قسط : 17- قرآن کفار مکہ کی پریشانی کا اصل سبب : – مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 17
قرآن کفار مکہ کی پریشانی کا اصل سبب

مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ 16ویں قسط کے لیے کلک کریں

دورِ مکی میں کفار مکہ کی پریشانی اور مخالفت کا اصل سبب تلاش کیا جائے تو صرف قرآن ہی ملے گا۔ کیوں کہ کفار مکہ کو آنحضور ﷺ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی اور کیسے ہوسکتی ہے؟ اس لیے کہ یہ وہی محمد ﷺ تھے جنھیں کفار مکہ قرآن پیش کرنے سے پہلے صادق اور امین کہا کرتے تھے۔

کفار مکہ کو آپﷺ سے جو بھی شکایت اور دشمنی تھی وہ محض لوگوں کے سامنے قرآن پیش کرنے کے سبب تھی۔ اس لیے پورے دور مکی میں کفار مکہ کی یہی کوشش تھی کہ آپﷺ لوگوں کو قرآن نہ سنائیں اور لوگ آپﷺ سے قرآن نہ سنیں، کیوں کہ وہ اچھی طرح دیکھ رہے تھے کہ محمدﷺ کو دین کی اشاعت میں جو کچھ کامیابی مل رہی ہے وہ صرف قرآن سنانے کی بناء پر مل رہی ہے، اور جتنے بھی لوگ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ وہ سب قرآن سے متاثر ہوکر ہی داخل ہورہے ہیں۔ کفار مکہ کے اسی طرز عمل کو اللہ تعالیٰ نے سورہ حٓم سجدہ کی آیت نمبر ۲۶؍ میں یوں بیان فرمایا۔
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْلَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَالْقُرآنِ وَلْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغلِبُوْنْترجمہ : (اور کافر لوگوں نے کہا مت سنو! اس قرآن کو اور اس کے پڑھنے کے دوران شورو غل کرو تا کہ تم غالب رہو) مذکورہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کفار مکہ نے یہ اندازہ کرلیا کہ وہ محمد ﷺ کو قرآن سنانے سے نہیں روک سکتے تو انہوں نے قرآن کی آواز دبانے کے لیے یہ تدبیر اختیارکی کہ جب محمدﷺ قرآن پڑھیں تو خوب شوروغل کیا جائے اور زور زور سے آوازیں نکالی جائے ، تالیاں اور سیٹیاں بجائی جائیں تاکہ کوئی قرآن کی آواز نہ سن سکے۔ اس آیت کی تفسیرمیں علامہ شبیر احمد عثمانی فاضل دیوبند نے جو کلمات تحریر فرمائے وہ حالات حاضرہ پربھی صادق آتے ہیں۔ چنانچہ موصوف کے تفسیری کلمات ملاحظہ ہوں : قرآن کی آواز بجلی کی طرح سننے والوں کے دلوں پر اثر کرتی تھی جو سنتا وہ فریفتہ ہوجاتا، اس سے روکنے کی تدبیر یہ نکالی کہ جب قرآن پڑھا جائے تو ادھر کان مت دھرو اور اس قدر شور و غل مچاؤ کہ دوسرے بھی نہ سن سکیں، اس طرح ہماری
بک بک سے قرآن کی آواز دب جائے گی۔ آج بھی جاہلوں کو ایسی ہی تدبیریں سوجھا کرتی ہیں کہ کام کی بات کو شور مچا کر سننے نہ دیا جائے لیکن صداقت کی کڑک مچھروں اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے کہاں مغلوب ہوسکتی ہے۔ ان سب تدبیروں کے باوجود حق کی آواز قلوب کی گہرائیوں تک پہنچ کر رہتی ہے۔) (مترجم شیخ الہند صفحہ ۶۲۱)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام کا غلبہ قرآن کی آواز پھیلانے میں مضمر ہے، اور کفر کا غلبہ قرآن کی آواز دبانے میں مضمر ہے چنانچہ آج بھی دشمنانِ اسلام کی یہی سوچ اور کوشش ہے کہ قرآن کی آواز کو پھیلنے نہ دیا جائے کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن کی آواز جتنی زیادہ پھیلے گی اتنا ہی زیادہ اسلام غالب ہوگا۔ لیکن افسوس کہ آج کچھ اسلام کا نام لینے والے بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر اس طرزِ عمل کا شکار ہیں۔ اور مزید ستم ظریقی یہ کہ اس معاملہ میں وہ حضرات بھی پیش پیش نظر آتے ہیں جو مسلمانوں میں دین کی اشاعت و ترویج چاہتے ہیں اور اسکے لیے کوشاں بھی ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کی اشاعت کے بغیر مسلمانوں میں دین کی اشاعت نا ممکن ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ قرآن کا ترجمہ بھی دراصل قرآن ہی کا جزو ہے۔ کیوں کہ اصول فقہ کی رو سے قرآن کی تعریف ہُوَلَّلفْظُ وَالْمَعْنٰی جَمِیْعًایعنی قرآن الفاظ و معنی کے مجموعہ کا نام ہے۔معنی سے مراد قرآن کا ترجمہ ہے، یہ بات اور ہے کہ صرف ترجمہ قرآن پر تلاوت قرآن کی پوری شرائط و آداب کا اطلاق نہ ہو۔ اس لیے جو لوگ قرآن کے ترجمہ وتفسیر کی آواز کو دباتے ہیں دراصل وہ بھی قرآن کی آواز دبانے کے مجرم ٹھہرتے ہیں۔ اور یہ کافروں کا طرز عمل ہے۔ چاہے اسلام کا لیبل لگا کرکیا جائے اور جو لوگ عربی زبان نہیں جانتے ان کے لیے قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کی اہمیت و ضرورت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیوں کہ وہ ترجمہ و تفسیر کے بغیر قرآن سے ہدایت و رہنمائی حاصل نہیں کرسکتے ، جو نزول قرآن کا اصل مقصد ہے۔ مکی دور سے متعلق ایسے کئی واقعات ہیں جن سے صاف واضح ہوتا ہے کہ کفارِ مکہ کی پریشانی اور آپﷺ کی مخالفت کا اصل سبب قرآ ن تھا۔ بطور مثال چند واقعات کا ذکر کیاجاتاہے،کفار مکہ لوگوں کو آنحضورﷺ
سے دور، اور بدظن کرنے کے لیے آپﷺ پر عام طور سے چاربے جا الزامات لگاتے تھے۔ ایک یہ کہ آپؐجادوگر ہیں، دوسرا یہ ہے کہ آپﷺ مجنون ہیں، تیسرا یہ کہ آپؐ کاہن ہیں، چوتھا یہ کہ آپؐ شاعر ہیں۔ ان چاروں الزامات پر غور کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان میں سے ایک بھی الزام ایسا نہیں ہے جو ذاتی دشمنی و نقص کی بنا پر لگایا ہو بلکہ یہ تمام الزامات محض اس بناء پر لگائے گئے تاکہ آپؐ کے پیش کردہ کلام الٰہی کا اثر لوگوں کے ذہن و دماغ پر نہ ہو، اور لوگ اس کلام کو جادو، کہانت ، جنون ، شعر سمجھ کر نظر انداز کردیں۔ ساتھ ہی ان الزامات سے کفار مکہ کا منشاء یہ تھا کہ لوگ اس کلام کو امتیازی کلام نہ سمجھیں اور اس کی وجہ سے اپنے عقیدہ و عمل کو نہ بدلیں۔ جس طرح لوگ جادو، کہانت، شعر کو امتیازی چیز نہیں سمجھتے اور اس کی وجہ سے اپنے عقیدہ و عمل کو نہیں بدلتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن عقیدہ و عمل کی تبدیلی کی کتاب ہے اور جو لوگ اس کو پڑھ کر یا سن کر بھی اپنے غیر اسلامی عقیدہ و عمل کو نہیں بدلتے دراصل ایسے لوگ قرآن کی عظمت ہی کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ آج لوگ معمولی آدمی کے کلام سے متاثر ہوکر اپنے عقیدہ و عمل کو بدل دیتے ہیں۔ مگر خالق کائنات کے کلام سے متاثر ہوکر اپنے عقیدہ و عمل کو نہیں بدلتے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک معمولی آدمی کے کلام کو سمجھ کرپڑھا اور سنا جاتا ہے، لیکن خالق کائنات کے کلام کو سمجھ کر پڑھنے اور سننے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔
دورِ مکی ہی کا واقعہ ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر عرب کے بہت سے شہروں اور قبیلوں میں پہنچ چکی تو اسی دوران حج کا مہینہ قریب آگیا تو قریش کے سرداروں کو فکر لاحق ہوئی کہ عرب کے لوگ حج کی غرض سے مکہ آئیں گے اور انھوں نے پہلے ہی سے محمدؐکے بارے میں سن رکھا ہے۔ اس لئے وہ ضرور اس کے پاس جائیں گے اور اس کے کلام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہیں گے ۔ اس لئے لوگوں کو آپؐ کے کلام سے بدظن کرنے کے لئے کوئی ایک تدبیر سوچی جائے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو آپؐ کے کلام سے دور رکھا جاسکے۔ کیونکہ اگر ہم نے آپؐ کے متعلق الگ الگ باتیں کہیں، تو لوگ ہماری باتوں
کا اعتبار نہیں کریں گے۔ چنانچہ تمام سردارانِ قریش ولید بن مغیرہ کے پاس حاضر ہوئے جو سب سے عمر رسیدہ اور تجربہ کار شخص تھا، اور اس سے کہا : اے ابو عبد شمس یہ ولید کی کنیت ہے، تو اچھی طرح جانتا ہے کہ محمدؐ کے ذریعہ ہم پر کیا آفت آئی ہے اور حج کا مہینہ بھی قریب ہے۔ عرب کے لوگ عنقریب ہمارے یہاںآئیں گے اور انھوں نے محمدﷺ کے متعلق پہلے ہی سن رکھا ہے ، لہٰذا وہ جستجو میں اس کے پاس بھی پہنچیں گے ۔اور ہم سے بھی اس کے متعلق پوچھیں گے اس لئے کوئی ایک بات تجویز کیجئے تاکہ ہم سب اسی کو کہیں ولید نے سرداروں سے کہا پہلے تم کہو میں سنتا ہوں ، سرداروں نے کہا ہم لوگوں سے کہیں گے کہ محمدؐ کا ہن ہے ، ولید نے کہا خدا کی قسم محمدؐ کا ہن نہیں ہے میں کاہنوں اور کہانت کو اچھی طرح جانتا ہوں ۔ محمدؐ کے کلام میں کہانت کا شائبہ تک نہیں ہے۔ سرداروں نے کہا: پھر ہم کہیں گے کہ محمدؐ مجنون ہے ، ولید نے کہا میں مجنونوں اور جنون کو بھی اچھی طرح جانتا ہوں، محمدؐ کے کلام میں قطعاً کوئی جنون نہیں ، سرداروں نے کہا ہم کہیں گے کہ محمدؐ شاعر ہیں ، ولید نے کہا ، میں شاعروں اور شعر کی تمام قسموں کو جانتا ہوں، محمدؐ کے کلام میں شعر کا کوئی شائبہ نہیں ہے، سرداروں نے کہا ہم کہیں گے کہ محمدؐ جادوگر ہے۔ ولید نے کہا نہیں میں جادوگروں اور جادو سے بھی اچھی طرح واقف ہوں ۔محمدؐ کے کلام میں جادو کا کوئی اثر نہیں ہے۔ پھر ولید نے کلام الٰہی کے متعلق چند تعریفی باتیں کہیں کہ محمدؐ کے کلام میں جادو کا کوئی اثر نہیں ہے۔ اس میں ایک طرح کی شیرینی ہے، اس کی جڑیں بہت شاخوں والی ہیں اور اس کی شاخیں بہت پھلوں والی ہیں ، تم ان چار باتوں میں سے جو بھی محمدؐ کے کلام کے متعلق کہوگے اس کاجھوٹ ہونا ظاہر ہوجائے گا۔ ہاں البتہ وقتی طور پر لوگوں کو آپؐ کے کلام سے بدظن کرنے کے لئے جو بات تم کہہ سکتے ہو وہ یہ ہے کہ محمدؐ ایک جادوگر ہے اور جادو بھرا کلام لے کر آیا ہے جس کے ذریعہ باپ بیٹے میں ، بھائی بھائی میں ، میاں بیوی میں ، فرد اور خاندان میں پھوٹ ڈالتا ہے ۔ غرض اس رائے پر تمام سردار متفق ہوگئے اور اِدھرُ ادھر چلے گئے۔ جب حج کا مہینہ آیا اور لوگ مکہ آنے لگے تو یہ تمام سردار لوگوں کے آنے کے راستوں پر بیٹھ گئے اور جو بھی پاس سے گزرتا اس سے کہتے محمدؐ سے بچ کر رہنا ، اس کے کلام میں
جادو کا اثر ہے۔ ( ماخوذ سیرت النبیؐ ابن ہشام جلد۱ ، صفحہ ۲۸۵، ۲۸۶)
مکی دور ہی سے متعلق ایک اور واقعہ کفار مکہ کی مزید پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ نضر بن حارث قریش کے سرداروں میں سے ایک اہم سردار تھا ۔ ایک مرتبہ اس نے قریش کے تمام سرداروں کو جمع کیا اور ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ اب محمدؐ کو صرف جادوگر ، کا ہن، مجنون ، شاعر کہنے سے کام چلنے والا نہیں ہے ۔اس لئے کہ یہ بات اب لوگوں پر واضح ہوچکی ہے کہ محمدؐ جو کلام پیش کرتے ہیں نہ وہ جادو ہے اور نہ وہ جنون ہے نہ وہ کہانت ہے نہ وہ شعر ہے۔ محمدؐ کے کلام کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس طرح کا کوئی متبادل کلام لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹا کر اس کلام کی طرف کی جائے اور یہ کام انجام دینے کے لئے میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں چنانچہ وہ شخص عراق گیا اور وہاں سے ایرانی بادشاہوں کے واقعات اور رستم و اسفندیار کی داستانوں کی کتابیں خریدی اور یہ کتابیں لے کر مکہ آیا۔ جب رسولؐ کسی مجلس میں قرآن سناتے اور چلے جاتے تو نضر بن حارث وہاں جاکر بیٹھ جاتا اور لوگوں سے کہتا کہ میں محمدؐ سے بہتر باتیں بیان کرنے والا ہوں میرے پاس آؤ۔ جب لوگ اس کے پاس جمع ہوجاتے تو انھیں ایرانی بادشاہوں کے واقعات اور رستم و اسفندیار کی داستانیں بیان کرتا ۔ (ماخوذ سیرت النبیؐ ابن ہشام جلد ۱ ، صفحہ ۳۲۳)
مفسرین کرام نے بھی اس واقعہ کو سورۂ لقمان کی آیت ۶؂ کی تفسیر کی ذیل میں نقل کیا ہے، کیونکہ یہ اسی شخص کی شان میں نازل ہوئی فرمان الٰہی ہے :وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّخِذَ ھَاھُزُوًا اُوْلٰٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنً (۶)(لقمان)ترجمہ : ( اور لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو لغو کلام خریدتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے ہٹائے بغیر علم کے اور اس (قرآن) کو مذاق ٹھہرائے یہی لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔) اسی آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ نے نضربن حارث کی ایک اورحرکت کا ذکر کیا ہے وہ یہ کہ اس نے اپنے پاس چند گانے والی لونڈیاں بھی خرید رکھی تھیں۔ جس کے متعلق وہ سنتا کہ قرآن سے متاثر ہورہا ہے تو اس کے
ساتھ ایک گانے والی لونڈی کو لگا دیتا۔ تا کہ وہ گاکر اس کا دل بہلائے اور وہ اسی میں منہمک ہو کر رہ جائے۔ اس آیت سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ کفار مکہ کی پریشانی کا اصل سبب قرآن تھا وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کفار مکہ لوگوں کو قرآن سننے سے دور رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے ۔ مذکورہ آیت کی روشنی میں موجودہ حالات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج بھی لوگوں کو قرآن سے دور رکھنے کے لئے مختلف تدبیریں اختیار کی گئی ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہُ اس وقت غیر مسلموں کو قرآن سے دور رکھنے کی تدبیریں کی جاتی تھیں او رآج خاص طور سے مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھنے کی تدبیریں کی گئی ہیں ۔کیوں کہ اُس وقت یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان قرآن کے پڑھنے اور سننے سے دور رہے گا۔ چنانچہ آج کے دور میں عام مسلمانوں کو ناولوں ، افسانوں ، فلمی رسالوں اور گانوں کے ذریعہ قرآن سے دور رکھا جارہا ہے اور جو مسلمان دین کے دعویدار ہیں ان کو قوالی کی محفلوں اور کیسٹوں اور من گھڑت واقعات و کتابوں کے ذریعہ دور رکھا جارہا ہے۔ اور جو مسلمان قرآن کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کرتے ہیں اور اس کے الفاظ پڑھتے ہیں اور پڑھاتے بھی ہیں اور زبانی یاد بھی کرتے ہیں ان کے ذہن اس طرح بنا دیئے گئے ہیں کہ وہ بس زندگی بھر صرف قرآن کے الفاظ کی تلاوت کرتے رہیں اور اس کے معانی و مطالب کو سمجھ کر پڑھنے کی قطعاً کوئی ضرورت محسوس نہ کرے یہ بھی ایک طر ح سے قرآن سے دور رکھنے کی تدبیر ہے۔
 

Share
Share
Share