منٹو کی ساٹھ سالہ برسی پر منٹو کے تاثرات

Share

mantuu

منٹو کی ساٹھ سالہ برسی پر منٹو کے تاثرات

منٹو ’’بقلم خود‘‘ میں( منٹو کے یادگار افسانے از آصف جاوید نگارشات لاہور مطبوعہ ۱۹۹۹) یوں رقم طراز ہیں۔۔۔
ہم اکھٹے پیدا ہوئے ہیں اور اکھٹے ہی مریں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور ہمیشہ مجھے یہ اندیشہ بہت دکھ دیتا ہے اس لئے اس کے ساتھ دوستی نبھانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہوگا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور اسکے اندر کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔ لیجیئے اب میں آپکو بتاتا ہوں کہ یہ خر ذات افسانہ نگار کیسے بنا۔ تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں ۔ اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ۔ شوپن ہار۔ فرائیڈ ، ہیگل نٹشے اور مارکس کے حوالے دیتے ہیں۔ مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔

منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اسکے والد خدا انہیں بخشے ، بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل ان دو پاٹوں میں پس کر یہ دانہِ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہوگا اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔
اب میں اسکے اسکول کی طرف آتا ہوں۔ بہت ذہین لڑکا تھا اور بے حد شریر۔ اس زمانے میں اسکا قد زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فٹ ہوگا وہ اپنے باپ کا آخری بچہ تھا۔ اس کو اپنے ماں باپ کی محبت تو میسر تھی لیکن اسکے تین بڑے بھائی جو عمر میں اس سے بڑے تھے اور ولائت میں تعلیم پا رہے تھے ان سے اس کو کبھی مالاقات کا موقع ہی نہیں ملا تھا اس لئے کہ وہ سوتیلے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملیں اس سے بڑے بھائیوں ایسا سلوک کریں یہ سلوک اسے اُس وقت نصیب ہوا جب دنیائے ادب اسے بہت بڑا افسانہ نگار تسلیم کر چکی تھی۔


اچھا اب اسے کی افسانہ نگاری کے متعلق سنیئے۔ وہ اول درجہ کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اِس نے بعنوان ’’ تماشہ ‘‘ لکھا جو جلیاں والا باغ کے کونی حادثہ سے متعلق تھا۔ یہ اس نے اپنے نام سے نہیں چھپوایا یہی وجہ تھی کہ وہ پولیس کی دست برد سے بچ گیا۔
اس کے بعد اسکے متلون مزاج میں ایک لہر پہدا ہوئی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے۔ یہاں اسکا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اُس نے انٹرنس کا امتحان دو مرتبہ فیل ہو کر پاس کیا۔ وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں اور آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ اردو کے پرچہ میں ناکام رہا۔
اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستا ہوں کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی۔ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔ وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں یہی وجہ ہے کہ اسکی تحریروں میں خوبصورت الفاظ کی کمی ہے۔ وہ لٹھ مار ہے لیکن جتنے لٹھ اسکی گردن پر پڑے ہیں اس نے بڑی کوشی سے برداشت کئے۔
میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ منٹو اول درجہ کا فراڈ ہے اسکا مزید ثبوت یہ ہے کہ وہ اکثر کہتا ہے کہ وہ افسانہ نہیں سوچتا۔ افسانے اسے خود سوچتا ہے۔ یہ بھی ایک فراڈ ہے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جب اسے افسانہ لکھنا ہوتا ہے اسکی وہی حالت ہوتی ہے جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ انڈا چھپ کر نہیں دیتا، سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار بیٹھے ہوتے ہیں ، اس کی تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں وہ اپنی مخصوص کرسی پر اکڑوں بیٹھا انڈے دیئے جاتا ہے جو بعد میں چوں چوں کرتے افسانے بن جاتے ہیں۔

Share

One thought on “منٹو کی ساٹھ سالہ برسی پر منٹو کے تاثرات”

Comments are closed.

Share
Share