آمداسلام اور صحابہ کبار سے متعلق کیرالا کا تاریخی تجزیہ
مستقیم احمد اشرفی
لیکچرر ‘ دارلہدی اسلامک یونیورسٹی کیرالا
ریسرچ اسکالر ۔ اردواورینٹل ۔ عثمانیہ یونیورسٹی
موبائل ۔ 08500431396
قسط اول
ہندوستان وہ جگہ ہے جہاں دیگر ملکوں کے بہ نسبت ہریالی پہاڑ پیڑ پودے سمندر،ندی و نالے ،جھرنے ،طرح طرح کے باغات ،پھل و پھول گرمی ، وسردی ، بارش ، پت جھڑیعنی برس کے موسم چار ، وہیں جنت نظیر سمجھی جا نے والی وادئ کشمیرہے غر ضیکہ ہندوستان کونظارہ قدرت کا حسین مرقع کہا جا سکتاہے یعنی قر یب قریب ہندوستان میں وہ سار ی چیزیں پائی جاتی ہیں جو دیگر ملکوں کے لحاظ سے بہت عمدہ اور اچھاسمجھا جا تا ہے ۔
ہندوستا ن ہی وہ جگہ ہے جہاں نوع انسا ن میں سب سے پہلا شخص روئے زمین پر اتارا گیا جسے خدانے اپنے دست قدرت سے سنورا او ر سجا یا تھاجو دنیا کا پہلا شخص تھا ،نسل انسا نی کا پہلا وجود تھا، اس دنیا میں نسل انسانی سے قبل جنا ت کا رہناسہنا تھا لیکن انہوں نے زمین پر وہ فتنہ و فساد برپا کیاکہ فر شتے بھی حیرت وششدر رہ گئے تھے لہذا ان کو بطور سزا اس دنیا سے نیست ونابود کردیا گیا ، پھر خدائے وحد ہ لا شر یک نے اپنا خلیفہ بنانے کا ارادہ فرمایا جس کا تذکرہ اپنے فرشتوں سے کیا کہ اے فرشتو ں میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہو ں بتاؤ تمہار اسمیں کیا خیال ہے ؟تو فرشتوں نے اپنے دانست کے مطا بق فرمایاکہ اے اللہ کیا تو پھر زمین پرایسے لوگوں کو پید ا فرما ئے گاجو فتنہ و فساد برپا کریں گے جبکہ ہم تیری تسبیح وتہلیل کرتے ہیں ، تیری پاکی بولنے کے لئے ہم کافی ہیں، تو اللہ نے فرشتوں کو جواب دیا اے فرشتو؟ جو میں جانتا ہو ں وہ تم نہیں جانتے !یہ سنکر فرشتوں نے اس کا اقرار کیا کہ بے شک مجھے تیری عطاکردہ علم ہی کے موافق جانکاری ہے ،حالانکہ فرشتوں نے خداسے یہ باتیں اعتراضا نہیں کہی تھیں بلکہ انہوں نے جو دنیا کی حا لتیں دیکھی تھیں اسی تحربہ کی روشنی میں اظہار خیال کیاتھا کہ اس سے قبل بھی زمین پر رہنے والوں نے خون خرا بہ کیا تھا، تو ممکن ہیکہ یہ بھی ایسا ہی کریں ۔بہر حال خدانے فرشتوں کومٹی کاپتلا بنا نے کا حکم دیا اور اس پتلا کو تیار کر نے کے لئے پوری رو ئے زمین کے قریبا ہر حصہ سے مٹی لی گئی اور طرح طرح سے ا سے مزین ومرصع کیا گیاپھر اللہ تعالی نے ا سمیں روح ڈالی اوراس طرح خلیفہ بنانے کا جو پرور دگار نے ذ کر کیا تھا بنکر تیار ہوگیا ،پھردیکھئے کس طرح زمین پر اترنے کے اسباب پید اہو تے گئے اورنسل انسانی سے دینا کے آباد ہونے کا کس انداز پر ماحو ل تیا ر ہو ا. اسے جنت میں رہنے کا حکم دیا گیا ، رہنے لگے ،پھرجب تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑی تو دل لگا نے کے لئے انہی کی پسلی سے ایک عورت پیداکردی گئی، پھر شادی ہو گئی ،ہنسی خو شی رہنے لگے، اسے تمام علوم سے نوازہ کیا گیا اور فر شتوں کے حضور لایاگیا، ان کے علم کا لوہامنوایا گیا، تمام فرشتے ان کے علم کے آگے سرخم تسلیم کرلیے تو، خدا نے خلیفہ کے آگے سب کو سجد ہ ریز ہونے کا حکم دیا سبھی حکم ربی کا پالن کرتے ہو ئے سرسجد ہ میں رکھکر اپنی عاجز ی اور حکم خد ا کی بالا دستی تہ دل سے مان لی، لیکن ابلیس منکر ہو ا، بولا،میں آگ سے بنایا گیا ہو ں اور یہ مٹی سے۔ ممکن نہیں کہ آگ مٹی کے آگے جھکے، لیکن وہ دلیل میں یہ فراموش کرگیا کہ یہاں آگ اور مٹی کے جھکنے جھکانے کی با ت نہیں ہے بلکہ حکم خداوند ی کاپاس ولحاظ رکھتے ہو ئے سرتسلیم خم کرنا ہے، چنانچہ گستاخی کی سزا ملی اور ہمیشہ کے لیے اس کو راندۂ بارگا ہ بناکر دربار سے نکال دیاگیا ۔نکل تو گیا! مگر بدلے لینے کی ٹھان لی اور صر ف اسی سے نہیں بلکہ قیامت تک ان سے پید ا ہو نے والی ہرہر نسل سے !۔رب نے بھی اسے مہلت دید ی ،جا ! دیکھتا ہوں؟ کہ تو کس حد تک جاتا ہے، لیکن خیال رکھنا جو ہم سے حقیقی محبت کرنے والے ہوں گے وہ تمہا ر ے بہکاوے میں ہرگز نہ آئیں گے اور یہیں سے دوست و دشمن تیار ہوئے۔
جس کے لئے یہ سار ی کاروائیاں ہو ئیں وہ کوئی اور نہیں رب کے خلیفہ ،نسل انسانی کے موجدِ مجازی، آدم علیہ السلام تھے، اس کے ساتھ حواء علیہ السلام بھی تھیں،جنت میں آرام سے رہ رہے تھے ان کو بظاہر پہلے ہی سے متنبہ کردیا گیا تھا،دشمن سے ہوشیار رہنے کی و ارنگ بھی دیدی گئی تھی، مگروہی ہوا جسکا ڈرتھا، دشمن اپنی شاطرانہ چال میں کامیاب ہوگیا،دوست ہوش میں تب آیا جب دشمن بازی مار لے گیا تھا،اب کیاہونا تھا سزا تو ملنی ہی تھی اس لغزش کی بناء پر جو تقدیر میں پہلے ہی سے متعین تھی جنت سے دنیا کی جانب نزول کا سبب بنی چنانچہ آدم علیہ السلام کو سراند یپ میں ’’بوذ،،پہاڑ پر اتارا گیا، جو پہلے ہندو ستان میں تھااور فی الحال سری لنکامیں ہے ۔کہاجاتاہے کہ جس وقت آدم علیہ السلا م بوذپہاڑ پراتارے گئے اسوقت ان کا سر آسمان سے چھوتا تھا اورفرشتوں کی آواز بخوبی سنتے تھے،ا ترتے ہی دنیا کی رو ئیت کے تشکر میں سجد ہ کیا تو پیشانی بیت المقد س کے پہاڑ سے مس ہواپھر خدانے ایک موزوں قد کابنادیاجس پر تادم مر گ قائم رہے، (بحوالہ شمامۃ العنبر فی ماورد من سید البشر تالیف سید غلام علی آزاد بلگرامی ،۱۱۱۶،۱۲۰۰ھ)اور حواء علیہ السلام کو جد ہ میں اتاراگیا جو عرب میں ہے لیکن دوست نے طے کرلیاتھاکہ غلطی تو ہوہی گئی مگرمنانا میرا کام ہے چونکہ خلیفہ، آقا و مالک کی مہر بانی سے پرامید تھا اور مدتو ں رورو کر گر یہ وزاری کرکے آقا کو منا نے کی حتی الوسع کو شش میں لگا رہا کہ اتقاقاایک ایسا نایاب نسخہ ہاتھ لگ کیا کہ اب آقا و خالق کو راضی ہونا ہی تھا آخر کا رایک مدت گذرجا نے پر توبہ قبو ل ہوجانے کی خوشحبر ی ملی ۔عرفات میں آدم وحواء علیہماالسلام کی پہچا ن ہو ئی ،مزدلفہ میں ملاقات ہوئی،او ر پھر نسل انسا نی کا سلسلہ چل پڑا اور اسی طرح چلتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام تک پہنچانوح علیہ السلام کے زمانہ میں جب لوگ خد ا کے منکر ہوئے تو عذاب ربی نے سب کو فناء کردیا سوا ئے ایمان والو ں کے اس کو طوفان نوح کہتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ نوح علیہ السلا م کو آدم ثانی بھی کہاجاتا ہے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ نوح علیہ السلام کی کشتی جس پر سب ایمان والے اور دنیا کے ہر نسل کا جوڑا موجود تھا وہ کشتی اسی بوذنامی پہاڑ سے چلائی گئی تھی جوآدم علیہ السلام کے اترنے کی جگہ ہے (بحوالہ شمامۃ العنبر فی ماورد فی الہند من سید البشر تالیف سید غلام علی آزاد بلگرامی مترجم تفسیر وحدیث میں ہندوستان کاتذکر ترجمہ تقدیم وتخر یج سید علیم اشرف جائسی ) اور پھرجودی پہاڑ پر کنارے لگی ۔گرچہ جود ی پہاڑ کی موجود گی میں اختلا ف ہے مگر کچھ حضرات کہتے ہیں وہ جودی پہاڑ ہندوستان میں ہی ہے اور وہ ایودھیا ہے اس با ت پر یقین ہو یا نہ ہو، مگر اس پر یقین کیا جا تا ہے کہ نو ح علیہ السلام کی اولاد ہی میں سے کسی ایک کا نام’’ ہند ،،تھاو ہ ایشیاء میں رہ گئے ان کی جانب منسوب کرتے ہوئے ا س علاقہ کا نام ہندوستان ہوااوررفتہ رفتہ دنیا پھر آبا د ہو ئی جس کی ہدا یت کے لئے ہرزما نہ میں نبی ورسول تشر یف لاتے ر ہے اور اس طرح نبوت ورسا لت کا یہ سلسلہ نبی آخر الزماں محمد مصطفی ﷺپرختم ہو اور ہمار ے نبی خاتم النبین کہلائے، اور یہ دین حنیف و مصطفو ی تاقیامت ر ہے گالہذا اس دین محمدی کی اصلا ح کیلئے جس طرح ہرنبی کے بعد اس کے پیروکا ر اور مصا حبین ہوتے تھے اسی طر ح ہمارے نبی ﷺ کے بھی اصحاب ور فقاء ہوئے اور اپنے آقا کا پیغام دنیا بھرمیں عام کرنے کے لئے روئے زمین کے ہر گوشہ میں پھیل گئے ۔ کہاجاتا ہے( بہ اختلا ف راوی) کہ ہندوستان کے صوبہ کیرالا میں نبی ﷺ کے زمانہ میں ہی دین اسلام کاپیغام پہنچ گیا تھا جس کا سبب یہ ہوا کہ جس وقت ملک عرب میں آقائے کائنا ت ﷺ نے اللہ کی وحدانیت کا پیغا م لوگوں کو سنایا توکچھ حضرا ت بے چو ں چرا تسلیم کر لیے اور بعض نے معجز ہ دیکھ کر خدا اور ا س کے رسو ل کو مانا اور بہت ہی کم لوگ ایسے بھی رہے جن کے دلوں پر مہر لگی ہوئی تھی،اور کھلم کھلا دلیل کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی ایما ن نہ لائے، شاید اسی لئے کسی نے کہا ہے ۔
سلیمان زفارس صہیب زروم بلال ازحبش ابوجہل از مکہ ایمان نایابدایں چہ بوالعجبیست
یہی بوالعجبی ہندوستان کاصوبہ’’ مدراس،، جسے بعد میں علیحدہ کر کے کیرالا بنادیا گیا اسی کیرالا کے علاقۂ ملبارکا ایک بادشاہ کے ساتھ بھی پیش ہوا۔ جسکا نام بقول راوی’’ چیرما ن پرمال،، تھا اس نے ایک دن اپنی آنکھوں سے چاند کو دو ٹکڑ ے ہوتے ہو ئے دیکھا ،یہ دیکھ کر اس کے دل کی دنیا ہی بدل گئی ، اسے اپنی آنکھوں پریقین نہیں ہورہاتھا کہ چاند دو ٹکڑے ہوسکتا ہے؟ چنا نچہ بادشاہ نے اس کی تصد یق شروع کی کہ کیا یہ صحیح ہے؟ یا نہیں؟ تو بادشاہ کو پتہ چلا کہ واقعہ بالکل درست ہے اور یہ معجز ہ ملک عر ب میں ہوا جہاں ایک’’ محمدﷺ،، نامی شخص پیدا ہو ئے ہیں جو بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی ہیں، اور ایک خدا کی وحدا نیت کا پیغا م دیتے ہیں، ان کے پیام کو سچ ،اور ان کوسچا ماننے کے لئے بعض اہل عرب نے چاند کے ٹکڑے کرنے مانگ کی، اللہ کے سچے نبی نے ان کو سمجھانے کے لئے یہ معجزہ کردکھایا، اسے دیکھ بیشمار خوش نصیب وخوش قسمت فورا ایمان لے آئے، دل سے ان کی باتوں کی تصدیق کی، انہی خوش بخت میں ہندوستانی بادشا ہ بھی تھا جو عرب سے کوسوں دور رہ کر لاکھوں کروڑو ں انسانوں میں سے صرف ان کی نظر پڑ گئی پھر بادشاہ کی قسمت اسوقت اور اوج پر پہنچی جبکہ اہل عرب کاقافلہ بقول بعض’’ قدم آدم،، کی زیا ر ت کے لئے ہندوستان آیا تھا تو کیرا لا کی سرحد کڈ نگلورپر ان کی کشتی رکی لوگوں سے پتہ چلا یہ عرب سے آئے ہیں جو’’ سلون ،، پہاڑ پر قدم آدم کی زیارت کرنے جارہے ہیں، موقعہ غنیمت جانتے ہوئے بادشاہ نے ان قا فلہ والوں سے ملاقا ت کی اور آ نکھوں دیکھی بات کی تصدیق چاہی اہل عرب نے کہا،یہ صحیح ہے کہ نبی ﷺ نے چاند کودو ٹکڑ ے کیاہے ،وہ سچے نبی ہیں، ہم لوگ انہی پرایمان لا ئے ہوئے ہیں اور اب ہم مسلما ن ہیں ، بادشاہ یہ سنکر بہت خوش ہو ا ان کی آؤ بھگت کی اور ا ن سے وعدہ لیا کہ جب وہ واپس اپنے ملک ووطن لوٹیں گے تو مجھ کو ساتھ لے چلیں گے چنانچہ قافلہ والوں نے زیارت کرکے لوٹتے و قت بادشاہ کو اپنے ہمراہ لے جانے کی حامی بھرلی، ادھر بادشاہ نے سفر کی سار ی تیاریاں مخفی طو ر پرکرلیں تھیں اور اپنا سار ا راج پاٹ اپنی بہن اوربچوں اوردامادوں میں تقسیم کرکے یہ وعد ہ لیکر کے میں ایک طویل سفر میں جارہاہوں تم اس راج پاٹ کوچلاؤ، پھر جب میں آؤنگاتو دیکھوں گا۔
اور اسطرح بادشاہ اس قافلہ کیساتھ مکہ پہنچا اور نبی ﷺ کی زیارت کی ان کی بارگاہ میں تحفے تحائف پیش کئے ، اور مشرف بہ اسلام ہوئے ،کہاجاتاہے کہ بادشاہ کو دیکھنے کے لئے بہت سے لو گوں میں سے حبیب بن مالک بھی آئے تھے انکی بادشاہ سے گفتگو ہوئی تو حبیب بن مالک ان کیساتھ آ نے کیلئے تیار ہوگئے، بادشاہ وہاں کئی ماہ مقیم رہے اور بقول بعض نبی ﷺ کی معیت میں حج ادا کیا، اور پھر اپنے ملک ہندوستان وا پس لوٹنے کی خواہش جتائی، چنانچہ حبیب بن مالک اپنے ہمرا ہ شرف بن مالک ،ماں زاد بھائی مالک بن دنیار ، مالک بن حبیب اور ان کی معیت میں کل دس مرد اورپانچ عورت پر مشتمل ’’ چیرما ن پرمال ،، بعد اسلام’’ تاج الدین ،، ہندوستان لوٹنے کے ارادے سے مکہ سے نکل آئے، پر قسمت نے یاور ی نہ کی، اور یمن میں آکر شحر یا مکلا میں بیمار پڑ گئے،روزبہ روز بیماری میں اضافہ ہونے لگاتوبادشاہ کویقین ہوچلا کہ میں زیادہ دن زند ہ نہیں رہ سکوں گا اس لئے اس نے ایک خط لکھ کر’’ بقول بعض اپنے داماد کو،، اوربقول بعض’’ حبیب بن مالک ،،یاان کے سا تھیوں میں سے کسی ایک کو دیکر وصیت کی کہ آپ ہندوستان ضرو ر جائیں ،اور گڈنگلورمیں اتر کر وہاں کے بادشاہ کو میرایہ خط د ے دیں، مگر یہ نہ بتائیں کہ میں مرچکا ہوں، وہ سب آپ کی خاطر دار ی کریں گے اسطرح آپ وہاں رہکر دین اسلا م کو پھیلا ئیں ،یہ سب و صیت کرنے کے بعد ،وہیں بادشاہ کا انتقال ہوگیا ، اور بادشاہ کودفن کردیا گیا،بیان کیا جاتا ہے کہ’’ بقول بعض، ان کی قبر’’ شحر ،،میں، اور بقول بعض’’ ظفار ،،میں ہے، وہ سب صحابی مع رفقا ء ’’ گڈنگلور ،، بقول بعض ’’کولم،، میں بحر ی سفرختم کرکے اترے ،اور یہا ں آکر اسلام کی تبلیغ شروع کی ، جگہ جگہ مساجد کی تعمیر شر و ع کی، لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا ،اور رفتہ رفتہ پورے ملبار میں بہت سی جگہوں میں مسجد یں بنوا ئی ،ان میں مشہور، ساحل سمندر پر بنی ،مسجد’’ کولم،، کی ہے اور دوسری مشہور’’ مسجد کاسرکوڈ،،ساحل سمند رپر واقع ہے جو مالک بن دینار مسجد کے نام سے منسوب ہے اس کے علاوہ بھی بہت سی مساجد ہیں جوان کی جانب منسوب کی گئی ہیں ،بیان یہ بھی کیا جاتاہے کہ مالک بن دینار کڈ نغلو ر میں ہی رہے اور ان کے بھتیجے مالک بن حبیب ،کیرالا کی مختلف جگہوں میں مساجد تعمیر کی پھرکیرالا سے’’ منگلو ربھٹکل،،میں بھی ان ہی کے اولاد میں سے کسی ایک نے مسجد بنوا ئی، تمام جگہ مساجد بنانے کے بعد مالک بن حبیب اوران کے بیٹے، مالک بن دینار سے ملا قا ت کی، پھرما لک بن دینار اورمالک بن حبیب کولم گئے اور وہاں مستقل سکو نت اختیا ر کرلی،یہاں سے مالک بن دینار اور ان کے بعض ساتھی ’’مکلہ،، کی جانب لوٹ گئے اور’’ پرما ل چیر ما ن ، ،کے مقبرہ کی زیارت کرتے ہوئے ’’ خرا سان،،جو’’ایران ،، کا ایک شہرہے وہاں چلے گئے اور وہیں مالک بن دینار اور ان کی بیوی کی وقات ہوئی ۔
جیساکہ مالک بن دینار اورکاسرکوڈ کی مسجد ،، نام کی ایک کتاب جو’’ انس ہدوی،، نے انگلش میں ترتیب دی تھی ،پھر اسی کو ’’ہاشیرہدوی پیننور،، نے اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے اس کتاب کے صفحہ ۵۶پر درج ہے’’ سفرکے بعد مالک بن دینار اور مالک بن حبیب کے درمیان لمبی بات چیت ہوئی جس کے بعد اپنے سفر کاتجربہ سفر نا مہ اورحالات دین بیان کیا، اس کے بعد مالک بن دینار ، مالک بن حبیب، اور ان کے اتباع کولم گئے، اور وہاں مستقل سکونت اختیار کرلی ، لیکن پھربھی وہ لوگ سفر کر تے ر ہے حتی کہ مالک بن دینار او ر آپ کے بعض اصحاب نے شہر مقلہ کا رخ کیا اور مردے راجہ کی قبرکی زیارت کی ’ وہاں سے خراسان جوایران کے مشرق وشمال کے کونے پر وا قع ہے کا ارادہ کیا، جہاں اس نے اور ان کی بیوی نے فانی دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخت سفرباندھا ،، مذکورہ سطو رسے واضح ہوتا ہے کہ مالک بن دینار کا انتقا ل خراسان میں ہو ا ہے پھر یہی صا حب کتاب صفحہ ۵۸/۵۹پر کچھ مالک بن دینار کی حیات کاذکر تفصیلابیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ آ پ کی ولادت باسعاد ت ایک شاہی خاندان میں ہو ئی، الخ، آپ کی اولاد مبارکہ میں دس صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں ہیں الخ ،،پھر یہی صا حب کتاب صفحہ ۶۳پرکرامات کا عنوان باندھتے ہو ئے کہتے ہیں ’’ مالک بن دینار کی حیات مبارکہ کے واقعا ت کے متعلق ہمارے پاس کوئی علم نہیں ہے الخ،، پھر یہی صاحب کتاب کا سر کوڈ کی مسجد کا تذکرہ کرتے ہو ئے صفحہ۶۴پر لکھتے ہیں ’’ آستانہ مالک بن دینا ر سے متصل لحدوں میں ایک مبارک لحد الحاج قاضی عبد اللہ کا ہے الخ ،، کتنے تضاد ات ہیں ایک جھلک سے ہی واضح ہوگیا ہوگا ۔اول مالک بن دینا ر خراسان چلے گئے اوروہیں انکا اور انکی اہلیہ کا انتقال ہوا، پھر ان کے حالات میں کرامت کی خبردیتے ہو ئے کاسرکوڈ مسجد میں کئی کرامت بیا ن کرتے ہیں، اور پھریہ کہتے ہیں مجھے ان کی زند کی کے بارے میں معلوم نہیں ،پھرا نکی زند گی کا ذکرچھیڑ تے ہوئے ان کی پیدائش واولاد کو شمارکراتے ہیں، اور پھر آگے چلکر آستانہ مالک بن دینار کہتے ہیں ، یہ میں نے اس کتاب کی تضاد کا ایک جھلک دکھایا ہے جو عام آدمی پربھی واضح ہوچکا ہو گا لیکن اگر یہ کتاب قارئین مطالعہ کرلیں تو متضادات کا با ز ا ر معلوم ہوگا ، اسی طرح اس کتاب کے مطابق کیرالا کے بادشاہ’’ چیرمان پرمال،، کا نبی ﷺ سے ملاقات کے بار ے میں بھی مختلف اقوال مورخین سے مذکورہے، یہاں تک کہ ان کے انتقال کی جگہو ں کے بار ے میں بھی اختلاف ہے۔
لیکن ان اقوال مختلفہ سے ایک بات مشترک معلو م ہوتی ہے کہ کیرالا میں اسلام کا طلوع ہندوستانی دھرتی پر دیگر علاقوں سے قبل ہے، وہیں یہ بات بھی روز روشن کی طرح اشکارا ہے کہ’’ چیرمان پر ما ل،، کا نبی ﷺ سے ملاقات کے بار ے میں یقین سے نہیں کہاجاسکتاہے کیونکہ اس معاملہ میں ہر کو ئی مشکو ک نظر آتاہے خو د کیرالا کے مشہور عالم دین زین الد ین مخدوم جنکا شہر ہ اورعلم تسلیم شدہ ہے’’ چیرمان پرما ل،، کا نبی ﷺ سے ملاقات کے بارے میں یقین نہیں رکھتے ہوئے اپنی تصنیف تحفۃ المجاہدین میں تحریر کرتے ہیں’’ وغالب الظن انہ انماکان بعد الماتین من الہجرۃ النبویۃ علی صا حبہاافضل الصلاۃ والتحیۃ واما ما اشتہر عند مسلمی ملیبار ان الاسلام المذکور کان فی زمن النبی ﷺ برؤیۃ انشقاق القمر لیلتہ وانہ سافر الی النبی ﷺ و تشرف بلقائیہ ور جع الی شحر قاصدا الملبار مع الجماعۃ المذکورین وتوفی فیہا فلا یکا د یصح شیئی منہا،،صحیح بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ہجرت کے دوسوسال کے بعد پیش آیا مگر ملیبار کے مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہو ر ہے کہ شق قمر کی رات میں ہی چیرمان پرمال نے اس کو دیکھا تھا اور نبی کے پاس چل کر آپ سے ملا قا ت کا شر ف حا صل کیا ، پھر وہاں سے جماعت مذکورہ کے ساتھ واپس ملیبار آنے کے وقت شحرنامی جگہ میں اس کا انتقال ہوگیاتھا ان باتوں میں کسی کا بھی حقیقت سے تعلق نہیں ہے بحو ا لہ مالک بن دینا اور کا سرکوڈ کی مسجد صفحہ نمبر ۲۳/۲۴،،
دوسری جگہ تحفۃ المجاہدین میں اس طرح بیان ہے کہ ’’ملبار ی مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ باد شا ہ تبدیلئ مذہب کے بعد ملبار وا پس آنے کے وقت ’’ شحر،،میں انتقال کرگیا مگر یہ بات درست نہیں ہے اب لوگوں کے درمیان ایک اور بات مشہور ہوگئی ہے کہ ’’وہ شحر ،،میں دفن نہیں ہوا بلکہ’’ ظفار،، میں ہوا اور اس کا مقبر ہ وہاں بہت مشہور ہے اور لوگ وہا ں برکت کے لئے جاتے ہیں وہاں کے لوگ اسکو سامر ی کہتے ہیں ،،(صفحہ نمبر ۳۸ ’’مالک بن دینار اور کاسرکوڈ کی قدیم مسجد،، ) وہیں آگے چلکر خود لکھتے ہیں کہ سید سلیمان ندوی کے سا تھ ’’سرتومس آرنولڈ نے بھی شک کیاہے اور’’کے این گنیشن،، کو بھی اس بات کا علم یقینی نہیں تھا وہ سب کہتے ہیں کہ اگر مالک بن دینا راور مالک بن حبیب کیرالا میں اسلام کے پھیلنے کا سبب ہے تو اس کی کوئی دلیل بھی ہونی چاہیے (صفحہ نمبر۲۳/۲۴کتاب مالک بن دینار اور کاسرکوڈکی قدیم مسجد ،، )
ان مذکورہ دلائل کے بعد آگے بہت سے دلا ئل، ثبوت لقاء نبیﷺ میں صاحب کتا ب نے مختلف تار یخو ں اور مورخین کے مضطرب اقوال کونقل کیا ہے ۔جو صاحب کتا ب کی تلاش وجستجو اور عرق ریزی پر دلالت کرتی ہیں وہیں یہ بھی کہنا منا سب ہوگا کہ صاحب کتاب کی منقولہ دلیلوں کی روشنی میں اگر کو ئی باریک بین نظرہو، اور تحقیق کا مذاق بھی رکھتاہو،تو بہت سے حقائق سے پردہ اٹھا سکتا ہے جویاتو مثبت ہوگایا منفی ہوگا۔اور اب تک جو عوام میں تشویش پائی جاتی ہے ممکن ہے کہ اسکا ازا لہ بھی ہوگا ،لیکن اس کتا ب سے کس خاص نتیجہ پرنہیں پہنچاجا سکتا ہے البتہ اس کتاب کی روشنی میں بہت سے شکوک تک پہنچنا آسان ہوگا ،میں اس بات پراس لئے زور دے ر ہا ہوں تا کہ تحقیق کا دائرہ واہو، ورنہ وہ دن دورنہیں کہ آنے وا لی نسلیں کچھ سے کچھ سمجھنے لگیں۔ جیسا کہ ہرجانب فضیلت کی ایسی ہوا چلی ہو ئی ہے کہ ہر شخص اپنے علاقہ و صوبہ و ضلع یہاں تک کہ اپنی ذات کو خواہ حقیقتا افضل ہو یا نہ ہو، اور اگرہو بھی، تو معمولی سی فضلیت کو ا وروں کے آ گے اس طرح جنت نظیر اور خلد نظیر بنا نے پہ تلے رہتے ہیں کہ مانو، باقی علاقے سب دوزخ نظیر ہیں ؟ ۔بہرحال یہ بات اب بالکل واضج ہوگئی ہوگی کہ گرچہ کیرالا میں اسلام کی آمد بہت پہلے ہوئی ہے لیکن کب ہوئی ؟ اور کس طرح ہوئی ہے ؟اور کن کے ذریعہ سے اسلام پھیلا ؟ پھر کیرالا میں کوئی صحا بی موجو د ہیں یانہیں؟ اس کے بار ے میں تاریخ کو ئی حتمی فیصلہ کرنے سے قاصرہے ۔ہاں امکان ضرور ہے، محال نہیں۔لیکن متفق علیہ نہیں!جیسا کہ میر ی اس بات کی تصد یق صفحہ نمبر ۷۶/۷۷/۷۸/بحوالہ مالک بن دینار اور کاسر کوڈ کی مسجد میں مرتب نے ذکر کیا ہے ۔
اورہم نے اوپر میں’’ پرمان چیرمال ،، کے شق قمر اورصحابی رسول کی آمد کے واقعہ کوجو بالفاظ’’ بعض،، کے ساتھ ذکرکیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ ترکیرالا کے بار ے میں اسی طر ح بیان کیاجاتا ہے اور راقم نے ’’بعض حضرات کے نزدیک ،، کا اضا فہ مذکورہ اختلاف کو دیکھتے ہوئے کیا ہے جیسا کہ میں نے کچھ سال پہلے ماہنامہ کنزا لایمان دہلی کے مئی ۲۰۰۹ صفحہ نمبر۱۰کے شمارہ میں پڑھاتھا جس کی سرخی تھی ’’ کیا کیرالا کے دو معروف بزرگ صحابی و تابعی ہیں ؟ محرر محمد افروز قادری افریقہ ،،تلاش بسیار کے بعد بھی بروقت وہ ماہنامہ دستیاب نہیں ہو سکا ہاں تلا ش کرتے وقت کنزالایمان کی سالانہ فہرست میں وہ عنوا ن مل گیاجسے میں نے سطوربالامیں پیش کیاہے ۔مضمون میرے پیش نظرنہیں ہے ورنہ ضرور اس کے اہم اقتباسات قارئین کے آگے رکھتا۔اس مضمو ن کابھی خلاصہ یہی تھا کہ کیرالا میں صحابی رسول کا ہونا مشکوک ہے اس میں صاف طور سے مالک بن دینا ر اور تمیم داری کا مقبرہ کہاں ہے البدایہ والنہایۃ کے حوا لہ کے سے بیان کیاگیا ہے اور اس بات پرزور دیا گیا ہے کہ یہ کوئی بڑے بزرگ تو ہوسکتے ہیں پرصحابی ہونا متفق علیہ نہیں ہے محررمولانا افروز قادری نے بیان کیا ہے کہ میں زیارت کے لئے گیا تو رات کولم میں گذاری ۔اگر کو ئی بندۂ خدا دیکھنا چاہے تو مذکو رہ ما ہنا مہ میں دیکھے اور شاید یہی مضمون روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی میں بھی شائع ہواتھا ۔اتقافا ایک شخص سے ممبئی کے پنویل اسٹیشن میں ملا قا ت ہوئی گفتگوکے دوران، کیرالا کا ذکر چلا تو اس نے بتایاکہ روزنامہ اردو ٹائمز میں ،کیرالا میں صحابی رسول ہے یانہیں؟ اس سے متعلق ایک مضمون چھپاتھا، آپ کیرالا میں رہتے ہیں ،بتائیے؟ کیا واقعی صحابی یاتابعی کا مقبر ہ ہے ؟ کیا آپ وہاں تشریف لے گئے ہیں؟ یعنی وہ مجھ سے چھان پھٹک کررہاتھا؟ اس اخبار کو راقم نے حا صل کر نا چا ہا تھاپر اس دن کا وہ اخبار نہیں ملا ۔اس سلسلہ میں جب انٹرنیٹ پرتلاش کیاتودیکھاکہ تمیم الداری کی ولادت ،وفات سے متعلق تحریرہے ۴۰ھ ملک شام میں وفات ہوئی اورقبربیت جبرین فلسطین میں ہے ۔ پھر چند سا لوں بعد اتفاق سے کرنول میں ایک شخص سے ملا قا ت ہوئی جو حضرت تمیم انصاری رضی اللہ عنہ کے مقبرہ کی زیار ت سے واپس ہوا تھا ان سے بات ہوئی تو انہو ں نے بتایا کہ یہ مزار صحابی رسول کا ہے جو مدراس میں ہے اور انہوں نے ایک کتاب دی جس میں حضر ت تمیم انصاری رضی اللہ عنہ کی حالات سے متعلق وا قعا ت قلمبند کئے ہیں ان واقعا ت کی حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانے۔ مگر آخیرمیں اس کتاب کے محرر نے لکھا ہے کہ’’ کچھ عرصہ بعد تمیم انصاری تبلیغ اسلام کے لئے مدینہ طیبہ سے نکلے پھرتے پھرتے کراچی پہنچے اور و ہیں مقیم ہوگئے وقت آخر آپ نے ویہ وصیت کر کے انتقال کرگئے ۔ ’’میرے جسم بیجا ن کو ایک صندوق میں بند کرکے سمندر میں بہادیا جائے یہ صندوق جس کنارے لگے گا وہیں میرامدفن ہوگا لوگوں نے آپ کے جسم بے جان کو غسل کے بعد کفنا کرآپ کی و صیت کی اس تحریر کے سا تھ کہ ’’یہ صحابی رسول اللہ ﷺہیں ۔اور ان کا نام تمیم انصاریؓ ہے ۔۷۵ھ ۔ ایک صندوق میں بند کرکے سمندر کے حوالے کرد یا ۔ یہ صندوق موجوں کی دوش پر سعادت بندر (کولم) پہنچا مچھیر و ں نے اس صندوق کو پکڑنے کی لاکھ تدبیر یں کیں مگر وہ کسی کے ہاتھ نہ لگا یہ خبر حاکم وقت نے سنی اسی وقت کولم کے ساحل سمندر پرآیا اور صدوق پکڑ ناچاہا صندوق آسانی کے ساتھ حاکم کے قریب آگیا حاکم نے اسے سا حل پر لاکر کھولا تو اس میں تمیم انصاریؓکی لاش تھی ۔اس کے ساتھ جو تحریری کاغذتھا حاکم نے پڑھ کر اصل حقیت معلوم کی ۔ یہ صندوق تقریبا چارسوسال تک سمندر میں بہتا رہا اور بحیرہ عرب اور بحر ہند سے بہتا ہو خلیج بنگال میں داخل ہوکر کولم کے ساحل سے آلگا مذکور حاکم نے جنازہ کی نماز پڑھوانے کے بعد اس صندوق کو اسی جگہ جہاں صندو ق کو کھولا گیاتھا دفن کرواکر اس پر مقبر ہ تعمیر کروایا ۔ آج آپ کے دربارسے ہزاروں زائر ین فیض یاب ہورہے ہیں،، ۔ پھرتحریرختم ہونے کے بعد اخیر میں ڈبہ Boxکی شکل میں منفردا یہ تحریر ہے’’ قصہ تمیم انصاری رضی اللہ عنہ فقیر کی نظر سے گذرایہ رسا لہ اہل اسلام کے لئے مفید اور کارآمد ہے ۔(دستخط ) محمد حبیب اللہ گورنمنٹ قاضی مدارس )اس کو ڈبہ کی شکل میں لکھنے سے صاف واضح ہے کہ یہ تحریر چھا پنے والے نے کتاب کی صداقت کے لئے اپنی طرف سے ڈالا ہے ۔اس واقعہ کو سننے کے بعد قارئین کے ذہن میں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ حضرت کی زندگی کے حالات بیان کئے گئے تو پھر یہ بھی بیان کرناتھا کہ وہ کیسے کراچی پہنچے اور پھر کس سنہ میں کولم میں یہ صندوق پہنچا اور اس بادشاہ کا نام کیا تھا جس نے اس کو کھو ل کر دفنایا مگر یہ مذکور نہیں ہے اور پھر محرر کو یہ کیسے معلوم ہو ا یہ صند وق چارسو سال تک سمندر میں بہتا رہا ۔وغیرہ ۔ اس کتاب کو’’ قصہ تمیم انصاری رضی اللہ عنہ صحابی رسول ﷺ ابن احمد انصار ی ورابعہ کے مبارک و تعجب خیز حالات‘‘ ۔کے نام شا ئع کیا گیاہے مگر اس پر لکھنے وا لے کا نام پتہ کچھ بھی درج نہیں ہے ۔ اس کتا ب کے اندرونی پیچ پریہ پتہ ’’گوھر پریس وبکڈپو ۳۲۳ ٹرپلیکن ہائی روڈ مدرا س ۶۰۰۰۰۵اور ٹائٹل پیچ پر چنئی ۔ ۵درج ہے ،،۔ اب یہ سنیے بعینہ یہی مدفن کا واقعہ کیرالامیں موجود کلم جو ضلع کا لیکٹ اورضلع کنور روڈ کے درمیان واقع ہے۔ اوراسی نا م کے سا تھ تمیم انصاریؓ صحابی کامقبرہ نامی مزار وہاں بھی موجود ہے اسی جگہ پر قدم آدم علیہ السلام نامی کا ایک نشان موجود ہے اوریہ مزا ربھی ساحل سمندرپہاڑپرہے ۔جس کی زیارت کیلئے دور دور سے لوگ آتے ہیں اور کیرالا کے لوگ خو د اس کوتمیم انصاریؓ عنہ کی قبر تسلیم کرتے ہیں جس کی زیارت خود راقم فیضی نے بھی کی ہے اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک ہی صحابی ،ایک ہی واقعہ ، اور دو الگ الگ جگہیں پر کیسے ہوسکتے ہیں ۔اس لئے تحریر کا مقصد یہ ہے کہ کیرالا میں صحابیؓ یاتابعی کے مزارات ہیں ہیں یانہیں یہ طلب تحقیق ہے ۔لہذایہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ یہ کسی بزر گ ولی اللہؒ کی مزار تو ہوسکتی ہے مگر صحابی یاتابعی کی نہیں۔ ہاں یہ بات تو متفق علیہ ہے کہ ہندو ستا ن کا تذ کر ہ تفسیر و ں میں موجو د ہے جیسا کہ’’ شمامۃ العنبر فی ما ورد فی الہند من سید البشر،، تالیف حسان الہند سید غلا م علی آزاد بلگرامی’’ترجمہ کتابْ’’ ہندوستان کا تذکرہ تفسیر و حد یث میں،، مترجم حضرت علامہ ومولانا سید علیم اشر ف جائسی ، نے تحریر فرمایاہے ملاحظہ فرمائیے)
نیز ہندوستان کے بارے میں نبی ﷺ نے بھی بہت کچھ بیان فرمایا ہے شاید اسی کی جانب اشار ہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے ۔
میرعر ب کوآئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میراوطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
کیرالا کی وجہ تسمیہ: اب آئیے کیرالا کو کیرالا کیوں کہاجاتا ہے اس کی وجہ تسمیہ سن لیں کیرالا نام رکھنے کی وجہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہاں ناریل کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں بایں وجہ کیرالا کہاجانے لگا، لیکن جو تا ر یخ کیرالا میں مہارت کے حقدارہیں جیسے ’’پی اے سیدومحمد،،ان کی کیرالا کی تاریخ پرکئی تا لیفا ت ہیں،کہتے ہیں کہ’’ کیرالا بہت پرانا نام ہے شایدہزاروں برس پرانااس کا ماخذ قد یم تامل وسنسکرت وپالی ہے ، سنسکرت وپالی میں اسے چیرن کہا جاتاتھاپھر چیرن سے کچھ زمانہ بعد تبدیل ہوکر چیرلم اور کچھ مدت بعد کیرلم اورایک عرصہ بعد کیرالا کہاجانے لگا، بعض لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ کیرالا میں چونکہ چیرمال کی سلطنت تھی جسکا مطلب تھا’’ کیرلا مسلم چرترم ،،اسے مخفف کرکے چرمال کہاجاتاتھا، ایک نئی بدعت یہ بھی ہے جسے یہاں کے کچھ خیرخواہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں کی خوبصورتی اور دولت وثروت کی بہتات کو دیکھ کر اہل عر ب نے خیرااللہ کہا جوتبدیل ہوکر کیرالا ہوگیا،جو بدہضمی کاسبب بنتی ہیں کہ چونکہ کیرالا قدیم دور میں اتنا حسن و ثروت والا نہیں تھاجتنا اب ہے اور وہ بھی سمندر پار جانے کی بناء پر ورنہ عہد حاضرمیں بھی ساحل سمندر رہنے والے کی حالتیں عبرت کے لئے کافی ہیں،ایک روایت یہ بھی ہے کہ پرش رامن نے سمندر میں کلہاڑی پھینکا جس کی وجہ سے یہ جگ ظاہر ہوئی اس لئے اسکا نام کیرالا رکھا گیا، اسی روایت کو اہل حغرافیہ دلائل سے ثا بت کرتے ہیں ، کیرالاؤل پتی نامی کتاب جس کے بار ے میں مشہور ہے کہ شنکر اچاریہ نے بولکر لکھوایا تھا(میرے خیال سے یہ وہی شنکر آچاریہ ہیں جس کی جائے پیدائش’’ کلادی،، ہے جوآٹھوی صدی کے تاریخ دان او ر فلاسفر میں شمارہوتے ہیں اس کی یاد میں ’’کلادی ،،میں دومندر بنوائے گئے ہیں’’کلادی،، کیرالا ریاست کی خوبصورت شہر’’ کوچی ،،میں واقع ہے جسے پہلے ’’کوچین ،،بھی کہاجاتا تھا یہ شہر ’’کوئن آف اریبین سی ،،یعنی بحرعرب کی رانی کے طور پر بھی مشہور ہے) واقعہ یوں منقول ہے کہ کیرالا سمندر میں غرق ہونے لگااور یہاں کی ایک مکرم جگہ ’’گوکرنم ،، بھی ڈو بنے کے قریب ہوگیاتو اہل کیرالا پہاڑوں وچٹانوں پر چڑھ گئے اور کسی طرح کچھ لوگ ’’گوکرنم ،پہنچے اور اورریاضت میں مشغول پرش رامن کو حالات بتاکر ڈوبنے سے بچانے کی گذارش کی چنانچہ پرش رامن نے سمند ر میں کلہاڑی پھینکا اور کیرالا غرقاب ہونے بچ گیا(بحوالہ کیرالا سمسکارم )کہایہ بھی جاتا ہیکہ ’’پرشورام ،،نے کیرالا کو قائم کیاتھا اس کا مجسمہ’’ ایڈ اپلی،، میں واقع میوزم کے باہر رکھا ہو ا ہے اسے دیکھکر ایسا گمان ہوتا ہیکہ جیسے ’’پرشورام،، کا مجسمہ کیرالا آنے والوں کا استقبال کررہا ہو۔(بحوالہ عالمی سہاراشمار ہ اگست ۲۰۱۰)
کیرالا کی قدیم حالتیں :کیرالا کی قدیم حالتوں کا مطالعہ کریں گے توآپ کو معلوم ہوگا کہ کیرالا کسی طرح انسانیت نمازندگی گذرانے والوں میں شمارہونے والانہیں تھا بلکہ یہاں کی قبائلی زندگی قبیلہ عرب کی اوس ،خزرج کی یادیں تازہ کردیتی ہیں کیرالا زمانہ جاہلیت کی رسوم میں مستغرق نظرآتاہے جہاں انسانی قدریں نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی آدمیت وانسانیت کی بوباس بھی محسوس نہیں ہوتی تھی یہاں لوگ آپسی تعصب وتفاخر پر ایکدوسرے کے درپے رہتے تھے یہاں رنگ ونسل، خا ند ا نی تفریق ،انسانی گھٹیوں میں پیوست تھا، عورتو ں کے حالات رونگٹے کھڑا کرنے اوردلوں کودہلادینے والے تھے ،عورتیں صرف تسکین خواہشات کی ذریعہ سمجھی جا تی تھیں ، ان کی عفت وعصمت کا کوئی پرسان حال نہ تھا،یہاں تک کہ عورتیں کپڑا پہننے کی مجاز بھی نہ جانی جاتی تھیں۔
ذاتیات کا نشہ اس طرح چڑھاہواتھا کہ ’’شودر،،اور’’براہمن،، کے مابین راہ میں بائیس میٹر کا فاصلہ ضرور ی تصور کیاجاتاتھاورنہ براہمن ناپاک ہوجائے گا اسی طرح ’’نایر،،’’پلیر،،سے اتنا قر یب ہوجائے کہ اس کا پھونک’’ نایر ،،تک پہنچ جائے تو ’’نایر ،،ناپاک ہوجائے گا اور’’ نایر ،،کے لئے لازم ہے کہ اس’’ پلیر ، ، کو قتل کردے ورنہ راجہ کوخبر ہو نے سے راجہ خود’’ نایر ،،کو قتل کردے گاانہی اسباب کی بناء پر آٹھ ہزار سے زائدجینز قتل ہوئے، اس کا سالانہ جشن آج بھی ہندوؤں میں منایا جاتا ہے ،لیکن یاد رہے یہ سارے خرافات اسلام کی روشنی سے قبل تھی اس وقت کیرالا میں اسلام کا چراغ طلوع نہیں ہواتھا ان وا قعا ت وحالا ت کی جانب ’’الم کلم کنجن،،کے حوالہ سے ’’مالک بن دینار اور کاسرکوڈ کی قد یم مسجد ،، نامی کتاب میں تحریرہے ۔ ’’کہ کیرالا کی قوم’’ نایر ،،اور’’ پلیر،، دوطبقوں میں بٹی ہوئی تھی ’’نایر کا خیال تھا کہ اگر کوئی ’’پلیر ،،اتنا قریب ہوجائے کہ اس کا پھونک نایر تک پہنچ جائے تو’’ نایر ،،ناپاک ہوجاتاہے اور’’ نایر ،،کے لئے لازم ہے کہ اس’’ پلیر،، کو قتل کردے اگر ایسا نہیں کیاجائے اور اسکی خبر راجاکو ہوجائے تو راجہ اس ’’نایر ،،کو قتل کردے گا اس عظیم مصیبت سے بچنے کے لئے ’’پلیر،، جب اپنے گھر سے نکلتے تو ’’پولو ،،’’ پولو،، کی آواز لگاتے ہوئے گھر سے نکلتے ۔ (پثر یا ملیبا ر)
اسی طرح مناپیٹری اور پلپیٹر ی دوگروہ تھے جس کی بری حالت کیرالامیں مشہور تھی یہ لو گ عور توں کو شہوت پوری کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے ،ان دوگروہ کی عور تو ں کو ستر پوشی کی اجازت نہیں تھی۔نیز ز میند ار’’ برا ہمن ،،کے تسکین خاطر کے واسطے یہ قانون تھا کہ عورتیں ان سے اپنی عزت کی حفاظت نہ کریں اور ہر اعلی طبقہ والا سے ادنی ایک معین فاصلہ سے چلے مثلا ایک ’’شودر ،،’’براہمن ،،سے ہمیشہ بائیس میٹر کی دوری پرچلے اگر یہ مسافت ختم ہوجائے تو اعلی طبقہ ناپاک ہوجائیگا اور ناپاک’’ برا ہمن،، سے قریب ہونے والا برہمن بھی ناپاک ہوجائے گاایسی غلطی پر ’’شودر،، کولعنت وملامت کرکے جلدی سے قریبی ندی یاتالاب میں پرجاکر غسل کر ے ، چنانچہ الم کلم کنجن بیان کرتے ہیں کہ یہ ساری باتیں ہماری وراثت کے اجزاء ہیں (کیرالا چرترم پرہئم)
یہ تھا کیرالا کاقدیم دور جو زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کردیتا ہے یہ تو کہیے کہ اسلام نے ان کو پاک بنادیا ور نہ اب تک یہ اس طرح کی گندی رسومات پر عمل پیرا ر ہتے ایسے ہولناک اور پراشوب دور میں جب اسلام کیرا لامیں صحابہ کرام یاصلحاء عظام کرذریعہ پہنچاتو لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے کیونکہ اسلا م میں بھا ئی چارگی تھی اتحاد ومساوات کا پیام تھا، بڑے چھوٹے کا لحاظ تھا ،کسی کو کسی پرفوقیت و بر تری نہ تھی، سوائے تقوی وپرہیز گا ری کے، برسوں سے جہالت وعدوات کی چکی میں پس رہے ہندوؤں کو ایک ایسا مذ ہب ملا جہاں بڑے چھوٹے کا تصورہی نہیں تھا، سب ایک ساتھ کھاتے پیتے ،عبادت کرتے تھے ،یہ دیکھ کر ان ہندوؤں کو ایسامحسوس ہوا جیسے نئی زندگی مل گئی ہو جینے کا مقصد ہاتھ آگیا ہو اور جیسا کہ بیان کیاگیا کہ صحابہ کرام یا تابعین کرام کی آمدسے کیرالا میں اسلام پھیلا ہے چونکہ یہ وہ عظیم ہستیاں تھیں جن کی ورع وتقوی پر خو د ورع و تقوی نازوفخر کیا کرتاتھا یہ ایسی بے مثال شخصیات تھیں کہ اگر پتھر وجماد دیکھیں لیں توپگھل جائیں پھر یہ خاک کا پتلا انسان کیا ہے ۔
تم جتنا تراشو گے اتنا ہی سوا ہوگا اسلام وہ پودا ہے کاٹو تو ہراہوگا
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے جتناکہ دباؤگے اتنا ہی وہ ابھرے گا
کیرالا کا عرب سے تعلق :یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اہل عر ب کا کیرالا سے اس عہد میں تعلق استو ا ر ہوگیاتھا جب ہندوستان کی دوسری سرحدیں عرب کے وجودسے تقریبا ناواقف تھیں یہی وجہ ہیکہ اپنے زمانہ کا مشہور سیاح ابن بطوطہ ،، اورپرتگا ل سے انگریز سیاح ’’واسکوڈی گاما ،،کا سرزمین ہندوستان میںآنا سب سے پہلے کیرالا میں ہوا تھا ،جسکا ثبوت خود ابن بطوطہ کی تصنیف میں پائی جاتی ہے اور رہا’’ واسکو ڈ ی گاما،، توتاریخ کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ انگریزی نسل کا سب سے پہلا منحوس سایہ ہندوستان پراسی شخص کا پڑاتھااس کے بعدتو دنیا جہان میں ڈھونڈارہ ہے کہ کس طرح انگریز ہند وستان میں بغر ض تجارت آئے اور آہستہ آہستہ پھوٹ ڈا لو حکومت کرو ،،کے فارمولہ کو استعمال کرتے ہوئے ہندوستان پر مسلط ہوئے پھر دیکھتے ہی دیکھتے انگریز قزاقوں نے ہندوستان کو اپنے ہوس کانوالہ بنالیا، وہ انگریزی جبر وتشدد ،قتل وغارت گری کے کھیل کوپڑھکراور سنکر آج بھی خوف ودہشت کے مارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، بہرحال یہ میراموضوع تحریر نہیں ہے ۔(کہاجاتا ہے کہ واسکوڈی گاما کو کیرالا کے کوچی شہرمیں واقع سینٹ فرانس چرچ میں دفنایا گیا تھا اور بعد میں اس کی ہڈیوں کو پرتگال لے جایا گیا تھا یہ چرچ ہندوستان میں ۱۵۰۳کوبناسب سے پرانا چرچ ہے ۔پروٹیسٹنٹ ڈچ کے ذریعے اسے ۱۷۷۹ء میں دوبارہ بنایا گیا۔ ۱۷۹۵ء میں انگریزوں نے اسے ’’اینجلکن چرچ میں تبدیل کر دیاتھا۔بحوالہ عالمی سہارا۔اگست۲۰۱۰صفحہ۵۵)
دوسری خصوصیت کیرالا کی ہی مسلم ہے کہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں جسوقت لوگ اسلام کے نام سے ناآشنا تھے اس زمانہ میں اہل اسلام میں سے کچھ حضرات خواہ صحابی رہے ہوں یاتابعی یاتبع تابعی یاان لوگوں کے نام سے معروف کوئی مشہور بزرگ بہ اختلاف روایت سرزمین کیرالا میں تشریف لائے اور اسلام کو جگہ بہ جگہ روسناش کرایااور ہندوستان جیسی زمین پر اسلام کاپرچم لہرایاجس علم کے تلے لوگ گروہ درگروہ اسلام قبول کرتے گئے ، یہ فخر وبلندی زمین کیرالا کو مقدس اسلام سے وابستگی کی بناء پرحاصل ہوئی اورمقدس دین اسلام کی بناء پر خود کیرالا بھی مبارک بن گیا ۔
تیسری خصوصیت کیرالا کی یہ بھی رہی کے دور اول کے بعد عرب کے مختلف گوشوں خاص طور پریمن سے بہت سے اشراف وسادات وعلماء وصوفیاء وازکیاء اقطا ب واولیاء نے اس زمین کا رخ کیا او ر کیرالا کو اپنا آشیانہ بنایا یہاں آنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی رہی کہ یہاں کاسمندر بحر عرب سے ملتاہے جس سے ہر آنے والا شخص بآسانی کیرالا کی زمین میں قدم رنجہ ہوتا ہے بہ نسبت کیرالا کے علاوہ دوسرے علا قو ں کے کیونکہ اس طرف بحر عرب ملتاہی نہیں ہے ان وجوہات کی بناء پرابتداء ہی سے کیر الا خلیجی ممالک سے جڑا رہااور اب تک جڑا ہوا ہے ،جو کیرالا کے باہر متصور بھی نہیں ہے ۔
انہی تاریخی حقیقتوں کو آج آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کررہاہوں کہ کب اور کیسے اور کس طرح اور کن حالات میں کن راستوں سے اہل عرب اور مغر ب ویورپ کا تعلق ہندوستان اور اس کے مشہور صوبہ کیرالا کے علاقہ ملبار سے ہوا، یادر ہے پورا کیرالا ملبار نہیں کہلاتا بلکہ کوچین سے کاسڑکوڈ تک شاید چار یاپانچ اضلاع ملبار کہلاتاہے باقی کیرالا ہے اور ’’ملبار،، ہی میں مسلمان بھی زیادہ ہیں ہاں دوسر ے ضلعوں کی نسبت سے ملپرم پھر کالیکٹ میں سب سے زیاد ہ مسلم ہیں اس کی بھی خاص وجہ ہے جو مالک بن دینار اور کاسرکوڈ کی قدیم مسجد صفحہ نمبر ۶۰پرمرقوم ہے’’ وہ یہ کہ جس وقت کیرالا میں مسلمان آئے تو اسلا م کی سچائی نے غیرمسلموں کو مسلمان ہونے پر ابھارا اسوقت کیرالا کا بادشاہ’’ ساموتری ،،تھا جو مسلمانوں سے کافی انسیت رکھتا تھا کیونکہ اس کو یقین تھا کہ جنگ وجدال میں مسلمان ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی قوم ہے یہی و جہ ہے کہ ’’ساموتر ی،، نے بحری فوج کاسربراہ مسلمان کو مقرر کیا اور مچھرے خاندا ن کو، بادشاہ نے حکم دے رکھاتھا کہ میری کشتی چلانے کے لئے ہر خاندان سے مسلما ن ہونا ضرور ی ہے جبکہ ’’ساموتری ،، خودمسلما ن نہ تھا لیکن اپنی ضرورت کے پیش نظر اپنی قوم کے مچھیروں کو مسلمان بننے کا حکم دے رکھاتھاچنانچہ بادشاہ نے تبد یل مذہب پر کوئی روک ٹو ک نہیں کیا سب اپنے اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے مل جل کر رہتے تھے ۔
وہ کیرالا جو خود ہندوستان کا علاقہ ہوکر ہندوستان کے دیگر علاقوں وصوبوں سے کٹا رہا اور الگ تھلگ رہا یہاں تک کہ جب ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں انگریز ی قتل وغارت کا بازار گرم تھا او ر انگر یز وں سے خون آشام جنگیں لڑیں جارہی تھیں اسوقت کیرلا مدرا س کے تحت ہونے کے باوجود، وہ خون خرابہ سے کچھ حد تک باز رہا جو بیرون کیرالا میں ہورہاتھا ، پھر جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو ہرجانب خو ن کی ندیاں بہہ رہیں تھیں پرکیرالا نسبتا محفوظ تھا یہاں تک کہ کیرالا سے ہندوستا ن چھوڑ کر چند لوگ ہی پاکستا ن گئے ہیں وہ بھی وہ حضرات جو سرحد ملبار پر رہنے والے تھے ، یعنی ہندوستانی بٹوار ہ کا اثر کیرا لا میں نہ کہ برابر تھا،اس کنارہ کشی کااثر اب تک کیرالا میں پایا جاتا ہے جیسے علیحدہ ثقافت وکلچر ، الگ رہن سہن ، منفرد زبان وبیان ، مستقل سیاست و سیا د ت ، عبادت وریاضت ، گویا ہر میدان میں الگ چھاپ ہے خواہ تعلیم وتر بیت ہو یاعادات واطوار،دیندار ی و دنیا د اری ہویا شادی بیاہ ،اور دورحاضر تک کیرالا کا دوسرے ہندوستا نی صوبوں سے بہت ہی کم تعلق ہے ہاں اب کچھ خلااوردوری رفتہ رفتہ کم کرنے کی کوشش ہورہی ہے خاص طور پر دینی اور سیاسی اعتبار سے ، لیکن اہل عرب سے تعلق جس طرح پہلے تھااب بھی ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ جتنا عرب سے متعلق ہے اتنا وہ خود ہندوستانیوں سے نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ صوبہ کیرالا سے جتنے لوگ خلیج میں رہتے ہیں اور کام دھندہ کرتے ہیں اتنادوسرے صوبوں میں متصو ر بھی نہیں ہے ۔
کیرالا کا عرب سے تعلق کے بار ے میں مالک بن دینار اور کاسرکوڈ کی قدیم مسجد ،، کے صفحہ ۱۰/ ۱۱ /۱۲ /پررقمطراز ہیں کہ عرب سوداگر ی میں مشہور تھے چونکہ وہ بے باک ملا ح تھے اور سوداگر ی میں ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھااہل مکہ سال میں دوسفر کرتے تھے ایک گرمی میں دوسرا سردی میں جیسا کہ سورہ قریش کی تفسیر میں موجود ہے دو سفر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ قریش سردی میں یمن کا سفر کرتے کیونکہ یمن گرم ملک تھا اور گر می میں سیریا کی طر ف سفرکرتے تھے، ہندوستان کے آمنے سامنے حجاز واقع ہے اور یمن حجاز کا ہی حصہ ہے جو ساحل سمندر پرواقع ہے اس زمانہ میں یہ جگہ عالمی سودا گر ی کا ایک اہم مرکز تھا، اہل عرب کے علاوہ روم ، ایرا ن ، چین ، یونان ، مصر ، فار س و ا لے بھی کیرالا کی مصنوعات کوپسند فرماتے تھے خاص کر ہاتھی کے دانت کا تیار شدہ مال نیز صندل ، املی ، ساگوان ، اور گول مرچ ، وغیرہ اس زمانہ میں گول مرچ بین الا قو ا می بازار میں کافی مقبول تھا زیادہ تر سیا ح گول مرچ کے لئے یہاں آتے تھے ،اور اہل عرب ہندوستان میں سوداگر ی کے ساتھ دینی دعوت کے ارادے سے بھی آئے تھے جس میں بہت سے عربوں نے کیرالا میں شادی بھی رچائی اور بعض تو کیرالا ہی میں رہ گئے جسکاجیتا جاگتا ثبوت ہے ماپلا مسلمان ،عربی مرد اور ہندوستانی عورت سے جو بچہ تولد ہوتا ا سکو ماپالا کہاجاتا تھا ’’لولیس مور ،، کے بقول ماپلا کا معنی دولہا یا داماد کے ہیں چونکہ عربوں نے یہاں آکر شادی کی تو وہ اس دیش کے داماد ہوئے اس وجہ سے ان عربوں کو ماپلا کے نام سے موسوم کیا جاتاتھا’’ڈے ،، کاخیال ہے کہ ’’ما،، کے معنی ماں ہے اور پلا ،،کے معنی بچہ ہے ، چونکہ عربوں نے اس دیس کی عورت سے شادی کی تھی اس لئے اس پچے کی نسبت باپ کی بجائے ماں کی طرف کرکے کہاگیا ’’ماں کا بچہ،،’’ولسن،، بھی اس بات کے قائل ہیں، ’’برون ،، کا قول ہے کہ لفظ’’ ما پلا،، معبرکی بدلی صورت ہے’’ معبر،، کے معنی ’’ گھاٹ،،کے ہیں چونکہ اہل عرب سمندر کے راستے ادھر آئے تھے اس لئے ان کو معبر کہا گیا ہے ان سب کا مرکز مشہور بندرگا ہ کڈنگلور تھااس کا پرانا نام مسرس تھا یہاں بہت سی عربی مصری کشتیاں آتی تھیں۔
معزز قارئین اس مقدمہ کو پڑ ھ کر میرااذعان ہے کہ آپ ہندوستان کی اہمیت اور کیرالا کے حالات اس کے نشیب وفراز سے بخوبی واقف ہوگئے ہوں گے لیکن پھر بھی دل میں یہ خلش ضرور رہ گئی ہوگی کہ قدیم کیرالا سے موجودہ دور کے کیرالا کی ترقی کا راز کیا ہے؟آخروہ کونسا ایساداعیہ ہے؟ جس نے ہندوستانی مسلمانوں میں کیرالا کے مسلمانوں کو ممتاز منفرد اوریکتا بنادیا؟آخروہ کون سا آب حیات مسلمانان کیرالا نے پی لیا؟ کہ ہند و ستانی مسلمانوں میں اس نے حیات جاودانی پالی ؟آخروہ کونسا نسخہ کمیا انہیں مل گیا؟ جس سے اب تک خارج کیرالا کے مسلمان محروم ہیں! آخروہ کون سا فسوں اور جادو منتر کیرالا والوں کو مل گیا؟ کہ دین و دنیا کی تیرگی کو پا س پھٹکنے نہیں دیا؟اور ہرظلمت کو چھوکرکے بھسم کردیا ؟جبکہ ہندوستان کے دوسرے کئی صوبوں کے بہ نسبت کیرالا میں مسلمانوں کی تعدادبہت زیادہ نہیں ہے ؟ پھر بھی ترقی کاجزؤلاینفک سمجھی جانی والی شئی یعنی تعلیمی میدان خواہ دینی ہویاعصر ی اور سیاسی میدان میں سرخرو ،پیش رو، اور صنادید و سرخیل بنے بیٹھے ہیں ؟
بے خودی بے سبب نہیں غالب ؟
کچھ تو ہے؟ جس کی پردہ داری ہے!
میرے پیارے؟ اس راز وبیخودی کا پردہ صرف ’’مقدمہ پڑھنے سے چا ک نہ ہوگا بلکہ ذہنی طورسے تروتازہ ہوکر میری تالیف ’’گلدستۂ مشائخ ملبار،، کاورق پلٹئے اور ہاتھ میں لیے ’’گلدستۂ مشائخ ملبار،،کے ہر پھول کا بغور مطالعہ کیجئے !راز پنہاں خود بخود عیاں اور بیاں ہوجا ئے گااور ہرپھول کی بھینی بھینی بوسے آپ کے ذہن ودماغ میںیہ صدائے باز گشت ہوگی ! ع – مٹا سکو تو مٹا دو یہ ظلمتوں کے فسوں؟
——-