قسط: 18- اشاعتِ قرآن دورِ مکی کا جہاد : – مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 18
اشاعتِ قرآن دورِ مکی کا جہاد

مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت کی 17 ویں قسط کے لیے کلک کریں

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آنحضورؐ کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا :فَلَا تطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا (فرقان آیت ۵۲) (یعنی اے نبیؐ) کافروں کا کہنا مت مانئے اور اس (قرآن) کے ذریعہ ان سے بڑا جہاد کیجئے مذکورہ آیت میں اگرچہ لفظِ قرآن محذوف ہے لیکن تمام مترجمین و مفسرین کے نزدیک ’’بِہٖ‘‘ کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹ رہی ہے اور یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اصطلاحی جہاد جس میں قتال بھی شامل ہے دور مدنی میں فرض ہوا۔

لہٰذا آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ اللہ نے قرآن کی اشاعت کو جہادِ کبیر قرار دیاہے ۔ اور حضورؐ کے مکی دور کے عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کا بنیادی کام صرف لوگوں کو قرآن سنانا اور جو لوگ قرآن کی دعوت قبول کرلیں ، آیاتِ قرآنی کی روشنی میں اُن کی تعلیم و تربیت کرنا تھا ، یہی وجہ ہے کہ تین چوتھائی قرآن دورِ مکی میں نازل ہوا اور ایک چوتھائی دورِ مدنی میں ۔چنانچہ اشاعت قرآن ہی کے پیش نظر آپؐ نے دورِ مکی میں دارِ ار قمؓ کو بطوردرس گاہ منتخب کیا تھا۔ جس میں اہلِ ایمان ہر وقت آپؐ سے قرآن سنتے اور یاد کرتے تھے اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اشاعت قرآن کو بڑا جہاد کیوں قرار دیا جبکہ یہ قتال کے عمل سے خالی ہے۔ اس سوال کا جواب اگر دورِ مکی میں آنحضورؐ پر قرآن سنانے کی بنا پر آنے والی تکلیفوں کو سامنے رکھ کر سمجھا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یقیناًیہ بڑا جہاد ہے کیوں کہ دورِ مکی میں آپؐ کفار و مشرکین کے ظلم و زیادتی کا طاقت و قوت سے دفاع اور مقابلہ کرنے کی حالت میں نہیں تھے ، جبکہ دورِ مدنی میں آپؐ کفار و مشرکین کے ظلم و زیادتی کا طاقت و قوت سے دفاع اور مقابلہ کرنے کی حالت میں تھے ۔ اور آپؐ نے کیا بھی ، اور کسی کے ظلم و زیادتی کا طاقت سے مقابلہ کرنے کی بہ نسبت صبر کے ساتھ اسے برداشت کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے ، ویسے بھی حضورؐ کو ذاتی طور پر دورِ مدنی کی بہ نسبت دورِ مکی میں زیادہ ذہنی و جسمانی تکلیفوں سے گزرنا پڑا اور یہ سب اشاعتِ قرآن کے نتیجہ میں پیش آئیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دورِ مکی میں آپؐ کو اشاعتِ دین میں جو بھی کامیابی ملی وہ اشاعتِ قرآن کے نتیجہ میں ملی۔ چنانچہ دورِ مکی میں جتنے بھی لوگ اسلام میں داخل ہوئے تقریباً سبھی قرآن سن کر داخل ہوئے ۔اس لحاظ سے یہ کہنا عین حقیقت کا اظہار ہے کہ مکی دور کا جہاد بالقرآن دراصل مدنی دور کے جہاد بالقتال کا پیش خیمہ ہے ۔اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد بالقتال کی راہ سے گزرنے سے پہلے ضروری ہے کہ جہاد بالقرآن کی راہ سے گزرا جائے اور وہ اشاعتِ قرآن ہے ۔کیونکہ دین کے داعی و مجاہدین اسی راہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ دورِ مکی میں اسلام کی نشرواشاعت میں قرآن کا کتنا عظیم کردار تھا اور صحابہ کرامؓ کا قرآن سے کیسا گہرا تعلق تھا ظاہر ہے یہ تمام تفصیلات ایک مضمون میں جمع نہیں کی جاسکتی بطور نمونہ ہم یہاں علامہ شبلی نعمانی ؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کی تصنیف کردہ شہرۂ آفاق کتاب سیرت النبیؐ کی چوتھی جلد کے چند اقتباسات من وعن نقل کررہے ہیں ۔ یوں تو سیرت النبیؐ کی ساتوں ہی جلدوں پر دونوں مصنفوں کے نام درج ہیں لیکن ان میں سے شروع کی دو جلدیں علامہ شبلی نعمانیؒ کی تصنیف کردہ ہیں اور بقیہ پانچ جلدیں علامہ سید سلیمان ندویؒ کی تصنیف کردہ ہیں۔ چنانچہ موصوف مصنف چوتھی جلد کے صفحہ ۱۹۷ پر مبلغوں کی تعلیم و تربیت کے زیر عنوان رقم طراز ہیں۔ سیرت کی دوسری جلد کے آغاز میں اشاعتِ اسلام کی تاریخ اور دعاۃ معلمین کی تعلیم و تربیت کا حال لکھا جاچکا ہے۔ سلسلہ بیان کے لئے یہاں صرف اس قدر کہنا ہے کہ ان کو سب سے پہلے قرآن پاک کی سورتیں یاد کرائی جاتی تھیں لکھنا بھی سکھایا جاتا تھا۔ آنحضورؐ کے شب و روز کے ارشادات سننے کا موقع بھی ان کو ملتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تبلیغ کا درس اولین قرآن اور صرف قرآن تھا۔ اسی صفحہ ۱۹۷ پر دعوت بالقرآن کے زیر عنوان موصوف مصنف رقم طراز ہیں، قرآن پاک اسلام کے دعویٰ و دلیل دونوں کا مجموعہ ہے اور وہی اس کے مذہب کا صحیفہ ہے۔خود آنحضرت ؐ بھی اور دوسرے مبلغ صحابہؓ بھی تبلیغ و دعوت میں صرف قرآن کی سورتیں پڑھ کر سناتے تھے اور جہاں ان کو اس کا موقع مل جاتا وہاں اس کی تاثیر اپنا کام کرجاتی تھی۔ اور یہ فرض خود قرآن نے اپنا آپ قرار دیا تھا۔ اس کی تبلیغ کے لئے جہاد کی ضرورت تھی مگر اس جہاد کا ہتھیار لوہے کی تلوار نہیں بلکہ قرآن کی تلوار تھی جس کی ضرب کی روک خَودوسپرسے بھی ممکن نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اسی تلوار سے جہاد کا حکم دیا فرمایا : فَلَا تطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا (فرقان آیت ۵۲)تو اے پیغمبرؐ ! منکروں کا کہنا نہ مان اور اس قرآن سے ان کے ساتھ بڑے زور سے جہاد کیجئے۔ اس پیغام الٰہی کے زمین میں اترنے کی غرض ہی یہ تھی کہ وہ خدا کے بھولے ہوئے بندوں کو ان کا عہد یاد دلائے فرمایا : فَذَکِّرْ بِالْقُراٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْد(قٓ آیت ۴۵) تواے پیغمبرؐ ان کو جو میری دھمکی سے ڈرتے ہوں قرآن کے ذریعہ سے یاد دلاؤ قرآن رحمت عالم کا پیام عمومی ہے اور یہی اس کے نزول کی غرض و غایت ہے۔ فرمایا : تَبٰرَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَلَمِیْنَ نَذِیْرًا (فرقان آیت۱) برکت والا ہے وہ جس نے حق و باطل میں امتیاز کرنے والی کتاب اپنے بندہ پر اس لئے اتاری کہ وہ تمام دنیا کو بیدار اور ہوشیار کرے، یہی قرآن اسلام کی طاقت اور محمدؐ کا اصلی ہتھیار تھا جس کی کاٹ نے کبھی خطا نہ کی ۔ (سیرت النبی ؐ جلد ۴ ، صفحہ ۱۹۷)
چوتھی جلد ہی کے صفحہ ۱۹۹ پر موصوف اشاعت اسلام کے اسباب و ذرائع کے زیر عنوان رقمطراز ہیں۔ اسلام کے نشرواشاعت کا سب سے مقدم اور اصلی سبب معجزہ قرآنی تھا۔ قرآن مجید جس مؤثر اور دل کپکپادینے والے طریقہ سے عقائد و معارف و اخلاق کی تلقین کرتا تھا، اس کے سامنے وہ تمام عوائق و موانع فنا ہوجاتے تھے۔ (سیرت النبی ؐ جلد ۴ ، صفحہ ۱۹۹)اسی طرح موصوف مصنف نے چوتھی جلد ہی کے صفحہ ۲۰۲ ، ۲۰۳ پر دورِ مکی میں قرآن کے کردار پر حدیث ، سیرت اور تاریخ کی مستند کتابوں کے حوالہ سے جو عبارت تحریر کی ہے وہ پوری کی پوری من وعن پیش ہے ، تمام بڑے بڑے صحابہؓ ، بڑے بڑے رؤسائے قبائل ، بڑے بڑے شعراء اور خطباء قرآن ہی سن کر ایمان لائے۔ حضرت عمرؓ کس ارادہ سے چلے تھے لیکن جب قرآن مجید کی آیتیں سُنیں تو کانپ اٹھے اور اسلام قبول کرلیا۔ عتبہ جو رئیس قریش اور علوم عرب کا ماہر تھا۔ جب اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر کہا کہ تم نبوت کی دعوت سے باز آؤ ہم تمہارے لئے سب کچھ مہیا کردیتے ہیں ، آپؐ نے حٰآ السجدہکی ابتدائی آیتیں پڑھیں
، جب یہ آیت آئی : فَاِنَ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْد (حٰمٓ السجدہ آیت ۱۳) ترجمہ : ۔ (تو اگر وہ منہ پھیریں تو کہہ دے کہ میں تم کو اس کڑک سے ڈراتا ہوں جو عادو ثمود کی کڑک کی طرح ہے ) تو عتبہ نے بیتا ب ہو کر آنحضرت ؐ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا : خدا کے لئے بس کرو ، تم کو قرابت کی قسم دلاتا ہوں ، پھر واپس جا کر قریش سے کہا کہ محمد ؐ جو کلام پیش کرتے ہیں وہ نہ تو شعر ہے نہ جادو ہے اور نہ کہانت ہے بلکہ کوئی اور چیز ہے ۔ حضرت ابوذرؓ نے اسلام لانے سے پہلے اپنے بھائی انیس کو جو شعرائے عرب میں تھے ۔ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں تحقیق حال کے لئے بھیجا تھا ، وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور قرآن مجید سنا تو جا کر حضرت ابوذرؓ سے کہا کہ لوگ ان کو کاہن اور شاعر کہتے ہیں ، لیکن میں کاہنوں اور شاعروں دونوں کے کلام سے واقف ہوں ، ان کا کلام دونوں سے الگ ہے ۔ انیس کے بعد حضرت ابوذرؓ خود گئے اور واپس آئے تو ان کا آدھا قبیلہ اسی وقت مسلمان ہو گیا ۔
ولید بن مغیرہ (حضرت خالدؓ کا باپ)جو اسلا م کا سب سے بڑا دشمن تھا ، جب آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ؐ نے یہ آیتیں پڑھیں :اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُ بِالْعَدْلِ والِاحْسَانِ وَایْتآء یِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ والْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (نحل آیت ۹۰)
ولید نے کہا پھر پڑھیے، آپ ؐ نے دوبارہ پڑھا ۔ وہ واپس گیا اور قریش سے جا کر کہا کہ یہ انسان کا کلام نہیں ۔ عثمان بن مظعون بڑے پایہ کے صحابیؓ اور سابقین اسلام میں ہیں ۔ یہی آیتیں ہیں جن کو سن کر ان کے دل نے سب سے پہلے اسلام کا جلوہ دیکھا وہ خانہ کعبہ کو جا رہے تھے کہ آنحضرت ؐ نے راستے میں اپنے پاس بٹھا لیا پھر فرمایا کہ مجھ پر یہ کلام اُترا ہے یہ کہہ کر آپ ؐ نے اوپر والی آیتیں پڑھیں۔ عثمانؓ کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ اسلام نے میرے دل میں گھر کیا ۔ جبیر بن مطعمؓ نے کفر کے زمانہ میں آنحضرت ؐ کو سورۂ طور پڑھتے سنا ، جب اس آیت پر پہنچے اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ ھُمُ الْخٰلِقُوْنَ اَمْ خَلَقُوْاالْسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَ اَمْ عِنْدَھُمْ خَزَآءِنُ رَبِّکَ اَمْ ھُمْ الْمُصَیْطِرُون
(سورۂ طور آیت ۳۵،۳۷)
تو خود حضرت جبیرؓ کا بیان ہے کہ مجھ کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ میرا دل اُڑنے لگا۔
طفیل بن عمرودوسی مشہور شاعر اور شرفاءِ عرب میں تھے ہجرت سے پہلے وہ مکہ گئے لوگوں کو ان کے آنے کی خبر ہوئی تو ان کے پاس گئے اور آنحضرتﷺ کی نسبت کہا ان کے پاس نہ جانا وہ لوگوں پر جادو کردیتے لیکن جب حرم میں اتفاقیہ آنحضرتﷺ سے قرآن سنا تو ضبط نہ کرسکے اور مسلمان ہوگئے۔ ہجرت سے پہلے آنحضرتﷺ سے جب طائف کا سفر کیا اور مشرکین کو اسلام کی دعوت دی تو اگرچہ ادھر سے اس کا جواب ڈھیلا اور پتھر تھا تاہم خالد العدوانیؓ جو طائف کے رہنے والے تھے آپ کو وَالسّمَاءِ وَالطَّارِقِ پڑھتے سنا تو اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے اسی حالت کفر میں پوری سورۃ یاد کرلی اور آخر اسلام لے آئے ۔ حضرت ابوبکرؓ کو قیام مکہ کے زمانے میں بعض مشرکین نے اپنی پناہ میں لے لیا تھا۔ اسی زمانہ میں انہوں نے ایک مسجد بنوائی تھی اور اس میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ لیکن نماز بلند آواز سے پڑھتے تھے جس کو سن کر محلہ کے نوجوان اور عورتیں جمع ہوجاتیں اور قرآن سنتیں تو ان کادل خود بخود اسلام کی طرف کھینچتا چنانچہ اسی بناء پر کفار نے حضرت ابوبکرؓ سے شکایت کی کہ قرآن پکار کر نہ پڑھا کرو۔ اس سے ہمارے بچے اور عورتیں مفتون ہوتی جاتی ہیں۔ انصار اول جب عقبہ میں اسلام لائے تو قرآن سن کر اسلام لائے تھے، جو لوگ داعی بنا کر بھیجے جاتے ان کو قرآن یاد کرایا جاتا اور وہ جہاں جاتے یہی کارگر آلۂ تسخیر لے کر جاتے ۔ نجاشی کے دربار میں کفار قریش جب سفیر بن کر گئے اور ان کی شکایت پر نجاشی نے مسلمانوں کو بلا کر بازپرس کی تو حضرت جعفر طیّارؓ نے قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں، نجاشی بے اختیار روپڑا اور کہا خدا کی قسم یہ کلام اور انجیل ایک ہی چشمہ سے نکلے ہیں۔ حبش میں جب آپﷺکی بعثت کا چرچا ہوا تو ۲۰؍شخص جو مذہباً عیسائی تھے تحقیق حال کے لیے مکہ میں آئے اور آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپﷺ نے ان کے سامنے قرآن مجید کی آیتیں پڑھیں۔ ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے اور اسی وقت اسلام لے آئے۔ آنحضرتؐ کے پاس سے یہ لوگ اُٹھے تو ابو جہل نے ان سے مل کر کہا کہ تم سخت احمق ہو اتنے دور سفر کرکے آئے اور دم بھر میں اپنا مذہب بدل لیا انہوں نے کہا
ہم تم سے لڑنا نہیں چاہتے لَکُمْ دِیْنَکُم وَلَنَا دِیْنُنَا یعنی تمہارے لیے تمہارا دین اور ہمارے لیے ہمارا دین ۔
قرآن کی پیشین گوئیوں کی صداقت نے بھی لوگوں کے دلوں کو کھینچا چنانچہ اہلِ ایران کے مقابلہ میں رومیوں کی فتح کی جو پیشنگوئی کی گئی تھی جس دن یہ پیشنگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی صدہا کافر مسلمان ہوگئے ۔ ایک ضروری نکتہ : عام خیال یہ ہے کہ اہلِ عرب جو قرآن سن کر اسلام قبول کر لیتے تھے وہ صرف فصاحت و بلاغت کا کرشمہ تھا یعنی چونکہ عرب میں شعر و خطابت کا چرچا تھا اور تمام ملک میں شاعری کا مذاق سرایت کر گیا تھا جب وہ دیکھتے تھے کہ کسی اور شاعر یا خطیب کا کلام ایسا فصیح و بلیغ نہیں ہے تو اسلا م قبول کر لیتے تھے ، بے شبہ قرآن فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے معجزہ ہے لیکن اس کا اعجاز جس قدر عبارت وانشاء میں ہے اس سے کہیں زیادہ معانی ومطالب میں ہے ۔ (سیرت النبی ؐ جلد ۴ ؍ صفحہ ۲۰۲۔۲۰۳)

Share
Share
Share