کچھ یادیں ،کچھ باتیں
بخاری شریف کا بے مثال خادم
حضرت شیخ عبدالحق اعظمی نوراللہ مرقدہ
(۱۹۲۸ء/۱۳۴۷ھ۔۔۲۰۱۶ء/۱۴۳۸ھ)
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
07207326738 Mob:
دارالعلوم دیوبند اخلاص کا تاج محل ہے ،اس کی پوری دنیا میں ایک پہچان ہے ، یہ تعلیم و تحریک کا ایک مضبوط ادارہ ہے جہاں ا نسان کی فکر و نظر میں بلندی ا ور علم و عمل میں بالیدگی آتی ہے ، یہ وہ چشمہ صافی ہے جہاں تشنگان علوم نبوت ، علوم و معرفت کی پیاس بجھاتے ہیں ، یہ فکر و فن کا وہ آفتاب ہے ،تاریکیاں جہاں اجالا تلاش کرتی ہیں اور اس کی روشنی میں لو گ راہ ہدایت پاتے ہیں ۔
اس ادارے کی بنیاد اخلاص و تقوی پر رکھی گئی ہے یہی یہاں کی گنجہائے گراں مایہ ہے ، یہی جوہر خاص یہاں کی شان اور یہاں کی خاص پہچان ہے ۔اس کی بنیاد کو دیکھئے ، اس کے بانیوں اور سرپرستوں کو دیکھئے اور یہاں کے اساتذہ پر نظر دوڑائیے جو چیز یہاں نمایاں نظر آئیگی وہ اخلاص و تقوی کی خمیر سے تیاراصحاب عزیمت کا گروہ ہے ۔
دارالعلوم دیوبندکے جگمگاتے ستاروں میں ایک نام استاذ الاساتذہ شیخ عبدالحق اعظمی کاہے، جن کو ہم لوگ’’شیخ ثانی ‘‘کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔شیخ صاحب ۱۹۲۸ء میں اعظم گڑھ کے ایک گاؤں جگدیش پور میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی ،متوسطات کی تعلیم مؤاو رتعلیم کی تکمیل دارالعلوم دیوبند میں کی ۔دارالعلوم میں آپ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ (۱۸۷۹ء ۔ ۱۹۵۷ء)ہیں جن کو اللہ تعالی نے وہ قلب وجگر عطا فرمایا تھا کہ جو بھی اس بھٹی میں تپتا تھا کندن بن کر نکلتا تھا ، اللہ نے آپ میں وہ تاثیر رکھی تھی کہ جس نے بھی آپ کی صحبت اختیار کی وہ ایسی روشنی لے کر نکلا جس سے پوری دنیا میں روشنی بکھیر دی ،ماضی قریب میں جن بزرگ شخصیت کا فیض بہت زیادہ جاری ہوا ہے ان میں شیخ الاسلام کا نام بہت نمایاں ہے ۔آپ کے دیگر اساتذہ میں مولانا اعزاز علی صاحب امروہوی(۱۸۸۲ء ۔۱۹۵۴ء) ، علامہ ابراہیم بلیاوی (۱۸۸۶ء ۔۱۹۶۷ء) اور مولانا فخر الحسن(۱۹۰۵ء ۔ ۱۹۰۸ء) وغیرہ ہیں ۔
فراغت کے بعد آپ نے مطلع العلوم بنارس سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور قریب ۱۶ سال آپ نے اس ادارے اور اس علاقے کو اپنے علمی فیضان سے مستفید کیا ، اس کے بعد دارالعلوم مؤ میں تقریبا ۱۴ سال تک علم حدیث کا چراغ روشن کیا ، بعدہ آپ بحیثیت شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے اور ۳۴ سال تک بخاری شریف کی نغمہ سرائی کرتے رہے بالآخر ۸۸سال(ہجری سال کے اعتبار سے ۹۱سال) کی عمر میں علم و عمل کایہ تابندہ سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا اور اور اپنی آواز اور اپنی لے سے قال اللہ و قال الرسول کی صدا بلند کرنے والا ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا ۔
وہ چراغ علم ہے اور خاک کی آغوش ہے
آہ!وہ طوفاں ہمیشہ کے لئے خاموش ہے
موت تو ایک ایسی حقیقت ہے ،جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے اور یہ وہ مرحلہ ہے جس سے دنیا میں ہر آنکھ کھولنے والے کو گزرنا ہے ، کوئی چاہے کتنا ہی بڑا طاقت ور کیوں نہ ہو ، دولت مند یا علم و فضل کا مالک کیوں نہ ہو اپنی موت کو نہیں ٹال سکتا ہے، اس لئے جانے والے پر کتنا غم کیوں نہ ہو، صبر و تسلی ہو ہی جاتی ہے ،یہ قدرت کا قانون ہے ، اللہ تعالی صبر و سکون نصیب کردیتے ہیں اور دل مضطر کو قرار آہی جاتا ہے ؛لیکن بعض جانے جانے والے، دل کے اس نہاں خانے میں ہوتے ہیں کہ ہزار تسلی کے باوجود غم کا زخم ہلکا نہیں ہوتا اور ان کی یادیں اور ان کی باتیں غم کے زخم کو ٹیس دیتی رہتی ہیں ۔
یہ کون اٹھا محفل ہستی سے عزیزو!
خورشید جہاں تاب بھی خوں نابہ فشاں ہے
لمبا قد ،گہرا رنگ ،کشادہ پیشانی ،لمبی اور گھنی سفید داڑھی ،آنکھ پہ عینک ،سر پہ گول ٹوپی ،جبہ نما کرتا ،کاندھے پر رومال اور ہاتھ میں عصاء لے کر جب طلبہ کے جھرمٹ کے ساتھ دارالحدیث کی طرف آتے تو بہت ہی باوقار اور با رعب معلوم ہوتے ،حدیث میں ہے کہ اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جن کو دیکھ کر خدا کی یاد آجائے ۔یقیناًآپ خدا کے پسندیدہ بندے تھے اس لئے کہ آپ کو دیکھ کر خدا کی یاد آجاتی تھی ، آپ خدا ترس اور خدا رسیدہ بندوں میں سے تھے ۔ اللہ تعالی نے آپ کے اندر ایسی جاذبیت او رکشش رکھی تھی کہ کوئی بھی آپ کو دیکھ کر مرعوب و متأثر ضرور ہوجاتا تھا ،ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
حضرت شیخ کی زندگی گوناگوں صفات و خصوصیات کی حامل تھی ،آپ اسلاف کی روایات کے امین تھے ، تقوی و طہارت ،انابت الی اللہ ، عاجزی و انکساری ، تواضع و مسکنت ،فنا فی اللہ اور فکرِ آخرت سے معمور اور ان جیسی بہت سی قدسی صفات اوصاف سے متصف تھے، آپ کے علم و عمل میں پختگی ، فکر و نظر میں بلندی تھی ، آپ کی زندگی تکلفات سے خالی اور تصنعات سے عاری تھی ،مزاج میں سادگی ایسی تھی کہ ہر چیز سے نمایاں تھی ، آپ کے حجرے میں معمولی قسم کا بستر بچھا رہتاتھااور چاروں طرف کتابیں سجی ہوئی تھیں گویا آپ بزبان حال یہ کہ رہے ہوتے تھے۔
نکہت گل میری دہلیز پہ کیا ٹہرے گی
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
اخلاص و تقوی
حضرت شیخ کی زندگی میں جو صفت نمایاں تھی ،وہ ان کا خلوص و تقوی تھا اور اس تقوی کے لوازمات اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی صفات مثلا سادگی ، تواضع و انکساری ، عاجزی و مسکنت اور خلق خدا کے ساتھ محبت ؛یہ سب صفات آپ کے اندر پائی جاتی تھیں، اللہ تعالی نے آپ کو قبولیت اور محبوبیت کی صفت سے مزین فرمایا تھا۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل سے کہتا ہے میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی محبت کرو ، تو جبرئیل اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں اور فرشتوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، تم لوگ بھی اس سے محبت کرو اس طرح سارے فرشتے اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں اور یہ محبت زمین پر اتار دی جاتی ہے تو زمین کے بندے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔غور فرمائیں پورے ہندوستان میں حضرت شیخ کی جو مقبولیت ومحبوبیت تھی وہ اسی انداز کی تھی ۔آپ کی تدریسی زندگی کو دیکھئے ،مطلع العلوم بنارس ہو یا دارالعلوم مؤ ہر جگہ آپ کی بے پناہ مقبولیت تھی اور کہیں بھی لوگ آپ کو چھوڑنے کے لئے کسی قیمت پر تیار نہ تھے ،جیسا کہ حضرت پرلکھی گئی بعض تحریروں سے پتہ چلتا ہے ،یہاں تک کہ دارالعلوم دیوبند میں سانس نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا ،ورنہ دارالعلوم کی سر زمین بھی کبھی آپ سے جدائی گوارہ نہ کرتی ،یہ سب من جانب اللہ مقبولیت و محبوبیت کا حصہ ہے اس طرح کی مقبولیت بہت کم بندگانِ خدا کا نصیبہ بنتا ہے ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
بخاری شریف کی خدمت
اسی عند اللہ قبولیت کا حصہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ بخاری شریف کی خدمت کا ایک طویل عرصے تک موقع عنایت فرمایا ،امام محمد کے متعلق لکھا گیاہے کہ ان کی وفات کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا تو ان سے معلوم کیا کہ کیا معاملہ پیش آیا ، امام محمد نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے معاف فرمادیا اور کاندھے پر ہاتھ رکھ کرفرمایا کہ اے محمد! اگر میں تم سے محبت نہ کرتا تو تمہیں اتنے عرصے تک دین کی خدمت کی توفیق نہ دیتا ۔حضرت شیخ کی اس طویل عرصے تک بخاری کی خدمت ان کے لئے بہت بڑی سعادت ہے اور یقین ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کے اسی عمل کے بدلے آپ کی بخشش فرمادی ہوگی ۔حضرت شیخ کے انتقال کے بعد اردو اور عربی میں بہت سے اصحابِ قلم نے آپ کی حیات و خدمات پر خامہ فرسائی کی ہے، انہیں شہسوارانِ قلم میں ایک نام مولانا محمد شاکر قاسمی، مدنی کا ہے، انہوں نے حضرت کی زندگی پر مفصل اور معلوماتی مضمون قلم بند کیا ہے جو الفرقان کے شمارہ اپریل۲۰۱۷ء میں شائع ہوا اس میں انہوں نے بخاری شریف کے متعلق بڑی اہم بات لکھی ہے کہ آپ فراغت کے فورا بعد ہی شیخ الحدیث بن گئے تھے اور تدریسی زندگی کا آغاز مطلع العلوم میں بخاری شریف سے ہوا تھا ،پھر دارالعلوم مؤ اور دارالعلوم دیوبند میں بھی بخاری کی خدمت کا موقع ملا اس طرح آپ نے ۶۴سال بخاری شریف کی خدمت کی ۔یہ وہ عظیم سعادت ہے جو آپ کو معاصرین پر امتیاز و تفوق عطا کرتی ہے، مولانا شاکر صاحب حضر ت شیخ کے داماد ہیں اس لئے صاحب البیت کی حیثیت سے ان کی بات بہت وزن دار ہے اور قابل اعتماد ہے ۔
ختم بخاری شریف کا درس
بخاری شریف کی خدمت کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ آپ پورے ہندوستان میں ختم بخاری کے لئے تشریف لے جاتے ،جس شخص نے ۶۴ سال تک بخاری کا درس دیا ہو آپ ان کے شاگردوں کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں ،اور اگر اس میں ان شاگردوں کا اضافہ کردیا جائے جن کو آپ نے بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس اور سند اجازت دے کر شرف شاگردی عطا کی ہے تویقین جانئے کہ یہ تعداد بہت بڑھ جاتی ہے اور شاید شاگردوں کی اتنی بڑی فوج آپ کے معاصرین میں کسی کو نصیب نہ ہوئی ہو اور یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے بلکہ حقیقت کا بیان ہے ۔
آپ کا درسِ ختم بخاری بھی بہت مقبول تھا ،دارالعلوم دیوبند کے علاوہ چار، پانچ مرتبہ آپ کے درس ختمِ بخار ی میں شرکت کا موقع ملا دارالعلوم حید رآبادمیں آپ میرے سامنے تین مرتبہ تشریف لائے ،جب بھی آپ کے آنے کا اعلان ہوتا تو مجمع میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا تھا ۔ختم بخاری کے اجلاس میں تین قسم کے لوگ شریک ہوتے ہیں، علماء ، طلبہ اور عوام الناس جن میں مردوں کے ساتھ خواتین کی بھی بہت بڑی تعداد ہوتی ہے، آپ کی تقریر میں تینوں قسم کے لوگوں کی رعایت ہوتی تھی ،پہلے آپ امام بخاری اور آخری حدیث کے تعلق سے پر مغز اور معلوماتی خطاب کرتے تھے ،جس میں امام بخاری کی چوکڑی کا تذکرہ ضرور ہوتا تھا ،جو حضرات ،حضرت کے درس ختم بخاری میں شریک ہوئے ہیں وہ امام بخاری کی چوکڑی سے واقف ہوں گے ،میں یہاں طوالت کی وجہ سے اسے ذکر نہیں کر رہا ہوں، اس کے بعد آپ طلبہ سے خطاب فرماتے ،جس میں طلبہ کو دینی کاموں میں لگنے اور توکل کی نصیحت فرماتے اور استغناء کی تعلیم دیتے ہوئے اس پر زور دیا کرتے تھے کہ رزق کی فکر مت کرنا ،جو رزق تمہارا مقدر ہے ،وہ تمہیں ہر حال میں مل کر رہے گا اور واقعات سے اس کو بہترین انداز میں سمجھاتے، اخیر میں عوامی تقریر ہوتی جس میں خواتین و مرد حضرات کے لئے آپ قیمتی اور مفید باتیں بیان کرتے گویا آپ کی تقریر سے کوئی بھی نامراد نہیں جاتا تھا ؛بلکہ ہر کوئی مطمئن اور خوش ہوکر جاتا ،یہی آپ کے خطاب کی مقبولیت کا راز تھا
تیری زباں پہ پھول تھے درہائے تابدار
تیرے بیاں پہ فن خطابت کو ناز تھا
خطابت کی سحر آفرینی
حضرت کا خطاب بھی درس کی طرح بہت مقبول تھا ، آپ خطابت کے عظیم شہسوار تھے ، آپ کا اخلاص و تقوی جس کا اوپر تذکرہ گزر چکا ہے ،آپ کے وعظ و تقریر میں بھی دکھائی دیتا تھا ، آپ کے سفر کا مقصد ہی اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا تھا اسی لئے تکلیف و مشقت کے باوجود سفر کے لئے آمادہ ہوجاتے تھے ،آپ کی آواز میں بلاکی چاشنی و شیرینی تھی ، خطابت کے ہر ہنر سے آپ خوب واقف تھے، الفاظ کی رعایت ، زبان کی صفائی و سہل بیانی ،واقعات سے مسائل کا انطباق ؛ان سب چیزوں سے آپ کی خطابت میں جان پیداہوتی جاتی تھی اور ان سب پر مستزاد آپ کا اخلاص و سوزدروں ،جس نے آپ کو قبولیت کے افق پر پہنچا دیا تھا ۔
سینے میں اس کے درد تھا اور وہ بھی لازوال
اس درد لازوال کا درماں چلا گیا
حضرت کے ساتھ ایک یاد گار سفر
کہتے ہیں کہ انسان سفر میں پہچانا جاتا ہے، اگر کسی کی ذاتی زندگی او راس کے اخلاق و عادات کا جائزہ لینا ہو تو اس کے ساتھ سفر کرکے دیکھئے ،ا حقر کو حضرت کے ساتھ دو مرتبہ سفر کی سعادت ملی ہے ، میرا وطن بھاگلپور بہار ہے ، بھاگلپور میں ایک قدیم مدرسہ ہے اصلاح المسلمین یہاں ۲۰۰۷ء میں دورۂ حدیث قائم ہوا اور افتتاح بخاری کے لئے حضرت کو مدعو کیاگیا ،میں خود دعوت دینے کے لئے گیا تھا حضرت نے قبول فرمالیا اور سفر شروع ہوا ،لیکن منزل تک پہنچے بغیر ہم لوگ واپس آگئے اس سفر کی پوری تفصیل میں نے د ارالعلوم کے دیواری پرچہ میں’’ بھاگل پور کا ناکام سفر‘‘ کے عنوان سے کی تھی اور حضرت کو بھی پڑھ کر سنایا تھا، حضرت بہت خوش ہوئے دعائیں دیں اور فرمایا’’مولی صاحب تم تو لکھاڑ معلوم ہوتے ہو‘‘ اس سفر نامہ کا بعض حصہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں
۱۹/شوال ۱۴۲۷ھ مطابق ۱/ نومبر ۲۰۰۷ء کو سوپر جالندھر سے حضر ت کی رفاقت میں ایک تاریخی سفر کا آغاز ہوا میں انتہائی خوش تھا ،لیکن اس خوشی کو الفاظ کا جامہ پہنا کراس پر خامہ فرسائی نہیں کرسکتا ، میں دل ہی دل مگن تھا کہ ایک عظیم المرتبت انسان کے ساتھ سفر کی سعادت میرے نصیب میں آئی
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
حضرت کے ساتھ رفاقت و قربت کی یہ عجیب ، اتفاقی اور انوکھی تجویز تھی کہ صرف میں تھا اور میرے شیخ اور میرے لئے اکتساب فیض کا بہترین انتظام خدا وندی، اس لئے میں دل ہی دل کہ رہا تھا
پیوں گا آج ساقی سیر ہو کر
میسر پھر شراب آئے نہ آئے
دہلی پہنچ کر ہم لوگ وکرم شیلا اکسپریس میں سوار ہوگئے ،ٹرین چلنے کے بعد حضرت نے نماز پڑھی، نمار کے بعد کھانا تناول فرمایا اور آرام کرنے لگے میں سامنے والی سیٹ پر بیٹھ کر حضرت سے باتیں کرتا رہا حضرت نے مجھ سے سوال کیا جمع بین الصلاتین کے سلسلے میں علامہ شامی کی کیا تحقیق ہے، میں ضعف حافظہ کی بنا پر جواب نہ دے سکاپھرحضرت نے خود جواب دیا کہ عذر کی صورت میں ان کے یہاں جمع بیں الصلاتین جائز ہے ۔
وقت بڑی برق رفتاری سے گزرتا رہا ، مغرب کی نماز پڑھ کر میں خیالات میں گم تھا کہ میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ یہ سعادت میرے حصے میں آئی ،تاریخ اس کو یاد رکھے گی ، گاؤں میں چرچے ہو رہے ہوں گے ، لوگ حضرت کی زیارت کو مضطرب اور بے چین ہوں گے، منتطمین اجلاس اپنی قسمت پر نازاں و فرحاں ہوں گے کہ ایک ولی کامل ،شیخ الحدیث کا قیام ان کے مدرسے میں ہوگا اور میں اپنی تقدیر پر فخر کرہا تھا کہ حضرت کی خدمت میرے حصے میں آئی اور نہ جانے کتنی آرزوئیں اور تمنائیں میرے دل میں انگڑائیاں لے رہی تھیں ،گویا میں تمناؤں کی پگڈنڈیوں پر محو سفر تھا اور راستہ میں مجھے نیند آگئی ۔الہ آباد کے قریب پہنچا تھاکہ حضرت نے بیدار کیا کیا اور فرمایا ابھی قاری عثمان صاحب (حضرت مولانا قاری عثمان صاحب استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیۃ علماء ہند)کا فون آیا تھا کہ کل بہار بند ہے اس لئے آپ مغل سرائے اتر جائیں ۔
مسلسل تین دن کی تھکاوٹ کے بعد یہ پہلی مرتبہ نیند آئی تھی اور وہ بھی اے سی کلاس میں ،لیکن حضرت کی اس اطلاع سے وہ نیندتو گئی ہی، ذہن و دماغ پر غیر معمولی چوٹ لگی، خوابوں کاساراشیش محل وہیں مسمار ہو گیا اور آرزوئیں چکنا چور ہوگئیں ، عقل اپنی قوت پرواز کھو رہی تھی تین بجے رات مغل سرائے پہنچے اور اتر کر یہ احساس ہوا کہ
ہوتا نہیں کچھ نالۂ و فریاد سے حاصل
ہوتاتو وہی ہے جو مقدر میں لکھا ہے
مغل سرائے سے ہم لوگ بنارس آگئے یہاں آپ کے ایک میزبان کے گھر قیام کیا اور رات کاکھانا تناول کرنے کے بعد میں آرام کر رہا تھا کہ یکایک میرے خیالوں میں تبدیلی آئی کہ یہ بھی خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے کہ حضرت کے ساتھ مسافرت و خدمت کی مدت طویل ہوگئی ، بنارس میں دو پہر کا کھانا کھانے کے بعد حضرت کے وطن مالوف اعظم گڈھ کے لئے روانہ ہوگئے رات ساڑھے سات بجے ہم نے اس دیار اور اس قریہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور اس مقدس کاشانہ میں قیام کیا جس کی زیارت کی لوگ تمنائیں کرتے ہیں ۔میں یہ سوچتا رہا کہ زندگی کی کچھ ساعتیں مبارک ہوا کرتی ہیں ان مبارک ساعتوں میں آج کی رات یقیناًلائق تحسین ہے، رات کا کھانا کھایا عشاء کی نماز پڑھی اور حضرت کے پہلو میں علحدہ چار پائی پر آرام کرنے لگا،رات بھر وہ روحانی اور نورانی کیفیت محسوس ہوئی جو معرض تحریر میں نہیں لاسکتا اور لذت آشنا رات کبھی نہیں بھول سکتا ۔
وہ سفر تو ناتمام ہوگیا تھا ،لیکن منتظمین نے دوبارہ ختم بخاری کے لئے دعوت دی اور حضرت تشریف لے گئے اور باوجود سفر کی صعوبتوں کے بہت خوش ہوئے ،دونوں سفر میں جو چیز میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ حضرت نماز کا حد درجہ اہتمام فرماتے تھے اگر جماعت سے نماز ممکن ہو تو ٹھیک ہے ورنہ اپنی قیام گاہ پر اول وقت میں نماز پڑھ لیاکرتے تھے اور ذرا سی بھی اگر تاخیر ہوجائے تو اپنے اندر بے چینی محسوس کرتے تھے، حضرت کی یہ عادت اور کیفیت میں نے دارالعلوم حیدرآباد میں بھی دیکھی ۔دوسری چیز یہ تھی کہ سفر میں آپ لوگوں کے ساتھ بڑے ہی نرمی اور محبت سے بات کرتے تھے، دارلعلوم میں تو کبھی کبھی ڈانٹتے ہوئے بھی دیکھاگو وہ تربیت وشفقت کا حصہ ہوتا تھا، لیکن دوران سفر ٹرین میں اور جائے قیام عوام الناس کے ساتھ بہت ہی محبت سے پیش آتے اور اخلاق کا اعلی نمونہ پیش فرماتے تھے ۔تیسری چیزیہ تھی کہ آپ خادموں کا حد درجہ خیال فرماتے تھے اور دسترخوان پر ضروریاد کرتے، اپنے ہاتھ سے کھانے کی چیزیں عنایت کرتے اور خوب کھانے کی تلقین کرتے تھے، ایک جگہ دسترخوان پر آپ نے مجھ سے فرمایا ’’مولوی صاحب میں تو بوڑھا ہوگیا ہوں زیادہ نہیں کھا سکتا تم تو جوان ہو تم کھاؤ تم کیوں نہیں کھاتے ‘‘ چوتھی چیز یہ تھی کہ آپ عوام الناس کے تقاضے حتی الامکان پورا کرتے کوئی تعویذ کے لئے کہتا توتعویذ دے دیتے ،کوئی کہتا حضرت ہمارے یہاں تھوڑی دیر تشریف لے چلیں تو اس کی خواہش کا احترام کرتے اور چلے جاتے ۔بات نکلی ہے تو عرض کردوں جب میں بخاری کے اجلاس کے لئے حضرت کو اپنے گاؤں لے کر گیا تو بہت خواہش کے باوجود میں حضرت کو اپنے گھر لے کر نہیں جا سکا، اس لئے کہ میرا گھر دوسری منزل پر ہے اور اس وقت سیڑھی پر گریل نہیں تھا حضرت کو اوپر چڑھنے میں بہت تکلیف ہوتی اس لئے دل میں خیال لاتا اور ترک کردیتا ،لیکن جب واپسی ہوئی تو حضرت نے فرمایا ’’ابے تم تو بہت بخیل ہو اپنے گھر بھی نہیں لے کر گئے ‘‘ حضرت کا یہ جملہ شفقت کے طور پر تھا اور محسوس ہوا کہ آپ میرے مکان پر جانا چاہتے تھے لیکن جب میں نے اپنا عذر پیش کیا تو آپ خاموش ہوگئے ۔
قوت حافظہ
حضرت کا حافظہ بہت مضبوط تھا ، محدثین نے لکھا کہ حدیث پڑھانے اور بیان کرنے والوں کے لئے قوت حافظہ بہت ضروری ہے، اس اعتبار سے میں سمجھتا ہوں کہ حضرت کو بخاری پڑھانے کا پورا حق تھا جو انہوں نے ادا کیا ،میں نے کئی مرتبہ محسوس کیا کہ آپ کا حافظہ بہت اچھا ہے ، دارالعلوم حیدرآباد آنے کے بعد کئی سال تک حضرت سے ملاقات نہیں ہوئی جب حضرت ختم بخاری کے لئے یہاں تشریف لا رہے تھے تو ایرپورٹ پر لینے کے لئے میں بھی گیا تھا ،میں نے حضرت کو فون کیا اور اپنا نام بتایا تو بلا توقف کے پہچان گئے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، عمر کی آٹھ دہائی پار کرنے کے بعد ایک شخص جو روزانہ مختلف لوگوں اور طلبہ کے ہجوم میں رہتا ہے اسے عام طور پر لوگوں کا نام یاد نہیں رہتا ہے یہ بندے کا ذاتی تجربہ بھی ہے، اس لئے میں اسے آپ کے قوت حافظہ کی دلیل مانتا ہوں ، آپ کا اکثر معمول یہ تھا کہ ملاقات پر بہت قدیم اور پرانے شناساؤں کے بارے میں استفسار کرتے تھے جن سے آپ نے چالیس پچاس سال قبل ملاقات کی تھی یہ بھی آپ کے قوی الحفظ ہونے کی علامت ہے ۔
دعا کی سحر طرازی
حضرت کی دعاؤں میں بڑی تاثیر تھی ، حدیث میں آتا ہے کہ دعا اس طرح مانگو جس میں عبدیت اور عاجزی کا اظہار ہو حضرت کی دعاؤں میں عاجزی و الحاح و زاری بہت پائی جاتی تھی ، آپ بہت رقیق القلب تھے اس لئے دعا میں خود بھی روتے تھے اور سب کو رلاتے تھے دارالعلوم میں ختم مسلسلات پر آپ کی دعا بہت مشہور تھی، آپ طلبہ کے لئے بھی کثرت سے دعا مانگا کرتے تھے جس میں خاص طور پر یہ کہا کرتے تھے’’ اے اللہ ان بچوں کو آفتاب و ماہتاب بنا دیجئے ‘‘آپ اس طرح دعا کراتے کہ سخت دل انسان بھی روئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا ،جلسوں اور ختم بخاری کے پروگراموں میں بھی بہت لجاجت سے دعا کیا کرتے تھے، اب ہم سب کا فرض رہ جاتا ہے کہ جس انسان نے اپنی پوری زندگی ہمارے لئے دعا کی اب ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یاد کریں ، اللہ تعالی آپ کو غریق رحمت کرے ،آپ کے درجات بلند فرمائے ، آپ اللہ کے نیک بندوں میں تھے اس لئے کہ اللہ کے بندوں کی نگاہ میں آپ نیک تھے مشہور ہے کہ زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو ، اللہ تعالی کروٹ کروٹ آپ کو چین و سکون نصیب فرمائے ۔
یہ کون اٹھا کہ دیر و کعبہ شکستہ دل ،خستہ جام پہنچے
جھکاکے اپنے دلوں کے پرچم خواص پہنچے ،عوام پہنچے
تیری لحد پہ خدا کی رحمت ، تیری لحد کو سلام پہنچے
(سورش کاشمیری)