پروفیسر جی محبوب ۔ مترجم علامہ اقبال : – ڈاکٹر قطب سرشارؔ

Share
ڈاکٹرقطب سرشار

پروفیسر جی محبوب ۔ مترجم علامہ اقبال

ڈاکٹر قطب سرشار
محبوب نگر، تلنگانہ
موبائل : 09703771012

زباں تلگو ہے لیکن مدعا کامل حجازی ہے
میں اٹھا خاک دراوڈ سے ہوں مرا دل حجازی ہے
(پروفیسر جی محبوب ترجمہ قطب سرشارؔ )
اردو داں تلگو شاعروں کی فہرست میں یوں تو اور بہت سارے نام ہوئے ہیں لیکن جنہوں نے اردو ادب عالیہ کی ترجمانی کے حوالے سے اپنی پہچان بنائی ہے۔ ان میں سرفہرست داسرتھی، سی نارائن ریڈی، سداسیواولپ ریڈی، بچاریڈی، ڈاکر بجواڑہ گوپال ریڈی، دوی کمار اور حال ہی میں ادبی افق پر نمودار ہوئے۔

پروفیسر جی محبوب کے نام قابل ذکر ہیں۔ تلگوکے ان شاعروں نے کلاسیکی اردو شاعری کو تلگو قالب میں ڈھالنے کی بڑی حد تک قابل اعتنا اور مستحسن کوشش کی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ترجمہ اصل متن کی روح تک رسائی میں کماحقہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ترجمے کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ڈاکٹر داسرتھی نے تلگو میں کلام غالب کا ترجمہ بڑی عرق ریزی اور چاو سے کیا، اہل تلگو جن کے لئے غالب محض ایک نام تھا، تلگو ترجمے کے وسیلے سے افکار غالب سے نہ صرف آشنا ہوئے بلکہ فیض یاب بھی ہوئے۔ ڈاکٹر سی نارائن ریڈی نے غزل کو تلگو زبان میں رائج کیا لیکن ان کی تقلید کسی نے نہیں کی۔ ولپ ریڈی بچاریڈی نے ساٹھ کے دہے میں غالب کی منتخب غزلوں کا ترجمہ کرکے غالب گیتالو کے نام شائع کیا۔ اس کے بعد انہوں نے غالب اور میر کی غزلوں کو بھی تلگو قالب میں ڈھالا اہل تلگو نے ان کے تراجم کو بہت پسند کیا۔ ان کے ترجمہ کی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے تلگومیں غزل کے فارم کو برتنے کا تجربہ کیا۔ تلگووالے اسے ’’دوی پدا‘‘ سے تعبیر کرتے ہیںیعنی دو مصرعوں والی نظمیں۔ دوی کمار نے جو وجے واڑہ کے اخبار پرجا ساہتی کے مدیر اور کالم نگار ہیں تحریک آزادی ہند کے موضوع پر لکھی گئی نظموں کا ترجمہ کیا۔ اس کے بعد 2003ء میں نیلو ضلع کے پروفیسر جی محبوب نے علامہ اقبال پر توجہ کیا اور اقبال کی نظموں شکوہ جواب شکوہ، ایک مکھڑ اور مکھی، بچے کی دعا، حسن اور حقیقت، نیا شوالہ اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا کا اکٹھا ترجمہ کیا اور اس مجموعہ کو انہوں نے شکوہ جواب شکوہ نام دیاسرنامے میں مندرجہ بالا شعر سے اقبال اور اردو زباں سے ان کی عقیدت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ تلگوزبان کے ثقافتی پس منظر اور لسانی صفات کے تناظر میں اقبال کے سماجی فلسفے کی شرح کرنانا ممکن نہ سہی بے حد دشوار گذار مرحلہ ضرور ہے۔ چنانچہ محبوب صاحب نے اپنی کتاب کے ابتدائی صفحات میں اقبال کی سوانح مختصراً درج کردی ہے۔ شائد اس خیال سے کہ اہل تلگو پر فکر اقبال کا ثقافتی تناظر واضح ہو جائے۔ جی محبوب اگر سوانحی سطور کے ساتھ فکر اقبال کی توضیحات کو جوڑدیتے تو تفہیم اقبال کے مرحلے میں اہل تلگو کا راستہ سہل ہوجاتا۔ چوں کہ اردو ادب میں بھی اقبال اپنی اپنی نوعیت کے واحد شاعر ہیں۔ ان کا فکری اور تہذیبی مآخذ اگر چہ کہ اسلامی اقدار ہیں لیکن ان کا اسلوب ترقی پسندوں جیسا اشتہاری اور نعرہ بازی کا مصداق نہیں۔ پروفیسر جی محبوب کی اقبالیات کے ضمن میں تلگو زبان کے وسیلے سے پہلی کوشش ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ انہوں نے کلام اقبال کو تلگو پیراہن عطا کیا۔ کوئی تلگو معاشرہ کا پروردہ ذہن اپنی زبان میں اقبال کو سمجھنے اور سمجھانے کا اقدام کرتا ہے تو اس کی جرائت کی بے اختیار داد دینی چاہئے۔ ہندوستان کے غیر اردو لسانی حلقوں میں فکر اقبال کی آفاقیت سے لا علمی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اوروں کی طرح تلگوحلقوں میں بھی اقبال کو مذہبی شاعر کے حوالے سے قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ پروفیسر جی محبوب نے اقبال کی منتخب نظموں کے ترجمے کے وسیلے سے اہل تلگو کی اقبال کے حوالے سے ایک گمراہ کن غلط فہمی کو رفع کرنے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔
پروفیسر جی محبوب کی کتاب ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ (تلگو ترجمہ) کل (44) صفحات پر محیط ہے۔ انہوں نے ابتدائی صفحات میں اپنی والدہ محترمہ عائشہ بیگم کے نام انتساب ، اپنی سوانحی تفصیلات، تعارف اقبال اور سفر ترجمہ نگاری درج ہیں۔ اپنے سفر ترجمہ نگاری کے ذیل میں لکھتے ہیں۔ مجھ سے پہلے آنجہانی ڈاکٹر بجواڑہ گوپال ریڈی نے کلام اقبال کا تلگو میں ترجمہ بڑی عمدگی سے کیا ہے وہ تو بہت بڑے پنڈت اور گیانی تھے اور میں نہ تو شاعر ہوں اور نہ ہی پنڈت۔ زبان سے عقیدت رکھتا ہوں میری مادری زبان اردو ہے اور جس زبان میں میری پرورش ہوئی وہ تلگو ہے۔ میری ابتدائی تعلیم اردو میں ہوئی۔ پھر فوقانی سطح پر ذریعہ تعلیم تلگو رہا اور انجینئرنگ میں نے انگریزی زبان میں پڑھی۔ کلام اقبال کی جانب توجہ 1958ء میں ہوئی۔ پہلے شکوہ کا مطالعہ کیا۔ اس نظم نے بے حد متاثر کیا۔ میرے دل میں خواہش جاگی کہ اس کا تلگو میں ترجمہ کروں۔ 1972ء میں پروفیسر ہوا تو پھر سے تحریک ہوئی۔ 1973ء میں یوم اقبال کے موقع پر ایک مضبوط عزم کے ساتھ ترجمے کا آغاز کردیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر نسیم قریشی مرحوم ریڈر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے فہم اقبال کے مرحلے میں میری رہبری فرمائی۔ 1972ء سے 1988ء کے دوران میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ الکٹریکل انجینئرنگ میں ریڈر اور پروفیسر کے عہدوں پر فائز رہا تھا۔ 1981ء ، 1984ء کے عرصے میں ٹیچنگ اسائنمنٹ کے بطور نائجیریا (مغربی افریقہ) میں قیام کرنا پڑا۔ ان مصروفیات کے سبب سے ترجمہ کا کام ملتوی کرنا پڑا۔ 1988ء میں وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوا تو کے بی این انجینئرنگ کالج گلبرگہ پر دو سال کام کیا۔ گلبرگہ سے رخصت ہونے کے بعد ترجمہ کے کام کا احیاء کیا اور 1992ء میں حیدرآباد تلگوماہنامہ ’’گیٹورائی‘‘ میں جون جولائی اگست کے شماروں ’’شکوہ‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی۔ اس کتاب کا پیش لفظ انہوں نے خود تحریر کیا ہے جس میں ترجمے سے متعلق چند ضروری باتیں لکھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محض اقبال کے ترجمے کی خاطر تلگو شاعری کے عروض کا مطالعہ سیکھا اور عروضی پیمانے پر ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ محض لفظی ترجمہ نہیں ہے بلکہ متن کی روح کو ترجمے میں سمونے کی کوشش ہے سنسکرت اور تلگو الفاظ کے ساتھ کہیں نہ کہیں اردو فارسی کے الفاظ کا استعمال ناگزیر سمجھ کر کیا ہے تاکہ اسلام اور مسلم معاشرتی مزاج پوری طرح تلگو زبان میں نمایاں ہوجائے۔ اس طرح یہ ترجمہ تلگو اردو مشترکہ رنگ کا حامل ہوگیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ترجمہ ایسے افراد کے لئے بھی ہے جن کی مادری زبان اردو ہے اور ذریعہ تعلیم تلگو اور تلگو مادری زبان ہے اور شدبد اردو جانتے ہوں۔ کیرلا، ٹاملناڈؤ اور بنگال کے مسلمانوں نے اسلام اورمسلم معاشرہ پر مبنی ادب اپنی مادری زبانوں میں تصنیف کیا ہے۔ چوں کہ علاقائی زبان ہی ان کی مادری زبان ہے جبکہ آندھراپردیش، کرناٹک اور مہاراشٹرا کے مسلمانوں کی مادری زبان علاقائی زبان نہیں ہے لہٰذا اسلامی معلومات ان علاقائی زبان میں دستیاب نہیں۔
پروفیسر جی محبوب نے یہ ترجمہ آندھراپردیش کے تلگو داں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے لئے کیا ہے۔ رائل سیما اور ساحلی آندھرا کے مسلمانوں کی مادری زبان اردو ہے جو صرف گھروں میں بولی جاتی ہے اور ذریعہ تعلیم تلگو ہے اور معاشرہ میں تلگو زبان کا چلن کم وبیش عام ہے۔ رائل سیما میں البتہ کسی قدر اردو ذریعہ تعلیم کا رواج ہے۔ تاہم غلبہ تلگو زبان ہی کا ہے۔ اس طرح کے رجحانات اور میلانات تلگو کے مسلم ادیبوں اور شاعروں میں دس برسوں کے دوران بہت زیادہ پایا جانے لگا ہے۔ اسلام اور مسلم معاشرہ کے تناظر میں شاعری فکشن اور دیگر موضوعات پر تلگو میں تصنیف و تالیف کا رواج چل پڑا ہے۔ اس ضمن میں اسکائیؔ بابا، شاہ جہاں شیح کریمؔ اللہ، خواجہ اسمٰعیلؔ ، شمشیرؔ احمد، سلیمؔ ، انورؔ ، عباد اللہؔ ، ڈاکٹر اقبال چاند، غوث محی الدین، رحمت اللہ، ایس ایم مملک، عباد اللہ، عباس قادر شریفؔ ، سید نصیرؔ احمد وغیرہ لگ بھگ 80-70 نام ان دنوں کثرت کے ساتھ منظر عام پر نظر آتے ہیں۔ وطن، الاوہ، جگنے کی رات جیسی کتابیں لکھی ہیں۔ جماعت اسلامی ہند آندھراپردیش کے شعبہ تلگو نے کوئی 200 تلگو کتابیں شائع کی ہیں جو ترجمہ، تصنیف اور تالیف کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ خصوصاً قرآن مجید اور سیرۃ النبیؐ کے تراجم نہایت جامع اور دقیع ہیں۔ ان کتابوں سے استفادہ کرنے والے تلگوداں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچی ہے۔ پروفیسر جی محبوب کا شمار اسلام مسلم معاشرے اور اردو ادب کے ترجمان قابل قدر تلگو شاعروں، ادیبوں اور تجمہ نگاروں کی صف میں یقیناً کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر جی محبوب نے اقبال کا ترجمہ معاشی منفعت کی خاطر کیا ہے اور نہ ہی نام و نمود کی خاطر انہیں اردو زبان و ادب اور کلچر سے قلبی لگاؤ ہے۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنے شعر میں کیا ہے۔ جس کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :
زباں تلگو ہے لیکن مدعا کامل حجازی ہے
میں اٹھا خاک دراوڑ سے ہوصں میرا دل حجازی ہے
پروفیسر محبوب کو اس کا درک ہے کہ کلام اقبال کی گہرائی و گہرائی تک ذہن کا پہنچنا ہنسی کھیل نہیں ہے۔ انہوں نے تین دہائیوں کی کڑی تپسیا کے بعد اس ترجمہ کو مکمل کیا ہے۔ پہلے انہوں نے اردو زبان کے لسانی اور تہذیبی تناظر کو سمجھنے کی کوشش کی پھر اقبال کا مطالعہ کیا اور اردو کے ادب شناسوں اور اقبال شناسوں کی صحبتوں سے استفادہ کیا تب کہیں جاکر ترجمے کے مرحلے پر پہنچے اور پھر نہایت عرق ریزی سے اپنے خواب کی تعبیر کو کتابی شکل دی۔ اتنی ساری جدوجہد کے بعد بھی پروفیسر محبوب کوئی دعوی نہیں کرتے کہ وہ اقبال کو تلگو زبان میں سمجھانے میں کماحقہ، کامیاب ہیں۔ اردو زبان کی لفظیات اصطلاحات، محاوروں، علامتوں، استعاروں اور جگہ جگہ تلمیحات کی ترجمانی تلگو زبان میں کرنا جوئے شیر لانے سے کسی طرح کم نہیں تھا۔ چنانچہ انہیں جن الفاظ کا ترجمہ بالکل ہی نا ممکن سا لگا انہیں من و عن تلگو رسم الخط میں لکھ دیا اور نظم کے اختتام پر ان تمام الفاظ کی فرہنگ دے دی۔ جیسے شکوہ، رضوان، جنت، عرش، فرشتہ، نصرانی کلمہ ، اذان کلیسا، توحید، قبلہ، حجازی حدی خواں، دین فریاد قریاں، صنوبر، الحاد، کفر، سجدہ، ہرجائی، یکجائی، ملت، پیغمبر، امت ، حور، نبی، پردہ ترجمہ کی زبان میں ان الفاظ کے استعمال سے اصل نظم کی تفہیم تلگو زبان میں تو کر لیتا ہے لیکن اس کے تخلیل کے پردے پر ایک غیر تلگورجنی ماحول روشن ہوجاتے ہیں اور اردو لفظوں کی اس پیوند کاری کے ترجمے کو اصل سے قریب کرنے میں بڑی طاقتور مدد دی ہے۔ البتہ پتہ نہیں پروفیسر محبوب نے ترجمے کے مرحلے میں جدید تلگو کے بجائے کلاسیکی تلگو زبان کو وسیلہ بنایا ہے جب کہ کلاسیکی زبان نئی نسل کے حق میں ادق اور بوجھل وسیلہ اظہار ہے چونکہ 1940 کے بعد تلگو ادب میں کلاسیکی زبان کا چلن یکسر ترک ہوگیا۔ پنڈتوں اور قلم کاروں نے جو کلاسیکی زبان پر بہت زیادہ وشواس رکھتے تھے جدید تلگو کی ترویج پر بغیر کسی تنازعہ کے سمجھوتہ کرلیا۔ اس طرح تمام اضاف ادب میں وسیلہ اظہار جدید زبان میں ہونے لگا حتی کہ شاعری میں کلاسیکی عروضی پیمانوں سے انحراف اور جدید نثری اظہار کو ترجیح دینے کا رجحان عام ہوگیا۔ تاہم اقبال کی جانب پروفیسر محبوب کا میلان بجائے خود بڑی بات ہے۔ اہل تلگو قابل مبارکباد ہیں کہ انہیں پروفیسر محبوب کے وسیلے سے ’’تعارف اقبال‘‘ کا گراں قدر سرمایہ نصیب ہوا۔ جی محبوب اگر اس سلسلے کو آگے بڑھائیں تو ممکن ہے اہل تلگو تعارف اقبال کی سطح سے آگے عرفان اقبال کی رفعتوں کو چھولیں۔ یا پھر دیگر اردو داں تلگو شاعری محبوب کی تقلید میں کمربستہ ہوکر’’مائل بہ اقبال‘‘ ہوجائیں تو ممکن ہے تلگو ادب میں باقاعدہ ’’باب اقبال‘‘ واہوجائے۔

Share
Share
Share