میں ایک صحافی ہوں
قومی یومِ صحافت کے موقع پر خصوصی تحریر
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔
فون:9395381226
نوٹ: اردو صحافت سے وابستہ تمام صحافیوں کی خدمت میں’’ قومی یومِ صحافت ‘‘ کی پُر خلوص مبارکباد۔
میں صحافی ہوں‘ زندگی کے 37برس اس شعبے میں گزار چکا ہوں۔ نشیب و فراز سے گزر چکا ہوں۔ رہنمائے دکن کے اسپورٹس رپورٹر، انچارج ایڈیٹر سے اپنے ہفت روزہ ’’گواہ‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے صحافت کے ہر مرحلے سے گزر چکا ہوں۔ اکثر رات کو سونے سے پہلے نیند آنکھوں سے دور بھاگتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ضمیر اپنا محاسبہ کرنے کے لئے مجبور کرتا ہے تو اس ارادہ کے ساتھ نیند سے ہم آغوش ہونے کی کوشش کرتا ہوں کہ اگلی صبح اگر آنکھ کھل جائے تو ایک نئی زندگی کا آغاز کروں گا۔
تقریباً ہر رات یہی تاریخ دہراتی ہے۔ صبح ہوتی ہے تو ’’رات گئی بات گئی والی بات‘‘ والا محاورہ صادق آتا ہے۔ میدان صحافت میں جب قدم رکھا تو ارادے بڑے نیک تھے کہ اس مقدس پیشہ کے ذریعہ عبادت کے جذبہ کے ساتھ خدمت کروں۔ وقت گزرتا گیا، اور وہ جذبہ جانے کہاں کھوگیا۔ کچھ نام ملا‘ دماغ آسمان پر آگیا۔ آہستہ آہستہ بڑے بھی چھوٹے نظر آنے لگے۔ لوگ جس انداز سے پیش آتے ، قوم اور ملت کے لئے ہماری ’’خدمات‘‘ کو سراہتے، رات سوتے وقت میں سوچتا، یاد کرنے کی کوشش کرتا کہ آخر میں نے قوم و ملت کی کیا خدمت کی؟ کیا میں نے واقعی اردو کی خدمت کی؟ ضمیر جواب دیتا‘ چوں کہ تم اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں جانتے اس لئے تم اردو کے صحافی بنے۔ اگر تم دوسری زبانوں پر عبور رکھتے تو شاید کسی اور زبان کے اخبار سے وابستہ ہوجاتے۔ قومی اور ملی خدمت کسے کہتے ہیں؟ جو تمہاری مدح سرائی کرتے ہیں‘ ان کی تصاویر ان کے مضامین ان سے متعلق تعریفی مضامین چھاپ دیتے ہو۔ جو سچ کہتے ہیں‘ تنقید کرتے ہیں‘ اصلاح کی کوشش کرتے ہیں‘ اگر ان کے خلاف کچھ نہ بھی لکھیں تو انہیں یا تو نظر انداز کردیتے ہیں یا پھر اُن سے متعلق کچھ لکھتے یا چھاپتے بھی ہیں تو ان کی اہمیت گھٹاکر… ابتداء میں تعریف کرنے والوں کو ہم نے منع بھی کیا تاکہ ہمارے بارے میں وہ یہ کہہ سکے کہ کیا انسان ہے‘ اپنی تعریف پسند نہیں کرتا۔ سچ تو یہ ہے کہ آہستہ آہستہ ہم تعریف کے عادی ہونے لگے بلکہ اب تو یہ حال ہے کہ جس دن چار چھ لوگ تعریف نہیں کرتے ہمیں عجیب سی بے چینی ہونے لگتی۔ مزاج میں چڑچڑاپن آجاتا اور رات سوتے وقت اس پر غور کرتا ہوں تو جواب ملتا کہ نشہ اسی کو کہتے ہیں۔ تعریف بھی ایک ایسا نشہ ہے جو سر چڑھ جائے تو اُترتا نہیں۔ اور اسی نشہ کا عادی ہم جیسے صحافیوں کو بنادیا جاتا ہے اور اس کے عادی ہوکر ہم غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح لکھنے کی عادت بھولنے لگے‘ بلکہ ہم اپنی حقیقت کو بھی فراموش کرنے لگے اور کبھی کبھی خود کو بھی نعوذباللہ کاتب تقدیر سمجھنے لگتے ہیں کیوں کہ ہمارے دوست یا ہمارے دشمنوں نے یہ بات ہمارے ذہن نشیں کردی کہ صحافی کا قلم تلوار سے زیادہ تیز ہوتا ہے۔ ہم تلوار کا استعمال کرنے لگے اس حقیقت کو بھول کر کہ ہمارے اسلاف نے تلوار کو کمزور کی حفاظت‘ کے لئے بھی استعمال کیا تھا۔ مگر ہم اس تلوار سے ہر اس فرد کو زخمی کرتے گئے جس نے ہماری بات نہیں سنی۔ یہ بھی بھول گئے کہ یہ زخم مندمل ہوبھی جائے تو ان کے نشان مٹتے نہیں۔ ہمیں اس وقت بڑی طمانیت ملتی جب ہم اپنے قلم سے کسی کی چٹکی لیتے اور ہمارے اِرد گرد رہنے والے ہمیں اس کی تلملاہٹ سے واقف کرواتے۔ کبھی یہ احساس بھی ستاتا ہے کہ آہستہ آہستہ ہم میں انسانیت ختم ہونے لگی کیوں کہ ہم تو کبھی وہ تھے‘ جس کی آنکھ سے دوسروں کی تکلیف پر بھی آنسو بہاکرتے تھے۔ دوسروں کی تکلیف کا اُس سے زیادہ ہمیں احساس ہوا کرتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ ہم بے حس ہوتے جارہے ہیں۔ شاید بے حسی فرعونیت کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ہم فرعون بھی بن جاتے ہیں اور ہمارا نفس ہمیں اکثر یہ باور کرواتا ہے کہ ہم صحافی ہیں اگر چاہیں تو کسی کو آسمان پر بیٹھادیں اور چاہیں تو آسمان سے زمین پرلاپٹخ دیں۔ اللہ معاف کرے‘ ایسے گناہ مجھ سے سرزد ہوئے مگر ہر بار مجھے ہم سب کا مالک یہ احساس دلاتا رہا کہ بندہ‘ بندہ ہے، مجبور و بے بس ہے۔ وہ خدائی فیصلے کربھی لے تو عمل نہیں کرسکتا۔
وسائل اور مسائل ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ ایک صحافی اور ایک ایڈیٹر کی حیثیت سے ذمہ داریوں سے زیادہ ضرورتوں کا احساس بڑھنے لگا اور ان ضروریات کی تکمیل کے لئے وسائل کی تلاش ہوتی۔ وسائل بھی خود مسائل کو تلاش کرتے ہیں اور ان کی یکسوئی کے لئے اپنے ا پنے انداز سے استحصال کرتے ہیں۔ ہم اس استحصال کو کبھی سامنے والے کی غرض، اس کی مروت، مصلحت کبھی اخلاص کا نام دے کر اپنے آپ کو سمجھالیتے ہیں۔ ابتداء میں جن چیزوں سے کراہیت ہواکرتی تھی‘ اب اُسے ہم نے اپنی ذہنی اجتہاد سے جائز قرار دے لیا۔ کسی نے ’’کچھ‘‘ دیا تو اپنی محنت کا صلہ‘ اپنی خدمات کا انعام سمجھ کر قبول کرلیا۔ پہلے ابتداء میں انکار پھر آہستہ آہستہ‘ اس کے بھی ہم عادی ہوتے گئے۔کبھی کبھی رات سونے سے پہلے سویا ہوا ضمیر چپکے سے بیدار ہوتا‘ تو احساس دلاتا کہ تم اُس جانور سے بھی گئے گزرے ہوگئے جو کبھی سامنے ہڈی پھینکنے والے کے آگے دُم بھی ہلاتا ہے اور یہ ہڈی کبھی کسی اور کے حصے میں چلی گئی تو غرانے بھی لگتا ہے۔ کبھی ضمیر کے آئینے میں مجھے اپنی جگہ کسی ایسے ’’دلال‘‘ اور پیروکار کا عکس نظر آتا جو کبھی کسی مجرم اور قانون کے درمیان سودی بازی کرواتا‘ کبھی کسی کا حق تلف کرکے دوسرے کو دلانے کی کوشش کرتا‘ جس کا کام حقائق کو منظر عام پر لانے کے بجائے مناسب تحفوں کے عوض حقائق کی پردہ پوشی کرنا ہوگیا ہے ۔ میں اس آئینہ کو چکناچور کردینا چاہتا ہوں مگر سو ٹکڑے ہوکر بھی ہر ٹکڑے میں وہی عکس نظر آتا ہے‘ مجھے اپنے ضمیر پر غصہ بھی آتا ہے۔ وہ کیا جانے کہ ہم صحافی کسی کو بھولا ہوا سبق یاد کیسے دلاتے ہیں۔ اور پھر اپنے ضمیر کو اس کے احتجاج کے باوجود تھپک تھپک کر سلادیتا ہوں۔ یہ سوچ کر کہ زندہ ضمیری کے ساتھ نہ تو اخبار نکالا جاسکتا ہے نہ صحافی بن کر جیا جاسکتا ہے۔ اور پھر ضمیر کی ضرورت ہے بھی نہیں۔ کیوں کہ جو اپنی ضمیر کی آواز پر اس پیشہ سے وابستہ ہیں‘ کچھ لوگ ان کی عزت ضرور کرتے ہیں مگر اکثریت انہیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔ کیا حال ہے اُن کا کسی نے کبھی جاننے کی کوشش کی؟ گھر میں فاقہ کشی کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ زندگی کرایہ کے گھروں میں گزر جاتی ہے۔ اولاد اچھے اسکول میں پڑھنے کے لئے ترس جاتی ہے۔ بیویاں کڑھ کڑھ کر ختم ہوجاتی ہیں۔ اور ایک زندہ ضمیر صحافی جب زندگی کی لڑائی ہار جاتا ہے تو ایک آدھ تعزیتی جلسہ ہوجاتا ہے جس میں شریک ہر وہ فرد مرنے والے کے اُن اوصاف کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے جن اوصاف کی اس کی زندگی میں مخالفت کی جاتی رہی۔ جن اوصاف کی وجہ سے اس کا گھر باقی نہیں رہا۔ بعد مرنے کے اردوکے کچھ ادارے امداد جاری کردیتے ہیں۔ بہرحال بہتر تو یہی ہے کہ جب تک زندہ ہیں اس وقت تک ہاتھ پیر ماریں۔ اچھا گھر اولاد کو اچھی تعلیم دینے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں۔ سوسائٹی میں عزت ایمانداری سے نہیں‘ آپ کی معاشی حالت کی بنیاد پر ملتی ہے۔ اور اردو کے ایک صحافی کی معاشی حالت یوں ہی بہتر نہیں ہوسکتی۔ میں جب تک صرف ایک صحافی تھا‘ تب تک آگے بڑھنے کی بڑی جستجو تھی۔ جب سے ایڈیٹر بنا ہوں جانے کیوں دوسروں کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں ایک عجیب سا منفی جذبہ پیدا ہوتا۔ جانے کیوں میرا ذہن شکی سا ہوگیا ہے۔ اسٹاف کا کوئی رکن خوش حال اور خوش پوشاک نظر آتا ہے تو وقتی طور پر کئی اَن جانے سوال اُبھرتے ہیں‘ کبھی کسی کی سواری بدلتی نظر آتی ہے تب بھی عجیب عجیب سا خیال ذہن میں اُبھرتے ہیں‘ شاید اسٹاف کے ارکان کو ہماری ذہنیت کا اندازہ ہونے لگا یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کے پاس کار ہے بھی تو وہ برسوں پرانی ٹووہیلر پر آنے کو ترجیح دینے لگا ہے۔ پھر رات کے ہولناک سناٹے میں ضمیر کی کراہیں گونجتی ہیں‘ پوچھتا ہوں تجھے کیا تکلیف ہے؟ زخمی ضمیر کہتا ہے‘ اللہ نے عزت، دولت، شہرت، مقام دیا ہے تو تمہارا دماغ آسمان پر آگیا تم اپنے آپ میں نہیں رہے‘ تمہیں علاج کی ضرورت ہے۔ تم شکی، وہمی بن گئے۔ یہ شک اور وہم ہی انسان کی بندگی زمین کی خدائی میں بدل دیتا ہے۔ شک شیطان پیدا کرتا ہے۔ تو کیا میں آہستہ آہستہ ایک نفسیاتی مریض بننے لگا ہوں۔ ہر ڈکٹیٹر، ہر ظالم نفسیاتی مریض رہا ہے۔ اور ان کا انجام عبرتناک ہوا ہے۔ کیا اس انجام سے پہلے میری اصلاح، میرا علاج ممکن ہے۔؟
بذریعہ ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد
Epaper.gawahweekly.com