رحمۃ للعالمین ﷺ کا عفو و در گذر
محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشیدپور
Mob. : 09386379632
قصوروار اور اپنے دشمن کو معاف کر دینا اسلامی تعلیمات کی ایک اہم تعلیم ہے،اگر کسی نے اپنے کردار واعمال سے کسی کو تکلیف پہنچایا اور اسکے نتیجے میں غصہ آگیا اور اس حالت میں غصہ سے مغلوب شخص صبر و ضبط ،عفو ودرگذر سے کام لے با وجود طاقت و قدرت کے انسان کسی کی خطا (قصور)اور ضر ر پر صرف خاموش ہی نہ رہے بلکہ دل سے اسے معاف بھی کر دے ۔
عفو کا معنی اورمفہوم:
عفو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معانی معاف کرنا،بخش دینا ،درگذرکرنا،بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔اصطلاح شریعت میں عفو سے مراد کسی کی زیادتی وبرائی پر انتقام کی قدرت و طاقت کے باوجود انتقام نہ لینا اور معاف کر دینا ہے۔
قدرت و طاقت نہ ہونے کی وجہ سے اگر انسان انتقام نہ لے سکتا ہو تو یہ عفو (معاف کرنا)نہیں ہو گا بلکہ اسے بے بسی کا نام دیا جائے گا ،عفو صرف قادر ہونے کی صورت میں ہے۔عفو کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی معاف کردے خواہ طبیعت اس پر آمادہ نہ ہو اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دل کی رضا و خوشی کے ساتھ معاف کرے اور ممکن ہو تو اس کے ساتھ کچھ احسان بھی کرے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جب میں نے جنت میں اونچے اونچے محلات دیکھے تو جبرائیل سے فرمایا یہ کن لوگوں کیلئے ہیں!انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ ان لوگوں کیلئے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگذر کرتے ہوئے انہیں معاف کردیتے ہیں۔اپنے غصہ کو پی جانا بے شک بڑے ہمت کا کام ہے انسان اپنے دشمن سے انتقام بھی نہ لے اسے دل سے معاف بھی کردے اس اخلاق کے اپنانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں بہت سے انعامات سے نواز تاہے،اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عفو ودرگذر کرنے کی تعلیم د یتے ہوئے ارشاد فرمایا اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِیْ السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ والْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ْ (ترجمہ):جو خرچ کرتے ہیں خوشحالی میں اور تنگ دستی میں اور ضبط کرنے والے ہیں غصہ کو اور درگذر کرنے والے ہیں لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے احسان کرنے والوں سے (القرآن ،سورہ آلِ عمران ۳؍آیت ۱۳۳) امام بیہقی نے اس آیت کی تفسیر میں دلچسپ واقعہ نقل فرمایا ہے۔امام زین العابدین کی لونڈی آپ کو وضو کرنے کیلئے بھرا لوٹا لائی اس کے ہاتھ سے وہ لوٹاآپ پرگر گیا اور آپ کے کپڑے بھیگ گئے آپ نے نگاہ اُٹھا کر اُسے دیکھا وہ بولی والْکاَظِمِیْنَ الْغَیْظَ آپ نے فرمایا میں نے غصہ پی لیا وہ بولی والْعَافِیْنَ عَنِ النّاس،آپ نے فرمایا میں نے معاف کیا ،رب تجھے معافی دے، وہ بولی وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ بے شک اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے احسان کرنے والوں کو آپ نے فرمایا جاتو فِیْ سَبِیلْ الِلّٰہ آزاد ہے ،(روح المعانی صفحہ ۹۴ جلد ۳)اسی طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ آپ کے خادم کے ہاتھ سے آپ کے سر پر شوربا (سالن)گر گیا یہ آپ کو نا گوار گذرا تو خادم نے یہ آیت پڑھی ۔ترجمہ :وہ لوگ جو تنگی میں اور فراخی دونوں حالتوں میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں،غصہ کو پی نے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں(یہ نیک لوگ ہیں)اور اللہ نیک لوگوں کو محبوب رکھتا ہے (آلِ عمران ۳؍۱۳۳) آپ نے فرمایا تجھے معاف کرتا ہو ں ،آزاد کرتا ہوں اور تیرا نکاح اپنی فلاں لونڈی (کنیز)سے کرتا ہوں اور تم دونوں کا خرچ تا زندگی میرے ذمہ ہے (تفسیر نور العرفان صفحہ ۲۰۵جلد۵)قرآن مقدس نے دوسری جگہ اس سے زیادہ وضاحت سے برُائی کرنے والوں کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا اور یہ بتلایا کہ اس کے ذریعہ دشمن بھی دوست ہوجاتے ہیں ارشاد باری ہے:اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌکَانَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٍ (حم سجدہ ۴۱؍۳۴) ترجمہ :برُائی کی مدافعت بھلائی اور احسان کے ساتھ کر و جو جس کے ساتھ دشمن ہے وہ تمہارا گہرا دوست بن جائے گا )
۱س آیت مبارکہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مومن کا طریقہ یہ ہونا چاہئیے کہ برائی کا جواب برائی سے نہ دے بلکہ جہاں تک ہوسکے برائی کے مقابلہ بھلائی سے پیش آئے ،اگر اسے سخت بات کہے یا برا معاملہ کرے تو اسکے مقابل وہ طرز اختیار کرنا چاہئیے جو اس سے بہتر ہو ،مثلاً غصہ کے جواب میں برد باری،گالی کے جواب میں تہذیب وشائستگی اور سختی کے جواب میں نرمی و مہربانی سے پیش آئے اس طرز عمل سے دشمن ڈھیلا پڑ جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا و ہ دوست کی طرح برتاؤ کرنے لگے گا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ترجمہ:ہاں کسی شخص کی طبیعت کی اُفتاد(فطرت)ہی سانپ بچھو کی طرح ہو کہ کوئی نرم خوئی اور خوش اخلاقی اس پر اثر نہ کرے وہ دوسری بات ہے مگر ایسے فرد بہت کم ہوتے ہیں(سورہ ممتحنہ آیت ۷)
دشمنو ں اور غیر مسلموں کے ساتھ رحمۃللعالمین کا عفو و درگذر:
حق و باطل کا پہلا معرکہ جنگ بدر کے نام سے مشہور ہے جنگ بدر سنہ ۲ہجری میں ہوئی اس جنگ میں مسلمان ہر اعتبار سے کفار کے مقابلہ میں کم تر تھے لیکن اللہ کے حکم سے جب مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور میدان جنگ میں کچھ دشمن کے بڑے بڑے سرغنہ قیدی بن کر رسول ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بغرض حفاظت تقسیم فرما دیا اور حکم دیا کے ان کے ساتھ مہربانی اور محبت سے پیش آنا یہاں تک کہ خود بھوکے رہنا مگر ان کو پیٹ بھر کھانا کھلانا ،چنانچہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا ہی کیا اور جو لوگ مسلما ن کے جانی دشمن تھے خون کے پیاسے تھے مکہ مکرمہ کی زندگی میں آپ کی گردن میں رسی ڈالکر کھینچا تھا چنانچہ بخاری و مسلم میں حضرتِ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول ﷺ ساتھ چل رہا تھا اور حضو رکے جسم پر موٹے کنارا والا نجرانی چادر تھی اُتنے میں ایک اعرابی آیا اور آپ کی چادرکو گلے میں پھنسا کر سخت طریقے سے کھینچا ،نبی کریم ﷺ اس اعرابی کی طرف گھوم گئے ،میں نبی اکرم ﷺ کے شانۂ مبارک کو دیکھا کہ چادر کے سخت طریقے پر کھینچنے کی وجہ سے چھل گیا تھا پھر اس نے کہا اے محمد !اللہ تعالیٰ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس سے مجھے دینے کا حکم دیجئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا پھر ہنس کر اس کیلئے بخشش کا حکم دیا (صحیح بخاری کتاب الاداب،باب التَّبَسُّمْ والضَّحَکْ)(مشکوۃ شریف صفحہ ۵۱۸۔باب فی اخلاقہ و شمائلہ)اسی طرح کی اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اسے معاف کردیا اور خوب نوازا۔نبی کریم ﷺ کے حکم و بردباری اور عفوو درگذر کے حوالے سے یہ پہلو بڑا روشن و تابناک ہے۔عبادت کے دوران سجدہ کے وقت کمرمبارک پر غلاظت اور اونٹ کی اوجھڑیاں ڈال دی تھیں لیکن آپ نے کبھی بھی کفار مکہ اور قریش کے سرکش لوگوں سے بدلہ نہیں لیا آپ نے بددُعا نہ فرمائی اور ان کو ہمیشہ پیار و محبت سے اسلام کی طرف دعوت دی آپ نے تو راستہ چلتے میں بوڑھی عورت کے کوڑا ڈالنے پر کبھی کچھ نہیں کہا آپ نے اسکے ساتھ بھی حسنِ سلوک کیا اسیران بدر میں ایک شخص سہیل بن عمر تھا جو عام مجمعوں میں ہمیشہ آپ ﷺ کے خلاف اشتعال انگریز اور گستاخان تقرریں کیا کرتا تھا قیدی بن کر آنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :یا رسول اللہ ﷺ اسکے نیچے کے دانت اُکھڑوا دیجئے تاکہ یہ آپ کی شان میں ہجو اور گستاخانہ تقریر نہ کر سکے حضور نے فرمایا اگر چہ میں نبی ہو ں لیکن پھر بھی اگر کسی کا عضو بیکار کر دوں گا تو اس کیلئے روز قیامت جواب دہ ہوں گا آپ نے سہیل بن عمر کو بھی تمام قیدیوں کی طرح معافی کا اعلان فرما دیا۔
قیدیوں کے پاس کپڑے نہ تھے ان سب کو حضور نے کپڑے دلوائے آپ نے صحابۂ کرام کو ہدایت فرمادی تھی کہ وہ اسیران جنگ کے ساتھ محبت اور مروت کا سلوک کریں اس لئے صحابۂ کرام قیدیوں کی خوب خاطر و مدارات کرتے تھے۔
عَفو صفتِ الٰہی ہے: عفو اللہ تعالیٰ کی خصوصی اور امتیازی صفت ہے اس لئے اللہ نے اس کے اختیا ر کرنے کی بار با ر تلقین فرمائی ہے اور مختلف انداز میں اَپنی بخشش کااعلان کیا ہے تا کہ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے ،اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا۔ترجمہ : بے شک اللہ معاف فرمانے بہت بخشنے والا ہے(النساء،۴؍آیت ۴۳)دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے فَاِنَّ اللَّہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرً۔(النساء،۴؍آیت ۱۴۹) ترجمہ :بے شک اللہ بڑ امعاف فرمانے والا بڑی قدرت والا ہے۔
عفو اسوۂ (نمونہ)رسول ﷺہے:
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو بھی عفو ودرگذر کی تلقین فرمائی ارشاد باری ہے۔ترجمہ :سو آپ ان سے درگذر فرمایا کریں اور ان کیلئے بخشش مانگا کریں۔(آلِ عمران،۳؍۱۵۹)وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبْرُ و اعَلیٰ مَا کُذِّبُوْ وَ اَوْ ذُوْ حَتّٰی اَتٰھُمْ نَصْرُنَاج(ترجمہ) اور بے شک جھٹلائے گئے بہت سے رسول آپ سے پہلے تو انھوں نے صبر کیا اس جھٹلائے جانے پر اور ستائے جانے پر یہاں تک کہ آپہنچی اُنھیں ہماری مدد(القرآن ،سورۂ الانعام ۶؍آیت ۳۳)مصیبت و ایذا کے وقت اپنے آپ کو روکنا اور متاثر نہ ہونا صبر کہلاتا ہے ۔اَپنی طبیعت کو غصہ سے ضبط کرنے کا نام حِلم ہے،خطا پر مواخذہ نہ کرنے کو عفو کہتے ہیں،یہ صفت اللہ کے رسول ﷺ کی تھی ۔
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں۔کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی ذات کے حق کیلئے کبھی انتقام (بدلہ) نہ لیا ہاں جب کسی حرمت اللہ کی بحرمتی دیکھتے ،تو اللہ کے واسطے اس کا انتقام لیتے (صحیح بخاری باب صفۃ النبی ﷺ)۔بدر کے قیدیوں میں ایک شخص عزیزبن عمر بھی تھا جو لشکرِ کفار کا علم بردار تھا ۔عزیز کا بیان ہے کہ مجھے گرفتار کرکے مدینہ کی طرف لاتے ہوئے انصار ی صحابی راستہ میں جب کھانا کھانے بیٹھے تو میرا خیا ل اس قدر رکھتے تھے کہ ان کے پاس جو کھانا ہوتا تھا وہ تو مجھے دیتے تھے اور خود بھی بھوکے رہتے تھے یا کھجور یں کھا کر گزارہ کرلیا کرتے تھے۔میں مارے شرم کے وہ روٹی ان میں سے کسی کو دے دیتا تھا تو پھر وہ روٹی گھوم کر مجھ ہی کو واپس مل جاتی ۔اسیران جنگ کے عزیزوں نے جب فدیہ دے کر قیدیوں کو واپس لینا چاہا تو مسلمانوں نے خوشی سے ان قیدیوں کو واپس کردیا اس وقت عزیزبن عمر نے جانے سے انکار کردیا اور مشرف بہ اِسلام ہوئے،دنیا کی تاریخ میں کو ئی واقعہ بھی ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا کہ کسی قوم نے دشمنوں کے ساتھ ایسا شریفانہ سلوک کیا ہو یہ تھا سید المرسلین ﷺ کا عفو و درگذر۔
آپ کی سیرت طیبہ کے مطالعہ کرنے والے پر یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ نہایت رحم دل اور نرم خو تھے اور ہر اس شخص کو معاف فرمادیتے جو زندگی بھر یا زندگی کے کسی حصہ میں آپ کو تکلیف پہونچا تا رہا کلام الہٰی میں اس کے شواہد موجود ہیں،ارشاد ربانی ہے۔خُذِالْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْن(سورہ اعراف آیت نمبر ۱۹۹)اے محبوب معاف کرنا اختیا ر کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منھ پھیرلو۔
آپ کی شان اعلیٰ عفو و درگذر کا اعلیٰ نمونہ ہے آپ نے اپنے اقوال بلکہ اپنے اعمال و کردار سے عفو ودرگذر کو ثابت فرمایا تمام مومنین کو چاہئیے کہ اس اعلیٰ صفت عفو ودرگذر کو اپناکر اپنے دشمنوں اور اسلام کے ماننے والوں کو بھی اس صفت کو اپنانے کی دعوت دیں اللہ اپنے فضل سے ہم سب کو اسوۂ رسول پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمینE emai l۔09431332338