ہندوستان میں
اقلیتی زبانوں کا دستوری موقف ۔۔ایک جائزہ
فاروق طاہر
عیدی بازار،حیدرآباد دکن،
,9700122826
(گزشتہ مضمون ذریعہ تعلیم مادری زبان کیوں سے پیوستہ)
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسانی ذہن مادری زبان کے زیر اثر ارتقاء پذیر رہتا ہے۔وہ معاشرہ جہاں عوام اپنی مادری زبان سے آگہی نہ رکھتے ہوں جلد یا بادیر وہ سماج میں اپنی شناخت گنوا بیٹھتا ہے۔معاشرتی ارتقاء اور ترقی کے لئے مادری زبان سے آگہی اور لسانی شناخت لازمی ضروری تصور کی جاتی ہے۔کسی بھی شخص کی ہمہ جہت ترقی اس کی اپنی مادری زبان سے وابستہ ہوتی ہے۔
زیادہ زبانوں کو سیکھنے کی تائید ی حضرات سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ انسانی ارتقاء کے لئے زیادہ زبانوں کے علم کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی ارتقاء کے تجربے اور تجزیے میں مختلف زبانوں کا علم سہولت بخش ہوتا ہے۔مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان کا سیکھنا انسان کے لئے اس وقت فائدہ مندثابت ہوتا ہے جب وہ اپنی مادری زبان میں نوشت و خواند اور مافی الضمیر کے اظہار میں دسترس رکھتا ہو۔بے شک زبانو ں کا علم انسان کے ذہن کو وسعت اور کشادگی فراہم کرنے میں معاون ہوتا ہے ۔ مصر کے معروف ادیب ڈاکڑ اٖحمد امین کہتے ہیں’’پہلے میں صرف اپنی مادری زبان ہی جانتا تھا۔مادری زبان سیکھنے کے بعد میں نے انگریزی سیکھنی شروع کی اور محنت شاقہ کے بعد میں نے اتنی استعداد پیدا کرلی کہ انگریزی کتابوں کو پڑھ کر سمجھنے لگا۔مزید کہتے ہیں جب میں نے انگریزی زبان سیکھی تو گویا مجھے محسوس ہوا جیسے پہلے میری ایک آنکھ ہی تھی لیکن اب میں دو آنکھیں رکھتا ہوں۔ڈاکٹر احمد امین کے مطابق اپنی معلومات کو اگر کوئی شخص مادری زبان تک ہی محدود رکھے تب معرفت کائنات کے کئی باب اس پر بند ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان دوسری زبانیں سیکھنے کی ہمیں دعوت ضرور دے رہا ہے لیکن مادری زبان سے بغض و عناد رکھنے والے اور مادری زبان بولنے لکھنے میں عار اور اپنی توہین محسوس کرنے والوں کے لئے ڈاکٹر امین احمد کا ایک اور جملہ ان کی آنکھوں پر بندھی غفلت اور ظلمت کی پٹی کھولنے کے لئے کافی ہے۔’’مجھے اپنی مادری زبان سے بہت زیادہ محبت ہے ،میں ماہرین ارضیات کے اس دعوے پر یقین رکھتا ہوں کہ چھوٹی سی چھوٹی پہاڑی سے بھی سونے کی کان نکل سکتی ہے۔‘‘اس قول کی روشنی میٖں یہ بات بڑی ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی فرد کی ذات میں پنہاں گنج گراں مایہ کی باز یافت کے لئے مادری زبان کا علم لازمی ہے اگرچہ کہ اس کی مادری زبان کتنی ہی چھوٹی اور غیر ترقی یافتہ کیوں نہ ہو۔ہمارا دستور ہمیں اپنی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کی ہر ممکن مدد ضرور فراہم کرتا ہے لیکن علاقائی تعصابات کی وجہ سے دستور پر عمل آور ی کسی قدر مشکل ہوتی جارہی ہے۔کسی بھی علاقے میں رائج زبا ن کی اپنی اہمیت اور افادیت ہوتی ہے اور اسے پھلنے پھولنے کے تمام مواقع فراہم کرنا بے حد ضروری ہے لیکن کسی بھی علاقائی زبان کے نفاذ میں وہاں کی لسانی اقلیت کے درپیش مسائل کو دستوری طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ماہرین لسانیات کے نزدیک علاقائی زبانوں کی بڑی اہمیت ہے لیکن اس کو درسی زبان بنانے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس میں تدریسی صلاحیتں پائی بھی جاتی ہیں کہ نہیں۔ماہرین لسانیات علاقائی زبانوں کی صلاحیتوں پر جب شرف قبولیت کے لئے پابندی عائد کرتے نظر آرہے ہیں تو پھر یہ بات ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ ایک اجنبی ،غیر مانوس اور غیر ملکی زبان مثلاً انگریزی کو ابتدائی تعلیم کا ذریعہ بنانا کتنی بڑی نادانی ہوگی۔اس مضمون میں ابتدائی تعلیم کے لئے دستور ہند میں فراہم کردہ سہولتوں ،مختلف کمیشنوں اور کمیٹیوں کی سفارشات اور ان کے طرز کارگردگی پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
لسانی تنوع(Lingual Diversity)؛۔
ہندوستان میں نہ صرف رہن سہن ،غذا ئی عادات ،تہوار، رنگ روپ، لباس اور رسم و رواج وغیرہ میں تنوع پایا جاتا ہے بلکہ زبانوں کے معاملے میں یہ بات اوربھی اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔تمام ہندوستان میں لسانی تنوع ایک عام بات ہے۔ شمالی ہندوستان میں آرین زبانوں اور جنوبی ہندوستان میں دراوڈین زبانوں کو فروغ حاصل ہوا۔دستور ہند کی آٹھویں شیڈول(جدول) میں سرکاری زبانوں(قومی زبانوں) کی صراحت کر دی گئی ہے۔دفعہ 344(1)اور دفعہ 351کے تحت 22زبانوں کو دستوری موقوف دیا گیا ہے جس میں اردو زبان بھی شامل ہے۔ ان دفعات کی رو سے حکومت دستور میں صراحت کردہ زبانوں کے فروغ ، ترویج ا ور ترقی کی پابند عہد ہے۔ان زبانوں کی ترقی سے مراد صرف ایک ادبی زبان کے طور پر ان کی ترقی اور ترویج مراد نہیں ہے بلکہ ان زبانوں کو تعلیمی زبان کے طور پر اختیار کرنے کے علاوہ تمام عصری علوم اور لسانی علوم کے سرمائے کوان زبانو ں میں فروغ دینا بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ دستور کی ان دفعات کی رو سے پبلک سرویس کمیشن کے تمام امتحانات کے جوابات ان زبانوں میں تحریر کرنے کا استحقاق بھی شہریوں کو حاصل ہے۔امسال دستور کی ان تمام دفعات کو برف دان کی نذر کرتے ہوئے NEETکے امتحان کو اردو میں منعقد نہیں کیا گیا۔ اسٹوڈنٹس اسلامک اسوسی ایشن کی جانب سے عدالتی رسہ کشی کے بعد حکومت کو آئندہ تعلیمی سال سے اردو میں بھی یہ امتحان منعقد کرنے کی سپریم کورٹ نے واضح ہدایت دی ہے۔لسانی اقلیتیں اپنے حقوق سے عدم واقفیت کی وجہ سے بھی استحصال کا شکار ہورہی ہیں۔اگر عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان بھر میں ہندی بولنے والوں کا تناسب زیادہ ہے تو یہ بات بالکل لغو اور بے بنیادپرو پگنڈا ہے ۔ ملک بھر میں ہندی بولنے والوں کی شرح 30% تک پائی جاتی ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ ایک ارب تیس کروڑ ہندوستانیوں میں تقریباً 40کروڑ ہندی بولنے والے پائے جاتے ہیں اور اسی تا نوے کروڑ غیر ہندی لوگ بستے ہیں۔ یہ اعداد وشمار ہمارے ملک میں پائے جانے والے لسانی تنوع کی منہ بولتی تصویر ہے۔بے شک ہندی ہماری قومی زبان ہے اور اس کو اس کا جائزہ مقام بھی ملنا چاہئے لیکن دیگر زبانوں کی ترقی کے بغیر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا اورلسانی و مذہبی منافرت سے ملک کو آزادی دلانا مشکل نظر آتا ہے۔ملک کی آزادی کے بعد اردو ہندی کا قضیہ شدت اختیار کر گیا اور صدر جمہوریہ کے ایک ووٹ کی وجہ سے اردو کے بجائے ہندی کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہوگیا۔26جنوری 1950میں آئین کے نفاذ سے پہلے بھی بچوں کو ضرروتوں کے مطابق زبانیں سکھانے کی ضرورت پر خاص توجہ دی گئی تھی۔ابتداً دستور کی دفعہ 344(1) اور 350 کے تحت صرف 14زبانو ں کو ہی شامل کیا گیاتھا ۔جب دستوری طور پر ان زبانوں کو تسلیم کر لیا گیا اور ان کو دستوری حیثیت مل گئی تو ان زبانوں میں تعلیم کا نظم بھی کیا جانے لگا۔ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان زبانوں کی بنیاد پر 1956میں ریاستوں کی تشکیل جدید عمل میں آئی۔لسانی بنیادوں پر صوبوں کی تشکیل کے بعد سندھی اور اردو زبان کے سوا تمام قومی زبانیں اپنے اپنے علاقوں میں جہاں ان کے بولنے والوں کی اکثریت ہے نہ صرف مقتتدر زبانیں بن گئیں بلکہ حکومتی اور انتظامی معاملات میں فیصلہ کن موقف حامل ہوگئی۔لسانی بنیادوں پر تشکیل شدہ صوبوں میں اردو اور سندھی کے حصے میں کوئی صوبے اور ریاست نہیں آئی بلکہ یہ اپنے وطن میں ہی بے وطن ہوگئیں۔ ملک میں سندھی بولنے والوں کی ایک قلیل تعدا د پائی جاتی ہے جبکہ اردو آج بھی ہندوستان کے بیشیر علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے لیکن اپنا کوئی علاقہ نہ رکھنے کے باعث افادیت سے بھر پوریہ زبان درخور ا عتناء نہیں سمجھی گئی۔دستور ہند میں دفعہ 345،347،اور 350کی رو سے اقلیتی زبانوں کو مناسب رعایات فراہم کی گئی ہیں۔ اب یہ لسانی اقلیتوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنی زبانوں سے تئیں وفاداری کا مظاہرہ کریں اور دستوری حقوق حاصل کرنے میں لاپروائی اور تساہل سے کام نہ لیں۔
ملک میں اقلیتی زبان کا موقف؛۔
آزادی کے بعد قومی رہنماؤں اور مرکزی حکومت نے لسانی اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ میں بہت کوششیں کیں ۔ان کوششوں کو اجمالی جائزہ لینے کی بین السطور کوشش کی گئی ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقلیتی زبانو ں سے عداوت اور تعصب کی ایک ایسی فضاء پیدا کی گئی جس کی وجہ سے اقلیتی زبانیں اپنے فروغ بلکہ بقاء کے لئے تڑپ رہی ہیں۔یہاں اقلیتی زبان سے مراد وہ زبان ہے جس کے حصے میں کوئی ریاست اور علاقہ نہیں آیا اور یہ زبان بولنے پڑھنے والوں کی ایک بڑی آبادی( ملک کی دوسری اکثریت )ملک کی مختلف ریاستوں میں منتشر ہے۔
سہ لسانی فار مولہ (Three language Formula)؛۔
ملک میں پائے جانے والے لسانی تنوع کو مد نظر رکھتے ہوئے ثانوی سطح پر تعلیم کے لئے مرکزی مشاورتی بورذ برائے تعلیم(CABE-Central Advisor Board Of Education)نے 1949میں سہ لسانی فارمولہ ترتیب دیا جسے اگست 1961میں تمام ریاستوں نے اپنی لسانی ضروریات کے مطابق ازسر نو مرتب کیا۔سہ لسانی فارمولہ نے اقلیتی زبانوں کو بڑی حد تک سہارا فراہم کرنے کی کوشش کی۔ یہ فارمولہ نہایت سادہ اور قابل فہم تھا،مادری زبان،کوئی ایک جدید ہندوستانی زبان (یہ جدید ہندوستانی زبان کوئی اور زبان نہیں بلکہ اقلیتی زبانیں بشمول اردو ہی ہیں) اور انگریزی۔اس کے علاوہ غیر ہندی طبقے کے لئے ثانوی سطح پر ہندی کی تعلیم سہ لسانی فارمولے کا لب لباب ہے۔اس فارمولے کو 1961کو نیشنل انٹگریشن کونسل نے منظوری دے دی اور جس کی بنا ء 1968میں یہ قومی تعلیمی پالیسی(National Policy On Education)میں بھی شامل کر لیا گیا۔سہ لسانی فارمولہ ثانوی سطح پر لسانی الجھنوں کو رفع کرنے کے لئے وضع کیا گیاتھا۔یہاں ایک بات کی میں وضاحت ضروری سمجھتااہوں کہ سہ لسانی فارمولے کا اطلاق صرف ثانوی درجات میں تدریس زبا ن سے متعلق ہے جبکہ ابتدائی جماعتوں میں مادری زبان کو بحیثیت ایک زبان پڑھانے کی ہی نہیں بلکہ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر فروغ دینے کی نیشنل پالیسی آف ایجوکیشن اور دستور ہند نے ہمیں سہولت فراہم کی ہے۔ ان سہولتوں سے استفادے کے لئے جمہوری طور پر اقلیتی زبان سے تعلق رکھنے والے افراد کو نمائندگیاں کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ دستوری مراعات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ سہ لسانی فارمولہ ہندوستان کی تمام ریاستوں میں کسی نہ کسی تبدیل شدہشکل میں موجود ہے۔فارمولہ کی تبدیل شدہ ہیت ہی اس کے نفاذ میں پیچیدگیوں اور مشکلات کا اہم سبب واقع ہوئی ہے۔فارمولے کی یہ پیچیدگی اقلیتی زبانوں (بالخصوص اردو) میں تعلیمی سہولتوں کے خاتمے کا سب سے بڑا سبب بنا۔1970کے بعد ہندی کی مقبولیت میں بے حد تحاشہ اضافہ ہوا اور اردو روبہ زوال ہوئی۔سہ لسانی فارمولے کی وجہ سے ریاستوں میں اردو کو جگہ ملنا مشکل ہوگیا ۔ہونا تو یوں تھا کہ مادری زبان بحیثیت زبان اول علاقائی زبان بحیثیت زبان دوم اور انگریزی زبان سوم کے اختیار کی جاتی لیکن ہوا یوں کہ ریاستی زبان کو زبان اول ،قومی زبان ہندی کو زبان دوم اور انگریزی کو تیسری زبان کے طور پر رائج کیا گیا جو کہ سہ لسانی فارمولہ کی پیش کردہ سفارشات کے یکسر خلاف ہے۔قومی جذبے کے فروغ کی نیت سے جس فارمولے کو نفاذ کیا گیا تھا لیکن اس کی عمل آوری پر ریاستی حکومتوں کو پالیسی سازوں کو کے جو اختیارات دیئے گئے تھے اس سے نہ صرف لسانی منافرت کو ہوا ملی بلکہ اقلیتی زبانوں کے لئے یہ سم قاتل ثابت ہوئی۔دستورہند کی دفعات 345,،347، 350کی روشنی میں اقلیتی زبانوں کو فراہم کردہ رعایتوں سے روگردانی کی گئی اورمختلف ریاستوں میں تعصب پر مبنی ایسی حکمت عملیاں اختیار کی گئیں کہ اقلیتی زبان بولنے والوں کو دستوری تحفظات سے فائدہ پہنچنا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا چلاگیا۔
کرپلانی کمیٹی رپورٹ1956؛۔
16جولائی 1956میں کرپلانی کمیٹی نے اقلیتی زبان( اردو زبان) میں عدالتوں،دفاتر میں اردو دستاویزات کو بغیر ترجمے اور بغیر کسی دوسری زبان کے رسم الخط میں ڈھالے داخل اور قبول کرنے کی سفارش کی۔اس کے علاوہ دفاتر میں اقلیتی زبان( اردو )میں پیش کی جانے والی درخواستوں کو قبول کرنے کی بھی سفارش کی گئی۔کرپلانی کمیٹی کی سب اہم سفارش یہ تھی کہ ایسے تمام طلبہ جن کے والدین یا سرپرست جس زبان کو اپنی مادری زبان قرار دیں اسی زبان میں ان کے بچوں کو تحتانوی سطح تک تعلیم فراہم کی جائے(نوٹ، یہاں بحیثیت زبان نہیں بلکہ مادری زبان میں تعلیم کی فراہمی کی بات کہی گئی ہے)۔اقلیتی زبان کے (اردو) اساتذہ کو مناسب تربیت اور درسی کتب کا انتظام کی بات کی گئی۔ثانوی سطح پر بھی اقلیتی زبان (اردو) کو ذریعہ تعلیم اختیار کرنے کی سہولت فراہمی کی بھی سفارش کی گئی۔اس کے علاوہ ایسے تما م علاقے جہاں اردو رائج ہے اور جن علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہاں اہم قوانین ،اصول و ضوابط اور عوامی اطلاعات کو اردو میں جاری کرنے پر زور دیا گیا۔لیکن کرپلانی کمیٹ رپوٹ پر عمل درآمد آج تک نہیں ہوسکا۔ کرپلانی کمیٹی رپورٹ کی سفارشات پر عمل آوری میں انحراف اردو اور لسانی اقلیتوں کو ان کے دستوری حقوق سے محروم کر دینے کے مترادف ہے۔
گجرال کمیٹی 1972؛۔
اردو کے فرو غ کے لئے 1972میں ایک کمیٹی جناب آئی کے گجرال کی سرکردگی میں تشکیل دی گئی جو گجرال کمیٹی کے نام سے مشہور ہوئی۔1975میں گجرال کمیٹی رپورٹ منظر عام پرآئی۔گجرال کمیٹی نے ایسی ریاستیں،جہاں اردو آبادی کی قابل قدر تعداد بستی ہیں وہاں پر سہ لسانی فارمولے کے نفاذ اور عمل آوری میں نقائص اور پیچیدگیوں کا جائزہ لیا۔اپنی تحقیق کے مطابق گجرال کمیٹی نے ذیل کی سفارشات پیش کیں۔
زبان اول کے طور پر شمالی ہند کے صوبوں میں ہندی اور ہندی کمپوزٹ( مشترکہ لسانی کورس)جس میں سنسکرت کو مشترکہ کورس کے ایک حصے کے طورپر شامل کرنے کی تجویز رکھی گئی۔اس کے علاوہ انگریزی اور ایک ماڈرن انڈین لنگویج کو شامل کرنے کی بھی سفارش کی گئی۔لیکن ایک قابل تشویش پہلو اس سفارش کا یہ ہے کہ ماڈرن انڈین لنگویج کے صیغے میں بھی سنسکرت کو شامل کیا گیا۔مذکورہ فارمولہ ہندوستان کی شمالی ریاستوں کے لئے( جہاں ہندی والوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے) پیش کیا گیا۔غیر ہندی ریاستوں کے لئے علاقائی زبان ،،ہندی ،انگریزی اور اردویا کوئی جدید ہندوستانی زبان(انگریزی اور علاقائی زبان کے سواء)کی سفارش پیش کی گئی۔غیر ہندی ریاستوں کے لئے ایک اور متبادل فارمولہ بھی پیش کیا گیا جو متحدہ آندھرا پردیش میں کم از کم کاغذی سطح تک تو موجود تھا۔اس فارمولے کے تحت اردو اور ہندی کمپوزٹ کورس(مشترکہ کورس)،علاقائی زبان ،اور انگریزی یا کوئی جدید یوروپی زبان کو اختیارکرنے کی وکالت کی گئی۔گجرال کمیٹی فارمولے کی سب سے بڑی خامی یہ رہی کہ مادری زبان کے بجائے ریاست کی پہلی زبان کو ترجیح دے کر اقلیتی زبانوں بشمول اردو کو ثانوی درجہ دے دیا گیا۔گجرال کمیٹی کا یہ عمل ہندی علاقوں میں ہندی کی بالادستی کو قائم کرنے میں کارگر ثابت ہوا اور دوسری قومی زبانوں بالخصوص اردو کے مقابل میں ہندی کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔اس پالیسی سے اردو کو نقصان پہنچنا لازمی تھا کیوں کہ سوائے جموں کشمیر کے اردو کسی بھی ریاست کی پہلی زبان نہیں تھی۔سنسکرت جیسی ایک کلاسیکی زبان کو جدید ہندوستانی زبانوں کی فہر ست میں شامل کرنے کے گجرال کمیٹی کی اقدام کی وجہ سے ہندی والوں اور غیر اردوداں لوگوں کے لئے اردو ایک اختیاری زبان کے طور پر پڑھنے کی راہیں مسدود ہوگئیں۔گجرال کمیٹی رپورٹ نے کلاسیکی زبانوں کو کوئی مقام نہیں دیا۔ہندی زبان والی ریاستوں کے لئے گجرال کمیٹی نے سہ لسانی فارمولے کی شکل کو تبدیل کرتے ہوئے ہندی اور سنسکرت کمپوزٹ (مشترکہ کورس) کورس کی سفارش پیش کی گئی جب کہ غیر ہندی ریاستوں میں ہندی اور اردوکمپوزٹ کورس(مشترکہ کورس) کی تائید کی گئی۔گجرال کمیٹی سوائے گجرات اور مہاراشٹر کے کسی ایک مشترک کورس کی تجویز پیش کرنے میں ناکام رہی جس کے مطابق جہاں ریاست کی پہلی زبان اور ہندی کا مشترک کورس پڑھایا جاسکے اور طلبہ چارزبانیں پڑھنے کے بوجھ سے بچتے ہوئے تین زبانوں کو سیکھ سکیں۔گجرال کمیٹی سفارشات کی روشنی میں اردو بولنے والے بچوں کو اپنی مادری زبان میں لیاقت اور قابلیت پیدا کرنے کو خواہش کبھی پائے تکمیل کو پہنچتی نظر نہیں آتی ۔آئی ۔کے ۔گجرال صاحب ملک کے وزیر اعظم بننے کے باوجود بھی اردو کو اس کا جائزہ مقام نہیں مل پایا۔آنجہانی وزیراعظم پی ۔وی۔نرسمہاراؤ کے دور اقتدار میں سہ لسانی فارمولہ میں خرابی یوں در آئی کہ دوسری زبان کے طور پر شمالی ہندمیں جنوبی ہند کی زبانیں پڑھانے کی پالیسی وضع کی گئی۔جس کی وجہ سے ہندی ریاستوں میں ہندی کے طلبہ کے لئے اردو یادیگر اقلیتی زبانیں پڑھنے کے مواقع محدود ہوکر رہ گئے۔یہاں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ دونوں وزراء اعظم کا تعلق اردو زبان سے تھا اور انھوں نے اپنی تعلیم اردوزبان سے ہی حاصل کی تھی۔ دونوں وزراء اعظم اردو کے بہترین اسکالر اور مقرر بھی واقع ہوئے ہیں لیکن اسے اتفاق کہیے یا اردو کی بد قسمتی ۔اس گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے۔اگلی قسط میں ان شاء اللہ،اس پہلو پر روشنی ڈالنے کو کوشش کی جائے کہ کیا اردو عوامی سطح پر ایک زندہ زبان کے طورپر اپنا وجود منوانے میں کامیاب حاصل کر پائے گی کہ نہیں، یا پھر ایک مخصوص مذہب و کلچر کی زبان بن کر رہ جائے گی۔یا پھر ادبی مباحثوں اور تفریحی زبان تک یہ سمٹ جائے گی اس کے علاوہ ریاست تلنگانہ میں اردو کی موجودہ صورتحال پرروشنی ڈالی جائے گے ۔(جاری ہے)