شریعتِ اسلامیہ ہی زد پہ کیوں ؟ : – محسن رضا ضیائی

Share
محسن رضا ضیائی

نئی مجوزہ حج پالیسی کے تناظر میں
ایک چشم کشا تحریر
شریعتِ اسلامیہ ہی زد پہ کیوں ؟

محسن رضا ضیائی
پونہ ،مہاراشٹر
فون:9921934812

یہ امرآفتابِ نیم روز کی طرح ظاہر وباہر ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اس کے تمام اصول وقوانین نہایت ہی آسان اور سب کے لیے یکساں ہیں۔اسلام انسانی حقوق ومساوات اورآپسی پیارومحبت کا درس دیتا ہے۔اس کی تعلیمات پوری دنیا کے لوگوں کے لیے مشعلِ راہ اور چراغِ راہِ ہدایت ہیں۔ایک انٹرنیشل ویب سائٹس کے مطابق پوری دنیا میں تقریباً۰۰۲،۴مذاہب وادیان ہیں،جن میں سب سے زیادہ اعتدال پسند،روادار اور افراط وتفریط سے یکسر خالی مذہب صرف اسلام ہی ہے۔

یہ محض دعویٰ نہیں ہے ،بلکہ اس کی ہدایات وتعلیمات اور احکام وشرائع سے جگ ظاہر ہے۔بے شمار غیر مسلم محققین اور سائنسدانوں کے نظریات وخیالات اسلام کی حقانیت کے شاہدِ عدل ہیں،جن کا کہنا ہے کہ اسلام دنیا کا ایک عالم گیر اور ہمہ جہت مذہب ہے جو نہ صرف امن وآشتی ،الفت ومحبت اور وسطیت واعتدال کا گہوارہ ہے،بل کہ اس میں افراط وتفریط کا بھی کچھ عمل دخل نہیں ہے۔لہذا اسلام کے کسی بھی پہلو اور گوشے سے اعراض وانحراف کرنا یہ عقل وفہم کے صریح خلاف ورزی ہے۔خیال رہے کہ یہاں صرف شریعت اسلامیہ اور موجودہ پیش آمدہ مسائل ہی کو ضبط تحریر میں لانا مقصد ہے۔یہ تو صرف آنے والی گفتگو کے لیے تمہیدی کلمات ہیں ،تاہم اتنا ضرور ہے کہ متذکرہ بالا گفتگو اسلام کی جزوی عکاسی ضرور کرتی ہے۔
یہ بات ہر ذی علم شخص جانتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب ﷺپر تیئیس سالوں کی مدت میں بتدریج قرآن پاک نازل فرمایا، جس کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے راہِ ہدایت اور قانونِ اِلٰہی قراردیا۔اسی طرح رسول اللہﷺ کے اقوال وافعال اوراعمال وتقریرات کوبھی قانونِ اسلام یا شریعت اسلامیہ کہا جاتا ہے۔گویاکہ قرآن پاک اورپیغمبراسلام ﷺکی تعلیمات وہدایات ہی شریعت اسلامیہ ہے ،جس میں کسی بھی طرح کی ترمیم وتبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔بلکہ اس میں بے جا مداخلت ناقابل برداشت اور ناقابل معافی جرم ہے۔بہت سی مرتبہ اس میں ترمیم وتبدیلی کی ناجائز کوششیں بھی کی گئی ہیں لیکن مخالفینِ شریعت کو ہر مرتبہ ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
چند ماہ قبل ملک میں’’طلاقِ ثلاثہ ‘‘ ،نکاح نامہ،حجاب اورجانوروں کی قربانی وغیرہ جیسے حساس مسائل پربحث وتمحیص کا بہت زیادہ سلسلہ دراز رہا۔طلاقِ ثلاثہ کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی گھنونی سازش بھی رچی گئی تھی اور کھلے عام شریعتِ اسلامیہ کا مزاق اڑایا گیاتھا۔حکومت طلاقِ ثلاثہ کے بہانے ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنا چاہتی تھی،لیکن وہ اپنے اس منصوبے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔مسلمانوں کے اتحاد نے اسے ایساچاروں شانے چت کیاکہ وہ دیوالیہ پن کا شکار ہوکر رہ گئی۔اسی طرح ہندوستانی میڈیا(صحافی روش کمار کی زبان میں گودی میڈیا)نے بھی شریعتِ اسلامیہ کو زک پہنچانے میں کسی طرح کی کوئی کسر نہیں چھوڑاتھا۔حد تو یہ ہے کہ اس اسلامی وشرعی مسئلے پر سیاست بھی خوب ہوئی اور سب ہی نے اپنی اپنی سیاسی روٹیاں سینکیں۔ابھی یہ سیاست سرد بھی نہ ہونے پائی تھی کہ زخم خوردہ مرکزی حکومت کی طرف سے ایک بار پھر شرعی امورومعاملات میں بے جا مداخلت کی مذموم کوشش کی گئی۔ حال ہی میں ریویوکمیٹی(Review Committee) کے کورآرڈینیٹر افضل امان اللہ کی زیرِ قیادت ۵؍ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ،جس نے ۲۰۱۸سے ۲۰۲۲ء تک کے لیے مجوزہ حج پالیسی تیار کی اور ممبئی میں حج کمیٹی آف انڈیا کے منعقدہ اجلاس میں وزیر براے اقلیتی امور مختار عباس نقوی کو اپنی رپورٹ سونپی۔یہ انتہائی حیرت انگیز،شریعت مخالف اور آر ایس ایس وبے جے پی کے اشاروں پر تیار کی گئی ایک رپورٹ ہے ،جس میں عازمین حج کو دی جانے والی سبسیڈی کی برخاستگی، خاتون عازمین کو کم سے کم چار کے گروپ کی شکل میں محرم مرد کے بغیر سفر حج کی اجازت،ہر حاجی کے لیے قربانی کا کوپن خریدنا لازمی،حج کے روانگی کے مراکز میں تخفیف اور ستر سال سے زائد عمر کے عازمین کی ریزروکیٹیگیر ی(Reserve category) کو ختم کرنا وغیرہ جیسی پالیساں اور تجاویز پیش کی گئی ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ۵؍ رکنی کمیٹی جو تشکیل دی گئی تھی اس میں علماے کرام،مفتیانِ عظام اور مرکزی وریاستی حج کمیٹیوں کے ممبران وعہدے داران شامل نہیں تھے ،بل کہ یہ کمیٹی نااہل اور شریعت سے عاری افراد پر مشتمل تھی،جنہیں پتہ ہی نہیں کہ شریعت اور اس کیاصول وقوانین کیا ہیں؟
مہاراشٹر حج کمیٹی کے چیئرمین اور حج کمیٹی آف انڈیا کے رکن حاجی محمد ابراہیم شیخ عرف بھائی جان سے جب ان سفارشات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے صاف طور پر کہا کہ ’’افضل امان اللہ کی سربراہی والی ریویو کمیٹی کی رپورٹ کے بارے میں حج کمیٹی آف انڈیا کے اراکین کو علم ہی نہیں ہے۔ا س میں کئی مشورے ایسے دیے گیے ہیں ،جن پر ابھی سے لوگوں کے فون آنے شروع ہوگیے ہیں اور کچھ تو ایسی تجاویز بھی ہیں،جو شریعت میں مداخلت ہے۔یہ قطعاً نا مناسب اور غلط ہے‘‘۔
اس رپورٹ کے منظر عام پرآتے ہی پورے مسلم حلقے میں شدید برہمی اور غم وغصہ کا اظہار کیا گیا۔اسے بی جے پی کی حمایت اور شریعت مخالف قرار دیاجارہاہے۔
واضح رہے کہ حج ۲۰۱۷ء کے لیے مرکزی حج کمیٹی کے ذریعے۲۴؍ جولائی سے ۲۸ اگست کے وسط میں۴۵۴؍ پروازوں سے124,940حجاجِ کرام حج پر گیے تھے۔جب کہ تقریباً ۴۵؍ ہزار عازمین نے حج پرائیویٹ ٹور آپریٹروں کے ذریعے حج کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے تھے۔حج۲۰۱۷ء سے سعودی عرب نے ہندوستان کا حج کوٹہ 1,70,025کردیا ہے۔حج ۲۰۱۷ء کے لیے ملک بھرکے ۲۱؍ امبارکیشن پوائنٹ دہلی،ممبء،کوکلکتہ،لکھنؤ،گوا،گوہاٹی،حیدرآباد،ناگپور،احمدآباد،کوچی،اورنگ آباد،سری نگر،منگلور،چنئی،وارانسی،گیا،جے پور اور اندور سے عازمین حج روانہ ہوئے تھے۔ اسی طرح ۲۰۱۷ء حج کی تجاویز میں کوئی ایسی غیر شرعی چیزیں شامل نہیں تھیں ،جو کہ۲۰۱۸ء سے لے کر۲۰۲۲ء تک کے لیے تیار کی گئی ہے۔
یہاں ہم حج کمیٹی کے مجوزہ نکات کا ایک ایک کرکے جائزہ لیں گے۔
(۱)سبسیڈی کی برخاستگی:
سبسیڈی آخر ہے کیا؟حج کا اس سے کیا تعلق ہے اور ختم کرنے سے حجاجِ کرام کا کیا نقصان ہوگا۔ان سب کے لیے ہم سب سے پہلے سبسیڈی کے بارے میں جانیں گے۔
سبسیڈی (Subsidy)حکومتِ ہند کی جانب سے حجاجِ کرام کو دی جانے والی ایک طرح کی مالی مدد ہے،جوفضائی کرایہ کی مراعات کی شکل میں دی جاتی ہے۔جو لوگ حج کمیٹی کے ذریعے سفرِ حج پر روانہ ہوتے ہیں ،وہی اس اسکیم سے استفادہ کرسکتے ہیں۔اور جو لوگ خانگی ٹورآپریٹرس کے ذریعے جاتے ہیں وہ اس کے مستحق نہیں ہوتے ہیں۔چوں کہ حج کے لیے طیاروں کو کرایہ(چارٹرڈ) پر لیا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے فضائی کرایہ عام دنوں کے کرایے سے زیادہ بڑھ کر وصول کیا جاتاہے۔حکومتِ ہند اس اضافی کرایے کے بار کو خود برداشت کرتی ہے اور اسے سبسیڈی کا نام دیتی ہے۔۱۹۵۴ء میں وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کے دورِ اقتدار میں حج سبسیڈی کو شروع کیا گیا تھا۔تب سے لے کرتاحال یہ اسکیم شروع ہے۔حالاں کہ سبسیڈی کو لے کر اب تک سیاست خوب ہوتی رہی ہے اوراسے ہندومسلم فرقہ واریت کا رنگ بھی دینے کی نارواں کوششیں کی گئی ہیں۔۲۰۱۲ء میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ حج سبسیڈی کو۲۰۲۲ء تک مرحلہ وار ختم کر کرکے ان تمام رقوم کو اقلیتوں کی فلاح وبہبود اور تعلیم وترقی پر صرف کرے۔ غورطلب امریہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے نے حج سبسیڈی کوختم کرنے کی جو ہدایت جاری کی تھی وہ خلافِ دستورعمل یا شریعت مخالف نہیں ہے۔بل کہ اس کی بنیاد قرآنِ عظیم کی اس آیت کو بنایا گیا ہے ،جو حج کے سلسلے میں وارد ہے۔چناں چہ قرآن کریم میں ہے:اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا فرض ہے ،جوبھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتاہو۔(سورہ آلِ عمران ،آیت ۷۹)لہذا اس آیت کو دلیل بناکر سپریم کورٹ آف انڈیا نے کہا کہ اس لیے عازم حج کا سبسیڈی سے فائدہ اٹھا ناقرآنِ مقدس کی رو سے صحیح نہیں ہے۔
اس سلسلے میں بہت سے علماے کرام اور مسلم قائدین نے بھی عدالت کے اس اہم اور تاریخی مشورے کی حمایت وتائید کی ہیں ،کہ اسے مسلم بچوں اوربچیوں کی تعلیم وترقی اور قوم مسلم کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔اس لیے کہ سبسیڈی کے نام پر ایئرلائنزکا زیادہ اور عازمینِ حج کا کم فائدہ ہورہاہے۔لہذا اسے مسلمانوں کی تعلیمی،معاشی،سماجی اوراقتصادی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جائے،تاکہ مسلم طبقے سے جہالت وپستی ،غربت وافلاس اورتعلیمی فقدان کو ختم کیا جاسکے۔
لہذا اگر دیکھا جائے تو حج ریویوکمیٹی کی یہ تجویز حجاج کرام کے لیے باعثِ نقصان یانفرت وتعصب پر مبنی نہیں ہے،بل کہ اس سے پوری قوم کا فائدہ ہے۔بل کہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ حکومت اتنی خطیر رقم سے مسلمانوں کی سماجی بدحالی اور تعلیمی پس ماندگی کو دورکرنے کے بجاے ایئر لائنز (Air Lines)پر صرف کررہی ہے،جس سے ایئر لائنز کو بے انتہا فائدہ پہنچ رہاہے۔ اس سے حکومت کی نیت کا صاف پتہ چلتا ہے کہ خود حکومت نہیں چاہتی ہے کہ قومِ مسلم اس زوال وانحطاط سے باہر نکل سکے۔مسلمانوں کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ حکومت نے سبسیڈی کو ختم کرکے سفرِ حج کے اخراجات کو کم کرنے کی بھی بات کہی ہے ،جس سے اسے پہلو تہی نہیں کرنا چاہیے،بل کہ اسے روبہ عمل لانا اس کی اہم اوربنیادی ذمہ داری ہے۔
(۲)خاتون عازمین کو بغیر محرم کے سفرِ حج کی اجازت:
اس مجوزہ پالیسی میں ہمارے لیے جو سب سے زیادہ قابلِ اعتراض اور تشویش ناک بات ہے ،وہ خاتون عازمین کو لے کر ہے۔جس میں خاتون عازمین کو کم سے کم چار کے گروپ کی شکل میں محرم مرد کے بغیر سفر حج کی اجازت دی گئی ہے۔اس تجویز سے جہاں کئی ایک سوالات جنم لینا شروع ہوگیے ہیں وہیں دینی حلقوں میں شرعی امورومعاملات کو لے ایک طرح کی بے چینی بھی پیدا ہوگئی ہے۔آپ کو بتادیں کہ سعودی عرب کے مروّجہ قوانین کے مطابق کسی عورت کو مَحرم کے بغیر حج یا عمرہ کا ویزا ہی جاری نہیں کیا جاتاہے،تو اب سب سے بڑا سوال ذہن میں یہ گردش کررہاہے کہ کیا سعودی عرب اس مجوزہ حج پالیسی سے مطلع ہے اور اگر ہاں تو کیا وہ اس امر پر متفق ہے؟اگر متفق ہے تو پھر یہ غیر شرعی کام کیسا؟یہ ایسا سوال ہے جس نے سعودی عرب کو سوالات کے کٹگھرے میں لاکھڑا کردیا ہے۔اس پالیسی پر سعودی عرب کو جلد سے جلد صفائی دینے کی ضرورت ہے ،جو اسلامی اصول وقوانین کے منافی اور خود سعود ی حکومت کے قوانین کے خلاف بھی ورزی ہے۔یہ تو بات دو ممالک کے درمیان پالیسی کی تھی ،اب آئیے ’’عورت کا بغیر محرم کے سفرِ حج کرنے کو ‘‘ قرآن واحادیث کی روشنی میں جانتے ہیں۔اس سلسلے میں بکثرت احادیثِ مبارکہ موجود ہیں،جن میں عورتوں کو بغیر محرم مرد کے سفرِ حج تو کیا کسی بھی سفر کی قطعی طور پر اجازت نہیں دی گئی ہے۔یہاں چند احادیث کریمہ کوشواہد کے طور پر پیش کیا جارہاہے،ملاحظہ فرمائیں:
(۱)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ مسافت کا سفر تنہا طے کرے۔(طبرانی، المعجم الاوسط، 6 : 267، رقم : 6376)
(۲) حضرت ابو اْمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے فرمایا:’’مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند یا کسی محرم کے بغیر حج کرے۔‘‘ابن خزیم، الصحیح، 4 :134، رقم : 2522
(۳)حضورﷺنے فرمایا: (عورت صرف اپنے محرم کے ساتھ ہی سفر کرے، عورت کے پاس اجنبی شخص اسی وقت جائے جب اس کے ساتھ محرم ہو) تو ایک آدمی نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ﷺ! میں فلاں فلاں معرکے کے لیے جانا چاہتا ہوں اور دوسری جانب میری بیوی حج پر جانا چاہتی ہے،تو آپ ﷺنے فرمایا: تم اپنی بیوی کے ساتھ جاؤ‘‘۔بخاری: (1862) مسلم: (1339)
ان تمام احادیث کریمہ سے یہ امراظہرمن الشمس ہوگیا کہ شریعتِ اسلامیہ میں خواتین کا بغیر محرم کے سفرِ حج پر روانہ ہونا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔یہ قرآن واحادیث کے صریح خلاف ورزی اور خواتین کی عفت وعصمت کے تحفظ کے لیے بھی ایک شدید خطرہ ہے۔لہذا اس سے کمیٹی کو رجوع کرنا چاہیے اوردوبارہ اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ حرکت سے بازرہناچاہیے۔
کمیٹی کی اس تجویز پرپرنٹ میڈیا،پریس میڈیااورسوشل میڈیا پرایک طویل بحث کا سلسلہ شروع ہے۔سب ہی اسے خلافِ شریعت اور خواتین کی عزت وناموس کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔اس کے خلاف سبھی مسلمانوں کو باہم آکر پُرزورمظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے کہ کوئی عورت بغیر کسی محرم کے عزمِ سفر کرے۔اس پر حکومت سعودی کو بھی سخت نوٹس لینے کی ازحد ضرورت ہے۔یہ صرف شریعت کے تحفظ کا ہی مسئلہ نہیں ہے ،بل کہ شہرِ مکہ ومدینہ کے تقدس وحرمت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر سعودی اس کا سب سے بڑا ذمہ دار ہوگا،جس نے ایک ملک سے اپنے تجارتی وسفارتی تعلقات اورسیاسی مفاہمت کی خاطر غیر شرعی اور غیر اخلاقی فیصلہ لیا۔
(۳)ہر حاجی کے لیے قربانی کا کوپن خریدنا لازمی:
ایامِ حج میں دسویں ذی الحجہ کو مقامِ منیٰ میں حجامِ کرام کوقربانی کرناہوتاہے ،جو حجاج اس کی استطاعت رکھتے ہیں ،ان پر یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو قربانی کرنا واجب ہے،اور جو حجاج غیر مستطیع ہیں ،ان پر تین روزے حج کے ایام میں مکہ مکرمہ میں اور سات روزے اپنے وطن میں واپسی کے بعدرکھنا واجب ہے۔
ریویوکمیٹی کی یہ کس درجہ زیادتی اورجہالت وحماقت ہے کہ حجاجِ کرام کو قربانی کا کوپن خریدنا لازمی قرار دے دیا،جو صریح طور پر قرآن واحادیث کے خلاف ورزی ہے۔چناں چہ قرآن کریم میں فرمایا گیا:’’اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا کرو پھر اگر تم روکے جاؤ تو قربانی بھیجو جو میسرآئے اور اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ جائے ،پھر جو تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہے تو بدلے دے روزے یا خیرات یا قربانی، پھر جب تم اطمینان سے ہو تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے، اس پر قربانی ہے جسے میسر آئے پھر جسے مقدور نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات جب اپنے گھر پلٹ کر جاؤ یہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس کے لیے ہے جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے‘‘۔(سورہ بقرہ،آیت۶۹۱،ترجمہ: کنزالایمان)اسی طرحدیثِ مبارکہ میں بھی فرمایا گیا:
’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حج میں تمتع کے متعلق پوچھا گیا؛ آپ نے فرمایا کہ حجۃالوداع کے موقع پر مہاجرین انصار نبی کریمﷺ کی ازواج اور ہم سب نے احرام باندھا تھا۔ جب ہم مکہ آئے تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اپنے احرام کو حج اور عمرہ دونوں کے لیے کر لو لیکن جو لوگ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لائے ہیں۔ ( وہ عمرہ کرنے کے بعد حلال نہیں ہوں گے ) چناں چہ ہم نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لی تو اپنا احرام کھول ڈالا اور ہم اپنی بیویوں کے پاس گیے اور سلے ہوئے کپڑے پہنے۔ آپﷺنے فرمایا تھا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے وہ اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتا جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ لے ( یعنی قربانی نہ ہولے ) ہمیں ( جنہوں نے ہدی ساتھ نہیں لی تھی ) آپﷺنے آٹھویں تاریخ کی شام کو حکم دیا کہ ہم حج کا احرام باندھ لیں۔ پھر جب ہم مناسک حج سے فارغ ہو گیے تو ہم نے آکر بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کی ، پھر ہمارا حج پورا ہو گیا اور اب قربانی ہم پر لازم ہوئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ جسے قربانی کا جانور میسر ہو ( تو وہ قربانی کرے ) اور اگر کسی کو قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے حج میں اور سات دن گھر واپس ہونے پر رکھے ( قربانی میں ) بکری بھی کافی ہے۔ تو لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں عبادتیں ایک ہی سال میں ایک ساتھ ادا کیں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں یہ حکم نازل کیا تھا اور رسول اللہﷺنے اس پر خود عمل کر کے تمام لوگوں کے لیے جائز قرار دیا تھا۔ البتہ مکہ کے باشندوں کا اس سے استثنا ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجدالحرام کے پاس رہنے والے نہ ہوں ‘‘۔ اور حج کے جن مہینوں کا قرآن میں ذکر ہے: وہ شوال ، ذیقعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔ ان مہینوں میں جو کوئی بھی تمتع کرے وہ یا قربانی دے یا اگر مقدور نہ ہو تو روزے رکھے۔(صحیح البخاری،حدیث ۲۷۵۱،حج کے مسائل کا بیان)
لہذا قرآن وحدیث کی رو سے معلوم ہوا کہ ایامِ حج میں مستطیع حجاج پر قربانی کرنا اور غیر مستطیع پر روزہ رکھنا واجب ہے۔
اب یہاں ریویو کمیٹی کی سفارش وتجویز کا جائزہ لیجیے ،جس میں یہ کہا گیا ہے کہ حجاجِ کرام کو قربانی کا کوپن خریدنا لازمی ہوگا۔ کمیٹی کی اس تجویز سے تو صاف صاف پتہ چل رہاہے کہ کمیٹی اور اس سے متعلق افراد قرآن واحادیث کے احکام وشرائع سے نا بلد اور ناواقف ہیں۔حالاں کہ قرآن واحادیث میں تو مستطیع اور غیر مستطیع حجاج کے لیے الگ الگ احکامات بیان کیے گیے ہیں۔لیکن اب کمیٹی کی اس سفارش سے غیر مستطیع حجاج کو بھی قربانی کا کوپن خریدنا پڑے گا،جو کہ ایک طرح کی زیادتی اور شریعت میں بے جا مداخلت ہے۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اب تومسلمانوں کے عائلی،خانگی اور شرعی مسئلوں کا تصفیہ وحل ایسے لوگ کررہے ہیں ،جنہیں شریعت کا علم ہونا تو بہت دورصحیح سے نماز پڑھنے کا بھی سلیقہ نہیں ہے۔اس میں کوئی دوراے نہیں کہ کمیٹی کی یہ تجویز قرآن وحدیث کے سراسر خلاف اورشریعت میں مداخلت ہے جونا قابلِ برداشت ہے۔
(۴)حج کے روانگی کے مراکز میں تخفیف:
یہ بھی جلد بازی اور مسلم دشمنی میں لیا گیا ایک تشویش ناک فیصلہ تھا،جس کا مقصد حجاجِ کرام کو طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا کرناتھا۔کمیٹی نے اپنی مجوزہ پالیسی میں سفرِ حج کے لیے روانگی کے۲۱؍ مراکز کو گھٹاکر محض۹؍ مراکزبرقرار رکھی تھیں،جن میں باالترتیب دہلی،لکھنؤ،کولکاتا،احمدآباد،ممبئی،چنئی،حیدرآباد،بنگلور اور کوچین شامل تھے ،تاہم اس کے خلاف ملک گیر سطح پر جب احتجاجات اور مظاہرے ہوئے تو وزیر براے اقلیتی امور مختار عباس نقوی کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی پڑی اور ایک اخباری بیان جاری کرنا پڑا۔
۱۴؍نومبر ۲۰۱۷ء کے روزنامہ صحافت ممبئی میں نقوی شائع بیان ملاحظہ فرمائیں:
’’سعودی عرب بذریعہ طیارہ عازمینِ حج کی روانگی کے لیے کئی مقامات مختص کیے گیے ہیں،جس میں ان کا سفر کم خرچ کا ہوگا۔مرکزی وزیر براے قلیتی امور مختار عباس نقوی نے آج کہا کہ عازمینِ حج اپنے اپنے شہروں سے بھی سعودی عرب کے لیے پرواز کرسکتے ہیں۔ہم کئی مقامات پر اس کی سہولت فراہم کریں گے۔لوگ اپنے شہر کا سعودی عرب روانگی کے لیے انتخاب کرسکیں گے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ۲۱؍ بڑے شہروں سے عازمینِ حج سعودی عرب پرواز کرسکتے ہیں۔ہم کئی مقامات پر روانگی کی سہولیات فراہم کررہے ہیں۔لوگ سعودی عرب روانگی کے لیے اپنی پسند کے مقام کا انتخاب کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جو لوگ ممبئی،دہلی اور کولکتہ کو دوسرے زمرے کے شہروں جیسے اورنگ آباد،اندوراورسری نگر پر خرچ کے اعتبار سے ترجیح دیتے تھے ،انہیں اب اپنے فیصلے پرنظرِ ثانی کرنی ہوگی۔نقوی نے کہا کہ عازمینِ حج کے لیے اس عمل کا آغاز ہوچکاہے۔لوگ اپنی درخواستیں شخصی طور پر فارم بھرکر یہ آن لائن رجسٹریشن کے ذریعہ روانہ کرسکتے ہیں۔طریقۂ کار گزشتہ سال کی بہ نسبت ایک ماہ پہلے شروع کیا جارہاہے،تاکہ عازمینِ حج کو سفر پرروانگی کے لیے تیاری کا زیادہ وقت مل سکے‘‘۔
(بشکریہ روزنامہ صحافت ،ممبئی)
غور طلب بات یہ ہے کہ ایسا کرنے میں نہ حکومت کا خاطر خواہ کوئی فائدہ تھا اور نہ ہی حجاجِ کرام کے لیے اس میں کوئی راحتی اقدام مضمرتھا،بل کہ اس میں حجاج کے لیے تکلیف وپریشانی میں اور مزید اضافہ ہی سمجھ میں آرہاتھا۔جہاں باآسانی سفر میسر آتا تھا ،اب وہیں مصائب ومشکلات کا سامنا کرکے سفر کے مراحل کو طے کرنا پڑسکتاتھا۔ایک طرف کمیٹی کا یہ کہنا کہ حجاج کے لیے ہر ممکن طریقے سے راحت رسانی کے کام کیے جائیں گے۔اور دوسری طرف ان کی مشکلات میں اضافہ کیا جارہاہے۔سمجھ میں تو یہی آہاہے کہ حکومت راحت وسکون کے نام پر مشکلات میں اضافہ کررہی ہے۔
(۵)ستر سال سے زائد عمر کے عازمین کی ریزروکیٹیگیری کی منسوخی:
کئی سالوں سے چلا آرہایہ سسٹم بھی اب تعصب ونفرت کی بھینٹ چڑھ گیا۔موجودہ حکومت باربار مسلمانوں کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ ان کے دینی،تعلیمی،سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔لیکن صحیح معنیٰ میں ایسا نہیں ،بل کہ حقیقتِ حال اس سے بہت مختلف ہے۔واضح رہے کہ سابقہ مرکزی حکومت نے مسلمانوں کی سہولیت کے لیے ۷۰؍سال سے زائد عمر کے عازمین کومع ایک مددگار مختص کوٹہ میں رکھا تھا،اورمسلسل چارسال تک درخواستیں داخل کرنے والوں کو قرعہ اندازی کے بغیر منتخب کرنے کی سہولیت دی تھی۔لیکن موجودہ حکومت اس کیٹیکیگری کو کیوں ختم کرنا چاہتی ہے،یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
یقیناً یہ کمیٹی کی حددرجہ زیادتی اورضرررساں اقدام ہے کہ چار اور پانچ سال سے حج فارم بھرنے والوں کے لیے قرعہ اندازی سے مستثنیٰ رکھنے کی سہولت ختم کرکے ان کے حق کو سلب کیا گیا ہے۔پرائیویٹ ٹورآپریٹروں کے کوٹہ میں ۵؍ فیصد اضافہ کرکے غریب ومتوسط عازمینِ حج کے کوٹے کی آٹھ ہزار سیٹوں سے ان کی تجوری کو بھردیا گیا ہے۔اس کے علاوہ چھوٹے فضائی مراکز کے کرایے میں بھی ۳۵؍ تا۴۰؍ ہزارروپیوں کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ایک طور پر دیکھا جائے تو حج کمیٹی کے ذریعے سفرِ حج پر روانہ ہونے والے حجاج کو کل خرچ 1,6000روپیے اٹھانا پڑتا ہے ،جب کہ پرائیویٹ ٹورسے کل خرچ تین سے چار لاکھ روپیے تک پہنچ جاتاہے،جو کہ حجاجِ کرام کے ساتھ صریح طورپرزیادتی ہے۔کمیٹی کوچاہیے کہ اپنے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرے اور کوئی لائحۂ عمل تیارکرے،تاکہ کئی سالوں سے حج فارم بھرنے والوں کی جائز مرادیں اور نیک تمنائیں پوری ہوسکیں اور پہلے کی طرح قرعہ کے ذریعہ حجاجِ کرام کاانتخاب عمل میں آئے۔
مذکورہ بالا گفتگو کے تمام نکات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر شریعت اسلامیہ ہی زد پہ کیوں ہے ؟ ہندوستان تو کثیر المذاہب والاملک ہے۔اس کی زد میں اور بھی دیگر مذاہب آسکتے تھے لیکن شریعت اسلامیہ ہی کوکیوں نشانہ بنایا جارہاہے؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو ذہن ودماغ کو جھنجھوڑے جارہاہے اور ذہن وعقل کو ورطۂ حیرت میں ڈالے جارہا ہے۔اس کے بہت سے علل واسباب ہوسکتے ہیں ،ان سے قطعِ نظر کرتے ہوئے یہ صاف طورپر کہا جاسکتا ہے کہ آج جو شریعت اسلامیہ اور اس کے اصول واحکام کو مسخ کرنے اور دنیا کی نظر میں بدنام کرنے کی مذموم کوشش ہورہی ہے ،اس کی سب سے اہم اوربڑی وجہ یہ ہے کہ اسلام اپنی حقانیت ومعرفت اورتعلیمات وہدایات کی وجہ سے ایک بین الاقوامی مذہب بن چکاہے،ہر آئے دن اس کے دامنِ رحم وکرم میں بڑی تعدادمیں لوگ پناہ لے رہے ہیں۔کیوں کہ دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام ہی واحد ایسامذہب ہے،جس میں انسانی ،سماجی اوراجتماعی زندگی کے لیے راہ نما اصول موجود ہیں۔اس کے اندرایک ایسی ایمانی کشش وجاذبیت اور مذہبی اعتدال ووسطیت کی راہ موجود ہے ،جس کے سبب لوگ اس کی طرف کھینچے چلے آرہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں آج اِسلام کے خلاف متحداورباہم شیروشکر ہوکر اس کے اصول واحکام اورقوانین وضوابط کو حرفِ غلط کی طرح مٹادینا چاہتی ہیں۔خاص طورپر ہندوستان میں ہرآئے دن شریعتِ اسلامیہ کو ٹارگیٹ کیا جارہاہے۔شرعی احکام ومسائل پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔اسلام اوررسول اللہﷺکے خلاف زہر افشانی اور غلط بیان بازی کی جارہی ہے۔اور سب سے زیادہ جرأت مندانہ کام یہ ہورہاہے کہ ان سب کاموں کے لیے کلمہ گو افراد کو استعمال کیا جارہاہے ،جو حکومت سے امداد یافتہ ہیں،تاکہ اسلام وشریعت کے خلاف انہیں ہر ممکن طریقے سے مدد مل سکے۔ اس سے توصاف یہی پتہ چلتا ہے کہ کفر اسلام کے خلاف اپنے تمام حربے اور ہتھکنڈے استعمال کررہاہے۔نت نئی ترکیبیں اور صورتیں اپنارہاہے۔اس کی مستحکم جڑوں کو کمزوراور کھوکھلا کرنے کی حتی المقدور جسارت وسعی کررہاہے۔ان سب گھنونے اقدامات سے محض ایمان والوں کی غیرت وحمیت کو چیلینج کیا جارہاہے ۔انہیں جذباتی اور متشدد قوم بناکر اہلِ دنیا کے سامنے پیش کیا جارہاہے،جس کہ وہ پوری دنیا میں بغض وعناد،نفرت وتعصب اور تشددوعدمِ رواداری کا سرچشمہ قرار پائے۔
لہذااب ایسے حالات میں ہماری مومنانہ ذمہ داریاں کچھ اس طرح بڑھ جاتی ہیں کہ ہم اپناہرقدم سوچ سمجھ کر رکھیں۔دشمنوں کی فریب کاریوں اور ریشہ دوانیوں سے ہشیار رہیں۔علمی ومہذب اندازواسلوب ،متانت وسنجیدگی اوراستعدادوبیدارمغزی سے ان کا تعاقب کریں۔
اسی طرح ہمارے لیے سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم قرآن واحادیث کے سچے پکے عامل بنیں۔اپنی نسلوں کا قرآن واحادیث کی روشن تعلیمات سے رشتہ استوار کریں۔اپنے تمام شرعی،خانگی، عائلی، سماجی اور ازدواجی مسائل کو قرآن واحادیث کی روشنی میں حل کریں۔اپنے شرعی مسائل کے تصفیہ وحل کے لیے عدالتوں اورنیوز چینلوں کا چکر نہ کانٹیں۔غیر مسلموں تک اسلامی تعلیمات واحکامات کوشیریں اور حکمت بھرے انداز میں پہنچائیں۔قرآن واحادیث کے حوالے سے جوپیدا شدہ غلط فہمیاں ہیں،انہیں دور کرنے کی بھی پیہم کوشش کریں۔اس سے نہ صرف غلط فہمیاں دور ہوں گی بل کہ مثبت اثرات ونتائج بھی ظاہر ہوں گے اور مخالفینِ شریعت کے تمام حربے ، ہتھکنڈے اور پروپیگنڈے جوڑتوڑناکام ثابت ہوں گے۔اللہ تعالیٰ شریعتِ اسلامیہ کی حفاظت وصیانت فرمائے۔آمین
——
(مولانا)محسن رضا ضیائی
پونہ ،مہاراشٹر
فون:9921934812

Share
Share
Share