اردو توجہ چاہتی ہے : – فاروق طاہر

Share
فاروق طاہر

اردو توجہ چاہتی ہے

فاروق طاہر
عیدی بازار ،حیدرآباد دکن

09700122826

اردو ایک حسین بندھن اورا یک خوب صورت زنجیر ہے جس نے تما م ملک کوایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔یہ عربی ،فارسی،ہندی(پراکرت)کی ترقی یافتہ شکل اور ایک حسین امتزاج ہے۔یہ علاقائی زبانوں کی تنگ دامانی و تنگ نظری کے برعکس سات سمندروں سے بھی وسیع القلب زبان ہے جس میں دنیا کی تمام زبانوں کے الفاظ سمونے کی صلاحیت ہے اور یہ ہی اس کا حسن ،خوبی اور کمال بھی ہے۔
اردو زبان سے متعلق میرے ان الفاظ کو شاید اردو سے میری محبت پر محمول کرتے ہوئے نظر انداز کردیا جائے لیکن آج کے متغیر اور بدلتے منظر نامے میں مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کے توسط سے ماہرین تعلیم و نفسیات کے نظریات پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ زبانیں سماجی ماحول روایات ،کلچر ،ثقافت اور خیالات کی منتقلی اور حسن بیان کا اعجاز ہوتی ہیں۔ماہرین کے مطابق دنیا کی کوئی زبان ابتدائی تعلیم میں مادری زبان کی جگہ نہیں لے سکتی ۔موثر اور سود مند تعلیم کے لئے ضروری ہے کہ بچے کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔مادری زبان کے بجائے کسی اور زبان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی صورت میں طلبہ ہر نئے لفظ کے ساتھ جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔گویا مادری زبان کے بجائے کسی اور زبان میں ابتدائی تعلیم دینا بچوں پر ظلم کے مترادف ہے۔ماہر تعلیم و سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کے بموجب ’’بچہ ماں کے دودھ کے ساتھ مادری زبان پیتا ہے۔‘‘ پرائمری تعلیم کے ابتدائی تین سال صرف مادری زبان سکھانے سے بچوں میں فہم اور فکر و تدببر کی صلاحیتیں فروغ پاتی ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم، اردو کے دستوری موقف پر گزشتہ دو مضامین میں سیر حاصل گفتگو کی گئی تھی ۔اس مضمون میں ریاست تلنگانہ کے حالیہ حکم نامے( اول تا انٹرمیڈیٹ سطح تک تلگو کو لازم قراددینے سے ) کے مضمرات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے۔

تعلیمی سال 2017-2018 سے اول تا بارہویں جماعت تک تلگو زبان کا لزوم:۔
مادری زبان میں تعلیم کی فراہمی کو آج معاشرتی سطح پر پسماندگی کی علامت سمجھا جا نے لگا ہے۔یہ مسئلہ صرف اردو ذریعہ تعلیم کا نہیں ہے بلکہ ریاست تلنگانہ میں تلگو ذریعہ تعلیم کی مقبولیت میں بھی بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ تلگو ریاست تلنگانہ کی پہلی زبان ہے جس کا سیکھنا اور جاننا ریاست کے تمام باشندوں کے لئے بے حد ضروری ہے ۔سہ لسانی فارمولے کے تحت پہلے ہی سے تلگو زبان کی تدریس تمام مدارس میں جماعت ششم تا دہم لازم ہے۔اسی فارمولے کے تحت سارے تلنگانہ میں تلگو لازمی طور پر پہلی زبان یا دوسری زبان کے طور پر ریاست بھر کے تمام مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ تمام ریاست تلنگانہ میں سرکاری حکمنامے کے تحت تعلیمی سال 2018-2019سے تمام مدارس وانٹر میڈیٹ کالجوں میں (سرکاری،خانگی،امداد ی خو اہ وہ کسی بھی مینجمنٹ کے تحت آتے ہوں) تلگو کو اول تا بارہویں جماعت تک بحیثیت ایک لازمی زبان پڑھنا لازمی قرار دیاگیا ہے۔تلگو ذریعہ تعلیم کی مقبولیت کے زوال کے سبب تلگو زبان کے دام الفت میں گرفتار افراد کا تلگو زبان کو اول تا انٹر میڈیٹ سطح تک نافذکرنے کی وکالت ،تائید و حمایت کرنا ایک متحسن قدم ہے۔یہ تلگو زبان کلچر اور تہذیبی ثقافت کے تحفظ میں بھی ایک اہم پیشرفت ہے ۔لیکن یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ریاست کی سب سے بڑی زبان کو مقبول و معروف بنانے کے لئے غیر تلگو طلبہ پر بھی تلگوکوجبراً مسلط کرنا دستور کی صراحت کردہ دوسری قومی زبانوں کے دستوری حقوق پر نقب زنی کے مترادف ہے۔تلگو مادری زبان کے حامل طلبہ کے لئے ایسی بندش قابل قبول اور قابل تحسین عمل ضرورہے لیکن غیر تلگو طلبہ کے لئے کیا یہ مناسب اور جمہوری اقدام تصور کیا جاسکتا ہے ؟ ابتدائی جماعتوں میں پہلے ہی سے دو زبانوں کو پڑھایا جارہا ہے۔اردو مدارس میں اردو بحیثیت زبان اول اور انگریزی ایک اضافی زبان کے طورپر شامل نصاب ہے۔تلگو مدارس میں تلگو بحیثیت زبان اول اور انگریزی ایک اضافی زبان کے طور پر شامل نصاب ہے۔پریشانی کی بات یہ ہے کہ ذولسانی نظام تعلیم کی وجہ سے جو بوجھ بچوں پر پہلے ہی سے عائد ہے تلگو زبان کے لزوم سے یہ بوجھ مزید بھاری ہوجائے گا۔قومی درسیاتی خاکے (NCF-2005)میں بچوں پر پڑھائی کا بوجھ کم کرنے کی خاص ہدایت دی گئی۔ بچوں پر عائد نصابی بوجھ کو کم کرنے کے لئے درسیاتی خاکے (NCF-2005) کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں نصابی تبدیلیاں ضروری ہے۔سہ لسانی فارمولے کی سفارشات اور درسیاتی خاکے (NCF-2005)کی سفارشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ا بتدائی جماعتوں میں طلبہ پر پہلے سے عائد دوزبانوں کو سیکھنے کے بوجھ کو سہ لسانی فارمولے اور درسیاتی خاکے (NCF-2005) کی روشنی میں کم کرنے کے برخلاف ایک اور زبان(تلگو ) اول جماعت سے انٹر میڈیٹ تک لازمی کردینا تعلیمی و اکتسابی اصولوں کی کیا صریحاً خلاف ورزی نہیں ہے؟۔ اس طرح کے لزوم سے لسانی اقلیتوں کے حقوق مجروح ہونے کے قوی اندیشے پائے جاتے ہیں۔ اس طرح کی پالیسی مرتب کرنے سے قبل ماہرین تعلیم و نفسیات اورلسانی اقلیتوں کی رائے حاصل کرنے کی بھی قطعی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔پریشانی کی ایک اور بات یہ بھی ہے کہ پرائمری سطح کی تعلیم جس کا منشاء و مقصد کردار سازی ،ذہنی ارتقاء،عادات سازی اور فکر سازی ہے وہاں پر تین تین زبانوں کی درس و تدریس چہ معنی؟پرائمری سطح کی تعلیم کا مطمع نظر مکمل طور پر affective domains of learning پرمرکوز ہوتا ہے۔ اس سطح پر بچوں پر مزید بوجھ ڈالنے سے پہلے ماہرین تعلیم سے مشاورت انتہائی ضروری ہے۔مثل مشہور ہے کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘ قوی امکان ہے کہ ناسمجھی میں ریاستی زبان سے محبت نبھانے کا یہ طریقہ ریاست تلنگانہ کے لئے رسوائی کا سبب نہ بن جائے۔پرائمری سطح پر بچوں پر مزید بوجھ ڈالنے سے پہلے ماہرین تعلیم سے مشاورات انتہائی ضروری ہے۔اس ضمن میں ایک واقع پیش کرنا ضرور تصور کرتا ہوں تاکہ ذہنوں پر چھائے ابہام و شکوک کو دور کیا جاسکے۔
ایک محقق کو تحقیق کی سوجھی۔ اس نے دیکھا کہ سامنے سے ایک مینڈک گزر رہا ہے۔بغرض تحقیق، مینڈک کو پکڑا اوراپنے تجربہ خانے لے گیا۔ تھوڑی دیر غور و فکر کرنے کے بعد محقق نے مینڈک کو ایک میز(ٹیبل) کے کونے میں رکھ کر آواز دی۔ مینڈک نے آواز سن کر چھلانگ لگادی۔محقق نے چھلانگ کا فاصلہ نوٹ کیا۔ مینڈک کو واپس لایا اور اس کی ایک ٹانگ کاٹ ڈالی۔ پھر اسی تجربے کو دہرایا۔ اس بار چھلانگ کا فاصلہ پہلے کی بہ نسبت کم تھا۔ محقق اس طرح باری باری ایک ایک ٹانگ کاٹ کر فاصلہ نوٹ کرتا گیا حتیٰ کہ اس نے مینڈک کی چاروں ٹانگیں کاٹ ڈالیں۔ چھٹی بار جب تجربہ دہرایااور آواز دی،تو مینڈک اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔دیگر محققین بھی خوش ہوئے اور نتیجہ لکھ دیا کہ اگر مینڈک کی چاروں ٹانگیں کاٹ دی جائے تو مینڈک کے سننے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ اس کی ٹانگیں کاٹ ڈالنے سے وہ بہرا ہوجاتا ہے۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی تعلیمی نظام پرائمری سطح پر کثیر زبانوں کی درس و تدریس کی حمایت نہیں کرتا۔ابتدائی تعلیم جہاں مرکز توجہ، تحقیق و سائنس شناسی ہونا چاہئے۔ وہاں پر مادری زبان کے علاوہ دو،تین اجنبی زبانوں کا بوجھ بچوں کی قوت برداشت پر سوالیہ نشان لگا تا ہے۔ مزید زبانوں کی نصاب میں شمولیت انتہائی اذیت ناک ثابت ہوگی۔ اس کے علاوہ انٹرمیڈیٹ کا فوکس کیرئیر پلاننگ پرہوتا ہے۔ ایسے میں طلبہ کا کا مرکز نگاہ ہلا دینے سے ان میں دور رس معذوریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ان محرکات کو سامنے رکھتے ہوے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسکولی سطح پر مزید بوجھ ڈالنے سے پہلے متعلقہ محققین اور ماہرین تعلیم و نفسیات سے مشاورت انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے لیے یہ بات قابل فخر ہے کہ حکومت ریاست کی زبان(تلگو) سے محبت رکھتی ہے۔ ہم سب کو ہر قدم پر حکومت کا ساتھ دینا چاہئے لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ تبدیلی کی آہٹ(تلگو زبان کی گرتی ساکھ) کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا ہرغیر منظقی قدم آنے والی نسل کے لئے مصائب نہ کھڑی کر دے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم جذبات کو منطق کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔بصورت دیگر بمثل مینڈک زبان پر تحقیق ہر کوئی کرئے گا اور زبان کو بھی ایک دن جامد اور بہرا ٹھہرائے گا۔ یہ اچھی خبر ہے کہ حکومت کو علاقائی زبان تلگو کے تحفظ اور فروغ کا خیال آیا۔ اور اس ضمن میں کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔خوشی کے اس موقع پر چند پریشانیاں بھی سر اٹھانے لگی ہیں کہ آخرکار حکومت نے کس حکمت عملی کے تحت یہ سوچا کہ علاقائی زبان تلگو کا پرائمری اور انٹر میڈیٹ سطح پر نفاذ ممکن ہوسکے گا اس کے نفاذ سے اقلیتی زبانوں خاص طور پر اردو کے مستقبل کو کہیں خطرات ہ تودر پیشنہیں ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت ادیبی میلے کے شعراء اور علاقائی دانشوروں کی بات کو حرف آخر سمجھ رہی ہے اور بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے تلگو کو غیر تلگو مدارس کے طلبہ پر مسلط کیا جارہا ہے۔

تلگو کے نفاذ سے اردو کو لاحق خطرات:۔
شمالی ہند کی ریاستوں میں ہندی کو زبان اول اور جدید ہندوستانی زبان کی تدریس میں اردو کے بجائے سنسکرت کو ٹھونس دیا گیا اور تیسری زبان کے طور پر انگریزی کومسلط کر دیا گیا اس ترتیب اور نظام میں اردو کوکہیں بھی مقام نہیں مل پایا۔شمالی ریاستوں کی حالت زار سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ اگر تلنگانہ ریاست میں بھی ابتدائی جماعتوں میں تلگو کو نافذ کر دیا گیا تو وسطانوی جماعتوں میں گمان اغلب ہے کہ آج اردو کو بحیثیت دوسری زبان نافذ کرنے کی جو بات کی جارہی ہے وہ ماضی کے احکامات کی طرح اگربرف دان کی نذر ہوجائے تو اردو کا صفایا اردو کی جائے مسکن حیدرآباد سے ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔غیر اردو ذریعہ تعلیم کے مدارس بالخصوص تلگو مدارس کے طلبہ کو لازمی تلگو زبان کے نفاذ کے باوجود صرف تلگو اور انگریزی کی تعلیم حاصل کرنی پڑے گی جو کہ آسان اور ممکن بھی ہے۔لیکن اس کے برخلاف اردو میڈیم کے طلبہ پر تین زبانوں کو سیکھنے کا بوجھ عائد ہوجائے گا مادری زبان اردو،سرکاری زبان تلگو اور انگریزی۔تلگو میڈیم کے طلبہ تلگو کے لزوم کے بعد بھی ان کی مادری زبان تلگو بحیثیت زبان اول اور انگریزی ایک اضافی زبان کے طور پر سیکھیں گے یعنی تلگو میڈیم کے طلبہ اردو میڈیم کے طلبہ کے تین زبانوں کے مقابلے میں صرف دو زبانیں پڑھیں گے۔اس طرح زائد بوجھ کی بنا اردو میڈیم کے طلبہ کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہونے کے امکانات قوی ہوجاتے ہیں۔بچوں میں اکتسابی گراوٹ بھی پیدا ہوسکتی ہے۔زبان دانی بھی معیار تک نہیں پہنچ پائے گی۔ایک اور قابل تشویش بات یہ ہے کہ آج تک غیر اردو میڈیم مدارس میں سہ لسانی فارمولہ کے واضح احکامات موجود ہونے کے باوجود بچوں کو ان کی مادری زبان کو بحیثیت زبان اول اختیار کرنے کامواقع فراہم نہیں کیا گیا۔ابتدائی سطح پر (اول تا سوم) ایک دہائی پہلے تک صرف ایک زبان ( مادری زبان) سکھائی جاتی تھی ۔ چہارم جماعت سے انگریزی زبان کی تدریس کا آغاز عمل میں لایا جاتا تھا جب کہ دوسری زبان کے طور پر غیر تلگو طلبہ کے لئے تلگو اور تلگو طلبہ کے لئے ہندی کی تدریس ششم جماعت سے انجام دی جاتی تھی اس طریقے کار پر جماعت اول سے انگریزی کو شامل نصاب کرنے سے پہلے تک بغیر کسی تردد کے عمل آوری جاریتھی ۔2009سے انگریزی زبان کو اول جماعت سے شامل نصاب کردیا گیا۔ اردو میڈیم اور تلگو میڈیم مدارس میں انگریزی کی شمولیت کے بعد بھی زبان اول کی حیثیت اردو میڈیم میں اردو کو اور تلگو میڈیم میں تلگو کو حاصل رہی ۔انگلش میڈیم اسکولوں میں ٖخاص طور پرایسے سرکاری انگلش میڈیم مدارس جہاں اردو مادری زبان کے طلبہ کی تعداد غالب تھی انھیں تلگو زبان بحیثیت زبان اول بجائے اردو کے پڑھنے پر مجبور کیا گیا۔سہ لسانی فارمولے میں اس بات کی صراحت کردی گئی ہے کہ اولیائے طلبہ بچے کے داخلہ فارم میں جو مادری زبان تحریر کر دیں وہی بچے کی مادری زبان تصور کی جائے گی اور اسی زبا ن کو بحیثیت زبان اول طلبہ کو اختیار کرنے کا پورا پورا حق حاصل رہے گا۔ لیکن ان احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ۔ گورنمنٹ پرائمری اسکول یوسف گوڑہ حیدرآباد ا س کی ایک زندہ مثال ہے۔انگلش میڈیم مدارس میں اس طرح کا تعصب تلگو زبان کے لزوم سے پہلے ہی موجود ہے ۔ تلگو زبان کے لزوم کے بعد تو اس طرح کے واقعات عام ہونے کے قوی اندیشے پائے جاتے ہیں۔ یوسف گوڑہ اسکول کے متعلق جب اربا ب مجاز سے ربط پیداکیا گیا تو ارباب مجاز نے سرد مہری کا رویہ اختیار کیا اور سہ لسانی فارمولے کو معطل اور منسوخ قانون قرار دیا۔ آج بھی اس اسکول میں طلبہ اپنی مادری زبان اردو رکھتے ہوئے ارباب مجاز کے معتصبانہ رویے کی وجہ سیتلگوپڑھنے پر مجبور ہیں۔

تلگو میڈیم مدارس کی انگریزی میڈیم میں تبدیلی اردو زبان اور ذریعہ تعلیم کے لئے تشویشناک پہلو:۔
جئے شنکر بھوپال پلی ضلع کے تمام تلگو مدارس کو انگریزی میڈیم میں تبدیل کرنے کی ضلع کلکٹر کی جانب سے پیش کردہ درخواست کو حکومت اور محکمہ تعلیمات نے منظوری دے دی ہے۔ تعلیمی سال 2018-2019 سے جئے شنکر بھوپال پلی ضلع کے تمام تلگو میڈیم مدارس کو انگریزی میڈیم مدارس میں تبدیل کر دیا جائے گا۔اس تناظر میں محبان اردو کے ذہنوں میں شکوک و شہبات کا سر اٹھانا ہر گز خلاف مصلحت نہیں ہے۔حکومت ایک جانب ریاست کے تمام مدارس و کالجوں میں اول تا بارہویں جماعت تک تلگو کو لازمی قرار دینے کا حکم نامہ جاری کرتی ہے۔ایک اور حکم نامہ کی رو سے تما م سرکاری محکماجات اور دفاتر کے تمام امور حتی کہ دستخط بھی تلگو زبان میں ثبت کرنے کی ہدایات صادر کرتی ہے۔دوسری جانب تلگو میڈیم مدارس کو انگریزی میڈیم میں تبدیل کردینے کے بھی احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ان حکمناموں کے تناظر میں جو بات کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ کیا تلگو ذریعہ تعلیم کی جگہ انگریزی ذریعہ تعلیم کو فروغ دینے کی کو شش کی جارہی ہے اور تلگو کو بحیثیت ایک زبان کے تمام ریاست میں فروغ دیا جائے گا۔اس حکمت عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہے اگر تلگو زبان کے مدارس کو انگریزی میڈیم میں تبدیل کر دیا جائے گا اور ابتدائی جماعتوں سے تلگو کی تدریس لازمی قرار دی جائے گی تب اول جماعت میں اردو مادری زبان کے طلبہ کو اردو بحیثیت مادری زبان کے پڑھنے کی سہولت کس طرح حاصل ہوگی۔سطور بالا میں ریاست کے صدر مقام پر ہی ابتدائی جماعت میں تدریس اردو کے سلسلے میں برتے جانے والے متعصب رویے کو پیش کیا گیا ہے۔ ریاست کے صدر مقام کا جب یہ حال ہے ، جہاں اردو بولنے والوں کی اسی فیصد سے زیادہ آبادی بستی ہے تب اضلاع جہاں اردو بولنے والوں کی ایک قلیل تعداد پائی جاتی ہے وہاں اردو زبان کا کیا حال ہوگا۔ یہ معاملہ دیگر اقلیتی زبانوں کنڑی ،مراٹھی اور ٹامل کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔ ان زبانوں پر ضرب لگنے سے ان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ زبانیں دیگر ریاستوں میں سرکاری موقف کی حامل ہیں۔شمال سے نکالے جانے کے بعد جنوب کواردو کی ایک محفوظ جائے پناہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔لیکن ایسی لسانی پالیسوں پر اگر بغیر کیسی صراحت و وضاحت کے عمل پیرائی کا آغاز ہوجائے تب جنوب سے بھی اردو زریعہ تعلیم اور اردو بحیثیت ایک زبان کے بے گھر ہونے میں کوئی خاص وقت نہیں لگے گا۔متحدہ ریاست آندھر اپردیش ہو یا کہ نوزائیدہ ریاست تلنگانہ سہ لسانی فارمولے پر عدم عمل آوری کے سبب یا سہ لسانی فارمولے کو من و عن نافذ کرنے میں کوتاہی کے سبب تحتانوی اور وسطانوی سطح پر اردو بحیثیت زبان یا ذریعہ تعلیم مجروح و متاثر ہوچکی ہے اور اس کو اس درجہ کمزور کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے نحیف و لاغر وجود کو لئے جانکنی کی حالت کو پہنچ چکی ہے۔اردو زریعہ تعلیم کے فروغ میں حکومت تو کجا خود اردو کے ذی اثر گھرانوں نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ریاست تلنگانہ کے قیام سے قبل بھی ریاست تلنگانہ کے نو اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا موقف حاصل رہا ہے۔ لیکن یہ موقف کاغذی حد تک ہی رہا ہے۔ اس پر عمل پیرائی کی صورت کبھی پیدا نہیں ہوئی۔وزیر اعلیٰ جو اقلیتی کاز میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں اور اقلیتوں کی پسماندگی کے سدباب کے لئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں یہ معروضہ ان کے گوش گزار کرنے کی ضرورت ہے کہ ابتدائی سطح پر تین تین زبانوں کی تدریس سے تعلیمی معیار و اکتساب میں گراوٹ واقع ہوگئی۔ ابتدائی جماعتوں میں دو سے زائد زبانوں کی تدریس سہ لسانی فارمولے اور کوٹھاری کمیشن کی سفارشات کے بھی مغائر ہے۔یہ بوجھ درسیاتی خاکہ(NCF-2005)کی روح کے بھی منافی ہے۔ سہ لسانی فارمولے کی آڑ میں شمالی ہند میں جس طرح اردو کو اسکولی تعلیم سے نکال باہر کیا گیااسی طرح کا عمل تلگو زبان کے لزوم کی آڑ میں تلنگانہ میں ظہور پذیر ہوسکتا ہے۔
شمال میں جس طرح سے اردو کو ہندی مخالف زبان کے طور پر پیش کرتے ہوئے اردو کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی فضاء قائم کی گئی اسی طرح کے امکانات ریاست تلنگانہ میں بھی سراٹھانے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ان حالات میں اردو والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قلم اور زبان سے کسی بھی طور تلگو زبان کی مخالفت نہ کریں بلکہ تلگو کے ساتھ اردو کے جائز مقام کا مطالبہ کریں۔سہ لسانی فارمولے میں جس کا نفاذ وسطانوی سطح پر VI-Xتک محدود ہے اور اس کی روشنی میں تین زبانوں کی تعلیم کا نظام قائم ہے۔اس فارمولے کے تحت اردو مادری زبان کے حامل طلبہ کو اردو زبان بحیثیت زبان اول لازمی قرار دینے کی حکومت سے اپیل کی جائے۔جن کی اردو مادری زبان نہ ہو انھیں بھی اردو زبان بحیثیت زبان اول یا دوم کے انتخاب کا اختیار فراہم کیا جائے۔تلگو مادری زبان کے طلبہ کے لئے اردو ہندی مشترکہ کورس(کمپوزٹ کورس )لازمی قرار دینے سے تلگو ، اردو بولنے والوں میں لسانی ہم آہنگی ،اخوت و بھائی چارے کے جذبے کو فروغ حاصل ہوگا۔حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جائے کہ ابتدائی جماعتوں میں تلگو زبان کے لزوم سے اردو میڈیم کے طلبہ پر اردو بحیثیت مادری زبان(زبان اول)،انگریزی (اضافی زبان) اور تلگو(علاقائی زبان) کے سیکھنے کا بوجھ عائد ہوگا ۔جب کہ تلگو زبان کے طلبہ پرصرف دو زبانیں سیکھنے کا بوجھ ہوگا۔اس طرح اردو ذریعہ تعلیم کے طلبہ کا معیار زائد بوجھ کی وجہ سے تلگو طلبہ کے معیار کے مقابلے میں کم تر ہوجائے گا۔اس بوجھ سے نجات کے لئے ہوسکتا ہے کہ طلبہ اردو ذریعہ تعلیم سے ہی انحراف کرنے لگ جائیں گے۔اول جماعت سے تلگو کے لزوم سے ایک ایسی فضاء تیار ہوجائے گی جو وسطانوی سطح تک پہنچتے پہنچتے اردو کو جڑ سے اکھاڑ پھینک سکتی ہے۔تلگو زبان کا لزوم ششم تا دہم جماعت کا عین فطری اور تعلیمی نفسیات اور اصولوں کے مطابق معلوم ہوتا ہے ۔طلبہ پر زبانیں سیکھنے کا بوجھ عائد ہونے سے ان کی دیگر مضامین میں صلاحیتیں متاثر ہوسکتی ہیں۔ جماعت دہم کے بعد زبان کے انتخاب کا اختیار طلبہ کو فراہم کرنا چاہئے۔طلبہ جب اپنی رغبت اور خوشی سے جو زبان اختیار کریں اس میں ان کی صلاحیتیں نکھر نے لگیں گی۔ابتدائی جماعتوں میں اول تاسوم مادری زبان اور چہارم جماعت سے کوئی ایسی زبان جو تمام ملک میں رابطے کے طور پر استعمال کی جاتی ہو جیسے انگریزی زبان اور جماعت ششم سے علاقائی زبان (تلگو) کی تدریس سے طلبہ پر زائد تعلیمی بوجھ بھی عائد نہیں ہوگا، اکتساب سے دلچسپی برقرار رہے گی اور طلبہ میں اعتماد کی فضاء بحال ہوگی۔ دنیا میں کسی بھی قوم نے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنی زبان میں منتقل کئے بغیر آج تک ترقی نہیں کی ہے۔ترقی کا دارو مدار محض تعلیم ہی پر نہیں دیگر عوامل پر بھی منحصر ہوتا ہے جن میں سے سب سے اہم قومی ترجیحات اور منصوبہ بندی ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان پایا جاتا ہے ۔ اس بحث سے قطع نظر، دنیا میں جس طرف بھی نظر دوڑائیں، وہی اقوام ترقی یافتہ نظر آئیں گی جنہوں نے علوم کو اپنی زبان میں منتقل کیا اور اپنی قوم کے نونہالوں کو اپنی ہی زبان میں زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔آج تک ہم اپنی قوم کو انگریزی سکھا نہیں سکے تو سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم وہ بھی انگریزی میں کیسے سکھائیں گے۔ اکا دکا مثالوں سے یہ اصول نہیں اخذ کیا جا سکتا کہ انگریزی ذریعہ تعلیم ہی سے ترقی ممکن ہے۔ دنیا میں کسی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک ذریعہ تعلیم اپنی زبان کو نہیں بنایا۔ اگر کوئی مثال موجود ہے تو انگریزی کے طرف دار اسے پیش کریں میں اپنے اس نظریئے سے توبہ کرلوں گا۔

Share
Share
Share