یوم اطفال۔۔۔نہرو جینتی
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
پنڈت جواہر لعل نہرو کی یاد آتے ہی ان کی پرکشش اور دل آویز شخصیت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ ان کی پروقار شخصیت اتنی سحر انگیز ہمہ گیر اور پہلو وار تھی کہ اس پر کچھ لکھنے کے لئے ایک دفتر چاہئے۔
آج ضرورت اس بات کی بھی ہیے کہ ہم ان کے افکار خیالات ‘ ان کے اصولوں اور آدرشوں پر یقین کا اعادہ کریں اور عہد کریں کہ انہوں نے تعمیر و ترقی کا جو جمہوری راستہ ہمیں دکھلایا تھا‘ ہم اس پر گامزن رہیں گے اور سیکولر اقدار کو ہر شعبہ حیات میں فروغ دیتے ہوئے سوشلزم کی منزل تک پہنچنے کا جو عزم و حوصلہ انہوں نے ہمیں بخشا تھا اسے ہر قیمت پر قائم رکھیں گے۔
آج ہمارے ملک کو عالمی برادری میں بین الاقوامی سطح پر جو وقار و عزت حاصل ہے وہ درحقیقت انہی کی پالیسیوں کی دین ہے۔ انہی پالیسیوں کی بنیاد پر نہ صرف وزیراعظم شریمی اندرا گاندھی نے ملک کی تعمیر و ترقی اور عالمی امن سے متعلق کام کو آگے بڑھایا بلکہ ان کے نواسے وزیر اعظم راجیو گاندھی بھی انہی کے نقش قدم پر پوری طرح عمل پیرا رہے۔ پنڈت جی نے ناوابستگی کے ذریعہ عالمی امن کے امکانات کو نہ صرف روشن کیا بلکہ اسے استحکام بخشا‘ عالمی امن کے سلسلہ میں انہوں نے جو گرانقدر خدمات انجام دیں ان کے پیش نظر دنیاانہیں پیغمبر امن کے نام سے یاد کرتی ہے۔ عالمی برادری میں ہندوستان کو جو ممتاز مقام حاصل ہوا وہ پنڈت جی کی گراں قدر خدمات کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے دنیا کو جو دو بلاکوں میں مقسم تھی پرامن بقائے باہم کا راستہ دکھلایا۔ ان کے دکھائے ہوئیراستہ پر چل کر ہی دنیا ابھی تیسری عالمگیر جنگ سے محفوظ ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اتنی اہم خدمات انجام دینے کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ملک کی آزادی سے قبل غیر ملکی سامراج کے خلاف لڑائی میں اور پھر آزادی کے بعد ملک کے اولین وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے عزم و عمل اور کردار اور دانش کی جو شمع ملک میں روشن کی‘ اس کی روشنی میں ملک تعمیر و ترقی کے راستہ پر وزیراعظم شریمتی اندرا گاندھی کی بے مثال قیادت کے بعد مسٹر راجیو گاندھی کی فعال قیادت میں بھی ملک برابر ترقی پر گامزن رہااور اسی طرح سونیا گاندھی جی کی قیادت میں ملک ترقی کی منازل طئے کرتا جارہا ہے ۔ اسی روشنی کی ضرورت ہمیں آج بھی ہے کل بھی رہے گی۔
پنڈت جواہر لعل نہرو نے ملک کے اندر فرقہ پرستی تنگ نظری ‘ عصبیت‘ جہالت ‘ فرسودہ رسوم و رواج کے خلا ف بھی ہمیشہ جنگ کی ہے ۔ وہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور سیکولر اقدار کی عملی تصویر تھے۔ چنانچہ سارے ملک میں اتحاد و اتفاق ہم آہنگی اور یکجہتی کو قائم رکھنے کے لئے وہ ہمیشہ سرگرم و کوشاں رہے۔ قومی یکجہتی کے سلسلے میں انہوں نے جو بھی کوششیں کیں ان کی یاد تازہ کرنے اور قومی یکجہتی سے متعلق ان کے پیغام کو گھر گھر اور گاؤں گاؤں پہنچانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کیا خوب کہا تھا ‘ جو کوئی سائنس یا سانس کی افادیت پر یقین رکھتا ہے اور آج کے زمانے کی روح کو سمجھتا ہے وہ فرقہ پرستی پر یقین نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ فرقہ پرستی پیار اور پسماندہ ذہنیت کی علامت ہے۔ آج سائنس کی ترقی کی بدولت دنیا سکڑ رہی ہے ‘ تنگ نظری کا موجود رہنا قابل فہم نہیں ‘ تنگ نظری تعصب ہماری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ جب ہم نے سماجی سائنسی نظام کی بنیاد ڈالنا چاہتے ہیں ‘ قومی یکجہتی کا مقصد نہ صرف یہ کہ لسانی صوبائی اور مذہبی تعصب اور تفریق کو ختم کرنا ہے بلکہ اس کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ایسی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے کہ ہر فرد کا ذہنی نشو ونما بچپن ہی سے صحت مند بنیاد پر ہو۔ آج ہر شہری کو چاہئے کہ ان کے گرانقدر افکار کی روشنی میں ہر قدم پر ہر سطح پر اتحاد و اتفاق ‘ ہم آہنگی کا ماحول رکھیں تاکہ ملک کے وقار و عظمت کو چار چاند لگ جائے اور دوسروں میں ہم ہندوستانی ممتاز اور معظم رہیں۔
—–