دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 16
قرآن حق و باطل کا پیمانہ
مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ 15 ویں قسط کے لیے کلک کریں
جس طرح ہر چیز کو ناپنے کا ایک پیمانہ ہوتا ہے جس سے اس کی صحیح مقدار و کیفیت معلوم ہوتی ہے اسی طرح حق و باطل کا پیمانہ قرآن ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ آیت ۱۸۵ سورۂ فرقان کی آیت ۱؍ میں قرآن کی ایک صفت فرقان بیان فرمائی۔
یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن نے جس طرح حق کو بیان کیا ہے اسی طرح باطل کی نشاندہی بھی کی ہے تاکہ دنیا کے انسان قرآن کے پیش کردہ حق کی پیروی کرسکیں، اور قرآن کی نشان دہی کردہ باطل سے بچ سکیں۔ ایک مسلمان کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کے بیان کردہ حق کو جانیں اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ قرآن کے بتلائے ہوئے باطل کو جانے۔ کیوں کہ بعض وقت آدمی حق و باطل کو نہیں جاننے کے نتیجہ میں حق کی مخالفت اور باطل کی حمایت کر بیٹھتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے آج بہت سے مسلمان قرآن پر ایمان رکھنے کے باوجود قرآن کے بتلائے ہوئے حق کی ، باطل سمجھ کر مخالف کررہے ہیں، اور قرآن کے بتلائے ہوئے باطل کی، حق سمجھ کر حمایت کررہے ہیں۔ ایک مضمون میں حق و باطل کے زمرے میں آنے والی تمام باتیں پیش نہیں کی جاسکتی ، بطور نمونہ حق و باطل کے چند بنیادی اصول بیان کئے جارہے ہیں۔ جن سے حق و باطل کی بہت سی باتیں معلوم ہوسکتی ہیں۔ قرآن نے دین اسلام سے متعلق سب سے پہلا اصول یہ بیان فرمایا کہ اللہ کے نزدیک حق اور پسندیدہ دین صرف اسلام ہے اور ہر دور میں حق و پسندیدہ دین اسلام ہی رہا ہے او ر اسلام ہی رہے گا۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الاِسْلَامْ ۔(آل عِمران آیت ۱۹)(یعنی بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔)دینِ اسلام ہی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْناً فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ مَنَ الْخٰسِرِیْنَ۔ (یعنی جو اسلام کے علاوہ دوسرا دین تلاش کرے گا تو ہر گز اس سے قبول نہ کیا جائے گا ۔ اور اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا)
چنانچہ اس اصول کا تقاضہ ہے کہ حضرت آدمؑ سے لے کر قیامت تک دینِ حق صرف اسلام ہی ہے، اسلام کے علاوہ جتنے بھی ادیان و مذاہب ہیں وہ سب کے سب باطل و جھوٹے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اگر کوئی شخص اسلام کے علاوہ بھی کسی دین و مذہب کو حق سمجھتا ہے تو وہ باطل عقیدہ میں مبتلاء ہے۔ ساتھ ہی اس سے با طل پرستوں کے وضع کردہ اُصول ’’سرودھرم سمبھاؤ‘‘ کے پورے طور سے تردید ہوجاتی ہے۔قرآن نے دین اسلام سے متعلق دوسرا اصول یہ بیان کیا کہ اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے۔ انسانی زندگی کاکوئی گوشہ و مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں دین اسلام کی رہنمائی موجود نہ ہو، چنانچہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اَلْیَوْمَ اکْملْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی رَرَضِیْتُ لَکُمُ الِاسلَامَ دِیْنًا(مائدہ آیت ۱۰)(یعنی آج میں نے تمہارے لیے تمہار ا دین مکمل کردیا ہے اور میری نعمت تم پر پوری کردی اور میں راضی ہوا تمہارے لیے دین اسلام ہو) اور اللہ تعالیٰ نے صرف اسلام کی تکمیل کے اعلان و بشارت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تمام اہل ایمان کو حکم دیا کہ اسلام میں پورے طور پر داخل ہوجائیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : یٰٓاَیُّھْا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ ادْخُلُوْافِی السِّلْمِ کَافَۃً (بقرۃ)یعنی اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ) اس حکم کاتقاضہ یہ ہے کہ ایک ایمان والے کی انفرادی، اجتماعی ، معاشرتی اورسیاسی زندگی اسلام کے مطابق ہونی چاہیے ۔ اس اصول سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر کوئی شخص دین اسلام کو صرف دل کے عقیدہ و انفرادی زندگی تک محدود سمجھتا ہے اور سیاست وحکومت کے شعبہ میں اپنے آپ کو اسلام سے آزاد تصور کرتا ہے تو یہ باطل عقیدہ ہے۔ اسلام سیاست و حکومت میں اپنی پیروی کو اس سے بھی زیادہ ضروری قرار دیتا ہے جتنا کہ ایک شوہر اپنی بیوی کو کسی کام سے گھر سے باہر بھیجنے کے بعد اپنی ہی بیوی بنے رہنے کوضروری قرار دیتاہے۔ سیاست و حکومت میں اسلام کی پیروی کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ مسلمان سیاست و حکومت کرتے ہوئے نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ادا کرے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جو سیاست و حکومت کررہا ہے وہ اسلام کے احکام واصول کے مطابق ہو۔کیوں کہ
مسلمان کے لئے جس طرح اسلامی عبادات و ارکان کو قرآن و سنت کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح سیاست و حکومت کو قرآن و سنت کے مطابق انجام دینا ضروری ہے۔قرآن نے دین اسلام کے متعلق تیسرا اصول یہ بیان کیا کہ دور نبویﷺ میں اسلام کی تمام تعلیمات مکمل و متعیّن ہوچکی ہے۔ چاہے و ہ ایمانیات سے متعلق ہوں یا عبادات ، معاشرت، معیشت، معاملات اور سیاسیات سے متعلق ہوں۔ اور یہ اصول قرآن کی اس آیت سے بھی مستبط ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی تکمیل کا اعلان کیا ، اور دیگر آیاتِ قرآنی و احادیث نبوی ﷺ سے بھی مستنبط ہوتا ہے۔ اس اصول کا تقاضہ یہ ہے کہ اب قیامت تک دینی احکام و تعلیمات میں نہ اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ کمی ہوسکتی ہے۔ اور تمام دینی احکام و تعلیمات کا سرچشمہ ومجموعہ قرآن و احادیث صحیحہ ہیں مطلب یہ کہ جتنی باتیں قرآن و احادیثِ صحیحہ میں بیان ہوئی ہیں صرف وہی دین اسلام کا جزو بن سکتی ہیں۔ بغیر قرآن و حدیث کی دلیل کے کوئی بھی بات دین کا جزو نہیں بن سکتی ۔چاہے وہ کتنے ہی بڑے آدمی نے کہی ہو۔ اس اصول کی اہمیت نبی کریمﷺ کی اس حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے جو موطاو مشکوٰۃ میں مذکور ہے آپ ﷺ نے فرمایا : تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّووْ امَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا کِتَابُ اللّٰہُ وَسُنَّۃَ رَسُولِہِ(یعنی میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺکا طریقہ ہے) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر کوئی شخص قرآن و حدیث کو مضبوط نہ پکڑے تو وہ گمراہی کا شکار ہوجائے گا۔