کائنات کی وسعتوں کا متلاشی – مجید امجد : – عبدالعزیز ملک

Share
مجید امجد

کائنات کی وسعتوں کا متلاشی
مجید امجد

عبدالعزیز ملک
لیکچراراُردو، جی سی یو نی ورسٹی، فیصل آباد

0923447575487

مجید امجد کی شاعری یوں تو متنوع جہات کی حامل ہے لیکن اس میں کائنات کی رنگا رنگی اورفطرت سے محبت کا عنصر بطورِ خاص نمایاں ہواہے۔اس کی شاعری کائنات کی پیچیدگیوں ،وسعتوں اور اس کے اسرارو رموز کو اس خوب صورتی سے اپنے دامن میں سمیٹتی ہے کہ اس کو آفاقی شعور کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے۔مجید امجد کی شاعری کی قرأت یہ واضح کرتی ہے کہ دریائے کائنات کے پنہاں اسرار و رموز کی ہلکی سے ہلکی اور معمولی سے معمولی موج بھی اس کی نظروں کے سامنے نظم کا ہیولیٰ بن کر ابھری ہے۔

کائنات کی متنوع جہات کے ان گنت نقش اس کے قلب و ذہن پر مرتسم ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بے آواز تصویریں متحرک ہو کر شعری ہئیتوں میں ڈھلتی گئیں۔کائنات کے نہ جانے کتنے پر اسرار سند یسے روپ بدل بدل کر مجید امجد کی شاعری میں ظہور پذیر ہوئے ہیں۔مجید امجد اپنے تخلیقی عمل میں انسان کے فطری تقاضوں کی پاسداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ کائنات کے بارے میں،انسانی حیات کے بارے میں ،فن کے بارے میں،حرف و بیان کے بارے میں،انسان کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں؟؟کائنات کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کے لیے سوال ان کی سرشت میں شامل ہے۔ایک منطقی ااور استدلالی ذہن کے لیے’’کیوں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ کے سوالات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔یہ وسیع و عریض کائنات جو ہمارے چاروں اطراف پھیلی ہوئی ہے،ایک حیرت انگیز شے ہے۔مجید امجد میں نامعلوم کو معلوم میں بدلنے کی نیز اس کا مکمل تعارف حاصل کرنے کی شدید جستجو موجود ہے۔

عمر اس الجھن میں گزری
کیاشے ہے یہ حرف و بیاں کا
عقدۂ مشکل
صورت معنی؟ معنی صورت؟
اکثر گردِ سخن سے نہ ابھرے
وادی فکر کی لیلاؤں کے
جھومتے محمل
طے نہ ہوا ویرانۂ حیرت

جستجو،کرید،تلاش،تجسس اورنامعلوم دنیاؤں کی کھوج ازل سے انسانی فطرت کا لازمی جز و رہا ہے۔مجید امجد اپنے دور کے شاعروں سے اسی لیے منفرد ہے کہ وہ کائنات کی وسعتوں کا متلاشی ہے۔اس کا اپنا تصورِ حیات اور تصورِ کائنات ہے۔اس کی داخلیت اور خارجیت بھی اپنا خاص اسلوب لیے ہوئے ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کی اسفل سطح پر نہیں اترتا بلکہ خود کو اس سے ماورا ئی حیثیت بخشتے ہوئے اپنی شاعری کو زمانے کی آلائشوں سے غبار آلود نہیں ہونے دیتا۔شاعری نعرہ بازی،تجارت ،کاروبار،تیر اندازی اور سپہ سالاری سے بالکل الگ اور منفرد عمل ہے جو کاروبارِ حیات سے بلند ہوکر انسان کی لاشعوری آرزؤں کی ترجمانی اور تسکین کرتا ہے۔اس کے لیے سائنسی فارمولے کار گر ثابت نہیں ہوتے۔بقول خواجہ زکریا:
’’ امجد کے لیے شعر گوئی خود ان کے بقول ایسے تھی جیسے دریا کے لیے بہنا،کوئل کے لیے کوکنا اور ہوا کے لیے چلنا یعنی شاعری ان کے لیے فطرت کا جزو تھی۔اس لیے وہ قارئین سے بے نیاز ہو کر شعر کہتے گئے۔‘‘
مجید امجدکائنات میں جا بجا پھیلے ہوئے مناظرکو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اس طرح سامنے لاتا ہے کہ ان کی نظمیں قاری کو حیرت زا سرشاری میں مبتلا کر دیتی ہیں۔امڈتے زلزلے،پگھلتی چٹانیں،چمکتا سورج،زمین کی گردش،برستی بارش ،کھلتے پھول،اڑتی تتلیاں ،سر سبز اور لہلہاتے کھیت اورآسمان کی وسعتوں میں اڑتے پرندوں کے مناظر اس کی تخلیقیت سے مس ہو کر نئے معنی سے آشنا ہوگئے ہیں۔اس کی شاعری میں رہٹ کا چکر گھڑی کی سوئیوں سے مشابہہ ہو کر وقت کا چکر بن جاتا ہے اور شام کی لو ماضی کے دھندلکوں کی یاد دلانے لگتے ہے۔اس کے ہاں تخلیقی تجربہ زمینی احساس اور فطرت کی نیرنگیوں سے گہرے رشتے کا حامل ہے:

ؑ کسی خیال میں ہوںیا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں،کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
تیرے فراقِ ناز پہ تاج ہے میرے دوشِ غم پہ گلیم ہے
تیری داستاں بھی عظیم ہے میری داستاں بھی عظیم ہے
بارہا تند ہوائیں چلیں ،طوفان آئے
لیکن اک پھول سے چمٹی ہوئی تتلی نہ گری
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں،کون دیکھتا ہے
جو اب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا

مجید امجد جس دور میں زندہ تھااس دور میں سائنسی اور سماجی علوم نت نئی ایجادات اور تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو رہے تھے۔لسانیات،طبعیات،فلکیات،کیمیا اور فلسفے میں ہونے والی پیش رفت نے زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا۔ان تبدیلیوں نے انسان کے فکری رویوں،طرزِ احساس اور طرز عمل پر اثرات مرتسم کیے جو ادب میں بطور خاص نمایاں ہوئے۔اردو شاعری بھی ان تصورات سے اپنا دامن نہ بچاسکی۔کیوں کہ شاعری اور سائنس میں اس لحاظ سے قریبی تعلق موجود ہے کہ دونوں کائنات کی اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔اردو شاعری میں کلاسیکی شعرا کے ہاں علمِ فلکیات کے نمونے جابجا ملتے ہیں ۔اساتذہ شعرا کے ہاں کونیاتی بصیرت کے نمونے واضح طور پر موجود ہیں لیکن علامہ اقبال اور ظفر علی خان نے ان مروجہ کونیاتی تصورات سے ہٹ کر جدید اور مربوط سائنسی تصور اپنانے کی کوشش کی ہے،جس کے نمونے ان کی شاعری میں تلاشے جا سکتے ہیں۔ اقبال کے ہاں علمِ فلکیات میر،آتش ،ناسخ،غالب اورنظیر اکبر آبادی سے ذرا ہٹ کر استعمال ہوا ہے۔وہ جدید سائنسی نظریات سے اتفاق کرتے ہوئے اس بات کا قائل ہے کہ کائنات مسلسل ارتقا پذیر ہے۔اقبال کے ہاں تو کوپر نیکس ،گلیلیو اور آئن سٹائن کے نظریات کے مباحث بھی موجود ہیں۔مگر جب ہم مجید امجد کی شاعری کی بات کریں تو ہمیں ان کے ہاں جدیدسائنسی اور ترقی یافتہ تصور ملتا ہے۔اس حوالے سے ان کا مطالعہ خاصا وسیع تھا۔آپ ان کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ انھوں نے باقاعدہ ایک کتاب لکھنے کا ارداہ کیاتھا۔اس کتاب کا نامکمل نسخہ باز یاب ہو چکاجس کی بازیابی کا سہرا ڈاکٹر سید عامر سہیل کے سر سجتا ہے،جس کا ذکرڈاکٹر عبدالکریم خالدنے مجلہ ’’انگارے‘‘ میں چھپنے والے اپنے مضمون ’’ مجید امجد:ایک جہندہ و رقصندہ سخن ساز‘‘میں بھی کیا ہے۔اگر دیکھا جائے تومجید امجد اردو کا پہلا شاعر ہے جس کے ہاں کا سمک اپروچ اور جدید سائنسی تصورات کی باز گشت واضح طور پر سنائی دیتی ہے۔اس بات کی جانب ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی اشارہ کیا ہے:
’’ مجید امجد نے جس آفاقی شعور کا مظاہرہ کیا ہے،وہ اقبال کے بعدمجید امجد کی نظم میں پوری طرح اجاگر ہوا ہے،اس فرق کے ساتھ کہ اقبال کا رویہ فلسفیانہ ہے،جبکہ مجید امجد نے سائنسی سوچ سے استفادہ کیا ہے۔‘‘
مجید امجد کو کائنات کی پر اسراریت اوراس کو معرضِ تفہیم میں لانے کا شوق زمانہ طالبِ علمی سے ہی پیدا ہو گیا تھا۔وہ علمِ نجوم اور سائنس فکشن میں خوب خوب دلچسپی لینے لگے تھے ۔سائنس فکشن سے خصوصی دلچسپی کی وجہ سے ان کی تحریروں پرسائنس فکشن نگار ایچ جی ویلز کے اثرات کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ناول’’ٹائم مشین‘‘ اور’’وار آف ورلڈ‘‘نے اپنے دور میں خاصی شہرت حاصل کر لی تھی۔مجید امجد کی نظم ’’۲۹۴۲ء کا جنگی پوسٹر‘‘پر خواجہ زکریا نے اپنے مضمون ‘‘مجید امجد کا نظریہ کائنات‘‘ میں سائنس فکشن کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔یہ مجید امجد کے ابتدائی دور کی نظم ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں لکھی گئی تھی۔اس نظم میں مجید امجد نے خلائی جنگوں کی پیش بینی کی ہے۔وضاحت کے لیے اس کے چند اشعار قارئین کی نذر:

اک محافظ ستارے نے کل شام
کرۂ ارض کو خبر دی ہے
ملک مریخ کے لٹیروں نے
وادئ ماہ تباہ کر دی ہے
جادۂ کہکشاں کے دونوں طرف
گھاٹی گھاٹی لہو سے بھر دی ہے
آج انھوں نے نظامِ عالم کو
دعوتِ آتش و شرر دی ہے
آن پہنچی ہے امتحان کی گھڑی
خاکیو! وقت پائے مردی ہے
یہ تمہیں نے ہی بزم انجم کو
تابشِ سلک و گوہر دی ہے

اسی حوالے سے اس کی نظموں ’’دوام‘‘ ،’’خورد بینوں پہ جھکی ‘‘،’’ہوائی جہاز کو دیکھ کر‘‘اور’’نہ کوئی سلطنتِ غم ہے نہ اقلیمِ طرب‘‘کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے جو مجید امجد کے کا سمک اورسائنسی بصیرت کی آئینہ دار ہیں۔ان کی نظم ’’راتوں کو ۔۔۔۔‘‘ میں کائنات کے آغاز اور زندگی کے ارتقا کو موضوع بنایا گیا ہے۔کائنات کے ارتقا کے بارے میں ابھی تک متعدد نظریات پیش ہوئے ہیں ۔ان کومذہبی اور سائنسی نظریات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ارتقا ئیت اپنی جدید صورت میں اپنی بنیاد علمِ ہئیت،علم الارض،علمِ حیات اور جینیات کوبناتی ہے۔ہئیتی طبعیات ہمیں اس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ آج جس سیارے پر ہم زندگی گزار رہے ہیں وہ کروڑوں سال پہلے سورج کا حصہ تھا۔علم الارض کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ زمین کی متعدد تہیں لاکھوں سال کے ارتقا سے کیسے وجود میں آگئی ہیں۔حیاتیاتی سائنس کے مطالعے سے آشکار ہوتا ہے کہ کس طرح مختلف انواع ارتقا کے تدریجی عمل سے گزرتے ہوئے اولین مادے سے صورت پذیر ہوئی ہیں۔غرض کہ مختلف علوم نے اس بات کو ثابت کر دکھایا ہے کہ کائنات ارتقا اور تغیر کے تدریجی عمل سے گزر کر موجودہ صورت تک پہنچی ہے۔

جب سوچتا ہے ،کیا دیکھتا ہے، ہر سمت دھوئیں کا بادل ہے
وادی و بیاباں جل تھل ہے
ذخار سمندر سوکھے ہیں،پر ہول چٹانیں پگھلی ہیں
دھرتی نے ٹوٹتے تاروں کی جلتی ہوئی لاشیں نگلی ہیں
پہنائے زمانے کے سینے پر اک موج انگڑائی لیتی ہے
اس آب و گل کی دلدل میں اک چاپ سنائی دیتی ہے
اک تھرکن سی، اک دھڑکن سی،آفاق کی ڈھلوانوں میں کہیں
تانیں جو ہمک کر ملتی ہیں،چل پڑتی ہیں،رکتی ہی نہیں
ان راگنیوں کے بھنور بھنور میں صد ہاصدیاں گھوم گئیں
ان قرن آلود مسافت میں لاکھ آبلے پھوٹے،دیپ بجھے
اور آج کسے معلوم،ضمیرِ ہستی کا آہنگ تپاں
کس دور کے دیس کے کہروں میں لرزاں لرزاں،رقصاں رقصاں
اس سانس کی رو تک پہنچا ہے۔(راتوں کو۔۔۔)

مجید امجد نے جہاں ارتقا کے تصور کو اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے وہیں اس نے علم فلکیات اور ڈارون کی تھیوری سے بھی استفادہ کیا ہے۔کہیں کہیں تو برگساں کا نظریہ ارتقا بھی اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ برگساں کائنات کی تخلیقی قوت کو جوشِ حیات سے تعبیر کرتا ہے جو ہمیشہ آگے کی جانب محوِ سفر ہے وہ کبھی بھی مراجعت نہیں کرتی ۔جیسے جیسے یہ آگے بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے اپنی ماہیت کی کلیت میں سے تخلیق کے سلسلۂ عمل کو آگے بڑھاتی جاتی ہے۔’’ان سب لاکھوں کروں‘‘ اور ’’برسوں عرصوں میں‘‘ ایسی نظمیں ارتقا کے اس تصور کی آئینہ دار ہیں۔مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو آسمان کو کھولنے،اس کی کھال اتارنے اور اس میں شگاف پڑنے کے اشارے قرآنِ مجید میں بھی موجود ہیں۔مجید امجد یقیناً ان تصورات سے آگاہ ہوں گے اور قرآن کی ان آیات کی روشنی میں کائنات کی تفہیم کر نے کی کوشش بھی کی ہوگی۔اذاالشمس و کورت* واذاالنجوم النکدرت*(جب سورج کو لپیٹ دیا جائے گا اور جب ستارے ماند پڑ جائیں گے۔)اور اسی طرح سورۃ مزمل،سورۃ الزلزال،سورۃ قارعہ اور سورۃ المرسلٰت میں علمِ فلکیات اور زمین کی گردش کے اشارے موجود ہیں ۔ستاروں کے ٹکرانے اور زمین کے تباہ ہونے سے لے کر قیامت تک کے مناظر کو موضوع بنایا گیا ہے۔

ان سب لاکھوں کُروں،زمینوں کے اوپر لمبی سی قوس میں ،یہ بلوریں جھرنا
جس کا ایک کنارہ،دور ان چھتناروں کے پیچھے،روشنیوں کی
ہمیشگیوں میں ڈوب رہا ہے
جس کا دھارا میرے سر پر چھت ہے
اور میں اس پھیلاو کے نیچے
کبھی نہ گرنے والی،گرتی گرتی چھت کے نیچے
ریزہ ریزہ کرنوں کے انبار کے نیچے،
اپنے آپ میں سوچوں،
ایسی شامیں تو جگ جگ ہیں،
آگے جانے کیا کچھ ہے
لیکن ان سب ہوتے امروں کے ریلے میں،
کہیں کسی امکاں۔۔۔ ذرا سے اک امکاں۔۔۔ کی اوٹ ایسی بھی ہو،
جس میں سمٹ سکے،یہ میلی میلی سی چھت،
اور یہ اترے پلستر والی بوسیدہ دیواریں،
جن کی کھڑکیاں میرے دل کی طرف کھلتی ہیں (ان سب لاکھوں کُروں۔۔۔)

مجید امجد نے اس کائنات کو جس حیرت اور تجسس کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اپنے تخیل سے ان نظموں میں جو رنگ بھرے ہیں۔ان کی مدد سے اس کے تصورِ کائنات کو سمجھا جا سکتا ہے۔کا سمک اورجدید سائنسی رجحانات کوجدید نظم کا حصہ بنانا مجید امجد کا ہی کمال ہے جو کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آیا۔مجید امجد کے ہاں موضوعات کی سطح پر یہ تبدیلی ہمیں جدت کا احساس دلاتی ہے۔بقول ڈاکٹر سید عامر سہیل ان کے ہاں جدت کا احساس کسی ردِ عمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ تبدیلی ان کے اندر سے پھوٹی تھی۔مذکورہ تبدیلی انھیں جدت پسند نظم گو شعرا کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ان کی شعری کائنات ان کے موضوعی حالات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے لیکن یہ موضوعیت ان کی تخلیقیت سے مس ہو کرمعروضیت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔بڑی شاعری اسی صورت میں تخلیق ہو سکتی ہے جب فنکارخارجی کائنات کے ساتھ ساتھ داخلی کائنات سے بھی برسرِ پیکار ہو۔یہ بڑے دل اور بڑے دماغ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔وہ خارجی دنیا میں موجود تضاد،کج رویوں،بے اعتدالیوں،ناہمواریوں اور بد صورتیوں پر غور کرتا ہے اور ا ن کی وجوہات تلاش کرتا ہے۔وہ وقت کے فراعین پر طنز کے تیر بھی چلاتا ہے اوران کی دستار بھی اچھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ہوٹل میں،پہاڑوں کے بیٹے،کہانی ایک ملک کی،بس سٹینڈ پر،جاروب کش اورہڑپے کا ایک کتبہ اس حوالے سے مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔
مجید امجد کی زیادہ تر نظمیں وجودی فلسفہ،وسائل کی غیر مساویانہ تقسیم،جبر ، تصورِ وقت،موت اورمعاشرے کی بے حسی جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں جن کی تفہیم اس کائنات کے اسرار و رموز کا پردہ چاک کرنے کے لیے از حد ضروری ہے۔اسی لیے کائنات کے عناصر مجید امجد کی شاعری میں اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ موجود ہیں۔اردو شاعری میں فطرت نگاری اور کائناتی مسائل کے مباحث اس شدت سے پہلے بار ابھر کر سامنے آئے ہیں،اسی بنیاد پر اگر مجید امجد کو کائنات کی وسعتوں کا متلاشی شاعر قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
—–

ڈاکٹر عزیز ملک
Share
Share
Share