افسانوی مجموعہ
افسانے ہزاروں ہیں
مصنف : جمیلؔ نظام آبادی
موبائل : 09492207865
مبصر:ڈاکٹرعزیز سہیلؔ
ریاست تلنگانہ میں اردو ادب کے فروغ کا جب بھی جائزہ لیا جائیگا توحیدرآباد کے بعد نظام آباد کا نام ضرورلیا جائے گااس لئے کہ نظام آباد کی سرزمین اردو ادب کے سلسلہ میں کافی زرخیز رہی ہے ۔نظام آباد میں اردو کی کئی ادبی انجمنیں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں ، حیدرآباد کے بعد نظام آباد سے سب سے زیادہ اردو اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ ضلع نظام آباد میں شکر نگربودھن کوبھی ادبی اعتبار سے کافی اہمیت حاصل رہی ہے۔ نظام آباد کی سرزمین پر ادب کے ذوق وشوق میں اضافہ کے لئے مغنی صدیقی مرحوم نے کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔
مغنی صدیقی مرحوم کے شاگردِ خاص جمیل ؔ نظام آبادی کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ سے نظام آباد میں اردو کی خدمت کو روا رکھا ہے ۔بحیثیت شاعر ‘افسانہ نگار ‘صحافی اور خادم اردو کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاہے جس کی مثال ماہنامہ گونج ہے جو آج بھی ضلع نظام آباد سے پابندی سے شائع ہوتاآرہا ہے۔ جمیلؔ نظام آبادی نے نہ صرف نظا م آباد بلکہ تلنگانہ کے مختلف اضلاع میں اردو کے فروغ کے سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ جمیل نظام آبادی کی یہ پہچا ن ہے کہ وہ بحیثیت ممتازشاعر ،صحافی ، افسانہ نگار اورممتازمدرس بھی ہیں۔ جمیل ؔ نظام آبادی نے ابتداء میں اپنی شاعری سے پہچان بنائی ہے ۔ساتھ ہی انہوں نے مختلف افسانوں کوتخلیق کرکے ادب میں بحیثیت افسانہ نگار کے اپنانام نمایاں رکھا ہے۔ نہ صرف تلنگانہ بلکہ مہاراشٹرا اور ریاست آندھراپردیش کے اکثرمشاعروں اورمحفل افسانہ میں جمیل ؔ نظام آباد ی کوخصوصی طورپرمدعوکیاجاتا ہے۔ انہوں نے بحیثیت ریجنل ڈائرکٹر اردواکیڈیمی کے ایک طویل خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی خدمات کواردو دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
’’افسانہ ہزاروں ہیں ‘‘جمیل ؔ نظام آبادی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو2016میں منظرعام پرآیا ہے۔ اس افسانوی مجموعہ کانام کافی نغماتی ہے اور اس متعلق فلمی دنیا کا ایک نغمہ بھی کافی مقبول ہے۔ اس کتاب کاانتساب جمیل ؔ نظام آبادی نے اردو کے نام معنون کیا ہے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے عزت وشہرت حاصل کی ہے۔ اس افسانوی مجموعہ میں شامل افسانوں کے عنوانات اس طرح سے ہیں ۔اولڈایچ ہوم کے قیدی‘ آج کے آدم وحوا‘ یہ کیسا درد ہے‘ میٹھا نیم‘ وفاوفا نہ رہی‘ شاطر ‘ راکھ میں دبی چنگاری‘ بے آواز لاٹھی‘آج کی دروپتی‘ وہ لڑکی‘ جب چڑیا چک گئی کھیت‘ کیچڑ میں کھلا کنول‘ غبار ے دیکھتے رہے‘ صدیوں نے سزاپائی‘ کبھی کسی کومکمل جہاں نہیں ملتا‘ کٹھ پتلی‘ تمہیں کچھ نہیں آتا‘ میرا کونسا نمبر ہے‘ بہروپیہ‘ شادی مبارک۔
زیرتبصرہ کتاب کا پیش لفظ ’’حرف آغاز‘‘ کے عنوان سے اردودنیا کی ممتاز افسانوی شخصیت قاضی مشتاق احمد نے رقم کیاہے۔انہوں اپنے پیش لفظ میں جمیل ؔ نظام آبادی کی شخصیتوں اور افسانوں پربھر پور روشنی ڈالی ہیں وہ حرف آغاز میں لکھتے ہیں’’ جمیل ؔ نظام آبادی نے صحافت اور شاعری میں اپنی پہچان بنانے کے بعد فکشن کے میدان میں قدم رکھا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ جہاں شاعری ختم ہوجاتی ہے وہاں سے افسانہ شروع ہوتا ہے۔ میں اس بات سے متفق نہیں یہ دونوں ادب کے دوروشن پہلو ہیں ۔ جمیل ؔ کے افسانوں کوپڑھ کریہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس فن میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ افسانوں کومحض تفریح کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کے ذریعہ وہ قوم وملت کوانسانیت‘شرافت‘پاکیزگی اور رشتوں کاسبق بھی دینا چاہتے ہیں۔انہوں نے سماج کے سلگتے مسائل کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ ان کی اصلاح کے طریقے بھی سمجھائے ہیں‘‘۔
قاضی مشتاق احمد کے حرف آغاز کے بعد ’’جمیلؔ نظام آباد ی بحیثیت افسانہ نگار‘‘ کے عنوان سے فضل جاوید صاحب نے ایک طویل جائزہ جمیلؔ نظام آبادی کے افسانوں کا لیا ہے۔ وہ جمیل کی افسانہ نگاری کی خصوصیت کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’یوں توجمیل ؔ نظام آبادی کے افسانے ہمہ جہت موضوعات پرمبنی ہے لیکن صنف نازک پرلکھے گئے ا ن کے افسانے ساٹھ اور ستر کے دہوں کی یاد دلاتے ہیں۔ انسانی نفسیات خاص طورسے مرد اور عورت کی نفسیات کا ان افسانو ں میں بڑی خوبصورتی سے جائزہ لیاگیا ہے۔ معاشرہ میں بگڑتے ہوئے حالات کی نشاندہی‘افسانوں کی دلچسپی کوبرقراررکھتے ہوئے لکھنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن جمیل ؔ اپنے کرداروں کی وساطت سے اسے بڑے آسانی سے لکھ لیتے ہیں۔ ان کا قلم رواں ہے اور ہرموضوع پر کامیابی سے دوڑتا ہے۔ وہ ایک بے باک افسانہ نگار ہے ۔ ‘‘
ممتاز مبصر افسانہ نگار‘مدرس ڈاکٹر ایم اے قدیر عادل آباد کی تقریظ’’جمیل نظام آبادی کی افسانہ نگاری‘‘ کے عنوا ن سے اس افسانوی مجموعہ میں شامل ہے۔ جمیل ؔ صاحب کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹرعبدالقدیر لکھتے ہیں کہ’’ جمیل صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ۔اول تویہ کہ وہ اچھے صحافی ہیں ‘نعتیں بھی کہی ہیں اور غزلیں بھی۔ ان اصناف میں انہوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑدیئے۔ شاعری سے ہٹ کر جمیلؔ صاحب کی تخلیقی جدت جب افسانوں کے میدان میں قدم رکھتی ہے تو شاعری کی طرح یہ بھی اپنی انفرادیت منوالیتی ہے۔ یوں تو شروع سے ہی افسانہ نگاری کی چنگاری جنم لے چکی تھی۔ گاہے ماہے یہ اپنی جھلک دکھلاتی تھی۔ جیسے ہی ماحول سازگار ہوگیا ۔ یہ چنگاری افسانے ہزاروں ہیں کے نام سے شعلہ بن کر بھڑک اٹھی ۔جس کی روشنی چاروں طرف اپنی پچھلی تخلیقات کی طرح پھیل جائے گی اور داد و تحسین بٹورلے گی۔‘‘
جمیلؔ نظام آبادی اپنے اس مجموعہ میں شا مل افسانوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ’’اس مجموعہ میں شامل سارے افسانے کوئی قصہ یا کہانی نہیں بلکہ میرے گرد وپیش ہونے والے وہ واقعات ہیں جن سے میں متاثر ہوتا رہا ہوں۔ ان افسانوں کے کردار بھی کوئی فرضی کردار نہیں بلکہ یہ وہ حقیقی کردار ہیں جن سے شب وروز میرا سامنا ہوتا رہتا ہے۔ اس مجموعہ کا عنوان افسانے ہزاروں ہیں بھی اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں افسانوں کی کمی نہیں ہے۔ آج ہرفرد کے پیچھے کہانی ہے۔ ہرفرد اپنی کہانی کا ہیرو ہے بس اسے صحیح برتنے اورافسانہ کا روپ دے کر سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں میں کس حد تک کامیاب ہوسکا ہو ں اس کا فیصلہ توآپ کوہی کرنا ہے‘‘۔
افسانے ہزاروں ہے میں شامل افسانے کافی اہمیت کے حامل ہیں اور ان افسانو ں کے مطالعہ سے معاشرہ کے حالات کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ جمیلؔ نظام آبادی نے اردو کے قارئین کے لئے یہ افسانے پیش کرتے ہوئے ایک اصلاح کا کام کیا ہے۔ اس افسانوی مجموعہ میں سب سے پہلاافسانہ ’’ اولڈایج ہوم کے قیدی کے عنوان سے شامل ہے۔ جس میں جمیل ؔ نظام آبادی نے عصرحاضرمیں بوڑھے ماں باپ کے کرب اور ان کے ساتھ پیش آنے والے رویہ کو بڑے ہی اچھوتے افسانوی انداز سے پیش کیا ہے۔ اس افسانہ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو ۔’’ہاں رحمت علی ریڈی صاحب کہنے لگے ‘کیا نہیں تھا میرے پاس‘بیوی بچے‘ بھرا پڑا گھر‘ایک بڑا خاندان‘ دوست واحباب‘ رشتہ دار‘ مگراب کون اپنا رہا‘سب ہی بیگان ہوگئے‘ اب اس عمر میں جہاں ایک شخص کوسب کی ضرورت ہوتی ہے وہ خاندان کا سربراہ بن کرتمام اپنوں کے بیچ جینا چاہتا ہے مگرہم ایسے بدنصیب ہیں کہ سب کچھ رکھتے ہوئے اس اولڈ ایج ہوم میں کسی پرکٹے پرندوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں۔ اپنی موت کے انتظار میں یہ کہتے کہتے ریڈی صاحب کی آنکھ سے آنسو جھلک پڑے۔ ان دونوں کی درد بھری باتیں سن کر مجھے ان میں دلچسپی پیدا ہوئی اورمیں انجا ن بنا ان کی باتیں سننے لگا‘‘۔
جمیل ؔ نظام آبادی کی یہ افسانے کافی اہمیت کے حامل ہیں اور معاشرہ میں واقع پذیر ہونے والے مختلف واقعات کو افسانوں کے روپ میں پیش کیاہے۔ یہ اس دورکاالمیہ ہے کہ ہم اپنے اخلاق وکردار سے دور ہوتے جارہے ہیں اور مادیت پرستی کی طرف گامزن ہیں۔ایسے میں جمیلؔ نظام آبادی کایہ افسانے ہمارے شعور کی بیداری کا کام انجام دیتے ہیں۔ ضرورت بھی اس بات کی ہے کہ مادیت کے اس دور میں اصلاح کا کام ادب کوانجام دینا ہے۔ جمیلؔ نظام آبادی نے اپنے افسانوں کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کا کام بڑے ہی حسن وخوبی سے انجام دیا ہے۔ جمیل ؔ نظام آبادی جتنے اچھے شاعر اورصحافی ہیں اس سے بڑھ کروہ ایک اچھے افسانہ نگاربھی ہیں۔ ان کے افسانے اردو کے قارئین کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ وہ حالات حاضرہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرلیں۔ میں ان افسانوی مجموعے کی اشاعت پرعمیق دل سے جمیلؔ نظام آبادی کومبارک باد پیش کرتا ہوں اورامید بھی کروں گا کہ ہمارے یہ بزرگ آگے بھی ادب کے سرمایہ میں اپنے افسانوں کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کا کام انجام دیں گے اورنئی نسل کے قلمکاروں کی بھی رہنمائی فرمائیں گے۔
———