شعری مجموعہ
ناگفتہ بہ (طنز و مزاح)
شاعر:چچا پالمپوری ،محبوب نگر
موبائل: 09966703320
مبصر:ڈاکٹرعزیز سہیل
محبوب نگر
بیسوی صدی میں طنز ومزاح کو خوب مقبولیت حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں طنزومزاح کی کئی کتابیں بھی منظرعام پرآئیں ۔جن میں شعری اور نثری مجموعہ شامل ہیں، مزاحیہ شعراء نے طنزومزاحیہ شاعری کے ذریعہ خوب داد وتحسین حاصل کی۔ جن میں دکن سے قابل ذکراعجاز حسین کھٹا،سرور ڈنڈا،سلیمان خطیب ‘ گلی نلگنڈوی ،حمایت اللہ ،پاگل عادل آبادی،غوث خواہ مخواہ،شمشیر کوڑنگلی کے نام قابل ذکر ہیں۔
زندہ دلان حیدرآباد نے بھی دکن میں طنز ومزاح کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دی ہے جس کے تحت آج بھی طنز ومزاح کی محفلوں کا انعقاد،ماہنامہ شگوفہ کی اشاعت ادب میں طنز ومزاح کے فروغ کا باعث ہے- اکیسوی صدی میں اردوادب میں کئی ایک تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور جدید رحجانات فروغ پائے ہیں۔ خصوصی طورپرنسل نو جو ادب میں طنز ومزاح سے بہت زیادہ متاثر ہے، جب مزاحیہ شاعری کی بات آتی ہے تو لوگ مشاعرہ سننے کے لئے بھاگے چلے آتے ہیں۔ جس مشاعرہ میں بھی ممتاز مزاحیہ شعراء کے نام شامل ہوتے ہیں دیکھایہ جارہا ہے کہ لوگوں کابھاری مجموعہ ان مشاعروں میں شریک ہے۔ عصری ٹکنالوجی کے اس دورمیں لوگوں کی توجہ شاعری وادب سے ہٹ کر موبائیل فونس اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پرمرکوز ہوچکی ہے۔ لہذا سنجیدہ مشاعروں کی جب بات سامنے آتی ہے تو لوگ بہت کم ہی ان مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ کل ہند سنجیدہ مشاعروں میں بھی افراد کا بھاری مجموعہ نظر ضرور آتا ہے،بہر حال سنجیدہ شاعری کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں ۔ آج کل ٹی وی شوز میں بھی طنزومزاح کا سہارا لیاجارہا ہے جس کی بناء پر ٹی وی شوز بھی کافی مقبولیت حاصل کررہے ہیں ۔ طنز ومزاح کی شاعر ی میں تلنگانہ کے ضلع محبوب نگرکی سرزمین سے تعلق رکھنے والے مزاحیہ شاعرکوادبی دنیا چچا پالموری کے نام سے جانتی ہے۔ چچا پالموری حالیہ عرصہ میں حکومت کے محکمہ وٹرینر ی میں اپنی خدمت انجام دے کرسبکدوش ہوئے ہیں اور اب شاعری کو اپنی مصروفیت کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ چچا پالموری نے بہت ہی کم وقت میں قومی سطح کی مقبولیت حاصل کرلی ہے جنوبی ہند میں جب مزاحیہ شعراء کی ذکر آتا ہے تو ان شعراء میں چچا پالموری کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔ چچا پالموری کا شعری انداز بہت ہی منفرداورلاجواب ہے ۔ وہ اپنی شاعری سے لوگوں کی زندگیوں میں خوشیاں بکھیرنے کا کام بڑے سلیقے سے انجام دیتے ہیں۔آج کی ا س مصروف ترین زندگی میں خوشیوں کاحاصل ہونا بھی ایک عظیم تحفہ ہے۔ چچاپالموری اپنی مزاحیہ شاعری سے لوگوں کو ہنسی کا تحفہ عنایت کرتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب’’ناگفتہ بہ‘‘چچا پالموری کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔چچا نے اپنے شعری مجموعہ کے لئے منفرد نام کو منتخب کیا ہے ۔ ناگفتہ بہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی نا قابل بیان یا وہ بات جو نہایت ہی خراب ہو کے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کے عنوان شعری کی مناسبت سے رکھا گیا ہے بہر حال اس متعلق شاعر ہی زیادہ بہتر طور پر بیان کر پائے گا ہم نے تو سمجھا تھا کہ وہ اپنی بات میں اس متعلق کچھ کہا ہوگا مگر انہوں نے قارئین اور اپنی شاعری کے درمیان اپنی بات کوحائل ہونے ہی نہیں دیا۔ اس کتاب کا انتساب چچا نے اپنے فرزند وں اور صاحبزادیوں کے نام معنون کیا ہے۔ اس کتاب میں باقاعدہ طورپر تو پیش لفظ اور تقریظ شامل نہیں ہیں لیکن ڈاکٹرسید مصطفی کمال مدیر ماہنامہ شگوفہ حیدرآباد ‘ پروفیسر قطب سرشار اور ممتاز شاعر ظہیر ناصری کی آراء کوبڑے اختصار سے شامل کیاگیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ڈاکٹرسیدمصطفی کمال مدیر شوفہ زندہ دلان حیدرآباد نے چچا کی شاعری کے متعلق لکھا ہے کہ ’’چچا پالموری ایک عرصہ سے شعر کہہ رہے ہیں ۔ابتداء میں سنجیدہ شعر لکھتے رہے ۔معاشرہ کی بدحالی‘ کج روی ، بے اعتدالی، مفاد پرستی، اقربا پروری، اور مضحک حرکات نے ان کے سمندِ فکر کی باک کو موڑ دیا۔ حالات کی تلخی وتندی کو اظہار کی شیریں میں گھول کروہ اپنی دل کی بات طنز ومزاح کے پیرایہ میں کہنے لگے۔ کبھی سلیس زبان کے استعمال کی اور کبھی اپنے ماحول میں استعمال ہونے والی خاص دکنی بولی۔محض ہنسنا ہنسانہ ان کا مقصد ہے نہ منصب ،ان کے اشعار غور و فکر اور گہرے مشاہد ے کے غماز ہیں۔‘‘
کتاب میں جن مشاہیر ادب کی آراء شامل ہیں ان میں ایک نام پروفیسر قطب سرشارکا بھی ہے انہوں نے ؔ چچا پالموری کی شخصیت اور شاعری سے متعلق لکھا ہے کہ’’ چچا کی شخصیت بھی ان کی شاعری جیسی ہے جس میں نہ کوئی تہہ داری اور نہ تصنع ‘ دبلے پتلے‘ دھان پان ‘کم سنجیدہ معاملہ فہم انسان ہیں۔ ان کا مجلسی رویہ بڑا محتاط لگتا ہے۔ مردم شناس ہیں ۔یاروں سے یاری اور دشمنوں سے درگزری کرتے ہیں۔ اورجہاں تک بات چچا کی شاعرانہ قیمت وقامت کی ہے اس کاتعین نقاد انِ فن یا پھر اس کتاب ناگفتہ بہ کے قارئین کریں گے۔ ہمیں توبس اتنی امید ہے کہ جس طرح محبوب نگر جوصدیوں سے پیرلہ مری(برگد کے پیڑ) کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے اسی طرح شہرمحبوب نگر چچا پالموری کے نام سے جانا جائے گا۔انشاء اللہ‘‘
ڈاکٹر سید قطب سرشار نے چچا کی شاعر انہ عظمت سے متعلق بڑے پتہ کی بات کہی کہ ’’شہر محبو ب نگر ‘‘ چچا کے نام سے جانا جائے گا۔ڈاکٹر سید مصطفی کمال،ڈاکٹر سید قطب سرشار کے ساتھ ساتھ محبوب نگر کے ممتاز کہنہ مشق اور استاد شاعر ظہیرناصری کی بھی آراء شامل ہیں وہ رقمطراز ہیں’’مزاح نگاری یہ نہیں کہ سننے والا بے ساختہ قہقہہ لگائے ۔یہ تولطیفہ گوئی کاخاصہ ہے۔ بقول مشتاق احمد یوسفی قاری ؍ٖسامع زیرلب تبسم بھی کافی ہے۔ البتہ اس میں یہ لحاظ ضروررکھاجانا چاہئے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور کلام ابتذال سے پاک ہو۔ یہ خوبیاں چچا پالموری کے کلام میں موجود ہیں۔ طبعیت سے مرنجان مرج شخصیت کے حامل ہیں اور سراپاحسنِ اخلاق کاپیکرہیں۔ ‘‘
اس شعری مجموعہ میں قطعات16 قطعات،ایک مختصر نظم،چند اشعار ‘21غزلیں ‘ 12نظمیں شامل ہیں۔ اس کتاب میں شامل ایک قطعہ میں شہرمحبوب نگر کا تذکرہ بھی بہت خوب کیا گیا ہے ملاحظہ ہو۔
قسمت کا لکھا میرا چچاؔ گنگ وجمن ہے
ہے شہد کا چھتّا بھی جہاں املی کا بن ہے
ہمرہ مرے دونوں بھی ہیں محبوب نگرمیں
حیراں ہو کہ محبوب نگر میرا وطن ہے
چچا کے قطعات ‘غزلیں‘نظمیں سامعین اور قاری کو ہنسی کا قہقہہ دے جاتے ہیں۔ چچا کی شاعری منفرد شاعری ہے ‘وہ بے ساختگی سے شاعری کرتے ہیں۔وہ مزاحیہ شاعر کے لوازمات سے بھی خوب واقف ہیں، ان کی شاعری میں اکثر دکنی الفاظ کا استعمال پایاجاتا ہے۔اس دور میں ایسا لگتا ہے کہ یہ دکنی زبان کی آخری پیڑی کے کمیاب شاعر ہیں۔
چچای کی شاعری میں عصری شعور کی بھی مثالیں نظرآتی ہیں۔ اردو کے متعلق چچا کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو۔
بولنا بھی جنہیں نہیں آتا
اُن کواردوپڑھا کوچھوڑوں گا
اچھی باتوں سے نیءں سنے توپھر
رنگِ اردوچڑھاکو چھوڑوں گا
انگلش کے متعلق بھی چچا کا قطعہ ملاحظہ ہو۔جس کا عنوان انہوں نے ’’انگلش میں فاتحہ‘‘ رکھا ہے
سلام کی جگہ گڈمارننگ ہی رائج ہے
کسے خبر تھی کہ انکل چچاؔ پھوپھاہونگے
عجب ایک ایسا تماشہ بھی ہورہے گا میاں
مزارِ اردوپہ انگلش میں فاتحہ ہوں گے
چچا پالموری جہاں مزاحیہ شاعری کے ذریعہ سماج کی اصلاح کے پہلو کو اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں وہیں کبھی شاعری کرتے کرتے اپنے آپے سے باہرہوجاتے ہیں ۔ جس کے نتیجہ میں عام نوعیت کی شاعری کردیتے ہیں۔ چچا کی غزل میں اس رنگ کو دیکھا جاسکتا ہے ۔
سیویاں اچھی لگی نہ مالیدہ اچھا لگا
پیچ میں کچھ گُڑ ملایا آمیزہ اچھا لگا
پیاربیوی نے جتایا لال پیلے ہوگئے
خادمہ کا مسکراکے بولنا اچھا لگا
چچا نے کئی مزاحیہ نظمیں بھی کہی ہیں۔ حالیہ عرصہ میں کرشمہ موبائیل فون کے عنوان سے ان کی ایک نظم کافی مقبول ہوئی جس کے اشعارملاحظہ فرمائیں۔
ٹوٹ گئے کمراں کٹ گیءں ناکاں
سنتے سنتے تھک گئے کاناں
سات سمندر پار کے باتاں
کس کی طلب میں ہے مس کالاں
اس کیچ ہے سب اس کیچ کاماں
علاقہ تلنگانہ میں چچا پالموری عصرحاضر کے شعراء میں اپنی انفرادیت رکھتے ہیں ۔ دکنی زبان جو آہستہ اہستہ ایک زبا ن سے بولی میں تبدیل ہورہی ہے ،ایسے میں دکنی میں شاعری کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ چچا اس فن سے آشنا ہیں اور اپنی شاعری میں جگہ جگہ دکنی الفاظ کا استعمال کرکے سلیمان خطیب کے دور کی یادکو تازہ کرتے رہتے ہیں۔ چچا پالموری کوشاعری بالخصوص مزاحیہ شاعری کے فن پر عبورحاصل ہے اور جب و ہ مشاعرے میں اپنا کلام سناکر خوب دادوصول کرتے ہیں اورمشاعرہ لوٹ لیا کرتے ہیں۔ بہرحال چچا کی اپنی شاعرانہ پہچان ہے۔ امید کہ اپنے شاعری کے سفر کو چچا یونہی جاری وساری رکھیں گے اور اردو زبان وادب میں مزاحیہ شاعری کے ذریعہ سے اردو کے سامعین یا قاری کو ہنسانے کا کام بحسن خوبی انجام دیتے رہیں گے۔ ناگفتہ بہ کی اشاعت پر چچا پالموری کو مبارک باد پیش کی جاتی ہے ۔ان سے امیدبھی ہے کہ اپنی شاعری کے تازہ تازہ مجموعے اردو حلقوں میں پیش کرتے رہیں گے اور اردو ادب کو مزاحیہ شاعری کے خزانہ سے مالامال کرتے رہیں گے۔یہ کتاب زندہ دلانِ حیدرآباد کی پیش کش ہے جو شگوفہ پبلی کیشنز حیدرآباد کے زیر نگرانی طبع ہوئی ہے ،جس کو ماہ نامہ شگوفہ 31بیاچلر کوارٹر معظم جاہی مارکیٹ حیدرآباد یا شاعرسے مکان نمبر5-7-16برہانی کاٹیج مومن پورہ کہنہ پالمور محبوب نگر سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
——