محمد یحییٰ خان
تانڈور ۔ تلنگانہ
ریاست تلنگانہ میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کامؤقف
اردوداں طبقہ میں خوشی کا ماحول
ابھی تہذ یب کا نوحہ مت لکھنا
ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں
” 66 اردو مترجمین ” کے تقررات میں شفافیت کی ضرورت ، بناء کسی سفارش کے مستحق اورحقیقی خادمین اردو کو ان کا حق دیا جائے !!
حکومت کےاقدام کے بعد اردو والے بھی اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں !!
وزیراعلیٰ تلنگانہ کے ۔ چندراشیکھرراؤ نے حسب وعدہ برسوں سے متحدہ آندھرا پردیش میں ناانصافی کا شکار اردوزبان کو ریاست تلنگانہ کی دوسری سرکاری زبان کا مؤقف دیتے ہوئے جہاں اپنے وعدہ کو عملی جامہ پہنایا وہیں ریاست میں بسنے والے اردو داں طبقہ میں خوشی کی لہربھی دؤڑادی ہے ۔ جسکے لئے وزیر اعلیٰ کے سی آر، نائب وزیر اعلیٰ جناب محمد محمود علی ، وزیراعلیٰ کیجانب سے ریاستی اسمبلی میں منظوری کیلئے اردو کا بل پیش کرنے والے وزیر عمارات وشوارع ٹی۔ ناگیشور راؤ، اوراردو کے حق کیلئے اسمبلی اورقانون سازکونسل میں حکومت کو توجہ دلانے والے مجلس کے قائد مقننہ اکبرالدین اویسی، رکن اسمبلی محبوب نگر سرینواس گوڑاور رکن قانون ساز کونسل محمد فاروق حسین کے بشمول اسمبلی میں اس اردو کے بل کی تائید کرنے پراپوزیشن جماعتوں کانگریس ، بی جے پی ، تلگودیشم اور سی پی آئی( ایم ) کا اردو داں طبقہ شکر گزار ہے۔ وزیراعلیٰ کے سی آر نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا مؤقف دینے سے قبل ریاستی اسمبلی میں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اندرون60؍یوم ریاست میں 66؍اردو مترجمین کے تقررات کئے جائیں گے اور اردو زبان کو اس کا مکمل حق دیتے ہوئے اسے روزگار سے جوڑا جائے گا۔ ہم نے بارہا مرتبہ خبروں اور خصوصی رپورٹس کے ذریعہ ریاستی حکومت کو واقف کروایاتھاکہ ریاست تلنگانہ کے 31؍ اضلاع کے کئی سرکاری دفاتر، پولیس اسٹیشنس، بس اسٹانڈس کے سائن بورڈس پراردوندارد ہے ! سرکاری دفاتر میں اردو زبان میں درخواستیں قبول نہیں کی جارہیں کہ ان دفاتر میں اردو داں عہدیدار مؤجود نہیں ہے ! دوسری جانب ریاست کی آرٹی سی بسوں کے بورڈس پر اردو کو جگہ نہیں دی گئی ہے، اسی طرح سب سے بڑا مسئلہ یہ ہیکہ حکومت کے انفار میشن بیوروI & PR اوراضلاع کے ڈی پی آر اوز کے دفاتر میں اردو داں عہدیداروں کے نہ ہونے کے باعث کئی اہم خبریں انفارمیشن بیورو اورریاست کے تمام ڈی پی آر اوز سے تلگو یا انگریزی زبان میں پریس نوٹس اردو اخبارات کے نمائندوں یا دفاتر کو بذریعہ ای۔ میل روانہ کئے جاتے ہیں اس طرح اردو اوراردو اخبارات کو نظر انداز کئے جانے سے حکومت کا ہی نقصان ہوتا ہے کہ حکومت کیجانب سے اعلان کردہ یا آغاز کردہ کئی ایک عوامی اطلاع پر مشتمل اور ترقیاتی اسکیمات کی تفصیلات اردو کے قارئین تک نہیں پہنچ پاتیں ۔ اردو داں طبقہ کی یہ بھی ایک شکایت ہیکہ اقلیتوں سے متعلق اردو اخبارات کے ذریعہ کئی ایک اسکیمات کی عدم تشہیر کے باعث وہ ان اسکیمات کے فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں انہیں اسکی اطلاع تک موصول نہیں ہوتی۔ اب ریاستی وزیر اعلیٰ کے سی آر نے یہ بہترین اعلان کیا ہیکہ بشمول اسمبلی ، سیکریٹریٹ ، آئی اینڈ پی آر، ڈی آئی جی پولیس، کمشنر پولیس حیدرآبادکے بشمول 31؍اضلاع کے ضلع کلکٹریٹ میں اردو داں عہدیداروں کا تقرر کیا جائے گا جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ وہیں اردوداں طبقہ کا مطالبہ ہیکہ ان66؍ اردو مترجمین کے تقررات انتہائی صاف و شفاف طریقہ سے عمل میں لائے جائیں اور ان تقررات کے لئے کسی کی بھی سفارش کو مکمل نظر انداز کیا جائے ، مترجمین کے تقررات کیلئے ان کا اہلیتی ٹسٹ منعقد کیا جائے جو کہ تلگواور اردو زبان سے یکساں واقفیت رکھتے ہوں اگر سفارش کے ذریعہ تقررات عمل میں لائے جاتے ہیں تو پھر حکومت کے اس نیک مقصد کے ہی فوت ہونے کا امکان ہے!! جب ریاستی حکومت اور وزیراعلیٰ کے سی آر نے کھلے ذہن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اردو کو ریاست کی دوسری زبان کا مؤقف عطا کردیا ہے تو ضروری ہیکہ ہم اردو والے بھی اب اردو زبان کیساتھ اپنی بے اعتنائی اور سوتیلانہ رویہ ترک کردیں ،شادی بیاہ و دیگر تقاریب کے دعوت ناموں میں اردو کو بھی جگہ دیں،تاجرین اپنی دُکانات کے سائن بورڈس پر اردو بھی تحریرکروائیں، سوشیل میڈیا پران دنوں مسلم نوجوانوں کی جانب سے شعر و شاعری سے شغف دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ "ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی ” ضرورت شدید ہیکہ اب محلہ واری ، ٹاؤنس اور شہری سطح پر اردو تنظیمیں اردو زبان سے نابلد مسلم نوجوانوں کو اردو سکھانے کیلئے آگے آئیں اور یہ کام نہایت ذمہ داری اور نظم و ضبط کیساتھ کیا جائے ، ساتھ ہی ہر گھر میں اردواخبارکو لازمی کرلیا جائے تاکہ اردو اخبارات مزید بہتر طریقہ سے اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو وسعت دے سکیں ، اردو تنظیمیں اور سیاسی قائدین اردو اخبارات کیلئے اشتہارات بھی وقتاً فوقتاً جاری کرتے رہیں کیونکہ اشتہارات ہی کسی اخبار کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں حکومت بھی اقلیتی اسکیمات کی تشہیر کیساتھ ساتھ دیگر سرکاری پروگراموں کے اشتہارات اردو اخبارات کو بھی جاری کرتی رہے تو امکان قوی ہیکہ ریاست تلنگانہ میں اردو کا ماضی تابناک ہوگا ! وہیں اردو والوں کے لئے بھی لازمی ہیکہ وہ ریاست کی پہلی زبان تلگو کو سیکھنے کی کوشش کریں کیونکہ دیکھا یہ جاتا ہیکہ شہر کی بہ نسبت اضلاع کے مسلمان تلگو زبان باآسانی لکھ ، بول اور پڑھ لیا کرتے ہیں ۔ سرکاری عہدیداروں سے بھی اپیل ہیکہ وہ اردو مترجمین کے تقرر تک حسبِ ضرورت اردو اعلانات کیلئے کسی اردو داں فرد کی خدمات حاصل کریں ورنہ انکی جانب سے اردو سے نابلد افراد کے ذریعہ اگر اعلانات لکھواکرشہر کے اہم مقامات پرنصب کئے جائیں گے تو وہ مذاق کا مؤضوع بن جائے گا !!! جیسا کہ زیر نظر تصویر ان دنوں سوشیل میڈیا پر مذاق کا موضوع بنی ہوئی ہے ۔!!