مولانا آزاد کے افکار اور تعلیمی خدمات : – فضل حسین

Share
مولانا ابوالکام آزاد

مولانا آزاد کے افکار اور تعلیمی خدمات

فضل حسین
ریسرچ اسکالر ۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
فون نمبر: 9010950747
ای میل:

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
صاحب طرز انشاء پرداز بلند پایہ صحافی ، مفسر قرآن ، صف اول اور سیاسی رہنما مولانا ابوالکلام آزاد، (قول آزاد ) چراغ جہاں کہیں رکھا جائے اجالا ہوجائے گا اور پھول کا گلدستہ طاق کی جگہ کو ڑے کی ٹوکری میں ہی کیوں نہ ڈال دو لیکن اس کی خوشبوضرور ملے گی۔

مولانا آزاد بحیثیت وزیر تعلیم:
جب 1947ء میں بابو راجندر پرشاد کو دستور ساز اسمبلی کا صدر بنادیا گیا تو حکومت میں ایک جگہ خالی ہوگئی ۔ گاندھی جی اور نہروکے زور سے مولانا آزاد نے ایس۔ راج گوپال آچاری سے 15؍جنوری 1947ء کو وزارت تعلیم کا عہدہ کا چارج لیا ۔ مولانا آزاد جنوری 1947 سے 2؍فروری 1958تک ہندوستان کی حکومت میں وزیر تعلیم رہے ۔ مولانا علم و فضل اور عقل و فکر کی راہوں کے ہر پیچ و خم سے واقف تھے ۔ وہ توبندہ تسلیم ورضا تھے ، دور رس نگاہوں دیکھ کہ انگریزکا زمانہ تو گزر گیا اب تو اصلاح ہونی چاہئے ، نوجوانوں میں ذہن صلاح اور اقدار سلیم پیدا ہونی ضروری ہے ۔ جیسا کہ انہوں نے انسان کے تصور کا ایک مختصر خاکہ پیش کیا تھا جس کا موضوع مشرق اور مغرب میں انسان کا تصور اور اس کا تعلیمی فلسفہ تھا۔مشرق اور مغرب کے نظریوں میں مولانا نے تعلیمی فلسفے کا بنیاد ی خیال یہ ہے کہ اس میں تال میل پیدا کیا جائے۔بنیادی طور پر علی گڑھ تحریک اور ندوۃالعماء نے مولانا کو تعلیمی خدمات کا موقع فراہم کیا ۔
مولانا آزاد کی ہمہ گیر و ہمہ جہت صلاحیتوں کا جن شعبہ میں مظاہرہ ہوا ان میں ایک اہم تعلیم کا میدان بھی ہے ۔ جس میں مولانا آزاد نے ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے گیارہ برس تک خدمات انجام دی اور ہندوستان میں تعلیم کی ترقی ، جدید علوم کی اشاعت بالخصوص سائنسی نظریات پیدا کرنے میں وہ کارہائے نمایا انجام دیا جو کہ ایک آزاد خیال اور کم پڑھی لکھی قوم کے لئے نہایت ہی موضوع تھا۔ مولانا آزاد ایک جامع صفات شخصیت کے مالک اور جدیدوقدیم دونوں دنیاؤں سے پور ی طرح واقف تھے۔وزارت تعلیم سنبھالنے کے بعد مولانا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ صحیح طور پر آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھر پور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے اور اپنے ترقی کی طرف جا سکتی ہے۔ جس کو آج کے موجودہ دور میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ تعلیم کتنی ضروری ہے ۔ چنانچہ تعلیم و ثقافت کے ضمن میں مولانا نے جو کام کئے ان میں سب سے اہم کام لکھنؤ میں اپنی مدارس ، مکاتب اور دارالعلوم کے سربراہوں کی کانفرنس تھی جس میں انہوں نے سائنس اور ٹکنالوجی کی جدید فعل اور ترقی یافتہ صورت کو اپنے نصاب میں شامل کرنے پر زور دیا ۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تعلیم کا صرف واحد مقصد روٹی روزی کمانا نہیں ہونا چاہئے بلکہ تعلیم سے شخصیت سازی کا کام بھی لیا جائے اور یہی تعلیم کا سب سے بڑا مفید پہلو ہے اور اس سے معاشی وتمدنی نظام بھی بہتر ہوگا ۔مولانا آزاد کے تعلیم نظریات کی بنیادچار امور پر استوار ہے ۔ ایک ذہنی بیداری ، دوسرے اتحاد و ترقی ، تیسرے مذہبی رواداری اور چوتھے عالمی اخوات۔ ان کے خیال میں تعلیم کا مقصد نئی نسل میں ذہنی بیداری پیدا کرنی ہونا چاہئے اور ہندوستان تعلیمی مقصد میں غلامی کی جگہ آزادی اور تعصب کی جگہ مذہبی رواداری کو ملنا چاہئے ۔ جس کے نتیجہ میں ہم مغربیت کے بجائے اپنی شاندار ماضی پر غوروفکر کرسکیں۔
(ان کے خیال میں جو اچھا ہے جہاں سے ملے لے لو ، جوخراب ہے جہاں بھی ہو اُسے وہیں چھوڑ دو)مولانا آزاد کے تعلیمی نظریے کا ایک اور پہلو ’’سیکولرازم اور قومی اتحاد تھا‘‘۔ جس کی آج بھی ہندوستان کو کافی ضرورت ہے ۔مولانا آزاد کے تعلیمی فلسفے کا بنیادی خیال یہ ہے کہ مشرق اور مغرب کے نظریوں میں میل پیدا ہو۔ مولانانے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی فکر کا نقش تعلیم و تربیت کے ہر پہلو پر ثبت کیا ہے ۔ انھوں نے ملک کی رہنمائی اس وقت کی جب ملک بڑے نازک دور سے گزر رہا تھا ۔ اگر وہ رہنمائی نہ فرماتے تو ہمارے کلچر ، ہماری تعلیم کی تصور مسنح ہوکر رہے جاتی ۔ انہوں نے بالغوں کی تعلیم کے تصور میں وسعت پیدا کی اور اس میں رنگ بھرا۔ مشرقی علوم و ادب میں ریسرچ کو فروغ دیا ۔ فنون لطیفہ کی ترقی کے لئے اکیڈمیاں قائم کیں ، ہندی میں سائنس کی اصلاحیں بڑھانے کا کام بڑے پیمانے پر شروع کیا ۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن قائم کرکے نہ صرف اعلیٰ تعلیم کو زیادہ وسائل بخشے بلکہ ، یونیورسٹیوں کی آزادی کا تحفظ کیا ۔ مولانا آزاد نے کہا تھا کہ:
’’تعلیمی مشکلات کا حل مرکزاور ریاستوں کے اشتراکِ باہم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ تعلیم کا محکمہ صوبوں میں صوبائی ذمہ داری ہے ، لیکن جب تک ہم اپنی منزل کے نشانوں تک نہ پہنچ جائیں مرکزکو پوری مددکرنی چاہئے ‘‘۔
جب مولانا نے وزیر برائے تعلیم کا چارج سنبھالاتو اس وقت تعلیم کا بجٹ صرف دو کروڑ روپیہ تھا اور بعد میں ان کی کوشش سے بڑھ کر 30کروڑ روپئے ہوگیا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ پانچ سالہ پلان کا مقصد صرف پیداوار ، صنعت وحرفت ، بجلی اور دوسرے مدوں میں ترقی کرنا ہی نہیں ہے ۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اہل ملک کے بالعموم اور نئی نسل دینی اور دنیاوی تربیت صحیح طریقے پر ہو اور انہیں اچھے شہری بنایا جائے ۔ کسی بھی قسم کی ترقی فائدہ نہ دے گی اگر تعلیم پیچھے رہ جائے گی ۔ سائنس اور ٹیکنیکل تعلیم کی طرف تو ہر وقت ان کا دھیان رہتا تھا۔ 1950ء میں مولاناآزاد نے سنٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن میں تقریر کے دوران فرمایا تھا کہ ٹیکنیکل تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لئے ہمارا پروگرام یہ ہے کہ موجودہ درس گاہوں کی ترقی وتوسیع کے علاوہ چار مزید اعلیٰ درجہ ٹیکنیکل کالج قائم کئے جائیں۔مولانا تعلیم کے پہلو کو لے کر ہر طرف کی مرمت انجام دیتے تھے ، خواہ وہ تعلیمی اداروں کی بلڈنگوں کی توسیع ہو یا مزید مشینوں کے منگوانے کی شکل میں ہو۔ ان کے اندر قوم کا احساس تھا جو ہر جگہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ تعلیم جدید سے مسلح نئے استاد وں کو بھی بھرتی کرنے سے انہوں نے گریز نہیں کیا ۔ کلکتہ کے قریب حکومتِ بنگال سے ہگلی کے مقام پر ایک ہزار ایکڑ زمین مشرقی ہائیر ٹیکنولوجیکل انسٹی ٹیوٹ کے لئے حاصل کی ۔ چنانچہ اگست 1951ء میں فرسٹ ایئر کلاس بھی شروع ہوگئیں۔ چنانچہ 18؍اگست کو کھڑگ پور انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کا افتتاح کرتے ہوئے مولانا نے کہا تھا کہ :
’’میں نے عہدہ سنبھالتے ہی پہلے پہل یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمیں ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے کے ذرائع اتنے اچھے بنادینے چاہئے کہ ہم اپنی ضرورتیں پورا کرسکیں۔ ہمارے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے لئے غیر ملکوں میں جاتی ہے ۔ انہیں یہ ٹریننگ یہیں مل سکے جب ہم ٹیکنیکل تربیت اس اونچے معیار کی دے سکیں گے تو باہر کے لوگ یہاں آئیں گے‘‘ ۔
19؍اپریل 1949ء کو یونیسکو کے نیشنل کمیشن کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ادارہ دنیا کی ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کرتا ہے اس کے کئی پراجکٹ ہندوستان میں زیر عمل ہیں۔ سائنسی معلومات اور اشتراکیت کا میدان وسیع ہوا اور یہ فخر ہندوستان کو حاصل ہے کہ ڈاکٹر رادھا کرشنن اس کے انتظامیہ کے صدر بنے ۔بحیثیت وزیر تعلیم مولانا نے ملک کی بڑی خدمت کی ، ہندوستان کی تاریخ میں ایسے جلیل مرتبت ادیب ، سیاست دان او ر دانشور کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔مولانا ہر لحاظ سے ایک معلم تھے ، انہوں نے جو کچھ بھی اپنی تصنیفات میں لکھا ان کی تعلیم بھی دی ، ان میں خود وہ ذہانت اور کردار صالح تھا جو وہ ملک کی عوام کو دینا چاہتے تھے ۔ وہ صداقت و اخلاص کی ایک تصویر تھے انھوں نے سقراط کی طرح حق و صداقت کی حمایت کی ۔ اس صداقت جس کو مصلیحتیں باز نہیں رکھ سکتی تھیں اور غلط تنقید یا مخالفت سے جو کسی طر ح ٹالا نہیں جاسکتا تھا۔انہوں نے انسانی قدروں کو صحیح نقطۂ نظر سے دیکھا ، انہوں نے دیکھا کہ ملک میں لوگ ایسے گرپوں میں بٹے ہوئے ہیں جن میں بعض کو سماجی مساوات اور جمہوری برابری حاصل نہیں ۔ چنانچہ انہوں نے ہریجنوں ، قبائلی اور پسماندہ طبقوں کے لئے وظائف کی ایک اسیکم جاری کی جو ان کے زمانے میں 3لاکھ روپئے سالانہ سے بڑھ کر 2کروڑ روپئے سالانہ تک پہنچ گئی تھی ۔
مولانا آزاد استادوں کی بہبود کے بہت متمنی تھے اور اس کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے تھے ، وفات کے دو ہفتہ پہلے سنٹرل ایڈوائزری بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے اجلاس میں انہوں نے کہا تھا کہ : ’’خواہ کوئی سسٹم ہو لیکن اساتذہ کی بہبود کے بغیر کسی قسم کی تعلیمی بہبود نہیں ‘‘۔
مولانا ایک وزیر تو تھے ہی لیکن بحیثیت انسان ان کا درجہ بہت بلند تھا ، وہ بڑے وقار اور اعظمت سے منصفانہ خیال سے لے کر تعلیمی سرگرمیوں کے صدر بنے رہتے تھے ۔وہ ہندوستان کی سیاسی کشتی کے ناخدا تھے ، ان کی یہی صلاحیت تھی جس نے ہندوستان کی وزارتِ تعلیمات کو ڈگمگانے نہیں دیا ۔آزادی کے بعد مولانا کا مقصد انگریزفرقہ ورانہ تعلیم کو ردکرنے او ر ماڈرن تعلیم کا نظام رائج کرنا تھا ۔ جس کے مقصد میں متحدہ قومیت کا فروغ سیکولر ازم اور قومی ترقی شامل تھی۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے متعدد کمیشن قائم کیں اور کانفرنس و سمینار منعقد کئے اور کہا : ’’ہم اپنی مادی دولت او رساز وسامان کو جغرافیائی یا طبقاتی حدبندیوں میں توقید کر سکتے ہیں لیکن علم کی دولت پر پر مہرہ نہیں لگا سکتے ‘‘۔مولانا کے ذہن میں تعلیم کا نیا بت وسیع او رکافی گہرا مغموم تھا۔ انہو ں نے انفرادی تعلیم کے بجائے قومی تعلیم کا تصور بیان کیا ۔ وہ تعلیم نسواں کے بھی زبردست حامی تھے ان کا کہنا تھا کہ اس سے ہمار ے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوجائیں گے اور سکنڈری سطح کی تعلیم کو مفت رکھنا چاہئے ۔ انہوں نے تعلیم متعلق پانچ پروگرام پیش کئے ۔ اسکول جانے والے بچوں کے لئے بس، ناخواندہ بالغوں کے لئے سماجی تعلیم ، سکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بلند کرنا اور سہولیت فراہم کرنا ،قومی ضرورت کے لئے فنونی اور سائنسی تعلیم ،فنون لطیفہ کے فروغ میں اضافہ ۔
ان کی وزارت تعلیم نے مختلف شعبوں میں بتایا کہ تعلیم صرف کتابی علم کانام نہیں ۔ اس زمانے میں سائنیٹفک اور ٹیکنیکل ایجوکیشن ، ٹیچر ٹریننگ ، زبان کو بڑھانے کی ٹریننگ ، شیڈول ٹرائب، اور شیڈول کاسٹ کے لئے اسکالرشپ کا آغاز ہو ، ملک میں پسماندہ طبقات کی ترقی کی اسکیمیں شروع ہوئیں ۔اس کے علاوہ وہ فنی تعلیم ، کل ہند مجلس کی تنظیم جدید ، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا قیام ، کونسل فار سائنٹیفک ریسرچ وغیرہ انجام پائے ۔یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے تحت آج ملک میں تعلیم کا جال سا بچھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہر خاص و عام ہندوستانی فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنی بھی تعلیمی ادارے ہندوستان میں آج کل ترقی کی راہ پر گامزن ہیں یہ سب روشن خیال ودماغ اور وسیع النظر وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام کی ہی دین ہے ۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی انہیں کے نام پر ایک مرکزی یونیورسٹی ہے جس نے پورے ہندوستان میں اردو زبان کی خوشبو بکھیر رکھی ہے ۔جس کے اندر ہر ایک غریب قبیلے کا بچہ بھی آرام سے اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکتا ہے ۔ اردو یونیورسٹی کے اندر کافی سارے پروگرامز ، ڈپلومااور دوسرے قسم کی تیاری کروائی جاتی ہے ۔یہ یونیورسٹی مولانا آزاد کے تعلیمی انقلاب کے خوابوں کی تعمیر کے مقصد کو پورا کرئے گی۔
——–

فضل حسین
Share
Share
Share