لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘ کا پرچمِ توحید مْحَمَّدٌالرَّسُوْلُ اللّٰہ نے بلند کیا :- محمد ہاشم قادری مصباحی

Share
محمد ہاشم قادری صدیقی

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘کاپرچمِ توحید مْحَمَّدٌالرَّسُوْلُ اللّٰہ نے بلند کیا

محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشیدپور

Mob. : 09386379632

اللہ رب العزت نے ہر زمانے میں انبیاے کرام کو مبعوث فر مایا اور تمام انبیاے کرام اس دعوت’’توحید‘‘ کولیکر آئے،اور اپنی قوم سے یوں مخا طب ہوئے وَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌلَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ(القرآن،سور ہ بقر۲،آیت۱۶۳،) تر جمہ:تم سب کا ایک ہی معبود ہے،اس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ بہت رحم کر نے والا ہے۔اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاے کرام ورسل علیہم السلام لو گوں کی رشدو ہدایت کے لیے مبعوث فر مایاہے سب کی ایک ہی دعوت تھی کہ اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور ایک اللہ کی عبادت کرو جیسا کی قرآن مجید میں رب العالمین کا فر مان ہے۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فیِْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِِ ا عْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (القرآن سورہ نحل۱۶،آیت۳۶)اورہم نے ہر امت کی طرف ایک رسول اس پیغام کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ لوگو! اللہ ہی کی عبادت کرو اور طا غوت(شیطان،غیر اللہ) کی عبادت سے بچتے رہو۔

دنیا کی سب سے بڑی گواہی تو حید کی گواہی ۔ خود اللہ تعالیٰ، فرشتوں اوراہل علم نے دی…شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَالْمَلآءِکَۃُ وَاُولُواالْعِلْمِ قَآءِمًا بِالْقِسْطِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ( القر آن، سورہ آل عمران۳ ، آیت۱۸) تر جمہ:اور اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کو ئی معبود(برحق) نہیں،اور فرشتے واہل علم بھی گواہی دیتے ہیں، وہ عدل پر قا ئم ہے اس کے سوا کو ئی معبود(برحق) نہیں وہ غالب اور حکمت والا ہے۔آپ ﷺ نے سب سے پہلے مشر کین مکہ کو دعوت توحید دی اور کہا: لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہکہدو اللہ ایک ہے‘‘ کامیاب ہو جاؤ گے الصحیح المسند:۵۱۶۔موحد(خدا کو ایک ما ننے والا سچا مسلمان)مومن کا ٹھکا نا جنت ہے جبکہ مشرک کا ٹھکانا جہنم ہے آپ ﷺ نے عقیدہ تو حید کو ایمان کا محور ومر کز بنایا۔
توحیدکی تعریف :شریعت میں اس کا معنیٰ یہ ہیں کہ آدمی پختہ یقین کے ساتھ اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ ایک ہے۔ہر شئے کا مالک رب ہے،وہ سب کو اکیلا ہی پیدا کر نے والاہے ساری کائنات میں اکیلاہی تدبیرARRANGEMENT کرنے والا ہے ، ساری عبا دتوں کے لائق وہی پا کیزہ ذات ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں،اس کے علا وہ تمام معبود(جسکی عبادت کی جائے،مراد اللہ تعالیٰ ،خد ا) باطل ہیں وہ ہرکمال و اعلیٰ صفت سے متصف ہے اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے،اس کے اچھے اچھے نام ہیں وغیرہ وغیرہ ۔عقیدہ توحید کے فوائدتو حید پر ایمان رکھنے والا کبھی شکستہ دل اورما یوس نہیں ہو تا کیوں کہ وہ خدا پر یقین رکھتا ہے،جو زمین و آسمان تمام خزا نوں کامالک ہے۔نبی کریم ﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے فر مایا: کہ تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہو۔اس لیے سب سے پہلے اس کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو ایک مانیں(اور میری رسالت کو مانیں) جب وہ اسے سمجھ لیں تو پھر انھیں بتا نا کہ اللہ نے ایک دن اور رات ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔جب وہ نماز پڑ ھنے لگیں تو انھیں بتا نا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے،جو ان کے امیروں سے لی جا ئے گی اور ان کے غریبوں کو لو ٹا دی جائے گی۔جب وہ اس کا بھی اقرار کر لیں تو ان سے زکوٰۃ لینا اور لو گوں کے عمدہ مال لینے سے پر ہیز کرنا۔(بخاری شریف ،باب رسو ل اللہ ﷺ کا اپنی امت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی تو حید کی طرف دعوت دینا،) حدیث،۷۳۷۲)۔
توحید کی دعوت وتبلیغ میں بے پناہ پریشا نیاں اور نبی رحمت ﷺ کا صبر۔دین اسلام کی بنیاد عقیدتو حیدہے کوئی انسان جب اسلام قبول کر تا ہے،تووہ شہا دت یعنی گواہی دیتا ہے اقرار کر تا ہے،اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ ،کہ میں اس بات کی گو ا ہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدالرسو ل ا للہ ( ﷺ ) اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں ۔وہ اس بات کو دل سے کہاہے کہ میں اللہ کے سوا کسی کی بھی عبادت نہیں کروں گااور اس میں کسی کو اس کا شریک نہیں ٹہراؤں گا اور عبادت کے جو طریقے محمدالرسو ل اللہ ﷺ نے بتائے ہیں اسی طرح عبادت کروں گا۔ جن کو خود اللہ نے ہما رے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا اسی رب نے اپنے پیارے رسول کو حکم فر مایا،فَاصْدَعْ بِمَا تُؤمَرُوَاعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ ( القر آن، سورہ الحجر۱۵ ،آیت ،۹۴)تر جمہ: پس آپ وہ (باتیں) اعلا نیہ کہہ ڈا لیں جن کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اور آپ مشرکوں سے منھ پھیر لیجئے۔ اسلام کا اعلان آپ نے سب سے پہلے اپنے دولت کدہ پرخاندان بنو ہاشم کو دعوت طعام کے ساتھ کیا۔ دعوت طعام میں چا لیس ۴۰ افراد شریک تھے ضیا فتDINNER کھانے کے بعد آپ نے کچھ کہنا چاہا مگر ابو لہب کے طنز ومذاق اور بیہو دہ باتوں نے محفل کو بد مزہ کر دیا نبی رحمت ﷺ نے ایسے میں کوئی سنجیدہ بات پیش کرنا خلاف مصلحت سمجھا، اور خا موش رہے پھر آپ ﷺ نے دوسری شب ضیا فت، (کھانا کھلانا)کی۔اور ارشاد فر مایا: میں خدا کی طرف سے وہ چیز لایا ہوں جو دین ودنیا کی جامع ہے۔ اس سے بہتر دنیا وآخرت میں کوئی چیز نہیں، مجھے پر ور دگار عالم نے حکم دیا ہے کہ آپ سب اور سا رے انسا نوں کو اس ہدایت کی جا نب بلاؤں۔ فر مائے! یہ اہم ذمہ داری نبھانے میں آپ حضرات میں کون میرا تعاون کرے گا؟‘‘ محفل میں سنا ٹا چھا گیا کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اتنے میں اس محفل میں سب سے کم عمر حضرت علی بن ابی طالب نے کہا۔’’یا رسو ل اللہ! اگر چہ مجھے آشوب چشم ہے، اگر چہ میری ٹا نگیں پتلی ہیں اور میں سب سے کم عمر ہوں، مگر میں آپ کا ساتھ دوں گا‘‘ یہ سننا تھا کہ مخا لفین مذاق اڑانے لگے اور طنز و تمسخر (ٹھٹھول، مسخرہ پن، کھلی اڑانا) کے نو کیلے تیروں سے پیغمبر امن و سلا متی پیغمبر رحمت اللعا لمین کو زخمی کر تے ہوئے چلے گئے۔ لیکن آپ نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا صبر فر مایا، پھر اللہ رب العزت نے یہ حکم نازل فرمایا،فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَ،وَاَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ، وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ،فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْ ءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ،وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ (القرآن،سورہ،الشعراء۲۶،آیت۲۱۷ سے۲۱۳)تر جمہ :پس (اے بندے۱!)تو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پوجا کرو ورنہ تو عذاب یافتہ لوگوں میں سے ہو جائے گا(۲۱۴)اور (اے حبیب مکرم!)آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو(ہمارے عذاب سے) ڈرائے۔(۲۱۵)اور آپ اپنے بازوئے(رحمت وشفقت)ان مو منوں کے لیے بچھا دیجئے جنھوں نے آپ کی پیر وی اختیار کر لی ہے۔(۲۱۶)پھر اگر وہ آپ کی نا فر ما نی کریں تو آپ فر ما دیجئے کہ میں ان اعمال(بد) سے بیزار ہوں جو تم انجام دے رہے ہو۔ (۲۱۷) اور بڑے غا لب(رب)پربھروسہ رکھئے۔
جبل صفا سے دعوت اسلام کا آغاز۔ ان آیات کریمہ اور سو رہ حجر کی آیات مبا ر کہ کے نزول کے بعد آپ ﷺجبل صفا (پہاڑ) پر تشریف لے گئے۔اور قریش کے تمام قبائل کو نا م بنام آوازدیکر بلایا اور لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فر مایا۔’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ(کوہ صفا) کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کر نے والا ہے،کیا تم لوگ میری بات کا یقین کروگے ؟۔ انھوں نے جوب دیا : نَعَمْ تَا جَرَّ بْنَا عَلَیْکَ اِلّاٰ صِدْ قَا…ہاں: آپ ہمیشہ ہما رے تجر بے میں سچے ثابت ہو ئے ہیں اس پر آپ نے فر مایا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میں تم میں نذیر(ڈر سنانے والا) ہوں،کہ تمھارے لیے سخت عذاب ہے۔اگر اسی طرح تم اپنے کفر پر قائم رہے یہ سن کر ابو لہب کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور غصہ سے چلایا تَبَّاً لَکَ سَاءِرَا لْیَوْمِ اَ لِھَذَ جَمَعْتََنَا۔ تیرے سا رے دن مو جب ہلا کت وبر بادی ہوں کیا تو نے ہمیں اسی واسطے جمع کیا تھا۔اس کے بعد کفرو شرک کے سبھی علم بردار نبی رحمت ﷺ کو لعن طعن کرتے ہو ئے چلے گئے(طبقا ت ابن سعدج اول،ص ۲۰۰، اسلام امن عالم ص ،۲۱۱)ابو لہب کی بات ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کی قہر ا لٰہی کی بجلی چمکی قہر خدا وندی کی دھمک سے پہاڑ کا کلیجہ دہل گیا ہیبت سے حرم کی سر زمین کانپ اٹھی۔اتنے میں روح الامین حضرت جبرائیل کے پروں کی آواز آئی سر کاردو جہاں ﷺ نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو وہ پر سمیٹے قہرو جلال میں ڈو بی یہ آیتیں حضور کو سنا رہے تھے،تَبَّتْ یَدآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ، مَآ اَغْنیٰ عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ، سَیَصْلیٰ نَارًاذَاتَ لَھَبٍ، وَّامْرَاَتُہٗ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ،فِیْ جِیْدِھَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ ( القرآن،سورہ لھب۱۱۱،آیت۵سے۱،)تر جمہ: ٹوٹ جائیں دونوں ہاتھ ابو لہب کے اور اس کا ناس لگ جائے تو عذاب الٰہی سے چھٹکا را پا نے کے لئے،نہ اس کا مال کام آئے گا نہ اس کی کمائی ہوئی دولت وہ اور اس کی بیوی جو لکڑیوں کا گٹھر ا ٹھائے پھر تی ہے۔ دونوں جہنم کی بھڑ کتی ہو ئی آگ میں جھو نک دیئے جا ئیں گے۔‘‘ محبوب کو اذیت پہنچا نے والے ایک فقرہ پر قہر ا لٰہی کے چڑ ھتے ہوئے دریا کا تلا طم تو دیکھئے ! ایک لمحہ میں ابو لھب کی دنیا اور آخرت کا فیصلہ سنا دیا۔ ان آیتوں میں خاص طور سے جو چیز قابل غور ہے وہ یہ کی محبوب خا موش ہے، صبر کر رہا ہے اوردشمن کے لعن و طعن اور گستا خی کا جوا ب رب ذو لجلال دے رہا ہے اس سے عظمت رسول ﷺ کی اہمیت معلوم ہو تی ہے۔ اسی لیے فقہا ے کرام فر ماتے ہیں کہ گستاخ الوہیت کی تو بہ قبول ہے اور گستاخ نبوت کی تو بہ قبول نہیں یعنی سزا کی رو سے اسے ہر صورت سزائے قتل دی جائے گی۔ اگر چہ وہ تو بہ کرتا پھرے۔ یہ اس کی آخرت کا معا ملہ ہے قبول کرے نہ کرے ۔ مگر حد نافذ کی جائے گی اور وہ قتل ہے۔ در مختار میں ہے۔ یعنی نبی کی گستاخ کا فر یا مرتد قرار پائے وہ حد کے طور پر قتل کیا جائے گا اس کی توبہ مطلقاً قبول نہیں یعنی خواہ یہ غلطی اس کے اقرار سے معلوم ہو ئی ہو یا گوا ہوں سے ثابت ہوئی ہو اور اگر خدا کی شان میں گستاخی کی تو اس کی توبہ قبول ہے کہ یہ حق خدا ہے اور اول حق عبد ہے توتوبہ سے زا ئل نہ ہو گا اور جو گستاخ نبی کے کفر میں شک کرے وہ کافر ہے۔(در مختار طبع مطبع احمدی،ص۳۶۶،محمدالرسول ا للہ قر آن میں،ص۲۳، مصنف علا مہ ار شد القا دری، مکتبہ جام نور دہلی) دعوت اسلام کے د ینے پر تمام قبائل و خاندان جنھیں معز ز کہا جاتا تھا وہ سب مخا لف ہوگئے اور جو دولت مند تھے وہ دشمنی پر کمر بستہ ہو گئے اور طرح طرح کی اذییتیں دینا شروع کر دیں(جنکی فہرست طویل ہے تا ریخ اور سیرت کی کتا بوں میں مو جود ہیں مطا لعہ فر ما ئیں) آپ ﷺ کو انتہا ئی تکلیف دہ مرا حل سے گزر نا پڑا دشمنان اسلام اتنے آگے بڑ ھ گئے کہ حضور ﷺ کی معاشرتی ناکہ بندی SOCIAL BOYCOTT کر دیا تحر یک اسلام کو کمزور بنا نے اور حضور ﷺ کی ناکہ بندی کا یہ ہولناک پرو گرام ہر سنجیدہ آدمی کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کی نبی رحمت ﷺ پر کیسے کیسے ظلم کیے گئے آپ نے زند گی میں بڑی سے بڑی تکلیف کو خندہ پیشانی سے بر داشت کیا۔ آپ ﷺ خود ارشاد فر ماتے ہیں وَاُذِیْتُ فِی اللّٰہ مَا لَمْ یُوْ ذَ اَ حَدٌیہ اس رسول گرا می کے ساتھ کیا گیا جو سارے جہان کے لیے رحمت اللعا لمین بن کر آیا(القرآن)۔دشمنان رسول واسلام آپکی دشمنی پر اس قدر کمر بستہ ہوئے۔
ہولناک منصو بہ: تمام قبا ئل کے لو گوں نے باتفاق ہولناک منصوبہ مرتب کیا بعیض بن عامر بن ہا شم نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا محرم کی چاند رات۶۱۵ عیسوی کو خا نہ کعبہ کی اندرون دیوا ر پر آویزاں کردیا ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس منحوس تحر یر کے کاتب کو رسول کریم ﷺ کے دل کی آہ لگ گئی اسکے دو نوں ہاتھ ہمیشہ کے لیے شل (بیکار) ہو گئے ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ منصور بن عکرمہ نے لکھا تھا او ر یہ واقعہ اس کے ساتھ پیش آیالو لا(اپاہج)INVALID ہو گیا۔اس معاہدہ کی چند بڑی باتیں مطا لعہ فر مائیں،(۱) اگر بنی ہاشم محمد ( ﷺ) کو قتل کر نے کے لیے ہما رے حوا لے نہیں کرتے تو ان کا مکمل معاشرتی با ئیکاٹ کیا جائے (۲) ان سب کے ساتھ رشتے ناطے کے تعلقات کاٹ لیے جائیں(۳) ان کو نہ کچھ بیچا جائے نہ ہی ان سے کچھ خریدا جا ئے اور نہ ہی ان سے کسی چیز کا لین دین کیا جائے(۴)ان کو کھانے پینے کی چیزیں نہ دی جا ئیں اورآ نے کا ہر راستہ بند کر دیا جائے(۵) انھیں اس پہاڑی گھاٹی میں قید رکھا جائے گلی با زار میں گھو منے پھر نے نہ دیا جائے وغیرہ وغیرہ، رحمت عالم ﷺ اور آپ کے اہل بیت وصحا بہ کرام اور چا ہنے والوں کے لیے یہ مقاطعہ (ناکہ بندی BOYCATT)انتہا ئی دشوار اور صبر آزما تھا اس اسیری اور محبوسی کا زمانہ اتنا سخت کہ محصو رین پر عرصہ حیات تنگ ہوگیا کئی کئی دن سارے کے سارے لوگ بھو کے رہتے۔ کبھی کبھی کسی کے دل میں جذبۂ ہمدر دی بیدار ہو تا تو ڈھکے چھپے غلہ یا کھانے کا سامان چھپا کر پہنچا دیتا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بہن کے لڑ کے حکم بن حزام بن خویلد ایک بار گیہوں کی ایک گٹھری ایک لڑ کے کے سرپر اٹھوا کر گھاٹی پہنچے ابو جہل نے دیکھ لیا،اور دوڑ کر جھپٹا کہ تم ایسا نہیں کر سکتے میں مکہ والوں کو خبر کرتا ہوں،اور تمھیں رسوا ( بد نام) کروں گا ۔ابو البختری نے سنا تو کہا اس کی پھو پھی کا یہ غلہ ہے میں نے بھیجا ہے، یہ میرے پاس رکھا تھا۔اسے لے جا نے دو مگر وہ نہیں مانا اورجھگڑا کرنے لگا ابو البختر ی نے غصہ میں آ کر اونٹ کی ہڈی سے زبر دست پٹائی کی اور پیروں سے روند روند کر ابو جہل کو ادھ مرا کردیااور غلہ
پہنچا دیا۔ تنگ دستی اور بھوک پیاس سے محصورین بے تاب ہو گئے حضور ﷺ کے پاس کچھ بھی نہ تھا ابو طا لب کے ہا تھ خا لی ہو گئے تھے ام ا لمو منین خدیجتہ الکبریٰ اور صحا بۂ کرام بھی تنگ دست ہو چکے تھے بھوک سے بچوں کے رونے بلکنے کی آوازیںآنے لگیں بھوک اور کمزوری سے لوگ ایک دوسرے سے بات نہیں کر پارہے تھے وغیرہ وغیرہ۔
وحئی ربانی سے خوشخبری آئی: ایسے میں وحئی ربانی نے ساری مصیبتوں کے دور ہو نے کی بشارت خوشخبری سنائی۔ قریشی ظلم و تشد د کا جوعہد نا مہ(AGREEMENT) دیوار کعبہ سے لٹکا ہوا تھا اس پر اللہ نے دیمک مقر ر کر دی تھی جس نے ساری تحریروں کو چاٹ ڈالاصرف ذکر اللہ،اللہ رب ا لعزت کا نام با قی رہا، حیّی وقیوم خدا کا نام ۔ جو لا فا نی اور لا یموت ہے باقی رہا۔ حضور ﷺ نے ابو طالب کو بتا یا ابوطالب دوڑ کر قریش مکہ کے پاس گئے اور چلینجCHALLENGEکر دیا کہ میرے بھتیجے نے یہ دعویٰ کیا ہے وہ تحریر اگریمنٹ مٹ گئی ختم ہو گئی(اور یقیناًمیرے بھتیجے نے کبھی جھوٹ نہیں بولاہے تم لوگ جا نتے ہو) اگریہ بات سچ نکلی تو تم لوگ بازآ جاؤ۔اور اگر غلط ثابت ہوئی تو میں اسے تمھا رے سپرد کر دوں گا۔ اس پر کفار خوش ہو کر بو لے کہ اب تم نے انصاف کی بات کی ہے‘‘زبردست بھیڑ نے کعبہ میں داخل ہو کر دیکھا تو فر مان رسول کے مطابق صرف اللہ کا نام باقی تھا۔اور کفار وقریش کی ساری تحریروں کو دیمک نے کھالیا تھا۔ تمام دشمنوں نے شرم و ندامت سے اپنی گر دنیں جھکا لیں۔قبائل قریش آپس ہی میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے۔ مطعم بن عدی، عدی بن قیس،زعمہ بن اسود،ابو البختری بن ہشام اورزہربن امیہ وغیرہ ایک ساتھ ہتھیار لگائے شعب ابی طالب میں آئے اور تمام محصورین (گھرے ہو ئے) کو اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے کہا(سیرت ابن ہشام،ج۲،ص۳،،۱۷،۱۹،ابن سعد ،ج ۱،ص۲۰۸ سے۲۲۱۔ البدایہ والنہایہ،ج۲ ص،۹۷؛۹۵؛۹۰، اسلام اور امن عالم۲۶۴سے۲۶۳ مصنف حضرت مولانا بد رعالم بد ر القا دری مقیم حال امسٹر ڈم ہا لینڈ) ظلم وجبر کا یہ تین سالہ دور بھی آپ ﷺ کو دعوت توحید و اسلام کی تبلیغ کے لیے نہ روک سکا پھر اس سے بھی زیادہ درد ناک اور سخت ترین ومصائب کا دو رسفر طا ئف کا آیا رسول کریم ﷺ نے جب دعوت اسلام پیش فر مایا تو انتہائی اذیت ناک دور سے آپ کو گزر ناپڑا جو تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں ۔آپ ﷺ نے مکہ کے ہی ایک شہر طائف کے باشندوں تک اسلام کا پیغام پہچا نے کا کا م شر وع فر ما یا آپ نے سر داران طائف عبد یا لیل، سعود اور حبیب فر زندان عمرو سے گفتگو کی اور اسلام کی دعوت پیش فر مائی آپ کی دعوت پر غور فکر اور عمل کر نے کے بجا ئے ان لو گوں نے آپ کا مذاق اڑایا اور انتہا ئی حقا رت آ میز جملوں سے آپ کو تکلیف پہنچائی اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ سر دا روں نے اوباش(آوارہ،کمینے،بد ماش، غنڈوں،لو فر )لڑکوں کو جمع کر کے آپ کے پیچھے لگا دیا جنھوں ہلہ بول کر آپ کومارنا شروع کردیا کنکر ، پتھر اور گا لی گلوج کی بارش کر دی اور مارتے مار تے شہر کے کنا رے تک چلے گئے زید بن حار ثہ رضی اللہ عنہ اور آپ ﷺ کا جسم مبا رک لہو لہان ہو گیا خون مبارک بہہ کر نعلین مبارک تک آگیا نبی رحمت ﷺ کے جسم اطہر میں اس مو قع پر جو تکلیفیں آئیں اور قلب اطہر جس قدر مجروح ہوا، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔آپ ﷺ خود فرماتے ہیں میری زندگی کا سب سے سخت ترین دن تھا ایک جگہ یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے اسے جنگ احدسے زیادہ سخت دن قرار دیا ہے‘‘(سیرت النبی،سیرت احمدمجتبیٰ)طائف میں آپ ﷺکے ساتھ جوناروا سلوک ہوا اللہ نے اس کے بد لے میںآپ کو بہت عطا فر مایا مفسرین بیان فرماتے ہیں ’’ معراج‘‘ کا سفر انہی دکھوں کا مدا واتھا ،کیوں کہ حق تعالیٰ نے وعدہ فر مایا کہ ’’ہر آنے والا دن گز ر نے والے دن سے بہتر نتائج والاہو گا‘‘(القر آن)۔
اسلام آج دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے یہ سب نبی رحمت ﷺ کی قر بانیوں کا نتیجہ ہے ۔ کاش ہم تمام مسلمان آقا ﷺ کی دعوت توحیدو اسلام کو پھیلانے کی سنت پر عمل کر تے اور پیغام اسلام کو براد ران وطن ودوسرے مذاہب تک پہنچاتے تو اسوئے رسول اللہ پر عمل کر نے کا ثواب اور فوائد سے بھی مالا مال ہو تے آج اسلام کی تعلیم کو اپنے اپنے عقا ئد ونظر یات کی تبلیغ کا ذریعہ بنا کر روز روز نت نئے فتنوں کوجنم دے رہے ہیں اللہ سے دعا ہے کہ رب کریم ہم سب کو اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی تو فیق اور اس پر عمل کر نے کی تو فیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔

Share
Share
Share