اوراق کا اشاریہ (آغاز سے اختتام)
مصنف :۰۰ڈاکٹر محمود احمد اسیر
مبصر : ڈاکٹر تہمینہ عباس
صفحات :۲۵۴۰۰، ۰قیمت:۵۰۰روپے
ناشر:مثال پبلشرز، رحیم سینٹر مارکیٹ، امین پور، فیصل آباد
اشاریہ سازی ایک علمی اور تحقیقی کام ہے۔ علمی کتابوں، جرائد اور مقالات کی اشاریہ سازی کا مقصد محققین کو سہولت بہم پہنچانا بھی ہوتا ہے۔ علمی کاموں کی اشاریہ سازی دراصل ان مآخذات کی جمع آوری، درجہ بندی، ترتیب و تدوین اور ان کے ایسے باقاعدہ اندراج کا نام ہے جس سے مطلوبہ مواد کی آسانی کے ساتھ اور کم وقت میں نشان دہی ہوسکے۔ اشاریے سے محققوں کا وقت، محنت اور اخراجات کی بھی بچت ہوتی ہے اور مطلوبہ مواد کی تلاش میں پیش آنے والی الجھن سے بھی اشاریے کی وجہ سے بچا جا سکتا ہے۔
ادبی رسائل میں ’’ اوراق ‘‘ کا نام امتیازی حیثیت کا حامل ہے جس نے کئی اصنافِ ادب کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ’’اوراق کا اشاریہ (آغاز سے اختتام)‘‘ کے مصنف ڈاکٹر محمود اسیر ہیں۔ اس کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر انور سدید کا کہنا ہے کہ ’’اوراق کا اشاریہ‘‘ اردو ادب کی تاریخ کے مختلف گوشوں پر، پر از معلومات رکھنے والی ایک اہم، معتبر اور مستند اوّلین دستاویز ہے۔ یہ ایک نہایت مستند اور اپنی تنقیدی جہت میں مثبت زوایۂ نظر کا حامل ہے۔‘‘ ڈاکٹر محمود اسیر خود اس کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’اوراق کا اشاریہ‘‘ اوراق کے حوالے سے میری طبع شدہ تالیف ’’اوراق کی ادبی خدمات (آغاز سے اختتام) کی تزئین و توسیع ہے۔‘‘
اس کتاب میں ایک ہی موضوع پر اظہارِ خیال کرنے والوں کے نام، مقالات اور مضامین کی فہرست میں الگ الگ کر دیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں ’’اوراق‘‘ کے اہم اور خاص شماروں کے سرورق، ’’اوراق‘‘ میں چھپنے والے مختلف فن کاروں کے فن پاروں، اوراق کی یادیں، رفتگاں اور برعظیم پاک و ہند کے ممتاز لکھاریوں کی تصاویر کو ’’البم اوراق‘‘ سے زیرِ نظر تالیف کا مستقل حصہ بنا دیا گیا ہے تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائیں۔
’’اوراق کا اشاریہ‘‘ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اوّل کا پہلا مضمون ’’اوراق اور اوراق کا اشاعتی سفر‘‘ ہے۔ مصنف نے ’’اوراق‘‘ کے دور کو دو ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور جنوری ۱۹۶۶ء تا جون جولائی ۱۹۷۰ء، دوسرا دور مارچ اپریل ۱۹۷۲ء تا نومبر دسمبر ۲۰۰۵ء ہے۔ اس مضمون میں مصنف اوراق کی اشاعت کا سال، مہینہ، شمارہ نمبر، جلد نمبر، قیمت، صفحات، سرورق، کتابت و خطاطی، مطبع، مقامِ اشاعت، خصوصیت، ہر ایک کی تفصیل دی ہے۔ نیز اوراق کے اشاعتی سفر پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
حصہ اوّل کے مضامین کے عنوانات بالترتیب یہ ہیں۔ اوراق اور اوراق کا اشاعتی سفر، اوراق اور اوراق کے مباحث، اوراق اور اوراق کے تجزیاتی مطالعے، اوراق اور اوراق کے گوشے / خصوصی مطالعے، اوراق اور اوراق کے انشائیے، اوراق اور ہائیکو، اوراق اور ماھبا، اوراق اور دیگر اصناف (گیت، دوہے، رباعیات، قطعات، فردیات، نعت، دعا، سلام، منقبت، اور مرثیہ وغیرہ) اوراق اور اوراق کے اداریے، اوراق اور جدید علامتی افسانہ، اوراق اور جدید نظم ، اوراق کا اشاریہ، اوراق اور مدیرانِ اوراق (تعارف)۔
حصہ دوم کے مضامین کے عنوانات بالترتیب یہ ہیں؛ اوراق کے اہم شماروں کے سرورق، اوراق کے فن پارے، اوراق کی یادیں، رفتگاں، البم اوراق ، اوراق کے نقاش، اوراق کے خوش نویس، مدیر / مدیرانِ اوراق کا مدفن / سکونت (مدیر اوراق)، عکسِ تحریر (آخری مکتوب) پروفیسر سجاد حسین نقوی۔ وغیرہ وغیرہ۔
اشاریہ کسی بھی موضوع، مضمون یا تخلیق کے وسیع ذخائر کا اشاریہ ہوتا ہے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانوں میں اشاریہ سازی کی روایت رہی ہے تاکہ تحقیق کار کم وقت میں اس سے مطلوبہ معلومات حاصل کر سکیں۔
’’اوراق کا اشاریہ‘‘ میں بھی مصنف نے تحقیقی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ اوراق کے اشاریے کو مختلف موضوعات میں تقسیم کرکے، محققین کے لیے آسانی کر دی ہے۔ اوراق میں شائع ہونے والے افسانے، ناول، مضامین تک ایک عام قاری اس اشاریے کی مدد سے با آسانی پہنچ سکتا ہے۔ مصنف نے اشاریہ سازی کے جدید اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر یہ کتاب ترتیب دی ہے۔ حتیٰ کہ ’’اوراق‘‘ کے سرورق پر شائع شدہ تصاویر کو بھی اس کتاب میں اس نقطۂ نظر سے شامل کیا گیا ہے کہ وہ محفوظ ہوجائیں۔ ۱۹۶۶ء سے ۲۰۰۵ء تک شائع ہونے والے اس اہم اور ممتاز ادبی جرید ے کے حوالے سے ڈاکٹر محمود احمد اسیر کا ایک نمایاں کام ہے۔ امید ہے کہ راہ نوردانِ علم کے لیے یہ کتاب رہنمائی کا اہم ذریعہ ثابت ہوگی۔
—–