قسط: 20 – قرآن سے اعراض پر وعید و لعنت :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 20
قرآن سے اعراض پر وعید و لعنت

مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت کی 19 ویں قسط کے لیے کلک کریں

اعراض کے معنی ہیں کسی چیز کو تسلیم کرنے کے باوجود اس سے منہ موڑنا اور بے اعتنائی برتنا ، اس لحاظ سے قرآن سے اعراض کے معنی ہوں گے، قرآن کو اللہ کا کلام تسلیم کرنے کے باوجود اس کے احکام و فرامین کے سننے ، سمجھنے اور عمل کرنے سے منہ موڑنا اور جس طرح قرآن کا انکار کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی وعید و لعنت ہے-

اسی طرح قرآن سے اعراض کرنے والوں پر بھی اللہ کی وعید و لعنت ہے اس عنوان پر کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ بات بھی افادیت سے خالی نہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں بہت سے مقامات پر قرآن کو ’’ ذکر‘‘ سے تعبیر کیا ہے، بطور نمونہ چند آیات پیش کی جاتی ہیں۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الْذِکُرَ وَاِنَّا لَہُ لَحٰفِظُوْنْ (حجر آیت ۹) ( بیشک ہم نے قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں )
مذکورہ آیت میں بالاتفاق ، مفسرین کے نزدیک ذکر سے مراد قرآن ہے۔ اسی طرح سورۂ طلاق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا(طلاق آیت ۱۰)(تحقیق اللہ نے تمہاری طرف ذکر یعنی قرآن نازل کیا) اسی طرح سورۂ طہٰ میں ارشاد ربانی ہے : وَقَدْ اٰتَیْنٰکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرٍا (طٰہٰ آیت ۱۱)ترجمہ : ( اے محمدؐ ) تحقیق آپؐ کو ہم نے ہمارے پاس سے ذکر یعنی قرآن دیا۔)
مذکورہ آیت میں مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی ذکر سے مراد قرآن لیا، اسی طرح جن آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن سے اعراض کرنے والوں کو وعید سنائی ان میں بھی قرآن کو ذکر کہا گیا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے : وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِالرَّحْمٰنِ نُقِیِضْ لَہ‘ شَیْطَاناً فَھُوَلَہُ قَرِیْنٌ(زخرف ۳۶) ترجمہ : ( اور جو شخص رحمن کے ذکر (قرآن) سے منہ موڑتا ہے ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں پس وہی اس کا ساتھی ہوتا ہے۔)
مذکورہ آیت میں مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی ذکر سے مراد قرآن لیا ہے۔ اس
آیت سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ جو شخص قرآن سے اعراض کرکے زندگی گزارتا ہے شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے ۔اور ظاہر ہے جس کا ساتھی شیطان بن جائے وہ حق کا راستہ پا نہیں سکتا بلکہ وہ گمراہی میں گرتا جائے گا یہ شیطان انسانوں میں سے بھی ہو سکتا ہے اور جنوں میں سے بھی ۔ اگر انسانوں میں سے ہوتو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی کافر، ظالم ، یا فاسق شخص اس کا دوست بن جاتا ہے اور یہ خوشی و ناخوشی اسی کی پیروی کرتا ہے۔ اور اگر جنوں میں سے ہوتو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی خبیث نافرمان جن اس کے دل میں برے خیالات اور وسوسے ڈالتا ہے، اور یہ شخص ان ہی خیالات اور وسوسوں کی پیروی کرتا ہے۔ سورۂ زخرف ہی کی آیت ۳۷؂ میں اللہ تعالیٰ نے ان مقرر کئے ہوئے شیاطین کی کارستانی اور جن پر مقرر کیے گئے اُن کی سوچ کو بیان فرمایا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَاِنَّھُمْ لَیَصُدُّوْنَھُمْ عَنِ الْسَّبِیلِ ویَحسَبُوْنَ اَنَّھُمْ مُّھْتَدُوْنَ (۳۷)ترجمہ : ( بیشک وہ انھیں سیدھے راستہ سے روکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں) یہی وجہ ہے کہ آج جو انسان شیاطین کی پیروی کررہے ہیں ان کا گمان یہی ہے کہ وہ سیدھے راستہ پر ہیں ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن سے اعراض کرکے زندگی گزارنے سے آدمی کو اپنی جہالت اور گمراہی کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ جہالت اور گمراہی اس کو اصل ہدایت محسوس ہوتی ہے۔ اس کیفیت سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ قرآن سے علمی وعملی رشتہ جوڑا جائے۔ اسی طرح سورۂ جن میں اللہ تعالیٰ نے قرآن سے اعراض کرنے والے کے لئے سخت ترین عذاب کا اعلان کیا۔ ارشاد خداوندی ہے :وَمَنْ یَّعْرِضُ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہٖ لیَسْلُکْہُ عَذَاباً صَعَداً(سورۂ جِنّ ۱۷) ترجمہ : ( جو شخص اپنے رب کے ذکریعنی قرآن سے اعراض کرے گا ، اسے سخت عذاب دیا جائے گا۔قرآن سے اعراض کرکے زندگی گزارنا آدمی کے لئے آخرت میں کتنا زیادہ حسرت و افسوس کا باعث ہوگا۔ سورۂ فرقان کی تین آیات سے اچھی طرح اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔وَیِوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰیَ یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلٰیَتَنِیْ اَتَّخِذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً (۲۷) یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِی لَمْ اَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلاً (۲۸) لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ
الذِّکِرْ بَعْدَ اِذْ جَآءَ نِی ط وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُولًا(۲۹) (فرقان) ترجمہ : ( اور اس دن (قیامت کے دن ) ظالم اپنے دونوں ہاتھ چبائے گا اور کہے گا کاش کہ میں نے رسولؐ کا راستہ اختیار کیا ہوتا ، ہائے افسوس کاش میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا، تحقیق کہ اس نے مجھ کو قرآن سے ہٹا دیا تھا باوجود یہ کہ وہ میرے پاس آچکا تھا اور شیطان تو ہے ہی انسان کے لئے دھوکہ باز۔) ان آیات سے یہ بھی واضح ہوا کہ اصل گمراہی قرآن سے بے توجہی ہے اور اس میں علمی اور عملی دونوں طرح کی بے توجہی داخل ہے۔ علمی بے توجہی یہ ہے کہ قرآن کے احکام و فرامین کو نہ سمجھا جائے اور عملی بے توجہی یہ ہے کہ قرآن کے احکام و فرامین پر عمل نہ کیا جائے۔ سورۂ طٰہٰ میں بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن سے اعراض کرنے والوں کو سخت وعید سنائی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ‘ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً وَّ نَحْشُرُہ‘ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعَمْیٰ(۱۲۴) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ اَعْمَیٰ وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْراً (۱۲۵) قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتَنَا فَنَسِیْتَھَاج وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسَیٰ (۱۲۶)ترجمہ : ( اور جوشخص میرے ذِکر (یعنی قرآن) سے اعراض کرے گا اس کے لئے زندگی تنگ ہوجائے گی۔ اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھااُٹھائیں گے وہ کہے گا میرے رب تونے مجھ کو اندھا کیوں اُٹھایا حالانکہ میں دیکھنے والا تھا۔ کہا جائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تھیں پس تونے ان کو بھلا دیا تھا۔ تو اسی طرح آج تجھ کو بھلا دیا گیا۔)

Share
Share
Share