مجتبیٰ حسین ایک عالی مرتبت مزاح نگار
جے ایس افتخار – روزنامہ ’’ہندو‘‘
مترجم: .ڈاکٹر محی الدین حبیبی
قارئین! روزنامہ ہندو سے وابستہ مشہور صحافی جناب جے ایس افتخار سے آپ واقف تو ہوں گے ہی کہ وہ گذشتہ دو دہوں سے زائد عرصہ سے اس ممتاز سیکولر انگریزی اخبار سے وابستہ ہیں، لیکن میں انہیں صحافی سے زیادہ انشائیہ نگار تسلیم کرتا ہوں۔ اس مقولہ کی بنیاد پر کہ ’’انشاء‘‘ خبر سے افضل ہوتا ہے، چنانچہ افتخار صاحب کی رپورٹنگ میں بھی انشاء پردازی زیادہ ہوتی ہے اور اسی میں ہمیں خبروں کو ڈھونڈ لینا پڑتا ہے۔
مجتبیٰ حسین صاحب پر افتخار صاحب کا یہ مضمون اتفاقاً یکم اپریل کو ’’ہندو‘‘ کے صفحہ ۲ پر شائع ہوا تو ہم نے پہلے ’’اپریل فول‘‘ کے اعتبارات کے پیش نظر یقین نہیں کیا کہ کیا انگریزی صحافت بھی اردو طنز و مزاح میں بھی تاک جھانک کرسکتی ہے؟ لیکن چونکہ یہ ’’دی ہندو‘‘ جیسے معتبر اور مستند اخبار کا معاملہ تھا، اس لیے چند ہی ثانیوں میں ہماری بدگمانی دور ہوگئی۔ جب ہم ایک دو کالمی ’’گوشہ مجتبیٰ‘‘ کو غور سے پڑھنے لگے، جس کو ’’روئے مجتبیٰ‘‘ سے بھی سنوارا گیا تھا۔
افتخار صاحب نے بڑے ہی دانشورانہ انداز میں مضمون کا آغاز کچھ اس طرح کیا ہے: ایک قہقہہ دو لوگوں کے درمیان فاصلہ کو نہایت مختصر کردیتا ہے، لیکن یہاں تو صورتِ حال ایں جاں رسید کہ تمام برصغیر ان قہقہوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے، بلکہ عالمی سطح پر جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے یہ فاصلے کم کرتے نظر آتے ہیں، حالانکہ اس سحر بیاں مزاح نگار کے نام اور کام کی پہچان کے لیے کوئی انعام و اکرام مقرر نہیں ہوتا، پھر بھی جہاں کہیں اردو اور مزاح نگاری کی بات ہوتی ہے تو بس مجتبیٰ حسین ہی کا نام لیا جاتا ہے۔
پدم شری خطاب یافتہ یہ قلم کار، گذشتہ نصف صدی سے اپنی تحریری سرگرمیاں ادب کی ایسی صنف کے استحکام کے لیے صرف کررہا ہے جو رفتہ رفتہ کم کم ہوتی جارہی ہے، جسے عرفِ عام میں ’’طنز و مزاح‘‘ کہا جاتا ہے۔
مجتبیٰ حسین کی تحریریں بہ یک وقت ظاہر و باطن کے دروازے کھول دیتی ہیں تو نتیجتاً جہاں ادبی گوہرباری دیکھنے میں آتی ہے تو وہیں روحانی ارتقاء کے جلوے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
عمر کے ۷۷ سال میں وہ ’’چست‘‘ تو نہیں مگر ’’درست‘‘ ضرور لگتے ہیں۔ یہ حیدرآبادی مزاح نگار اب بھی تحسین و تعریف کے جلو میں خاموش نہیں بیٹھتا ہے، بلکہ ہر ہفتہ اپنی بذلہ سنجی کی تیز و تند تحریروں کے ذریعہ اپنے چاہنے والوں کے حلقہ کو وسیع کرتا ہی چلا جاتا ہے۔
حال ہی میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز نئی دہلی کی جانب سے دو کتابیں منظر عام پر آئی ہیں، جن میں اس شہرۂ آفاق مزاح نگار کے تعلق سے بلند پایہ اور نامور نقادوں کی گرانقدر آراء شامل ہیں۔ کتاب ’’مجتبیٰ حسین جیسا دیکھا ویسا پایا‘‘ ان کی شخصیت کو اُجاگر کرتی ہے، جب کہ ’’مجتبیٰ حسین آئینوں کے بیچ‘‘ ان کے فن اور اسلوب کی آئینہ دار ہے۔
ایک ایسے وقت جب کہ اردو زبان کو پڑھنے والے کم رہ گئے ہیں، مجتبیٰ حسین نے اس زبان میں اپنی طنز و مزاح کی تحریروں کے ذریعہ جان ڈال دی ہے، چنانچہ کئی لوگوں نے محض ان کی تحریروں کو پڑھنے کی خاطر اردو کو سیکھا ہے۔ اب تک کئی اسکالرس نے ان پر تحقیقی کام کیا ہے اور ابھی کئی اسکالرس ان پر Ph.d کرنے کے لیے منتظر ہیں۔ ان کی پائیدار تحریروں کی گونج خود ان کے بے مثال طرز مزاح کی علامت بن گئی ہے، جو اردو زبان کے لیے بھی ایک خراج آگیں وصف ہے۔
نامور قلمکار اور صحافی خشونت سنگھ جو مجتبیٰ حسین کے دیوانہ وار شیدائی کہلائے جاتے ہیں، مجتبیٰ صاحب کو ہندوستان کے چند گنے چنے مزاح نگاروں میں شمار کرتے ہیں۔
پاکستانی مصنف سید عارف حسینی نے مجتبیٰ حسین کو ’’دانش و مزاح کا ایک خزینہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اپنے میدان میں وہ اس لیے غیرمعمولی طور پر کامیاب ہیں کہ ان کے ہاں زبان کی سادگی ہے، اسلوب میں روانی ہے اور موضوعات میں نقص نہیں پایا جاتا۔ یقین کے ساتھ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجتبیٰ حسین کا مزاح صحت مند اور راست گوئی کی بنیادوں پر قائم ہے۔ پاکستان کے نامور نقاد محمد علی صدیق یوں کہتے ہیں: ’’مجتبیٰ کسی کا دل دکھائے بغیر مزاح پیدا کرلیتے ہیں۔ وہ بڑے خوددار ہیں اور اپنے فن کی استعداد کے بل بوتے پر اپنی آب و تاب کو پہچاننے کا شعور رکھتے ہیں۔‘‘
چنانچہ انہوں نے کبھی بھی جہاں تک زبان و بیان کا تعلق ہے ’’معائب‘‘ سے سمجھوتہ نہیں کیا، بلکہ حتی الامکان محاسن کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ ان کی سادہ بیانی ، ادبی چاشنی کے ساتھ ایک تازہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کا احساس دلاتی ہے۔
ان کی صاحبزادی رشیدہ صمدانی کہتی ہیں: ’’ان کا مزاح کئی تلخ سچائیوں کا مظہر ہے، جس کا ادراک کوئی صاحبِ صدق و صفا ہی کرسکتا ہے۔ جس کسی نے بھی ان کی داستان ’’اپنی یاد میں‘‘ پڑھی ہوگی وہ اس حقیقت سے خوب آگاہ ہوگا (اپنی یاد میں دراصل مجتبیٰ حسین صاحب کا ایک ’’خود وفاتیہ‘‘ ہے جو ’’ہنس‘‘ کے مدیر راجندر یادو کی خواہش پر لکھا گیا تھا، جس میں بلند پایہ اہل قلم جیسے انتظار حسین وغیرہ نے اپنی حسرتوں اور ناکامیوں کی دلخراش داستانوں کو قلمبند کیا تھا۔ مترجم)
مذکورہ بالا دونوں کتابوں (’’مجتبیٰ حسین جیسا دیکھا جیسا پایا‘‘ اور ’’مجتبیٰ حسین آئینوں کے بیچ‘‘) مجتبیٰ صاحب کی شخصیت کے کئی پہلوؤں کی رونمائی کرتی ہیں اور یہ پہلو ان کی حقیقی زندگی سے بھی متعلق بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی حاضرجوابی، لطیف ذہانت اور ضوفشاں مزاح کا بھی ان کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے۔
دیکھئے کس خوبی کے ساتھ افتخار صاحب اپنے مضمون کا اختتام کرتے ہیں۔ ’’انسان اپنی پیدائش ہی سے رونا جانتا ہے اور ہنسنے کے لیے اسے کچھ سیکھنا پڑتا ہے، لیکن مجتبیٰ حسین کی حیات بخش مزاح کی موجودگی میں یقیناًاس منزل سے بھی ہم گزر جائیں گے۔‘‘
بہ شکریہ ’’دی ہندو‘‘ مورخہ یکم اپریل ۲۰۱۳ء صفحہ ۲
—–