لڑکیوں کی تعلیم
مشکلات ، چیلنجیزاور حل
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
Mob: 07207326738
مخلوط تعلیم نے سماج پرجو منفی اثرات مرتب کئے ہیں ان میں سے ایک یہ کہ کوئی غیر مسلم لڑکی ، مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کر لیتی ہے، تو کہیں مسلم لڑکی، غیر مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہے اور اس میں عام طورمذہب کوصحیح سمجھ کر اور حق جان کر مذہب کی تبدیلی نہیں ہوتی ہے، بلکہ زیادہ تر خواہش نفس اور الفت و محبت کی بند آنکھوں سے دوسرے مذہب کو قبول کیا جاتا ہے ۔
یہاں بحث صحیح اور غلط سے نہیں ہے بلکہ حقیقت واقعہ کا بیان ہے ، تبدیلی مذہب کی یہ دونوں تصویر ہندوستانی سماج میں ایک عرصے سے رائج ہے۔لیکن اب صورت حال بدل رہی ہے اگر کوئی غیر مسلم لڑکی مسلمان لڑکے سے شادی کرے تو اس کو لو جہاد ( love jihad)کا نام دے کر اس لڑکی کو پریشان کیا جاتا ہے اور اس سے کہیں زیادہ اس لڑکے اور اس کے گھر والوں کو ٹارچر کیا جاتاہے ،جس نے اس لڑکی سے شادی کی ہے ، اس کے خلاف کیس بک کیا جاتا ہے ، اس کے خلاف احتجاج ہوتا ہے، یہی وجہ ہے اگر سماج میں کوئی مسلم لڑکا کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کرلے تو پورا سماج اس کا مخالف ہو جاتاہے ، اس سے کٹ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے ماں باپ بھی اس سے اپنا رشتہ توڑ لیتے ہیں یہ ایک خوف و ہراس اور دہشت کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے ۔
آج اگر کوئی غیر مسلم لڑکا یا لڑکی اسلام کو صحیح سمجھ کر اس کو حق جان کر اسلام مذہب قبول کرے تو اس کو بھی ہراساں کیا جاتاہے اور گھر واپسی پر مجبور کیا جاتاہے اور اس کے دفاع میں کوئی مسلم جماعت اور تحریک سامنے نہیں آتی ہے اور نہ ہی حقوق انسانی کی کمیشن ،اور حقوق نسواں کی تحریک بیدار ہوتی ہے ہادیہ کی مثال موجود ہے جس نے اسلام کو سمجھ کر اور حق جان کر قبول کیا آج اسے پریشان کیا جا رہا ہے ، اس کے عزم و استقامت کو سلام کرنا چاہیے کہ غیر مسلم تنظیموں اور اس کے ماں باپ کی تمام تر کوششوں کے بعد بھی وہ اسلام پر ڈٹی ہوئی ہے ، لیکن ایک مایوس کن پہلو بھی ہے کہ ہادیہ کا کیس صرف اس کا شوہر لڑ رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ مسلم تنظیموں کو اس سلسلے میں آگے آنا چاہیے ، جمعیۃ علماء جو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار نوجوانوں کا کیس لڑتی ہے اس طرح کے بھی کیس لڑنے چاہیے ۔
تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلم بچی غیر مسلم کے ساتھ شادی کر لے تو اس پر کوئی ایکشن نہیں ہوتا ہے، بلکہ ایسے لڑکے کی ہندوتنظیمیں حوصلہ افزائی کرتی ہیں ،اس سے بھی تکلیف دہ اور خطرناک صورت حال یہ ہے کہ بعض غیر مسلم تنظیمیں جیسے ہندو جاگرن منچ ، بھارت سیوا آشرم سنگھ وغیرہ مسلم بچیوں کو غیر مسلم گھرانوں کی بہو اور اس کو ہندو بنانے کی مذموم کوشش کررہے ہیں اور اس طرح کے واقعات کثرت سے پیش آرہے ہیں کہ غیر مسلم لڑ کے، مسلم لڑکیوں کو جھوٹی محبت کے جال میں پھانس کر اس کے اسلام کا سودا کرلیتے ہیں اور زیادہ تر امیر گھرانے کی لڑکیوں پر ہی جال ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوپی میں بی جے پی کے ایک لیڈر نے بیان دیا ہے کہ ہم چھ مہینے میں اکیس سو مسلم لڑ کیوں کو غیر مسلم گھر کی بہو بنا لیں گے ، یہ بہت ہی تشویش ناک پہلو ہے اور اس سمت میں بڑی تیزی سے عمل جاری ہے بی بی سی نے ایک مسلم لڑکی کا انٹر ویو شائع کیا ہے ،جس نے ہندو لڑکے سے شادی کر لی تھی اس لڑ کی نے بتایا کہ میں نے ایک ہندو راجپوت گھرانے کے لڑکے سے شادی کی تھی جو میراہم جماعت تھا اور مجھ سے بہت محبت کرتا تھا ، میں نے اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف اس سے شادی کر لی، دو تین دن اچھے گزرے انہوں نے نہ مجھے پوجا پاٹ کے لئے کہا اور نہ ہی کسی کی کوئی بد تمیزی میرے ساتھ کی، چوتھے دن میرا شوہر اپنے ساتھ اپنے کچھ رشتہ دار لڑکوں کو بھی میرے روم میں لے کر آیا اور سب نے میرے ساتھ زبردستی کی، میں اپنے شوہر کو پکارتی رہی کہ وہ میری مدد کرے مگر وہ صرف دیکھتا رہا اور ہنستا رہا اور اس نے بھی سب کے سامنے منھ کالا کیا اور مجھے ادھ مری حالت میں دور کچرے کے ڈھیر کے پاس چھوڑ دیا ،بہت دنوں تک میر ا خون بہتا رہا ، بڑی مشکل سے میری جان بچ پائی ہے ۔ اس نے اپنے انٹر ویومیں مسلم لڑکیوں کو پیغام بھی دیا ہے کہ آر ایس ایس ، بجرنگ دل کی سازشوں سے ہوشیار رہیں ، اور اپنے ماں باپ کی عزت کریں ، ان کے فیصلے کا احترام کریں اور بخوشی ان کے فیصلے کو قبول کریں ۔
یہ ایک واقعہ ہے اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آرہے ہیں جو ایک مسلمان کے رونگھٹے کھڑے کردیتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کیوں پیش آرہے ہیں اور اس کو کس طرح انجام دیا جارہا ہے ؟ غور کریں تو اس کا بنیادی سبب مخلوط تعلیم ہے ، مخلوط ملازمت کے راستے بھی اس واقعہ کو انجام دیا جاتا ہے ،لیکن مرکزی کردار مخلوط تعلیم کا ہے ، اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی بچیوں کی نسل، اس ایمان کی حفاظت کریں ، اس کی عزت و ناموس اور اس کی دنیا و آخرت کو تباہ ہونے سے بچائیں تو ضروری ہے کہ ہم ان مسائل اوروسائل پر سنجیدگی سے غور کریں ، اور معاملہ کی نزاکت و حساسیت کو سمجھتے ہوئے اس سلسلے میں ضروری اقدامات کریں ۔
تعلیم ایک ضرورت بن چکی ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ، یہ ہر انسان کا بنیادی زیور ہے اس سے محروم رکھنا کسی لڑکی کو حسن و سیرت اورکردار و عمل کی دولت سے محروم رکھنا ہوگا ،اس لئے جس طرح لڑکوں کی تعلیم ضروری ہے ،اسی طرح لڑکیوں کی تعلیم بھی ضروری ہے ؛لیکن لڑکیوں کی تعلیم میں بہت سے مشکلات اورچیلنجیز ہیں ان پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تعلیم کے ذریعہ لڑکیوں سے جس حسن و سیرت اور کردار و عمل کی توقع کی جارہی ہے، وہی تعلیم اس کے لئے اباحیت ، آزادی ، فکری بے راہ روی ،اور اسلام سے دوری کا سبب بن جائے ، اور سماج و معاشرہ میں عزت وخوشی کے بجائے بدنامی و ذلت کا سبب بن جائے ، اس لئے لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں چند باتیں قابل غور ہیں جسے ہر والدین کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔
*تعلیم دلانے کو ضروری تصور کیا جائے اور اس کے لئے حتی الوسع پوری کوشش کی جائے؛ لیکن جہاں تک ممکن ہو مخلوط نظام تعلیم سے لڑکیوں کو بچایا جائے ، لڑکوں کے لئے مجبوری میں مخلوط تعلیم کی گنجائش ہو سکتی ہے ،لیکن لڑکیوں کے لئے مخلوط تعلیم سمِّ قاتل ہے، یہیں سے لڑکیوں میں غیر محرم لڑکوں سے بات کرنے کا آغاز ہوتا ہے جس کا انجام بھیانک ہوتا ہے ، اگر مخلوط تعلیم کے علاوہ دوسرا نظام تعلیم ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں سخت نگرانی کی ضرورت ہے ، لڑکی کا باپ خود ہی اسکول و کالج پہنچانے جائے اور خود ہی لینے جائے ، اس معاملہ میں بھائی یا ڈرائیور پر بھی بھروسہ کرناخطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔
جہاں تک ہو سکے لڑکیوں کو بورڈنگ کے نظام سے دوررکھا جائے ، جب تک لڑکیاں اپنے گھر میں رہتی ہیں،اپنے ماں ،باپ، بھائی، بہن کے ساتھ رہتی ہیں، غیر محرم لڑکوں سے محبت کے پنپنے کا موقع نہیں ملتا ہے، کلاس کے ختم ہوتے ہی گھر جانے کی فکر ہوتی ہے اور تاخیر کی صورت میں ماں باپ کے باز پرس کا اندیشہ رہتا ہے اس لئے اس حالت میں لڑکیوں کا ذہن مشغول رہتا ہے اور فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ کم رہتا ہے ، لیکن جب لڑکیاں بورڈنگ میں رہنے لگتی ہیں تو دھیرے دھیرے ماں باپ کی محبت کم ہونے لگتی ہیں اور سہیلیوں کے ساتھ بات چیت میں لڑکوں کا تذکرہ سن کر اور بعض مرتبہ اپنی سہیلیوں کو بوائے فرینڈکے ساتھ جاتے اور گھومتے دیکھ کر اس معصوم بچی میں بھی بوائے فرینڈ کا جذبہ بیدار ہونے لگتا ہے، کبھی کبھی مرعوبیت کے نتیجہ میں بوائے فرینڈنہ ہونے کو لڑکیاں اپنے لئے عیب اور کم زوری خیال کرنے لگتی ہیں اور بوائے فرینڈکی تلاش میں لگ جاتی ہیں ، اس لئے لڑکیوں کے لئے بورڈنگ کا نظام بھیانک انجام کا سبب بن سکتا ہے ۔
مسلمانوں کو اپنے عصری ادارے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس میں ایسی اعلی تعلیم اور اعلی معیار قائم کرنا چاہیے کہ وہ شہر کا ماڈل اسکول و کالج بن جائے اور بچے اس میں تعلیم حاصل کرنا اپنے لئے فخر تصور کریں ۔لڑکیوں کو ممکنہ حد تک مسلم ادارے میں تعلیم دلانے کی کوشش کریں ، مسلم تعلیمی اداروں میں تعلیم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اسلامی تہذیب کی حفاظت کرسکیں گے ، اپنے کلچر کو فروغ دیں گے اور بہت اہم بات یہ ہے کہ غیر وں کے ادارے میں تعلیم پا کر بعض مرتبہ بچے مرعوب ہو جاتے ہیں اور بعض مرتبہ ذہنی طور پرغلام ہوجاتے ہیں حتی کہ بعض موقعہ پر بچے اپنی شناخت کو بھی چھپاتے ہیں اس طرح کے واقعات مشاہدے میں آرہے ہیں ۔
بچوں کو ابتداء سے ہی دینی تعلیم سے آراستہ کرنا چاہیے ،اسلامی تعلیم و تربیت کرنی چاہیے اور تعلیم کے ہر مرحلے میں اس کی نگرانی ہونی چاہیے، خاص کر اگربچے غیر مسلم اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہوں تو بہت زیادہ ہوش مندی سے کام لینے کی ضرورت ہے ، اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ، اسلامی عقائد کی طرف توجہ دلانا ، اسلام پر عمل کرنے سے دنیا و آخرت کی کامیابی کو ذہن میں بٹھانا ، اور ساتھ ساتھ شرک و بت پرستی کی قباحت ، اس کے نقصانات اور اس سے نفرت دلوں میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، غیر مسلم اداروں میں تعلیم کے دوران بچوں میں غیر اسلامی عقائد و کلچر فروغ پانے لگتا ہے ، اور اسلام کی اچھائیاں نگاہوں سے اوجھل رہتی ہیں اس سے بچے غیر اسلامی ماحول کے عادی ہو جاتے ہیں ۔ماں باپ کو بعض مرتبہ اس وقت پتہ چلتاہے جب کہ بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، ایک تعلیم یافتہ اور دولت مند کی بیٹی اپنی ماں سے کہتی ہے کہ روزانہ پانچ نمازوں کی کیا ضرورت دن میں ایک مرتبہ پوجا کرلیں تو کافی ہے ، لیکن وہ ماں اس کو تنبیہ نہیں کرتی ہے اور نہ ہی سمجھاتی ہے ،جب وہ غیر مسلم لڑکے سے شادی کرلیتی ہے تب پتہ چلتاہے کہ وہ بہت دنوں سے ہی مشرکانہ اعمال کے قریب ہوچکی تھی ۔
موبائل فون آج بنیادی ضرورت میں داخل ہے ، لیکن اس کے بے جا استعمال سے بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں، بچے اور بچیوں کو مبائل فون سے دور رکھنا چاہیے ، اگر بچوں کو مبائل فون دیں تو اس کی سخت نگرانی کی ضرورت ہے آج کل ماں باپ دوسروں کے بچوں سے تو بد ظن اور بد گمان ہوتے ہیں ،لیکن اپنے بچوں سے حد درجہ مطمئن ہوتے ہیں حالانکہ موجودہ دور میں اپنے بچوں سے سب سے زیادہ بد گمان رہنے کی ضرورت ہے، ہر وقت ان کے فون کی نگرانی کی ضرورت ہے کہ کس سے بات ہوتی ہے ، کب بات ہوتی ہے اور بعض مرتبہ خفیہ طور پر یہ بھی معلوم کرلینا چاہیے کہ کیا بات ہوتی ہے ، اگر ہم اپنے بچوں کو کھونا نہیں چاہتے ہیں اور اسے اپنے سے دور کرنا نہیں چاہتے ہیں اس کی دنیا اور آخرت برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتے ہیں تو اس طرح کے اقدامات کرنے ضروری ہوں گے۔