اقبال کی شاعرانہ عظمت
جرار احمد
اقبال کی پیدائش 9؍ نومبر 1877 ء کو سیالکوٹ میں ہوئی ۔ والدین بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے اس کے باوجود بیٹے کی تربیت پر بہت توجہ کی ۔ اپنے وطن میں ہی اقبال نے پرائمری اور اعلی پرائمری تعلیمات حاصل کیں ۔البتہ 1905میں اعلی تعلیم کی خاطر انگلستان کے لئے رخت سفر باندھا۔ 1908میں نئی فکر ، نئی سوچ کے ساتھ واپس اپنے وطن آئے ۔21؍اپریل 1938کو ایک لمبی بیماری کے بعد اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔
اقبال ہماری زبان اردو کے فلسفی شاعر ہیں ، جیسا کہ انہوں نے بارہا اس بات کا اعتراف کیا کہ میں شاعر نہیں ہوں بلکہ میں نے شاعری کو صرف اپنے پیغام کی ترسیل کا ایک ذریعہ بنایا۔اقبال کہتے ہیں کہ ’’ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا ۔فن شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی، ہاں ! بعض مقاصد خاص رکھتاہوں جن کے بیان کے لئے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے ورنہ ۔۔
نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست
کہ برمن تہمت شعرو سخن بست‘‘
اس قول کی تصدیق میں عبدالماجد دریا بادی کہتے ہیں کہ ۔۔’’وہ باوجو د اتنا بڑا مشہور شاعر ہونے کے شاعر نہیں ہے بلکہ اپنے پیام سے مقام نبوت کی جانشینی کا حق ادا کر رہا ہے۔ مبارک ہیں وہ ہستیاں جو اقبال شناس ہو جائیں۔‘‘
عبدالماجد دریابادی کا یہ قول جہاں اس بات کی تائید کر رہاہے کہ اقبال شاعر نہیں تھے وہیں ان کی عظمت کا اعتراف بھی کر رہاہے کہ یقیناًوہ ایک بہت بڑے عظیم شاعر و فلسفی تھے ۔اسی وجہ سے مقام نبوت کی جا نشینی کا جملہ دریابادی نے استعمال کیا جس سے ان کی عظمت اور بڑھ جاتی ہے ۔
اردو کے دوسرے شعرا پرجب ہم نظر ڈالتے ہیں تو پاتے ہیں کہ اگر چہ ان کی شاعری میں بھی فلسفہ مل جاتا ہے جیسا کہ ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ فلسفیانہ عنصر ہوتاہے مگر جو فلسفی ہوتاہے اس کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے اسی طرح سے اقبال سے پہلے اور بعد بھی بہت سے ایسے شعراء گذرے اور آئے جن کے یہاں ہمیں جا بجا فلسفیانہ عنصر ملتاہے مگر اقبال چونکہ کی فلسفی تھے اسی لئے اگراس ضمن میں میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ دوسروں کے وہاں جس طرح تھوڑا تھوڑا فلسفیانہ عنصر ملتاہے اسی طرح ٹھیک اس کے برعکس اقبال کے یہاں تھوڑا تھوڑا شاعرانہ عنصر ملتاہے ۔
اقبال کی عظمت اس طرح سے اور بڑھ جاتی ہے کہ اقبال نے شاعری کو صرف ذریعہ بنایا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کوشش کی کہ فن شاعری کو بھی نہایت خوبی کے ساتھ برتا جائے تاکہ شاعری بھونڈی نہ معلوم ہو اسی وجہ سے بعض لوگوں نے کہاکہ اقبال شاعر تھے جا بجا وہ شاعر تھے اور یہ ان کا کمال ان کی عظمت تھی کہ انہوں نے دوفن کو ایک ساتھ برتا یعنی فلسفہ کے ساتھ ساتھ فن شاعری کو بھی انہوں نے نہایت سلیقہ کے ساتھ ساتھ برتا اور یہی وجہ ہے کہ اقبال اپنے پیغام کی ترسیل میں کما حقہ کامیاب ہوئے ۔ اگر وہ شاعری کے فن کو صحیح سے نہ برتتے تو شرفا اور خاص طبقہ تک ان کے پیغام کی ترسیل نہ ہوپاتی اور ان کی شاعری صرف عوام اور جہلاتک محدود رہ جاتی اسی لئے اقبال نے فن کو برتا تاکہ عوام کے ساتھ ساتھ خواص تک بھی رسائی ہوجائے اور یہی رویہ ،طریقہ شاعری میں بدلاؤ کی وجہ بنا کہ عوام نے اسے پسند کیا اور خواص نے اقبال کے ساتھ اسے اپنی شاعری میں برتاجس کی وجہ سے اقبال کی شاعرانہ عظمت میں چار چاند لگ گیا اور وہ شاعری کے آسمان پر ماہتاب بن کر چمکے ۔چونکہ اقبال ایک پیامی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے بھی واقف تھے کہ پیرایۂ اظہار میں دلکشی نہ ہو تو فلسفہ و پیغام کی طرف کوئی متوجہ ہوتاہی نہیں اسی وجہ سے انہوں نے تمام شعری وسائل کا سہارا لیکر سامعین کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
اقبال نے اپنے فلسفہ سے ملت اسلامیہ کے درد کی دوا کی اور ہر لمحہ ہر آن یہی کوشش کی کہ کس طرح سے ملت اسلامیہ کو قعر مذلت کے دلدل سے نکالاجائے اور ان کا کھویا ہوا وقار ، رتبہ جاہ وحشمت واپس لوٹا یا جائے اور وہ اپنی قدرومنزلت اپنے عہدے پر دوبارہ فائز ہوں ۔ یہاں پر یہی فکر ،یہی فلسفہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کے وقار کواور بلند کردیتا ہے کہ ان کے وقت بہت سے دوسرے شعرا تھے جو صرف فن برائے فن یا فن برائے زندگی کے لئے شاعری کررہے تھے مگر اقبال اپنی قوم کی ڈوبتی نیا کو طوفان حوادث سے کنارہ لانے کے لئے کوشاں تھے ۔
دوسرے شعرا نے اپنے وقت ، حالات ، ماحول کو اپنی شاعری میں پیش کیا اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی شاعری کو بدلا مگر اقبال نے عام روش سے ہٹ کر اس کام کو کیا ، انہو ں نے خود وقت، حالات ، ماحول کو اپنے موافق بنانے کی کوشش کی اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق شاعری کرنے کے بجائے اپنی شاعری کے ذریعہ سے خود ماحول ،وقت اور حالات کو بدلنے کی کامیاب سعی کی۔
جس کی مثال خود ان کا یہ شعر ہے کہ۔۔
نہ ہو ماحول سے مایوس دنیا خود بنا اپنی
نئی آندھی ،نئی کشتی ، نیا طوفان پیداکر
اقبال کا فلسفہ ہمیشہ اسی طرز فکر کے اطراف گھومتارہاہے ۔ اور انہوں نے ہمیشہ اپنے فلسفہ میں یہ پیغام دیا کہ کسی بھی صورت میں تجھے مایوس نہیں ہونا ہے ۔ اگر ماحول تیرے مطابق نہیں ہیں تو نہ ہوں تجھے اس کی فکر بھی نہیں کرنی ہے تو خود اپنے لئے ایک الگ سے اپنا اک نیا ماحول بنا ، جو جو چیزیں تیرے موافق نہیں ہیں وہ وہ چیزیں تو خود اپنے لئے الگ سے نئی بنالے تو ایک دن ضرور ایسا آئے گا کہ خود بہ خود تو دیکھے گا کہ جن چیزوں ، حالات و ماحول کو تونے اپنے لئے بنایا تھا آج وہ پورے عالم پر چھائی ہوئی ہیں۔
اقبال کی شاعری کا ایک خاص وصف یہ بھی تھاکہ وہ اپنے پیغام کو کسی اہم ہستی کے ذریعہ یازبانی ادا کراتے ہیں جس سے ان کے پیغام کی تا ثیر اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ کہیں خضر کی زبان ،کہیں جبریل کی تو کہیں لینن کی ،کہیں سر سید کی تو کہیں خالق کائنات کی زبانی اپنے پیغام کی ترسیل کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔ان ہستیوں کے ذریعہ اپنے پیغام کی ترسیل اس لئے کرتے ہیں تاکہ نہایت ہی مؤثر طریقہ سے پیغام کی ترسیل ہو اور ہر کس و ناکس کے دل میں ان کا پیغام گھر کر جائے اور لوگ خواب غفلت سے بیدار ہو کر عمل کی کوشش کی طرف گامزن ہو جائیں کیونکہ عمل سے ہی دین بھی ہے اور دنیا بھی۔
ان کی شاعری کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کی غزلوں اور نظموں کو بڑی خوش آہنگی کے ساتھ گایا جا سکتاہے اور سننے والے اس سے کچھ زیادہ ہی محظوظ ہوتے ہیں کیونکہ اقبال کے کلام میں ترنم بہت زیادہ ہے۔اقبال نے بحروں کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے اور لفظو ں کے انتخا ب میں بھی انہوں نے بہت ہنر مندی کا ثبوت دیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ خواص کے ساتھ ساتھ عوام الناس نے بھی اقبال کو خوب سراہااور ان کی نظموں اور غزلوں کو گایاجس نے ا ن کی عظمت کو اور بڑھادیا۔
اقبال صرف ایک جگہ ،ایک مقام ،ایک ملک کے شاعر نہیں تھے بلکہ وہ ایک ملی شاعر تھے ان کا پیغام آفاقی تھا، ان کا فلسفہ پوری دنیا کی فلاح کے لئے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری نے تمام چیزوں کا احاطہ کیا ہے کبھی وہ بچوں کے لئے قومی گیت، نیاشوالہ وغیرہ تخلیق کر تے ہیں تو کبھی ترانۂ ملی لکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اقبال کی شہرت کا دارو مدار ان کی طویل نظموں پر ہے جن میں ان کا خاص رنگ خاص فکر اور تخیل پایا جاتاہے ۔ انہیں نظموں میں اقبال نے اپنے خاص شاعرانہ فن کے جوہر کی نمائش کی ہے اور فلسفہ و تصوف حب وطن کے جذبات کے ساتھ ان میں بہترین شستہ و رفتہ زبان، سلاست بیان ، زور تخیل ،جذب و اثر اور نئے نئے استعارے ، تشبیہیں پائی جاتی ہیں۔ ’’ہمالہ‘‘ ’’خضر راہ‘‘ ’’شمع وشاعر‘‘ شکوہ‘‘ کا تعلق اسی صنف سے ہے۔ یہ تمام نظمیں رسمی اور معمولی نہیں ہیں بلکہ یہ غیرمعمولی حیثیت کی حامل ہیں جس میں اقبال نے اپنے فن کے جوہر رسم و روایت سے ہٹ کر دکھائے ہیں ۔اور یہ سچے جذبات کا صاف و شفاف آئینہ اور طرز بیان اور بلندی خیال کا بہترین نمونہ ہیں اور ساتھ ہی اقبال کی شاعرانہ عظمت کی اعلی مثالب بھی ہیں ۔
جب تک اقبال ملی شاعری نہیں کررہے تھے تو اقبال کی فکر اقبال کا فلسفہ حب وطن کے جذبہ سے سر شار تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ ۔۔
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
جب اقبال انگلستان سے لوٹے تو جذبہ وطنیت مدھم پڑ گیا تھا اور اب ان کے اندر جو جذبہ تھا وہ محدود نہیں تھا بلکہ لا محدود تھا اور یہ جذبہ ملی تھا اور جیسے ہی ان کا جذبہ ملی ہو تاہے وہ کہتے ہیں کہ تمام دنیا کے مسلمانو کو اپنے تئیں ایک عظیم الشان زنجیر کی کڑیاں سمجھنا چاہئے قوم و ملک قرب وبعد کے فرضی خیالات دل سے یک قلم نکال دینا چاہئے اور اپنے تئیں ایک برادری سمجھنا چاہئے اس ضمن میں اقبال کہتے ہیں کہ۔۔۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی نہ افغانی
اس طرح سے اقبال نے بالا اشعار کے ذریعہ سے اپنے ملی جذبے کا اظہار کیا ہے آج کے وقت میں جس کی سب سے اہم ضرورت ہے ہر کوئی اقبال سے لے کر آج تک اس کی ضرورت محسوس کرتا آیا مگرافسوس کہ عمل کرنے کے لئے چندے لوگ بھی آگے نہیں آئے اور نہ ہی کسی نے اقبال کے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔مگر پھر بھی اقبال کی عظمت ان معنوں میں باقی ہے کہ جو بات انہوں نے انیسویں صدی میں کہدی تھی آج اس کی معنویت اور زیادہ ہوگئی ہے ۔اور ایک بڑے شاعر کی یہی پہچان ہے کہ وہ حال کے تناظر میں مستقبل کو دیکھ لیتاہے ۔
جو بھی عظیم شاعر ہوتاہے وہ اپنی شاعری زندگی کے حقائق کے سیاق میں عملی شاعری کرتاہے۔ اسی طرح سے اقبال کی شاعری پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ اقبال نے بھی عملی شاعری کی ہے اور وہ اشیاکے عملی پہلو کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے ہیں اس کے باوجود کہ ان کے خیالات آسمان کی بلندیوں میں پیماں ہیں مگر وہ بذات خود زمین کی آغوش میں ساکن ہیں ۔ اقبال کو انسانی کمزوریوں کابہت ہی اچھے سے احساس ہے ۔ ان کی دنیا عملی ہے جس میں خوشی و غم ، فرحت و مسرت اور امید و یاس کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ اور وہ کبھی اس حقیقت کو نظر انداز کرنا نہیں چاہتے ۔ او ر حقیقت سے روگر دانی نہ کرنا ہی بڑ ے شاعر کی نشانی ہے اور یہ بھی اقبال کی عظمت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔
کوئی بھی موضوع ہو اقبال کی نظر سے وہ دور نہیں ایک معمولی سے جگنو کی داستان سے لیکر دنیا کے بڑے بڑے بکھیڑوں تک پر اقبال نے شاعری کی، کبھی سید کی لوح تربت ، تو کبھی طلبا علی گڑھ کالج کے نام تو کبھی لینن تو کبھی جبریل و ابلیس تو کبھی عقل و دل تو کبھی حب وطن غرض کی ہر جگہ اقبال نے اپنے فکر اور فلسفہ کی چھاپ چھوڑی اور ان کا پیغام اپنے وطن کے لئے بھی تھا اپنی سوتی ہوئی قوم کو جگانے کے لئے بھی اور ان کو حرکت میں لانے کے لئے بھی تھا ۔اس ضمن میں سرطامس آرنلڈ ، برطانیہ لکھتے ہیں کہ۔۔’’ہندوستان میں حرکت تجدید نے اپنا ممتاز ترین ظہور سر محمد اقبال کی شاعری میں حاصل کیاہے۔‘‘ اس قول سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ اقبال نے جب حب وطن میں ڈوب کر اپنے ملک کے لئے شاعری کی تو لوگو ں میں انقلاب پیدا ہوا اور لوگ فروگزاشت سے نکل کر حرکت و عمل کی طرف راغب ہوئے اور زمین کی پستیوں سے اٹھ کر آسمان کی بلندیوں پر اپنے قدم کو رکھا اقبال کہتے ہیں کہ ۔۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
دوسرے شعرا نے بھی انقلابی شاعری کی مگر اقبال کی شاعری میں ان کا خون جگر لگا ہواتھا جس کی وجہ سے ان کی شاعری نے لوگوں کے دلوں پر زیادہ اثر کیا اور لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوئے ۔ یہ اقبال کی شاعرانہ عظمت ہی ہے کہ انہوں نے ایک ملک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا تک کو اپنا پیغام دیا کیونکہ اقبال کی نظر میں پوری دنیا ان کی تھی وہ خود کہتے ہیں کہ ’’ہند ی ہیں ہم وطن ہیں سارا جہاں ہمارا‘‘
اگر ہم دوسرے شعرا کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے صرف اپنے اطراف اپنے ملک کے سیاق میں شاعری کی ہے بہت ہی کم ایسے شعرا ملیں گے جنہوں نے پوری دنیا کو اپنی شاعری کا مطمح نظر بنا یاہو ان چند میں بھی اقبال کانام ہمیں ضرور ملے گا کبھی شاعری کی شکل میں تو خطوط کی شکل میں لیکن بہر حال اقبال ؔ اقبال تھے ا ن کا کوئی ثانی نہیں اور ان کی شاعرانہ عظمت سے کسی کو انکار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ گذرجانے کے باوجود بھی ان کی شاعری زندہ و تابندہ ہے اور آ ج بھی ہم اقبال کو پڑھتے ہیں۔ان کے فلسفہ کی گرہوں کو کھولنے کی سعی کرتے ہیں تاکہ ہمیں بھی صحیح راہ ملے اور یہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کا جیتا جاگتاثبوت ہے ۔میں اپنی بات کو چند ہستیوں کے قول پر ختم کرتا ہوں کہ۔۔
’’اقبال ایک شاعر جس نے زمانے پر اپنا سکہ بٹھایا‘‘ (ڈاکٹر طہ حسین مصر)
’’علامہ اقبال کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین شعرا اور مفکر میں کیاجاتاہے ۔ان کی حیا ت ہی میں انہیں شاعر مشرق کہا جانے لگا‘‘۔( نکولائی گلوبوف،روس)
’’اقبال کی شاعری کی خاص غایت تھی ۔مولانا حالی کی طرح اقبال نے بھی اپنی شاعری سے قوم او رملک کو جگانے اور رہنمائی کا کام لیا۔یہ اس کے خیال اور فکر کی قوت اور جدت تھی جس نے اس کے کلام اور طرز بیان میں زور اور جوش پیدا کردیا۔‘‘(بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق)
’’صرف سرزمین پاکستا ن کے لئے نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ آزادی ، وطن پرستی اور فضیلت کے لئے کوشاں تمام مسلمانوں اور انسانوں کی خدمت کرنے والے مفکر شاعر اقبال ہیں ‘‘ (ڈاکٹر عبدالقاد ر کراحان ، ترکی )
مندرجہ بالا اقوال کی بنا پر ہرکوئی اقبال کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ لگا سکتاہے کہ پوری دنیا کے لوگ ان کی فکر سے متاثر ہو کر اس پر اپنے تاثرات کو زیر قلم لا رہے ہیں۔اس طرح سے اقبال کی شاعرانہ عظمت زندہ جاوید ہو جاتی ہے۔
———
Jarrar Ahmed
ریسرچ اسکالر، شعبۂ تعلیم و تربیت
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی(مانو)، حیدرآباد
موبائل: 09618783492