قسط: 19 – نفاذ قرآن دورِ مدنی کا جہاد : – مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 19
نفاذ قرآن دورِ مدنی کا جہاد

مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت کی 18 ویں قسط کے لیے کلک کریں

جس طرح اشاعت قرآن دورِ مکی کا جہادہے اسی طرح دورمدنی کا جہاد نفاذ قرآن ہے۔ گویا نبی کریمؐ کی حیات طیبہ کے دونوں ہی دور قرآن کی اشاعت و نفاذ میں گزرے فرق صرف یہ ہے کہ مکی دور کے جہادمیں قتال نہیں تھا اور دورِ مدنی کے جہاد میں قتال بھی تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مکی دور میں قتال کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اور اس لیے نازل نہیں ہوا تھا چونکہ وہ احکام ہی نازل نہیں ہوئے تھے جن کو انجام دینے کے لیے قتال کی ضرورت پڑے۔

یہی وجہ ہے کہ دورِ مکی میں جتنا بھی قرآن نازل ہواوہ عقائد اور ایمانیات سے متعلق ہے، اور ایمانی عقائد کی دعوت و تبلیغ کے ذریعہ اشاعت تو کی جاسکتی ہے لیکن قتال کے ذریعے ان کا نفاذ نہیں کیاجاسکتا، جب کہ مدنی دور میں جتنے بھی احکام نازل ہوئے ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جن کو انجام دینے کے لیے سیاسی طاقت وقوت کی ضرورت پڑتی ہے اور بغیر قتالی جہاد کے اسلام کو سیاسی قوت حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مدنی دور کی آیات میں جگہ جگہ ایمان والوں کو قتال کا حکم دیا اور اسی بناء پر آنحضورﷺ کی پوری دس سالہ مدنی زندگی صرف قتالی جہاد میں گذری اور تمام صحابہ کرامؓ کی زندگیاں بھی قتالی جہاد میں صرف ہوئیں، اور یہ سب محض قرآنی احکام پر عمل آوری کے لیے ہوا اس لیے یہ کہنا عین حقیقت کا اظہار ہے کہ مدنی دور کی جنگیں دراصل نفاذ قرآن کی جنگیں تھیں اور ایسی جنگوں سے گزرے بغیر آج بھی مدنی آیات کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ قرآن میں قتال سے متعلق جتنی آیات ہیں ظاہر ہے وہ ایک مضمون میں جمع نہیں کی جاسکتیں۔بطور نمونہ چند آیات مع ترجمہ و خلاصہ پیش کی جاتی ہیں سورۂ بقرہ کی آیت ۲۱۶؂ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر اللہ کی راہ میں جنگ کو فرض قرار دیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْءًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّھُوَ شَرٌ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (بقرہ ۲۱۶) ترجمہ : ( تم پر جنگ فرض کی گئی ہے اور وہ تمہارے لئے ناگوار ہے۔ اور شاید جو چیز تمھیں ناگوار
ہو وہ تمہارے لئے بہتر ہو اور شاید جو چیز تمہیں پسند ہو وہ تمہارے لئے برُی ہو اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ ) اس آیت کے نزول کے بعد آپؐ اور صحابہ کرامؓ کیسے بیٹھے رہ سکتے تھے گویا اس آیت نے انھیں مجبور کیا کہ وہ غلبۂ دین کی خاطر کفار و مشرکین سے جنگ کریں۔ سورۂ بقرہ ہی کی آیت ۱۹۳ ؂ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ الِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَاعُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظَّلِمِیْنَ (بقرہ ۱۹۳) ترجمہ : ( اور ان (کافروں ، مشرکوں) سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی غیر اسلامی اقتدار) ختم ہوجائے اور دین اللہ کے لئے خالص ہوجائے ۔پس اگر وہ باز آجائیں تو ان پر کوئی زیادتی نہیں مگر ظالموں پر۔ ) اس آیت کی رو سے بھی آنحضورؓ اور صحابہ کرامؓ کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ غیر اسلامی اقتدار والوں سے اس وقت تک جنگ کریں جب تک کہ ان کے اقتدار کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اور اللہ کے دین کو سیاسی غلبہ نہیں مل جاتا۔ سورۂ توبہ کی تین آیات میں ارشاد ربانی ہے :اَلَاتُقَاتِلُوْنَ قَّوْمًا نّکَثُوْآ اَیْمَانَھُمْ وَھَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَھُمْ بَدَءُ وْکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ط اَتَخْشَوْنَھُمْ ج فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْمِنِیْنَ( ۱۳) قَاتِلُوْھُمْ یَعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِھِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْھِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّوْمِنِیْنَ ( ۱۴) وَیُذْھِبْ غَیْظَ وَ قُلُوْبِھِمْ ط وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ ط اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ( ۱۵) ترجمہ : (کیا تم اس قوم سے نہیں لڑتے جس نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور رسولؐ کے نکالنے میں فکر مند رہیں اور انھوں نے (چھیڑنے میں ) پہلے ابتداء کی کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ پس اللہ زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو اگر تم مومن ہو ! ان سے لڑو اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غالب کرے گا۔ اور ٹھنڈے ہوں گے مؤمنین کے دل اور نکالے گا ان کے دلوں کی جلن اور اللہ توجہ فرماتا ہے جس پر چاہتا ہے ، اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔) سورۂ توبہ کی آیت ۲۹؂ میں اللہ نے حکم دیا : قَاتِلُوْ الَذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلَہ‘ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُو الکِتٰبَ حَتٰی یُعْطُوْا الجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْنَ (توبہ آیت ۲۹)
ترجمہ : (ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی حرام کردہ چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے اور نہ دین حق قبول کرتے ہیں ۔ اہلِ کتاب سے یہاں تک کہ وہ چھوٹے بن کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں ۔ مذکورہ آیت کے نزول کے بعد آنحضورؐ اور صحابہ کرامؓ کے لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ یہود و نصاریٰ ، کفار و مشرکین سے اسلامی اقتدار کی خاطر جنگ نہ کرتے۔)
سورۂ توبہ ہی کی آیت ۳۶؂ میں ارشاد خداوندی ہے : وَقَاتِلُوْ الْمُشْرِکِیْنَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ المّتَّقِیْنَ (توبہ آیت ۳۶)ترجمہ : (اور تمام مشرکین سے جنگ کرو جیسا کہ وہ تمام تم سے جنگ کرتے ہیں جان لو کہ اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ) سورۂ توبہ کی آیت نمبر ۱۱۱ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو ان کی جان و مال جنت کے بدلہ خرید لینے کی خوشخبری سنائی اور ان کی چند صفات بیان فرمائی تو سب سے پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں ، قتل کرتے اور قتل بھی ہوتے ہیں، چنانچہ ارشاد ربانی ہے :اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰٰی مِنَ المُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط یُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ ۔۔(توبہ آیت ۱۱۱) ترجمہ : (بیشک اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے ان کی جان اور ان کے مال جنت کے بدلہ خرید لیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس قتل کرتے ہیں اور قتل بھی ہوتے ہیں۔ ) سورۂ انفال کی آیت ۶۰؂ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَاَعِدُّوْالَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لَّا تَعْلَمُوْنَھُمْ ج اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْامِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوْفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ (انفال آیت ۶۰)ترجمہ : ( اور تیار رکھو ان کے لئے اپنی استطاعت بھر (جنگی) قوت اورتربیت یافتہ گھوڑے تاکہ اس کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور تمہارے دشمنوں کو ڈرا سکو۔ اور ان کے علاوہ دوسرے جنھیں تم نہیں جانتے اللہ انھیں جانتا ہے۔ اور اللہ کی راہ میں تم جو چیز بھی خرچ کرو گے اس کا بدلہ تم کو دیا جائیگا اور تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔) مذکورہ آیت کی تفسیر میں بر صغیر کے ایک جلیل القدر مفسر مفتی شفیع صاحبؒ نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں جو تفسیری کلمات تحریر فرمائے وہ من وعن پیش ہیں :
مذکورہ آیت میں اسلام کا دفاع اور کفار کے مقابلہ کے لئے تیاری کے احکام ہیں ۔ ارشاد فرمایا : وَاَعِدُّوْالَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ۔یعنی سامان جنگ کی تیاری کرو جس قدر تم سے ہوسکے اس میں سامان جنگ کی تیار ی کی ساتھ مَااسْتَطَعْتُم کی قید لگا کر یہ ارشاد فرمادیا کہ تمہاری کامیابی کے لئے یہ ضروری نہیں کے تمہارے مقابل کے پاس جیسا اور جتنا سامان ہے تم بھی اتنا ہی حاصل کرلو ، بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ اپنی مقدور بھر جو سامان ہوسکے وہ جمع کرلو تو اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد تمہارے ساتھ ہوگی۔ قوت کا عام لفظ اختیار فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ یہ قوت ہر زمانہ اور ہر ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے۔ اُس زمانہ کے اسلحہ ، تیر ، تلوار ، نیزے تھے ۔ اس کے بعد بندوق، توپ کا زمانہ آیا ، پھر اب بموں اور راکٹوں کا وقت آگیا ۔ لفظ قوت ان سب کو شامل ہے۔ اس لئے آج کے مسلمانوں کو بقدر استطاعت ایٹمی قوت ، ٹینک اور لڑاکا طیارے ، آبدوز کشتیاں جمع کرنا چاہئے کیوں کہ یہ سب اسی قوت کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اور اس کے لئے جس علم و فن کو سیکھنے کی ضرورت پڑے وہ سب اگر اس نیت سے ہو کہ اس کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کا اور کفار کے مقابلہ کا کام لیا جائے گا تو وہ بھی جہاد کے حکم میں ہے۔ لفظ قوت عام ذکر کرنے کے بعد ایک خاص قوت کا صراحتہ بھی ذکر فرمادیا۔ وَمِنْ رِّبَاطِ الْخَیِلِ رباط مصدری معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور مربوط کے معنی میں بھی۔ پہلی صورت میں اس کے معنی ہونگے۔ گھوڑے باندھنا اور دوسری صورت میں بندھے ہوئے گھوڑے ، حاصل دونوں کا ایک ہی ہے کہ جہاد کی نیت سے گھوڑے پالنا اور ان کو باندھنا یا پلے ہوئے گھوڑوں کو جمع کرنا سامان جنگ میں خصوصیت کے ساتھ گھوڑوں کا ذکر اس لئے کردیا کہ اس زمانہ میں کسی ملک و قوم کے فتح کرنے میں سب سے زیادہ مؤثر و مفید گھوڑے ہی تھے ۔اور آج بھی بہت سے ایسے مقامات ہیں جن کو گھوڑوں کے بغیر فتح نہیں کیا جاسکتا ، اسی لئے رسولؐ نے فرمایا کہ گھوڑوں کی پیشانی میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھ دی ہے۔ صحیح احادیث میں رسولؐ نے سامان جنگ فراہم کرنے اور اس کے استعمال کی مشق کرنے کو بڑی عبادت اور موجب ثواب عظیم قرار دیا ہے۔ تیر بنانے اور چلانے پر بڑے بڑے اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔ (معارف القرآن جلد ۴ ، صفحہ ۲۷۲، ۲۷۳) سورۂ انفال ہی کی آیت ۶۵ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو حکم دیا کہ ایمان والوں کو جنگ پر اُبھارئیے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُوْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ط اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُم عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِاءَتَیْنِ وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ یَغْلِبُوْآ اَلْفًامِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ(انفال آیت ۶۵) ترجمہ : ( اے نبیؐ ایمان والوں کو جنگ پر ابھاریئے اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب ہوں گے ۔ اور اگر تم میں سو صبر کرنے والے ہوں تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب ہوں گے کیونکہ وہ سمجھتے نہیں۔ )اسی طرح سورۂ صف کی آیت ۴؂ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے اپنی محبت کا وعدہ کیا جو اس کی راہ میں صف بستہ ہوکر جنگ کرتے ہیں ، چنانچہ ارشاد ربانی ہے : اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیْلِہِ صَفًّا کَانَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(صف ۴) ترجمہ : ( بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہوکر جنگ کرتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہے۔
مذکورہ آیت کے سب سے پہلے مصداق آنحضورؐ اور صحابہ کرامؓ ہیں۔ اس لئے کہ سب سے پہلے انھوں نے ہی اس طرز پر جنگیں لڑیں۔ غرض کہ نبی کریمؐ نے دور مدنی میں جو بھی قدم اُٹھایا قرآن کے حکم کی بناء پر اٹھایا اور اسی حکم کی بناء پر آپؐ کے دس سال مدنی دور میں چھوٹی بڑی تقریباً پچیاسی (۸۵) جنگیں ہوئیں جن میں سے کم و بیش ستائیں (۲۷) جنگوں میں آپؐ خود شریک رہے ۔
نفاذ قرآن دورِ مدنی کا جہاد

Share
Share
Share