کتاب: آخری سواریاں
مصنف: سید محمد اشرف
مبصر :ڈاکٹر تہمینہ عباس
قیمت:250 ، صفحات: 183
ناشر: آج،سٹی پریس بک شاپ ، کراچی
’’آخری سواریاں ‘‘سید محمد اشرف کا ناول ہے۔سید محمد اشرف 1970 کے بعد آنے والے فکشن نگاروں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’ڈار سے بچھڑے ‘‘ کے عنوان سے 1994میں شائع ہوا۔ان کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ ’’باد صبا کا انتظار‘‘کے عنوان سے 2002میں شائع ہوا۔’’نمبر دار کا نیلا ‘‘ کو ان کی کامیاب ترین تحریر قرار دیا جاتا ہے۔ان کا طویل ناولٹ پہلی بار ،سوغات(بنگلور) ،آج(کراچی) میں شائع ہوا۔’’آخری سواریاں ‘‘میں سید محمد اشرف نے ایک گہرے تہذیبی موضوع کو طویل افسانے میں برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
یہ ناول مغلیہ تہذیب کے زوال کے تناظر میں تحریر کیا گیا ہے۔اس ناول کا انداز بیانیہ ہے۔ناول کا مرکزی کردار، ناول کا آغاز اپنے کالج کی چھٹیوں میں جب بھی گھر آتا ہے تو اپنے دادا کا لکھا ہوا ایک سفر نامہ یا روزنامچہ پڑھتا ہے۔جس میں اس کے دادا کے پردادا نے وسط ایشیا کی سیاحت کی تھی اور وہاں مقبرہ بی بی خانم سے واپسی پر ان کی ملاقات ،مغلیہ سلطنت کے بانی تیمور سے ہوئی تھی۔اور اس کے علاوہ انھوں نے بہادر شاہ ظفر کو معزول ہو کر رنگون جاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔اس ناول میں مرکزی کردار کے دادا اسے وہ درخت بھی دکھاتے ہیں جہاں سے ان کے دادا نے آخری مغل فرمانروابہادر شاہ ظفر کو انتہائی بے بسی کی حالت میں سر جھکا کر،پہیوں والے تخت پر رخصت ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔
ناول کا مرکزی کردار ہمہ وقت ایک خوف کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے اور یہ خوف اور مصنف کا پر تجسس بیان قاری کے تجسس کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ناول کے مرکزی کردار کے والد ایک رحم دل اور انصاف پسند شخص کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔امّاں کا کردار ایک بہترین منتظمہ کا کردار ہے جو بیک وقت اپنے بچوں،ملازموں اور رشتے داروں کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہیں۔ناول کی ابتدائی کہانی جبو نامی ملازمہ کے گرد گھومتی ہے جو مرکزی کرادر کے بچپن میں ان کے گھر آتی ہے اور مرکزی کردار کی چھوٹی بہن اور اس دیکھ بھال کرتی ہے۔چند سال جبو اس گھر میں رہتی ہے پھر اس کے والدین اس کی شادی ایک دو بچوں کے رنڈوے باپ سے کر دیتے ہیں۔اس شادی کا احوال اور جبو کے جذبات کی پامالی کا بیان مصنف نے پر تجسس انداز میں کیا ہے ۔
مرکزی کردار کے داد ااور پردادا کا کردار ان کا سفر نامہ،اور اس روزنامچے یا سفرنامے کے ،مرکزی کردار پر اثرات بھی بہت معنویت رکھتے ہیں۔مرکزی کردار حال اور ماضی کی تہذیبوں کے درمیان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ناول کے آخر تک قاری کا تجسس برقرار رہتا ہے۔مرکزی کردار کی بیوی تو جدید اور قدیم تہذیب دونوں سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے مگر مرکزی کردار خود،مغلیہ سلطنت،تیمور، اور بہادر شاہ ظفر کے دور کی تہذیب اور ان کی خوبیوں اور خامیوں میں الجھا ہو نظر آتا ہے۔اس کی بیوی اسے اس خوف سے نکالنے کے لیے انتہائی سرد موسم ،اور آدھی رات کوپرانے کھنڈرات کی سیر کے لیے لے جاتی ہے۔اس کا خیال ہوتا ہے کہ خوف کا علاج مزید خوف ہے۔
مگر وہاں مصنف مغلیہ تہذیب کی مختلف چیزوں ،علوم و فنون او ر روایات کو مختلف سواریوں پر رخصت ہوتا ہوا دیکھتا ہے۔اور ان سواریوں سے مغلیہ سلطنت کی قیمتی چیزوں سے گر گر کر ضائع ہوتا دیکھتا ہے،مرکزی کردار کو یہ خوف ہونے لگتا ہے کہ کیا یہ سواریاں کبھی پلٹیں گی بھی یا رخصت ہوجائیں گی؟۔’’آخری سواریاں ‘‘ میں تاریخ کے چند حالات اور واقعات کا بیان بہت مؤثر ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب مصنف نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔مثلا اسیر بادشاہ کے سفر کا واقعہ، یا پھر بہادر شاہ ظفر کے دسترخوان کا احوال،یا شام لال کی بیٹی کے بیاہ کا واقعہ ،یہ تمام واقعات اس طرح بیاں کیے گئے ہیں کہ چند لمحات کو قاری تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے