قسط: 23 (آخری قسط) – علم اور قرآن میں تعلق :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 23 (آخری قسط)
علم اور قرآن میں تعلق

مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت کی 22 ویں قسط کے لیے کلک کریں

علم اور قرآن میں وہی تعلق ہے جو لفظ اللہ اور رب میں ہے ۔ یعنی جس طرح اللہ اور رب ایک ہی ذات کے دو نام ہیں ۔ اسی طرح قرآن اور علم ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔ فرق صرف ذاتی اور صفاتی نام کا ہے ۔ وہ یہ کہ قرآن اللہ کی آخری کتاب کا ذاتی نام ہے اور علم اس کا صفاتی نام ہے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح اللہ اس ہستی کا ذاتی نام ہے جس نے کائنات کو پیدا کیا اور رب اس ہستی کا صفاتی نام ہے ۔

یوں تو قرآن کی کئی آیات میں علم کا لفظ قرآن کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن یہاں صرف دو آیات پیش کی جا رہی ہیں جن میں علم کا لفظ قرآن کیلئے استعمال ہوا ہے ۔ فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَاجَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآ ءَ نَا وَاَبْنَآ ءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ. (سورہ آل عمران آیت ۶۱) ترجمہ :۔ پس اگر آپ سے یہ حجت کرے باوجود یہ کہ آپ کے پاس علم آگیا پس کہہ دیجئے آؤ ہم بلائیں ہمارے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو اور ہم ہماری عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے آپ کو اور تم اپنے آپ کو ۔پھر ہم مباہلہ کریں پس ہم لعنت بھیجے اللہ کی جھوٹوں پر ۔
مذکورہ آیت نجران کے عیسائیوں کے ایک وفد کے سلسلے میں نازل ہوئی جنھوں نے حضرت عیسی ؑ کے متعلق آپ ؐ سے بحث و مباحثہ کیا تو ان کے سامنے مباہلہ کی یہ صورت رکھی گئی ۔ اس آیت میں علم کا لفظ براہِ راست قرآن مجید کے لیے استعمال ہوا ہے اس لیے کہ آپ کے پاس اللہ کی طرف سے قرآن ہی آیا تھا ۔ اسی طرح ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا : قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَالْھُدٰی وَلَءِنِ اتَّبَعَتَ اَھْوَآءَ ھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ۔(سورہ بقرہ آیت ۱۲۰)
ترجمہ:۔ کہہ دیجئے (اے محمد ﷺ ) بیشک اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اگر آپ ان کی خواہشات کی اتباع کریں باوجود یہ کہ آپ کے پاس علم آگیا تو اللہ کے علاوہ نہ آپ کا کوئی دوست ہوگا اور نہ مددگار۔
مذکورہ آیت میں بھی علم کا لفظ قرآن کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ اس لیے کہ آپ کے پاس اللہ کی طرف سے قرآن ہی آیا تھا ۔ اسی طرح ایک حدیث میں بھی علم کا لفظ براہِ راست قرآن کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ چنانچہ فرمانِ رسولﷺ ہے : عَنْ زِیَادِ بْنِ لَبِیدٍؓ قَالَ ذَکَرَ النَّبِیُّ صَلَیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْءًافَقَالَ ذَاکَ عِنْدَ اَوَانِ ذَھَابِ الْعِلَم قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِﷺکَیْفَ یَذْھَبُ العِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ القُراٰنَ وَ نَقْرِءُہُ اَبْنَآءَ یقْرِٗواُ ءَ اَبْنَآاَہُمْ اِلیٰ یَوْمِ القِیٰمۃِ . (احمد ابن ماجہ ، ترمذی،مشکوٰۃ)ترجمہ : (حضرت زیاد بن لبیدؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کسی فتنہ کا ذکر فرمایا، اور آپﷺ نے فرمایا یہ فتنہ علم کے اُٹھ جانے کے بعد رونما ہوگا ٗ راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول علم کیسے اُٹھ جائے گا؟ جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں، اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنے بیٹوں کو پڑھائیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرامؓ علم سے مراد قرآن ہی لیتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی ﷺ نے فرمایا کہ وہ فتنہ علم کے چلے جانے کے بعد ظاہر ہوگا تو صحابئ رسول حضرت زیاد بن لبیدؓ نے جواب دیا : کہ علم کیسے چلا جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں ۔
لفظ علم کا قرآن کا صفاتی نام ہونے سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ آنحضور ﷺ نے جہاں کہیں بھی احادیث میں علم اور عالم کی اہمیت و فضیلت بیان فرمائی اس سے مراد قرآن اور قرآن کا جاننے والا ہی ہے ۔ چنانچہ جس حدیث میں علم کو تمام مسلمانوں کیلئے فرض قرار دیاگیا ہے اس حدیث میں بھی علم سے مراد قرآن ہی ہے ۔ چنانچہ حدیث رسول ﷺہے :طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃ’‘ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ (الحدیث)مطلب یہ کہ قرآن کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
ساتھ ہی لفظ علم کا قرآن کا صفاتی نام ہونے سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ ہر مسلمان کے لیے قرآن کا سمجھنا ضروری ہے کیونکہ علم کے معنی جاننے اور واقفیت کے ہیں۔
اتباع رسول ؐاور اتباع صحابہؓ کی تعریف سے بھی ہر مسلمان کیلئے قرآن فہمی کا لازمی ہونا واضح ہوتا ہے اس لئے کہ اتباع رسولؐ اور اتباع صحابہؓ کی تعریف یہی ہے کہ حضور ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے دین کا جو کام جیسے کیا ویسے کیا جائے ،تو یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حضور ﷺ نے اور صحابہ کرامؓ نے قرآن کی ایک آیت بھی نہ بغیر سمجھ کے پڑھی اور نہ بغیر سمجھ کے سنی ۔ اس لیے اب ضروری ہوجاتا ہے کہ ہر مسلمان قرآن کو سمجھ کر پڑھے اور سنے تبھی ان کا پڑھنا اور سننا اِتباع رسولؐ اور اِتباع صحابہؓ کے تعریف میں آ سکتا ہے ۔ قرآن کے پڑھنے اور سننے کے سلسلے میں اتباع رسول ؐ اور اتباعِ صحابہؓ کے تین درجے ہو سکتے ہیں۔ پہلا درجہ تو یہ ہے کہ قرآن کی زبان سے واقفیت حاصل کی جائے ، دوسرا درجہ یہ ہے کہ ہماری زبان میں قرآن کے جو ترجمے کئے گئے ہیں ان ترجموں کے ساتھ ہم قرآن مجید پڑھیں ۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر ہم کو ہماری زبان بھی پڑھنا نہیں آتی ، تو ہماری زبان میں جو ترجمے کئے گئے ہیں ان ترجموں کو ہم کسی سے پڑھوا کر سنیں دین کے اعمال پر اجرو ثواب کی شرعی لحاظ سے جو شرط ہے اس شرط سے بھی قرآن فہمی کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے ۔ اور وہ شرط یہ ہے کہ دین کے اسی عمل پر اجر وثواب ملتا ہے جو نبی ﷺ کے طریقے کے مطابق ہو، تو اب ظاہر ہے کہ قرآ ن مجید کے پڑھنے اور سننے کے سلسلے میں آنحضور ﷺ کا طریقہ سمجھ کر پڑھنے اور سننے کا تھااور ہماراپڑھنا اور سننا بھی اسی وقت نبی ﷺ کے طریقے کے مطابق ہو گا جب کہ ہم قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھیں گے اور سمجھ کر سنیں گے۔

Share
Share
Share