دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 21
قبر کے سوالات میں قرآن کی اہمیت
مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت کی 20 ویں قسط کے لیے کلک کریں
قبر میں میت سے جو چار سوالات ہوں گے ان میں سے چوتھا سوال قرآن کو جاننے سے متعلق ہوگا۔ حدیث میں ان چار سوالات کی جو کیفیت بیان ہوئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے جو چوتھا سوال قرآن کے متعلق ہوگا اسی کے جواب پر پہلے تینوں سوالوں کے جوابات کا اعتبار ہوگا۔ چنانچہ حدیث کی مشہور و مستند کتاب ابوداؤد شریف اور مسند احمد میں یہ چاروں سوالات و جوابات تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں-
اس حدیث کو صاحب مشکوٰۃ نے بھی مشکوٰۃ شریف میں نقل کیا ہے۔ وَعَنِ الْبَرَآءِ بِنْ عَازِبٍؓ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم قَالَ یَاتِیْہِ مَلَکَان فُیجْلِسَانِہٖ فَیَقُوْلَا نِ لَہ‘ مَنْ رَّبُّکَ فَیَقُوْلُ رَبِّیَ اللّٰہُ فَیَقُوْلَانِ لَہ‘ مَادِیْنُکَ فَیَقُوْلُ دِیْنِیَ الْاِسْلَامُ فَیَقُوْلَانِ مَا ھٰذالرّجلُ الْذیِ بُعِثَ فِیْکُمْ فَیَقُولُ ھُوَ رَسُول اللہِ فَیَقُولَانِ لَہُ وَمَا یُدْرِیْکَ فَیَقُوْلُ قَرَأتُ کِتَابَ اللّٰہِ فَاَمَنتُ بِہٖ وَصَدَّقتُ فَذٰلِکَ قَوْلُہ‘ یُثَبِتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُو بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ اَلْاٰیَۃَ قَالَ فَیُنَادِیْ مُنَادِ مِّنَ السَّآاءِ اَنْ صَدَقَ عَبْدِیْ فَاَفْرِ شَوْہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَاَلْبِسُوْہْ مِنْ الْجَنَّۃِ وَافْتَحُوَا لَہ‘ بَاباً اِلیَ الْجَنَنَّۃِ لِیُفْتَحُ قَالَ وَیُعَادُ رُوْحُہ‘ فِی جَسَدِہٖ وَیَاْتٖیْہٖ مَلَکَان فَیُجْلِسَانِہٖ فَیَقُوْلَانِ مَنْ رَّبُّکَ فَیَقُوْلُ ھَاہُ ھَاہُ لَا اَدْرِیْ فَیَقُوْلَانِ مَادِیْنُکَ فَیَقُوْلُ ھَاہْ ھَاہ لَا ادْرِی فَیَقُوْلَانِ مَا ھٰذَالرَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُمْ فَیَقُوْلُ ھَاہ ھَاہ لَاادْرِی فَیُنَادِیْ مُنَادٍ مِّنَ السَّمَآءِ اَنْ کَذَبَ فَافْرِشُوْہُ مِنَ النَّارِ واَلْبِسُوْہُ مِنَ النَّارِوَافْتَحُوْ الَہ‘ بَابًا اِلٰی النَّارِ قَالَ فَیَاْ تِیْہِ مِنْ حَرِّھَا وَسَمُوْمِھَا قَالَ وَیُضِیِّقُ عَلَیْہِ قَبْرَہ‘ حَتّٰی تَخْتَلِفُ فِیْہٖ اَضْلَاعُہٗ ثُمَّ یُقَیَّضُ لَہٗ اَعْمیٰ اَصَمَّ مَعَہٗ مِرْزَبَۃً مِّن حَدِیْدٍ لَوْضْرِبَ بِھَاجَبَلً لَّصَار’‘ تُرَاباً فَیَضْرِبُہٗ بِھَا ضَرْبَۃً یَّسْمَعُہَا مَا بَیْنَ المَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اِلَّا الثَّقَلَیْنِ فَیَصِیْدُ تُرَاباً ثُمَّ یُعَادُ فِیْہٖ الرُّوْحُ۔ (رواہ احمد و ابوداؤ)
براءؓ بن عازب سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے روایت کیا۔ فرمایا میت کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے پھر اس سے پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں وہ شخص کون ہے جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا، وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ؐہیں پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تجھے اس بات کا علم کیسے ہوا وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اس کو سچا جانا، اس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اللہ تعالیٰ ثابت رکھتا ہے ان لوگوں کو جو ایمان لائے ثابت بات کے ساتھ آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے میرے بندے نے سچ کہا اس کو جنت کا بچھونا بچھادو اور جنت کی پوشاک پہنا دو جنت کی طرف دروازہ کھول دو اس کے لیے کھولا جاتا ہے اس کے پاس اس کی ہوا اور خوشبو آتی ہے بقدر آنکھ کی درازی اس کی قبر کھول دی جاتی ہے اور جو کافر ہے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا پھر اس کی روح اس کے جسم میں ڈالی جاتی ہے دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور کہتے تیرا رب کون ہے ؟وہ کہتا ہے ہائے افسوس میں نہیں جانتا وہ کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے افسوس میں نہیں جانتا ، وہ کہتے ہیں وہ شخص کون ہے جسے تمہاری طرف بھیجا گیا؟ وہ کہتا ہے ہائے افسوس میں نہیں جانتا۔آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے یہ جھوٹا ہے ، پس آگ کا بچھونا بچھادو اور آگ کا لباس پہنادو اور دوزخ کی طرف ایک دروازہ کھول دو اس کی لو اور گرمی آتی ہے۔ فرمایا حضرتؐ نے اس کی قبر اس پر تنگ کی جاتی ہے یہاں تک اس کی پسلیاں مختلف ہوجاتی ہے۔ پھر ایک اندھا بہرا فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے اس کے پاس لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے ، اگر وہ پہاڑ پر مارا جائے تو وہ بھی مٹی بن جائے اور اس کو گرز کے ساتھ مارتا ہے۔ جن وانس کے سوا مشرق ومغرب کے درمیان جو ہے اس کی آواز سنتا ہے، وہ مٹی ہوجاتا ہے پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے۔
مذکورہ حدیث سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ قبر کے سوالات میں قرآن کے سمجھنے کی کس قدر اہمیت ہے کہ پہلے تین سوالات کے جوابات کے بعد اُس سے پوچھا جائے گا تونے کیسا جانا
کہ میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے ، حضرت محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اگر اس نے اس کے جواب میں کہا کہ میں نے اللہ کی کتاب کو پڑھا اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی تب اس کے پہلے تینوں جوابات معتبر ہوں گے، گویا کہ پہلے کے تینوں جوابات پر فرشتے اس سے قرآن کی دلیل طلب کریں گے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین، محمدؐ کوا للہ کے رسول قرآن سے جاننا ضروری ہے۔ اور حقیقت تو یہ کہ اللہ کو اپنا رب ، اسلام کو اپنا دین ، محمدؐ کو اللہ کے رسول قرآن سے جانے بغیر ان تینوں سوالوں کے جوابات زبان سے ادا ہی نہیں ہوں گے اب ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ وہ قبر کے چوتھے اہم سوال کے جواب کی کتنی تیاری کررہا ہے جس پر پہلے تینوں سوالوں کے جوابات کا انحصار ہے۔ مگر یہ المیہ ہی ہے کہ قبر کے سوالات کے متعلق مسلمانوں کے ذہنوں میں تک یہ بات نہیں ہے کہ قبر میں چوتھا سوال قرآن کے متعلق ہوگا، اور جب ذہنوں میں تک نہیں ہے تو اس کی تیاری کا سوال نہیں ہوتا دراصل اس سوال کے متعلق عام مسلمانوں کی غفلت کے پیچھے خود بیشتر علماء کی غفلت کا دخل ہے۔جہاں تک قبر کے متعلق عام مسلمانوں میں شروع کے تین ہی سوالات کے مشہور ہونے کی بات ہے تو یہ صرف کافروں سے ہوں گے، جیسا کہ گذری حدیث سے بخوبی واضح ہے،
مذکورہ حدیث کی روشنی میں ہر مسلمان کو غور کرنا چاہیے کہ قبر میں جس مومن کے لیے جنت کا لباس پہنانے، جنت کا بستر بچھانے ، جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں پہونچنے کی خوشخبری ہے ، وہ اس مومن کے لیے جس نے چوتھے سوال کے جواب میں کہا ’’ قرأتُ کِتابُ اللّٰہِ فاٰمَنْتُ بِہٖ وَصدَّقتُ‘‘ یعنی میں نے اللہ کی کتاب (قرآن) پڑھا پس اس پر ایمان لایا اس کی تصدیق کی، ظاہر ہے یہ جواب وہی مومن دے سکتا ہے جس نے قرآن کو سمجھ کر پڑھا ویسے تولفظِ قرأت ہی میں سمجھنے کا مفہوم شامل ہے لیکن لفظ اٰمَنْتُ وَصدَّقتُکے قول کے ذریعہ قرآن کے سمجھنے کے معنی لازماً شامل ہوگئے کیوں کہ قرآن کے احکامات کو جانے بغیر ان کی تصدیق اور ان پر ایمان لانا معتبر ہی نہیں ہوتا۔ اب اگر کوئی شخص قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے سے قاصر ہے تو کم ازکم کسی سے سمجھ کر سننے کا حق اداکریں تاکہ وہ فرشتوں کے چوتھے سوال کے جواب میں کہہ سکے’’ سَمِعتُ کِتابَ اللّٰہِ فاٰمَنْتُ بِہٖ وصدَّقتُُ‘‘ یعنی میں نے اللہ کی کتاب (قرآن) کو سنا پس اس پر ایمان لایا اور اس کے احکامات کو سچ جانا۔