آہ! مولانا حکیم سید شاہ محمود بخاری : – پروفیسر محمد نسیم الدین فریس

Share
مولانا حکیم سید شاہ محمود
بخاری

آہ! مولانا حکیم سید شاہ محمود بخاری

پروفیسر محمد نسیم الدین فریس
ڈین ‘ اسکول آف آرٹس ۔ مانو ۔ حیدرآباد

ماہ اکتوبر کے آخری ہفتے میں راقم الحروف کو وانمبیاڑی (ضلع ویلور۔ ٹامل ناڈو) کا سفر درپیش ہوا ۔ وانمبیاڑی میں اسلامیہ کالج کے شعبہ اردو نے ایک قومی سمینار کا اہتمام کیا تھا ۔ شعبہ اردو کے صدر عزیزم ڈاکٹر محمد سعید الدین سلمہ اللہ نے بڑی محبت سے مجھے اس سمینار کے لیے نہ صرف یاد کیا تھا بلکہ فرمائش بھی کی تھی کہ سمینار کے مرکزی موضوع ’’اردو ادب میں بدلتے ہوئے رجحانات اور تحریکیں‘‘ پر خاکسار کو کلیدی خطبہ بھی پیش کرنا ہے ۔

29 اکتوبر وانمبیاڑی پہنچا۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے اردو کے پروفیسر صاحبان اور اساتذہ کرام تشریف لائے تھے ۔ افتتاحی اجلاس کے بعد ایس ۔ وی ۔ یونیورسٹی (تروپتی) کے شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر نثار احمد سے ملاقات ہوئی ۔ دوران گفتگو انہوں نے اطلاع دی کہ ایک دن قبل یعنی 28 اکتوبر کو جنوبی ہند کے مشہور صوفی سلسلے خانوادہ شہ میریہ کی ایک جید شخصیت مولانا حکیم سید محمود بخاری کا انتقال پرملال ہوچکا ہے (انا للہ و انا الیہ راجعون) ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر عطااللہ سنجری جو کالی کٹ سے اس سمینار میں شرکت کی غرض سے روانہ ہوئے تھے درمیان میں اپنا سفر منقطع کرکے محل (چتور‘ آندھراپردیش) پہنچے ہیں ۔ وہ سید محمود بخاری کی تدفین کے بعد وانمبیاڑی آئیں گے ۔ دوسرے دن ڈاکٹر عطاء اللہ سنجری وانمبیاڑی پہنچے ۔ سمینار کے اختتام کے بعد ان سے تادیر گفتگو رہی ۔ انہوں نے اپنے موبائل فون میں محمود بخاری صاحب کے جلوس جنازہ کی تصاویر بھی لیں تھیں۔ وہ تصاویر کو آگے بڑھارہے تھے اور میرے ذہن میں یادوں کا سلسلہ پیچھے کی طرف دوڑ رہا تھا ۔
غالباً1987-88 کی بات ہے راقم الحروف یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ایم ۔ فل کررہا تھا ۔ پروفیسر گیان چند جین میرے رہنمائے تحقیق تھے اور انہوں نے مقالے کا موضوع تجویز کیا تھا ’’ دکن کی مخصوص صوفیانہ شعری اصناف ‘‘۔ دکنی کی ایک نادر و نایاب صوفیانہ شعری صنف ’’سی حرفی‘‘ میرے موضوع کے احاطے میں شامل تھی ۔ (سی حرفی سے مراد وہ نظم ہے جس میں شاعر الف سے یا تک ترتیب وار ہر حرف تہجی سے گرہ کرکے ایک ایک مصرع یا شعر کہتا ہے ۔ یہ صنف دکن کے صوفیا میں نہایت مقبول تھی ۔ اس صنف کو ان بزرگوں نے اپنی ‘ عرفانی تعلیمات اور صوفیانہ اسرار و غوامض کی ترسیل کا وسیلہ بنایاتھا) سی حرفیوں کی تلاش میں مختلف کتب خانوں میں محفوظ قدیم صوفی شعراء کی بیاضوں اور دواوین کے خطی نسخوں کے اوراق پارینہ کی گرد جھاڑ رہا تھا کہ ایک دن حسن اتفاق سے اورینٹل مینوسکرپٹ لائبریری اینڈ ریسرچ سنٹر( سابق کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد) میں حضرت شاہ کمال ؒ کے دیوان ’’ مخزن العرفان ‘‘ کا قلمی نسخہ راقم الحروف کے ہاتھ لگا ۔ جب اس مخطوطے کی ورق گردانی کی تو ایک جگہ ایک نظم بہ عنوان ’’ نظم الف تای ‘‘ نظر آئی ۔ پڑھا تو پتہ چلا کہ فی الحقیقت یہ ’’ سی حرفی ‘‘ ہے ۔ مخطوطے کا کاتب غالباً اس صنف سے واقف نہیں تھا اس لیے اس نے ’’ سی حرفی ‘‘ کے بجائے اس پر ’’ نظم الف تای‘‘ کا عنوان لگادیاتھا ۔ اس ’’ سی حرفی ‘‘ کی دریافت سے مجھے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ اس وقت تک کسی محقق نے شاہ کمال کی سی حرفی کا ذکر نہیں کیاتھا ۔
حضرت شاہ کمال کی سی حرفی کی دستیابی کے بعد ان کے حالات کی تلاش شروع ہوئی ۔ اس سلسلے میں مطالعہ کا دامن وسیع ہوا تو کہیں کتاب ’شہ میری اولیا‘ کا حوالہ ملاجس کے مصنف حکیم سید محمود بخاری تھے ۔ حضرت محمودبخاری اور ان کی گرا ں قدر تصنیف ’’ شہ میری اولیاء ‘‘ سے یہ میرا پہلا غائبانہ تعارف تھا ۔ میدان تحقیق میں قدم رکھنے کے بعد میری یہ عادت بن گئی ہے کہ ہمیشہ اصل ماخذ سے رجوع کرتاہوں ثانوی ماخذ پر اکتفا نہیں کرتا ۔ مجبوری کی بات اور ہے ۔ چنانچہ ’’ شہ میری اولیاء ‘‘ کی تلاش جاری رہی ۔ بالآخر ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد کے کتب خانے میں یہ کتاب مل گئی ۔ کتاب کا مطالعہ کیا اور ضروری اقتباسات نقل کیے ۔ کتاب کے مطالعے کے دوران انداز ہوا کہ یہ نہایت اہم تذکرہ ہے دکنیات کا طالب علم ہونے کے ناطے اس کا ایک نسخہ اپنے پاس رکھناضروری ہے ۔ حیدرآباد کے کتب فروشوں کے یہاں تلاش کیا لیکن یہ کتاب نہیں ملی ۔ دو تین سال بعد حیدرآباد کے پرانے شہر کے ایک پرانی کتابوں کے تاجر کے پاس یہ کتاب نظر آئی لیکن اس نے اس کی جو قیمت بتائی وہ ایک طالب علم کے کیسۂ ناتواں کے لیے بار گراں تھی ۔ حالانکہ دل برابر یہ کہہ رہا تھا :
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز
تاہم عجوزۂ مصر کی طرح صرف خریداروں کی فہرست میں نام شامل کرنے کی مسرت سے محظوظ ہونے پر اکتفا پر کی ۔
ایم ۔فل کی تکمیل کے بعد جب پی ۔ ایچ ۔ ڈی میں داخلہ لیا تو ایک مرتبہ پھر حضرت شاہ کمال ؒ سے معناً تجدید تعلق کی صورت پیدا ہوگئی کیوں کہ میرا موضوع اٹھارویں صدی کی دکنی شاعری تھا اور حضرت شاہ کمال اٹھارویں ہی صدی کے شاعر تھے ۔ اس طرح کتاب ’’ شہ میری اولیاء‘‘ سے ایک بار پھر اخذ و استفادے کی ضرورت پیش آئی ۔یوں اس کتاب سے راست اور اس کے مصنف سے بالواسطہ تعلق کا سلسلہ ربع صدی سے زاید عرصے کو محیط ہے ۔
ماہ و سال پر لگائے بنا اڑتے رہے ۔ ایک دن میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اپنے کمرے میں بیٹھا کچھ کام کررہا تھاکہ ایک نوجوان اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوئے ان کے پیچھے ایک اور بزرگوار السلام علیکم کہتے ہوئے نمودار ہوئے ۔ چھریرا جسم ‘ قدرے کشیدہ قامت ‘ گورا چٹا رنگ ‘ ستواں بینی ‘ روشن آنکھیں ‘ پتلے پتلے ہونٹ ‘ بلند پیشانی ‘ لمبوترا چہرے ‘ چہرے پر سفید ڈاڑھی ‘ گالوں پر بال کم او ر تھوڑی پر زیادہ ۔ سفید کرتا پائجامہ ‘ سر پر سفید ٹوپی اور ٹوپی پر ململ کا باریک سفید رومال ۔ میں نے سلام کا جواب دیا وہ مصافحہ کرکے بیٹھ گئے اور پوچھا ’’ آپ نسیم الدین فریس صاحب ہیں ؟ میں نے کہا ’’ جی ۔ ‘‘ فرمایا ’’ مئیں سید محمود بخاری ہوں ‘ حکیم سید محمود بخاری ‘‘ میں نے استفہامیہ انداز میں کہا ’’ شہ میری اولیاء کے مصنف ! ‘‘ بولے ’’ جی ہاں ‘‘ مجھے حیرت کا جھٹکا لگا ۔ میرے ذہن میں شہ میری اولیا کے مصنف کا جو خاکہ تھا وہ اس سے بالکل مختلف نکلے ۔ میں یہ سمجھ رکھا تھا کہ حکیم سید محمود بخاری نہایت قوی الجثہ صاحب عباد و دستار اور سرسید جیسی ریش کے حامل بزرگ ہوں گے لیکن یہاں معاملہ برعکس تھا ۔ نحیف و نزار جسم ‘ سادگی و انکسار کا پیکر لیکن چہرے سے محبت و شقفت اور بشرے سے زہد و تقویٰ اور تعلق مع اللہ کے آثار پیدا ۔دھیمی آواز ‘ نرم لہجہ ‘ لہجے میں دکنیت کی مٹھاس گھلی ہوئی ۔ یہ تھے حضرت حکیم سید شاہ محمود بخاری مولف شہ میری اولیاء ۔ حضرت سے بہت دیر تک دکن خصوصاً رائل سیما کے صوفیائے کرام ‘ ان کے سلاسل ‘ تصانیف اور تصانیف کے مخطوطات وغیرہ پر گفتگو ہوتی رہی ۔ دوران گفتگو فرمایا ’’ میں نے سنا ہے کہ آپ نے کسی کتاب میں ہمارے جدبزرگ حضرت شاہ کمال پر کچھ لکھا ہے ‘ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ میں نے کہا ’’ حضرت میں نے اپنے ایم ۔ فل اور پی ۔ ایچ ۔ڈی کے مقالوں میں حضرت شاہ کمال اور ان کی تصانیف پر خامہ فرسائی کی ہے لیکن یہ دونوں غیر مطبوعہ ہیں ۔ البتہ خاکسار کی کتاب ’’ تحقیقات‘‘ میں سی حرفی کے حوالے سے شاہ کمال ؒ پر ایک مضمون شامل ہے ۔ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کتاب کی فرمائش کی ۔ سوئے اتفاق سے کتاب اس وقت موجود نہیں تھی ۔ میں بھجوانے کا وعدہ کیا اور وہ اپنے علم و فضل اور اخلاق محبت کا گہراتاثر چھوڑ کر رخصت ہوگئے ۔ یہ میری شہ میری اولیاء کے مصنف سے پہلی راست ملاقات تھی ۔
گردش ایام اپنی سبک خرامی کے ساتھ جاری رہی ۔ اس دوران حکیم صاحب گاہے بہ گاہے فون پر یاد فرمایاکرتے تھے ۔ ان سے جب بھی گفتگو ہوتی میں کہتا کہ حضرت آپ کی کتاب شہ میری اولیاء مخطوطات کی طرح نایاب ہوگئی ہے ۔اس کی باز طباعت ہونی چاہیے ۔ وہ کہتے ’’ ضرور ضرور انشاء اللہ ۔ ‘‘
ایک مرتبہ حضرت کا فون آیا ۔ سلام و دعا کے بعد فرمایا ۔ ’’ میری کتاب شہ میری اولیا ء کا نیا ایڈیشن آنے والا ہے ۔ اس میں میں نے کچھ اضافے بھی کیے ۔ ہیں ۔ آخری اشاعت کے بعد اب تک جو نیا تحقیقی مواد سامنے آیا ہے اور مجھے جو مخطوطات ملے ہیں ان سب کی روشنی میں کتاب پر نظر ثانی کی ہے ۔ پھر فرمایا آپ کواس کتاب کے بارے میں کچھ لکھناہے جسے میں شامل کتاب کرو ں گا ۔ ‘‘ میں نے پہلو بچانے کی کوشش کی لیکن حضرت کا اصرار شدت اختیار کرگیا ۔ میں نے عذر کیا ’’حضرت میرے یہاں آپ کی کتاب ہے ہی نہیں ۔ میں کیا لکھ سکتا ہوں ۔ ‘‘ بولے ’’ عن قریب میں حیدرآباد آرہا ہوں ۔ نیا مسودہ آپ کے حوالے کروں گا دیکھ کر لکھ دیجیے ۔ ‘‘ اب کوئی جاے فرار نہیں تھی ۔ مئیں نے حامی بھرلی اورحضرت نے حسب معمول دعاؤں سے دامن بھر دیا ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ حیدرآباد آئے ۔ اپنے فرزند ڈاکٹر سید شاہ جمال اللہ بخاری کے یہاں ان کا قیام تھا ۔ مجھے فون کیا اوراپنی آمد کی اطلاع دی اور کہا ڈاکٹر صاحب بیماری اور ضعف نے مجبور کردیا ہے ۔ ورنہ کتاب کا مسودہ میں خود آپ تک پہنچاتا اس لیے آپ ہی اگر زحمت فرمائیں تو دعاگو رہوں گا ۔‘‘‘ پھر انہوں نے اپنے فرزند کے گھر کا پتہ سمجھایا ۔ دوسرے دن بتائے ہوئے پتے پر حاضر ہوا ۔ جس کمرے میں آرام کررہے تھے وہیں بلوالیا ۔ تپاک سے ملے ۔ پہلے سے زیادہ نحیف نظر آرہے تھے مرض نے بالکل لاغر کردیا تھا ۔ گفتگو کا سلسلہ چل پڑا تو اپنے مرض کی کیفیت بیان کی ۔ اسی دوران صاحب خانہ نے فواکہہ مشروب وغیرہ بھجوائے۔ حکیم صاحب اصرار کرکے پھل اور بسکٹ وغیرہ کھلاتے رہے ۔ کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد حضرت کی دعاؤں کی ٹھنڈک دل میں اور کتاب کا مسودہ بغل میں لے کر واپس ہوا ۔
درس و تدریس کی مشغولیات نے اتنا الجھا لیا کہ کتاب کے مسودے کی طرف توجہ نہ کرسکا ۔ ایک دن حضرت کا فون آیا اور پیش لفظ کے لیے یاددہانی کروائی ۔ لیکن مکروہات دنیا اور مصروفیات جامعہ رہوار قلم کی عناں گیر ہوگئی تھیں ۔ وقفے وقفے سے حضرت کے فون آتے رہے ۔ ایک مرتبہ فرمایا ’’ڈاکٹر صاحب !میں چاہتاہوں کہ میری زندگی میں شہ میری اولیا کا نیا ایڈیشن شائع ہوجائے ۔ لیکن اس میں آپ کا پیش لفظ ہونا ضروری ہے ۔‘‘نہ جانے ان کے لہجے میں کیا تھا کہ میں پانی پانی ہوگیا اور تمام کاموں کو بالائے طاق رکھ کر مسودہ لے کر بیٹھ گیا اور حسب توفیق اپنی کم سوادی کا خوب مظاہرہ کیا ۔ حضرت کا اصرار اس قدر پیہم تھا کہ مضمون کو صاف کرنے یا کمپوز کروانے میں تاخیر کا امکان ہونے لگاتھا اس لیے اسے جوں کا توں حضرت کے صاحبزادے ڈاکٹر ریاض بخاری صاحب کے دیے ہوئے پتے پر اسکیان کرکے ای ۔ میل کردیا اور اس کے اطلاع حکیم صاحب کو دے دی ۔ بہت خوش ہوئے ۔ ڈھیروں دعائیں دیں۔ پتہ نہیں کیوں میری ارزشِ قلم کو حضرت اس قدر پسندفرماتے تھے ۔ ہوسکتا ہے یہ بھی ان کا ایک انداز دل آسائی رہا ہو ۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔خاکسار نے حکیم صاحب کی کتاب پر پیش لفظ یا مقدمہ لکھنے کی جرات تو نہیں کی البتہ ’’ حرف نیاز‘‘ کے عنوان سے چند صفحات سیاہ کردیے جو حکیم صاحب نے از راہ تلطف کتاب میں شامل کرلیے ۔
بہرحال کتا ب کا نیا ایڈیشن شائع ہوا تو حکیم صاحب نے فون کرکے اس کی اطلاع دی ۔ اور کہا میرا بیٹا آپ تک کتاب پہنچائے گا اسے اپنا پتہ سمجھائیے۔ میں نے فون پر ان کے صاحبزادے کو اپنا پتہ سمجھا دیا اور ہفتے عشرے کے اندر موصوف نے شہ میری اولیاء کے نئے ایڈیشن کے دو نسخے غریب خانے پر پہنچا دیے ۔ یہ غالباً اکتوبر2016 ء کے اواخر کا واقعہ ہے ۔ کچھ دنوں بعد حکیم صاحب کا فون آیا ۔ نئے ایڈیشن کے بارے میں میرے تاثرات دریافت کیے ۔ میں نے تعریف کی تو بہت خوش ہوئے ۔
دن گزرتے رہے اس بیچ حکیم صاحب سے کوئی رابط نہیں ہوسکا ۔ میری بدتوفیقی کہ میں بھی انہیں فون نہ کرسکا۔ بس اچانک ہی ان کے انتقال کی خبر ملی۔ یوں تو مہینوں سے بیماری نے انہیں آگھیرا تھا ۔ لیکن ان لوگوں کے لیے جو ان کی دن بہ دن گرتی ہوئی صحت اور ترقی ضعف واضمحلال سے واقف نہ تھے ان کی رحلت کا سانحہ غیر متوقع ہی تھا ۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
حکیم صاحب عالی نسب خانوادے سے تعلق رکھتے تھے ۔ وہ نجیت الطرفین سید تھے ۔جن کا شجرہ نسب حضرت سید مخدوم جہانیاں جہاں گشت سے ہوتا ہوا حضرت سیدنا امام علی نقیؓ تک جاپہنچتا ہے ۔ لیکن ان میں نسبی تفاخر نام کونہ تھا ۔ جب کہ راقم بعض ایسے ’’ذات شریف ‘‘ قسم کے افراد سے بھی قریب سے واقف ہے جو بات بے بات اپنی سیادت جتاتے ہیں جب کہ بقول شخصے ان کی مزعومہ سیادت کی حقیقت بس اتنی آتی ہوتی ہے ۔سال اول جلاہ بودم ‘ سال دوم شیخ جی ‘ غلہ گرارزاں شود امسال سید می شوم
حکیم سید محمود بخاری جنوبی ہند کے مشہور صوفی خانوادۂ شہ میریہ کے فرد فرید تھے ۔ ان کا سلسلہ نسب پانچ واسطوں سے حضرت سید محمد حسینی شہ میر اول ؒ (1082 ھ / 1671 ء تا 1182 ھ / 1772 ء ) سے جاملتا ہے ۔ جو اس خانوادے کے جد اعلیٰ تھے اور جن کا مزار تل پول (کدری ۔ ضلع اننت پور) میں واقع ہے ۔ حکیم سید محمود بخاری 10 اکتوبر1928 ء کو ضلع چتور (آندھراپردیش) کے ایک قریے ’’محل ‘‘ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کااسم گرامی سید جمال اللہ بادشاہ بخاری تھا ۔ وہ حضرت سید محمد حسینی بیرنگ شہ میر ثانی کے پوتے حضرت سید عبدالقادر عبد عرف قادر بادشاہ (کڑپہ) کے فرزند ثانی تھے ۔
مشیت ایزدکہ سید محمود بخاری صغر سنی ہی میں یتیم ہوگئے ۔ انہوں نے اپنی والدہ ماجدہ سے قرانِ مجید ناظرہ پڑھا ۔ اپنے تایا زاد بھائی سید قادر علی بادشاہ بخاری (تل پول) سے قرات و تجوید کی تعلیم حاصل کی ۔ سن شعور کو پہنچے تو دارالعلوم لطیفیہ ویلور اور مدرسہ باقیات الصالحات میں مختلف علمائے اجل کے آگے زانوے ادب تہہ کیا ۔ اس کے بعد حیدرآباد آکر اردو منشی کا امتحان کامیاب کیا ۔ منشی فاضل (فارسی ) کے امتحان میں بیٹھنا چاہتے تھے کہ زوال حیدرآباد کے حالات پیدا ہوگئے اور انہیں مجبوراً کو حیدرآباد سے رخصت ہونا پڑا ۔
سید محمود بخاری کو طب سے بڑی دلچسپی تھی ۔ ان کے خاندان میں کئی بزرگ حاذق حکیم ہوئے ہیں۔ سید محمود بخاری نے بھی یہی پیشہ اختیار کیا ۔ اس طرح حکیم آپ کے نام کا جزو بن گیا ۔ علاوہ طب کے وہ کتب بینی او رتصنیف و تالیف سے بھی شغف رکھتے تھے ۔ حکیم صاحب نے طویل عمر پائی ۔ نواسی سال کی عمر میں مدنا پلی میں انتقال کیا ۔ تدفین محل (ضلع چتور) میں عمل میں آئی ۔
حکیم صاحب کی طرز گفتار ‘ چال ڈھال ‘ اطوار و اخلاق ‘ سادگی ‘ تواضع اورخود نمائی سے گریز غرض ان کی شخصیت اور کردار کے ہر زاویے سے سیادت چھلکتی تھی ۔ ان کے سوانحی حالات کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچپن ہی سے وہ آزمائشی حالات سے گزرتے رہے لیکن انہوں نے توکل و قناعت کے دامن میں طمانیت و سکینت حاصل کی ۔ نہ وہ شہرت و حشمت ‘ مال و دولت اور منصب و مراتب کے لیے اتاؤلے ہوئے اور نہ کبھی محرومیوں کے ماتم گری کی ۔ ان کے صبر ورضا کا حق تعالیٰ نے نعم البدل یوں عطا کیا کہ ان کے چاروں فرزند نہایت لائق فائق ‘ سعادت مند اور فرفہ الحال ہیں ۔ اللھم زدفزد صاحب کردار ہونے کے ساتھ حکیم صاحب نہایت ذی علم واقع ہوئے تھے ۔ انہوں نے اپنے خانوادے کی علمی و تصنیفی روایات کی پاسدار ی کی ۔ ان کی شاہ کار تصنیف ’ شہ میری اولیا‘ ہے جس میں انہوں نے اپنے خاندان کے اسلاف کے سوانح ‘ علم و فضل ‘ تصانیف کا تعارف اور کلام کا انتخاب پیش کیا ہے ۔ شہ میری سلسلے کے بزرگوں کے تراجم پر مبنی یہ پہلا اردو تذکرہ ہے جو مصنف مرحوم کی پندرہ سالہ تحقیقی کاوشوں کا شیریں ثمرہ ہے ۔ اس کتاب کی اہمیت اور افادیت کے تعلق سے راقم نے اپنے ’’ حرف نیاز ‘‘ میں اظہارِ خیال کیا ہے جو مشمولہ کتاب ہے ۔ یہاں اس کی تکرار تحصیل حاصل ہوگی ۔
حکیم صاحب کو مطالعہ کا بڑا ذوق تھا ۔ مطالعہ کے ساتھ انہیں کتابیں جمع کرنے کا بھی شوق تھا ۔ سنا ہے محل (چتور)میں ان کا نہایت وسیع کتب خانہ ہے جس میں مطبوعہ کتابوں کے علاوہ مخطوطات بھی خاصی تعداد میں ہیں ۔ تمنا ہے کہ کبھی ان مخطوطات کی زیارت کا موقع ملے ۔ جن لوگوں کو کتابیں جمع کرنے کا شغف ہوتا ہے عموماً کتاب دینے کے معاملے میں وہ بڑے ممسک ہوتے ہیں لیکن حکیم صاحب اس معاملے میں نہایت سیر چشم واقع ہوئے تھے ۔ ان کی علمی فیاضی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ایک مرتبہ محمد اکبر الدین صدیقی مرحوم سابق استاد اردو جامعہ عثمانیہ و سابق معتمد ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد نے ان سے ادارہ ادبیات کے کتب خانے کے لیے کچھ کتابیں بھیجنے کی درخواست کی ۔ حکیم صاحب مرحوم نے اپنے نجی ذخیرے سے چوبیس قدیم و نادر مخطوطات جن میں اصطلاحات تصوف (عبدالرزاق کاشی) جذب القلوب ‘ چہار رسائل تجوید (ابن حماد) کوک شاستر فارسی منظوم (محمد شاہ حامی) الہیٰ نامہ (حضرت شہ میر) شامل تھے ‘ ادارہ ادبیات کے کتب خانے کو بطور عطیہ ارسال کیے ۔ ایسا نہیں کہ حکیم صاحب ان مخطوطات کی اہمیت سے ناواقف ۔ وہ قدیم مخطوطات کے پاریکھ تھے اور ان مخطوطات کی اہمیت خوب سمجھتے تھے لیکن وہ ادارہ ادبیات کے کتب خانے اور اس کی اہمیت سے بھی واقف تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ ادارہ ادبیاب اردو اساتذہ ادب ‘ علماء ‘ فضلا ‘ محققوں ‘طلبا اور ریسرچ اسکالروں کی آماجگاہ ہے ۔ وہاں ان مخطوطات سے استفادے کے امکانات وسیع تر ہوجائیں گے ۔ اس لیے انہوں نے اپنے نادر مخطوطات ادارے کو ہدیہ کردیے۔
حکیم صاحب اپنے اسلاف کے قدیمی مسلک پر قائم تھے لیکن ان کے مزاج میں توسع اور اعتدال تھا۔ وہ شدت پسند اور سخت گیر نہیں تھے ۔ ڈاکٹر عطا اللہ سنجری نے بتایا کہ بعض باتوں میں وہ حکیم صاحب سے مختلف رائے رکھتے تھے لیکن حکیم صاحب بڑی فراخدلی سے اختلاف رائے کو برداشت کرتے تھے نہ وہ منغض ہونے نہ ان کے دل میں انقباض پیدا ہوتا ۔ ہمیشہ بزرگانہ شفقت اور لطف و عنایت سے پذیرائی کرتے ۔ آج کے زمانے میں کشادہ قلبی ‘ تحمل اور اختلاف کو انگیز کرنے کا جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے جب کہ اس دور انتشار میں اس کی بڑی ضرورت ہے تاکہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا ہوسکے ۔ حکیم صاحب مرحوم کی ذات میں وسیع النظری اور رواداری کی بہترین مثال ملتی ہے جو مسلکِ تصوف کا خاصہ ہے ۔
راقم کا احساس ہے کہ حکیم صاحب کے سینے میں جو علم موجزن تھااس کا بہت کم حصہ سفینے کی زینت بن سکا ۔’’ شہ میری اولیاء‘‘ سے قطع نظر ان کی ایک اور تصنیف ’’ تذکرہ حضرت سید جلال الدین مخدوم جہانیان جہاں گشت‘‘ کا نام سنا ہے ۔ اب جب کہ حکیم صاحب اس دنیا میں نہیں رہے ان کے لائق اور صاحب ذوق اخلاف سے توقع ہے کہ حکیم صاحب کی قلمی باقیات ‘ منتشر مضامین اور مقالات کو ورق ورق کرکے جمع کریں گے اور انہیں کتابی شکل میں منظر عام پر لے آئیں گے تاکہ علم و تحقیق کی دنیا میں حکیم صاحب کی اصل شناخت قائم ہوسکے۔
———
Prof. Md. Naseem Uddin Fareesa

پروفیسر نسیم الدین فریس
Share
Share
Share