اُلفت میں استقامت کی مثال
پروفیسر میر تراب علی
ڈاکٹر حامد اشرف
اسو سی ایٹ پروفیسر و صدر شعبۂ اردو ٗ
مہاراشٹرا اودے گری کالج ٗ اودگیر ۔ضلع لاتور ۔413517(مہاراشٹرا)
شہرۂ آفاق انگریزی ڈرامہ نگار ولیم شیکسپئر نے کہا تھا ’’ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اداکار ٗ جو اپنا اپنا رول ادا کر کے فیڈ آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ محترم کرم فرما میر تراب علی ید اللہی ( سا بق صدر شعبۂ اردو ٗشری شیواجی کالج ٗ پر بھنی ٗ مراٹھواڑہ) نے بھی اپنی زندگی کے پینتیس(۳۵) اوراق شہر پربھنی میں پلٹنے کے بعد ۲۰۰۴ءمیں Voluntary Retirement کی شکل میں اپنا اسٹیج چھوڑ دیا۔
متانت و سنجیدگی کی مجسم تصویر ٗ دلنشیں شیریں آواز ٗ دلکش مسکرا ہٹ ٗ سلجھا ہوا ذہن ٗپُر خلو ص دل ٗپُر لطف گفتگو ٗ خوش ذوق وخوش لباس میر تُراب علی ید اللہی کی شخصیت علا قہۂ مراٹھواڑہ اور حیدرآباد میں محتاج تعارف نہیں ہے۔اس لیے کہ آپ حیدرآباد کے متوطن اور ثُمِ پربھنی ہیں۔آپ کی تعلیم از ابتدأ تا گریجویشن حیدرآباد میں ہوئی ۔ عثمانیہ یو نیورسٹی سے بی۔ایس سی کرنے کے بعد آپ نے ایس۔وی یونیورسٹی ٗ تروپتی سے ایم۔اے( اردو) کیا ۔ پہلے ڈاکٹر ذاکر حسین ہائی اسکول ٗ پر بھنی میں سائنس ٹیچر کے طور پر بر سرِ روزگار ہوئے بعدِ از آں شری شیواجی کالج ٗپر بھنی میں اردو لیکچرر مقرر ہوئے۔اس طرح مراٹھواڑہ کا شہرپربھنی آپ کی زندگی کے آب و تاب کا نیا مقد ر بنا۔آپ نے درس و تدریس کے پیشے میں اپنی نیک نامی اور جہدِ مسلسل کے ذریعے خوب نام کمایا۔ مختلف سمینار ٗ سمپوزیم ٗ ادبی اجلاس اور مشاعروں کی کمیٹیوں کے معزز عہدوں پر فائز رہے۔پر بھنی میں ڈاکٹر علامہ اقبال لائبریری اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے قیام میں آپ کی کو ششوں کو خاص دخل ہے ۔ حضرت سید شاہ تراب الحق ؒ پر بھنی کے سالانہ اعراس میں کل ہند مشاعروں کے انعقاد اورتحریری و تقریری مقابلوں کے اہتمام میں آپ کی خد مات بے حد اہم ہیں۔ مہارشٹرا اردو اکا ڈمی کے رکن بنے ۔کل ہند تعلیمی کمیٹی ٗ حیدرآباد اور مہاراشٹرا پبلک سرویس کمیشن کی رکنیت بھی ہاتھ آئی۔ آ پ کوانجمن ترقی اردو ہند ٗ شاخ پربھنی کے اولین سکریٹری اور سوامی رامانند تیرتھ مراٹھواڑہ یو نیورسٹی ٗ ناندیڑ کے اردو بورڈ آف اسٹڈیز کے اولین منتخب چیرمین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
یہ تھا آپ کا مختصر تعارف ٗ جو آپ کی شخصیت اور ادبی و سماجی زندگی کا رُخ پیش کرتا ہے ۔آپ کی زندگی کا دوسرا رُخ ایک مثالی اُستاد کا ہے۔جو اسقدر گہرا اور مستقل ہے کہ حوادثِ زمانہ بھی اسے مٹا نہیں سکتے۔آپ نے زندگی کے پینتیس برس اردو زبان و ادب کی حفاظت اور معیار کی بلندی کے لیے صرف کےئ اورتخلیقِ شعر و ادب میں مصروف بھی رہے۔ ادبی و سماجی مصروفیتوں نے آپ کو بحیثیتِ شاعر پنپنے کا مو قع نہیں دیا۔البتہ قومی یکجہتی ٗ فنِ تدریس اور اردو زبان و ادب سے متعلق آپ کے بے شمار علمی و ادبی مضا مین آج بھی چمنستانِ ادب میں عطر بیز ہیں۔آپ کی زندگی ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔جس کا ہر باب زندگی کے مقاصد متعین کرنے کا پیغام دیتا ہے۔جس کا ہر صفحہ آزادی اور حریت کی رہنما ئی کرتا ہے اورجس کی ہر سطر ہمیں راست گوئی اور حق گوئی کا درس دیتی ہے۔ آپ کی ذات جنتِ ارضی کے بہت سے خوشنما پھو لوں کا گلدستہ ہے ٗ جس کی مہک سے دور و نز دیک کے بے شمار لو گوں اور طلبہ کے ذہن ودل معطر ہوئے۔
محترم تراب صاحب نے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر اپنا نقصان بھی گوارہ کر لیا ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر سید شجاعت علی لکھتے ہیں کہ
’’ آج کا دور مو قع پرستی کا دور ہے۔خود ستا ئشی اور شخصی پبلسٹی کی مدد سے لوگ اپنی امیج بناتے ہیں۔ایک نکمّا اور ناکارہ شخص بھی بڑی بڑی باتیں کرکے سماج میں مقام حاصل کر لیتا ہے۔مگر اس کے برخلاف پروفیسر میر تراب علی صاحب کا عجز و انکساری اور مروت سے کام لینا خود اُن کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوا۔مگر انہوں نے اس طرزِ زندگی کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔‘‘(1)
مو صوف محترم کی شخصیت نے علاقۂ مراٹھواڑہ کے اہلِ علم و ہنر کو بے حد متا ثر کیا۔آپ کے وسیع ترین تعلقات اور ہمہ رنگ و ہمہ گیر معلومات نے نہ صرف طلبأ و طالبات کے لیے حصولِ علم کی شاہراہیں تیار کیں بلکہ انہیں اردو زبان و ادب کی اہمیت و افادیت کو از خود سمجھنے کا مو قع فراہم کیا۔یوں آپ کی شخصیت گونا گوں خصو صیات کی حامل بن جاتی ہے ۔لیکن آپ کی انکساری دیکھیے کہ کبھی آپ سے ایک لفظ بھی اپنی تعریف میں سنا نہ گیااور نہ ہی کبھی کسی کی برائی آپ کے منہ سے سنی گئی۔ہاں۔ایک قا بلِ ذکرعادت آپ کو پان اور تمباکو کھانے کی پتہ نہیں کب سے ہے۔یہاں ایک لطیفہ بے محل نہ ہوگا کہ ایک دوست نے دوسرے دوست سے کہا ’’ یار ! میں نے آج سے سگریٹ نوشی چھوڑ دی۔‘‘ دوسرا دوست بولا۔’’ اس میں کونسی نئی بات ہے۔میں نے تو سگریٹ کئی بار چھوڑدی ہے۔‘‘ کچھ ایسا ہی معا ملہ مو صوف محترم کے ساتھ ہوا ہے کہ آپ نے بھی پان کھانا کئی بار چھوڑ دیا ہے۔
پروفیسر میر تراب صاحب کو راقم السطور نے پہلی بار اُس وقت دیکھا ٗ جب وہ مہاراشٹرا اودے گری کالج اودگیر میں اردو لکچرر کے انٹر ویو کے لیے Subject expert کی حیثیت سے تشریف فرما تھے۔راقم السطور بھی بارہ(۱۲) امیدواروں کے منجملہ ایک تھا۔ اُس دن میر تراب صاحب کی شخصیت ہی مو ضوعِ بحث تھی۔کوئی کہہ رہا تھا ’’ سبجیکٹ اکسپرٹ میر تراب صاحب ٗ پربھنی کے ہیں۔وہ نثر بھی بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے شاعری کر رہے ہیں۔‘‘ کو ئی کہتا ۔’’ وہ بات کم کرتے ہیں اور داہنے ہاتھ سے اپنے دراز بال زیادہ سنوارتے ہیں۔اور کسی نے کہا ’’ وہ پوچھتے تو بہت آسان ہیں۔مگر جواب دینا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘ راقم ا لسطور گلبرگہ( کرناٹک) سے پہلی بار مہاراشٹرا کے ایک کالج میں انٹر ویو فیس کر رہا تھا۔کوئی سفارش نہ کوئی پہچان اور نہ ہی کو ئی رقمی لین دین۔میر تراب صاحب کی نگاہِ انتخاب راقم ا لسطور پر پڑی۔ اربابِ بست و کشادِ ادارہ نے فوراً انتخابی خط مجھے روانہ کیا۔آج بیس (۲۰)سال بعد یہ واقعہ یاد آتا ہے تو شہرِ گلبرگہ کے معروف شاعر سلیمان خطیب کا ایک شعر بے اختیار ذہن کے دریچے سے سر اُبھارتاہے ۔گو یا ٗتراب صاحب زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں:
مانا حریف ِ کہکشاں اور بھی تجھ سے تھے مگر
میری نظر نے چُن لیا ٗ اپنی نظر کو کیا کروں
مہاراشٹرا اودے گری کالج ٗ اودگیر کے شعبۂ اردو میں دوسرے خالی پوسٹ کو fill up کرنے کا وقت آیا تو منتظمینِ جامعہ ناندیڑ اور اربابِ کالجِ ہذا نے دوبارہ تراب صاحب کی ہی خدمات حاصل کیں۔یوں تراب صاحب کا ہمارے ہاں آنا جانا شروع ہوا۔جب راقم نے اسٹیٹ لیول اردو کانفرنس COHSSIP,NEW DELHI کے مشترکہ تعاون سے منعقد کی تو پروفیسرتراب صاحب اور پروفیسر فہیم احمد صدیقی( ناندیڑ) کی بہت رہنمائی حاصل رہی۔ سمینار گاہ ہو کہ یونیورسٹی ٗ حیدرآباد ہو کہ پر بھنی ٗ ناندیڑ ہو کہ اودگیر ٗراقم نے تراب صاحب کو جب بھی دیکھا ٗ ہر اینگل سے اُنہیں ایک چست و چالاک انسان پایا۔وہ ہوا کے ایک خوبصورت جھونکے کی طرح آتے اور بہت جلد اپنا کام نپٹا کے واپس ہو جاتے ۔اس طرح وہ He appears and he disappears کی عمدہ مثال تھے۔ کسی سمینار میں وہ اپنا مقا لہ پڑھتے توبرائے نام اوراق سامنے رکھتے اور پورا مقالہ زبانی ہی پڑھتے ۔سامعین کو یہ اندازہ ہو جاتا کہ اُن کی تیاری بہت خوب ہے اور پھر اُن کا مطالعہ بھی کچھ کم نہیں۔ اس سلسلے میں اُن کے ایک مضمون ’’ پنڈت جواہر لال نہرو او ر اُردو‘‘ کے ایک اقتباسات کوڈ کیا جاتا ہے ٗ جس کے مطالعے سے تراب صاحب کے مطالعے کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔
’’ دستور ساز اسمبلی میں زبان کے سوال پر بحث چل رہی تھی۔سوال یہ تھا کہ کن زبانوں کو آٹھویں شیڈول میں رکھ کر قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔پنڈت نہرو نے جو زبانیں آٹھویں شیڈول میں شمولیت کے لیے پیش کیں ٗ اُن میں اردو بھی تھی۔اس پر جبل پور کے بہت بڑے کانگریسی رہنما اور ہندی کے پرستارسیٹھ گو وند داس نے چلّا کر پوچھا’’ اُردو بھلا
کس کی مادری زبان ہو سکتی ہے۔‘‘؟پنڈت نہرو نے اسی جھلّا ہٹ کے ساتھ چیخ کر جواب دیا ’’ اردو میری ماں اور میری دادی کی زبان ہے‘‘پروفیسر حسین خان کی تحقیق کے مطابق دستور ساز اسمبلی میں اس نوک جھونک کے بعد اردو نکتہ چینی کرنے والے خا موش ہو گئے اور اردو کو آٹھویں شیڈول میں رکھ لیا گیا۔‘‘(2)
تراب صاحب کا ایک اہم وصف یہ بھی ہے کہ وہ کبھی کسی کو زیرِ بار نہیں کرتے بلکہ خود زیرِ بار ہوتے ہیں۔اُن کی مہر بانیاں جامعہ ناندیڑ سے وابستہ تقریباً سبھی اردو لیکچررس پر تھیں۔وہ نئے لکچرر سے بھی اس طرح پیش آتے کہ وہ اُن کے لیے سراپا ممنون ہو جاتا۔۔آج پروفیسر میر تراب علی صاحب سر زمینِ مراٹھواڑہ کو الوداع کہہ چکے ہیں۔لیکن اُن کی سیرت و شخصیت اور اُن کے کاموں کو آسانی سے نہیں بھلایا جا سکتا۔وہ بے مثال اور با کمال شخص ہیں اور جو شخص با کمالوں کی قدر نہیں کرتا وہ در حقیقت اپنی حقیر انانیت کا اظہار کرتا ہے۔جسے Ego کہتے ہیں اور ایسے اشخاص بے ادب کہلاتے ہیں۔مقولہ ہے کہ با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب۔
——
حواشی:
(1)میں اور میرا فن ۔(تنقیدی مضامین )ڈاکٹر سید شجاعت علی ص 93 سال 2004ء
(2)روزنامہ ’’ اعتماد‘‘ حیدرآباد مو رخہ ؍ 28 مئی 2007 ء
——