اس کی مخالف چیزاتنی ہی زیادہ سمٹتی ہے۔چونکہ آج ہم نے قرآن و حدیث کو عام کرنے کرنے کی کوشش کم کردی تو معاشرہ میں کفر پھیل گیا ویسے بھی قرآن و حدیث کا علم زندگی بھر سیکھنے اور سیکھانے کا علم ہے۔کیونکہ زندگی میں اسلام و ایمان کو زندہ رکھنے کے لئے اس کے علم کو زندہ اور تازہ رکھنے کی ضرورت ہے،جس طرح انسانی جسم کی صحت اور تندرستی کے لئے روزانہ کھانا پانی اور ہوا کی ضرورت ہے اس سے کہیں زیادہ ایمانی صحت
اور تندرستی کے لئے روزانہ قرآن و حدیث کے علم کی غذا لینا ضروری ہے۔اور جس طرح سے گذرے ہوئے کل کا کھانا پانی آج کے دن کی جسمانی صحت اور تندرستی کے لئے کافی نہیں ہو سکتا ،اسی طرح سے گذرے ہوئے کل کا قرآن و حدیث کا علم آج کے دن کی ایمانی صحت و تندرستی کے لئے کا فی نہیں ہو سکتا ،چنانچہ اسی ایمانی صحت اور تندرستی کو زندگی میں باقی رکھنے اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر روزانہ پانچ نمازیں فرض کی ہیں،جن میں قرآن کی قرات کے ذریعہ قرآن کے علم سے واقفیت کو خصوصی طور پر رکھا ،ساتھ ہی ثنا اور نماز کی تکبیرات ،تسبیحا ،تشّھد ،درود شریف ،دُعائے ماثورہ ،دُعائے قنوت کو نماز کا حصہ قرار دیکر آنحضور ﷺ کی زندگی کی اتباع کی دعوت کو شامل کر دیا۔اور ہر نماز سے پہلے اذان کو رکھ کر اسلام کی عمومی دعوت اور غلبہ اسلام کے پیغام کو رکھ دیا لیکن چونکہ مسلمانوں کی زبان عربی نہیں ہونے کی وجہ سے اذان و نماز کے عمل میں جو روزانہ کی ھدایت کا نظم کیا گیا ہے ۔اذان اور نماز کے پیغام کو نہیں جاننے کی وجہ سے نماز پڑھنے کے بعد بھی نماز سے ہدایت کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی ہے.
اسلئے علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی اذان و نماز کے پیغام کو قرآن و حدیث کی روشنی میں روزانہ سمجھیں اور روزانہ مسلمانوں کو سمجھائیں،تب ہی اذان اور نماز سے ہدایت کی ضرورت پوری ہو سکے گی۔مطلب یہ کہ فی الحال بہت سے نماز پرھنے والوں کا اپنی نمازوں سے علمی تعلق پیدا نہیں ہُوا ،اور جب علمی تعلق پیدا نہیں ہوا تو عملی تعلق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن و حدیث کے علم کی تحریک چلائی جائے تاکہ اس کے نتیجہ میں عمل کی تحریک وجود میں آئے ۔