مولانا آزاد کی فکر اور سیاسی بصیرت
ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی
مولانا ابوالکلام آزاد (1958-1888ء)کو فیاض قدرت نے غیر معمولی صلاحیتیں بخشی تھیں،ادب، صحافت،انشاء پروری ،خطابت،شاعری ،تصنیف و تالیف ،عصری علوم و افکار اور مذہبی علوم و معارف میں وہ مجتہدانہ شان رکھتے تھے۔انھوں نے خدا دا ذہانت ، وسیع مطالعہ اور زبان وقلم کے امتیازی اسلوب اور سحر بیانی سے ملک وملت اور ابنائے وطن کی بہترین قیادت کی ہے ،اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے آزادی کے بعد بھی ملک کی شاندار علمی خدمات انجام دیتے رہے۔
مولانا ابوا لکلام آزاد کی پوری زندگی انتہائی خلوص و درد مندی کے ساتھ ملک و ملت کی رہنمائی کے لئے وقف تھی ،انھوں نے مذہبی و عصری علوم و افکار اور سماجی و سیاسی حالات کا عمیق تجزیاتی و تقابلی مطالعہ کیا۔اور قوم و وطن کی اصلاح کے لئے فکری و عملی قدم اٹھا یا ہے۔
1857ء کی جنگ آزدی کی ناکامی نے ہندوستان میں انگریزوں کے قدم کو مضبوط کردیا ،اور مسلمانوں کی تباہی و تاراجی کی نئی داستاں رقم ہوئی ، دہلی اور اسکے اطراف تقریباً6لاکھ مسلمانوں کا قتل ہوا،ہزاروں علماء شہید کر دئے گئے ، مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ اقتدار کا گہن زدہسورج غروب ہو گیااور انگریزوں کے اقتدار کا سورج دنیا کے بیشتر حصہ پر نصف النہار کی طرح جگمگا نے لگا ،ان حالات میں مسلمان دل شکستہ ہو گئے ، ان پر قنو طیت کی کیفیت طاری ہو گئی ، ایسے موقع پر سر سید کی تحریک نے مسلمانو ں کو کچھ سہارا دیا ، سر سید نے اپنی تحریک کے ذریعہ انگریزوں سے مفاہمت اور وفاداری کا راستہ بتایا، سر سید انگریزوں کی تعلیمی ، صنعتی اور معاشی ترقی سے متاثر تھے ، انھوں نے سمجھ لیا تھاکہ انگریز اس ملک سے جونک کی طرح چمٹ گئے ہیں ، وہ کسی طرح اس ملک کو چھوڑ کر بھاگنے والے نہیں ہیں، اس لئے انگریزوں سے مفاہمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
مولانا آزاد نے ان ہی حالات میں آنکھیں کھولیں ، شروع میں وہ بھی سر سید کی افکارسے متا ثر ہوئے ، لیکن جوں جوں انکا شعور پختہ ہوتا گیا ، انھوں نے سر سید سے ہٹ کر اپنی راہ الگ نکالی ، مولانا آزاد نے قرآن و حدیث ، سیرۃ نبوی ، تفاسیر ، تواریخ عالم اور قدیم و جدید علوم و فلسفہ کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا تھا ، وہ یقین محکم اور عمل پیہم کی دولت سے سر شار تھے ، اس لئے وہ قنو طیت اور مایوسی کا شکار کیسے ہو سکتے تھے ۔
مولانا نے دیکھا کہ مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی حالت نہایت غیر مطمئن ہے،یہ سیاست سے الگ رہنے کی پالیسی پر کاربند ہیں، اسلام سے بھی برائے نام تعلق باقی ہے ، مولانا آزاد غیر ملکی حکومت کے ہلاکت خیز اثرات سے آگاہ ہو چکے تھے ، انھوں نے ان اثرات کو ختم کرنے کا عزم کیا ، انکا سیاسی شعور بیدار ہو چکا تھا، مولانا آزاد نے ’’الہلال‘‘کے ذریعہ مسلمانون کو ایک نئے انداز نے خطاب کیا ، ان کے خیالات ، نقطہ ء نظر اور تحریروں میں جدت تھی ، انکا اسلوب دل کی گہرائیوں میں اتر کر اثر کرنے والا تھا،انھوں نے قدامت پسندی اور باطل پرستی کے قلعہ پر بھر پور حملے کئے ، الہلال مسلمانوں میں مذہبی انقلاب کا داعی اور نقیب بن گیا، اس نے قومی زندگی کے ہر شعبہ میں قرآن مجید کی تعلیم پیش کی ، علماء اور مشائخ بھی ان کی آواز سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔
شیخ الہندمولانا محمود حسن دیوبندی نے کہا :’’ہم سب اصلی کام بھولے ہوئے تھے ، الہلا ل نے یا د دلایا۔‘‘مولانا شوکت علی کہا کرتے تھے:’’ابوالکلام نے ہم کو ایمان کا راستہ دکھا یا ۔‘‘ ڈاکٹر اقبال الہلال کی تحریروں سے بہت متاثر تھے ، ’’اسرارِخودی ‘‘اور’’ رموز بے خودی‘‘ الہلا ل ہی کی صدائے باز گشت ہے۔(ڈاکٹر ادریس احمد ۔آئینہ ء ابوالکلام :27)
مولانا آزاد نے الہلال اور البلاغ میں اگرچہ ہر نوع کے مضامین لکھے، ادبی ،ثقافتی ، تاریخی اور سیاسی موضوعات پر اپنی جولانی ء طبع کے جوہر دکھائے ، مگر آیات قرآنی کی تفسیر اور ان کے موضوع استعمال میں آپ نے جو جدت اختیار کی ، وہ آپ کی مایہ ناز خصو صیت ہے ، آیات کی تفسیر میں آپ نے ایمان افروز تصور پیش کیا ، جو بحث و مناظرہ سے ہٹ کر تمام نوع انسانی کومؤثر ترین اسلوب میں خدا کی سچی تعلیم سے روشناس کراتا ہے ۔
مولانا راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ قو می یکجہتی اور ہند و مسلم اتحاد کے بڑے علم بردار تھے ،گاندھی جی ان کی دیش بھگتی سے بہت متاثر تھے ، ان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ’’ان میں دیش بھگتی اسی طرح پختہ ہے ، جس طرح اسلام میں ان کا عقیدہ ۔‘‘چنانچہ خطبہ ء آگرہ میں آپ نے ارشاد فرما یا تھا:
’’ہندوستان کے لئے ، ہندوستان کی آزادی کے لئے ، صداقت و حق پرستی کے بہتر اور اعلیٰ فرض ادا کرنے کے لئے ، ہندوستان کے ہندو و مسلمان کا اتفاق اور ان کی یکجہتی ضروری ہے۔‘‘
مولانا آزاد قومی یک جہتی کے با لمقابل ملک کی آزادی سے دستبردار ہونے کو تیا ر ہو سکتے تھے ، مگر آپس کے اتحاد اور قومی یک جہتی کو قربان کرنے کے لئے کسی طرح آمادہ نہیں تھے ، وہ ہمارے عدم اتحاد کو عالم انسانیت کا نقصان قرار دیتے تھے ۔
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے مولانا آزاد کا نظریہ یہ تھا کہ ’’میثاق مدینہ ‘‘کی طرز پر بقائے باہم کے اصول کے مطابق امن و امان کے ساتھ وہ پکے مسلمان بن کر ہندوستان میں رہے ،مولانا نے بارہا بڑے فخر کے ساتھ خود کو مسلمان اور ہندوستان کی متحدہ قومیت کا اٹوٹ حصہ قرار دیا ، مولانا نے رام گڑھ کانگریس اجلاس مارچ 1940ء میں اپنے ایک خطبہ میں فرمایاتھا:
’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں ،اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثہ میں ہیں ، میں تیار نہیں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں ، اسلام کی تعلیم ، اسلام کی تاریخ ، اسلام کے علوم و فنون ، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرما یہ ہے ، اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں ، بحیثیت مسلمان میں مذہبی اور کلچرل دائرہ میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں ، اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی اس میں مداخلت کرے ۔ ‘‘(جدید ہندوستان کے معمار :ابولکلام آزاد :155)
مولانا آزاد کا یہ بیان ماضی کی طرح آج بھی اہمیت کا حامل ہے اور آج کے حکمرانوں کے لئے دعوت فکر وعمل ہے کہ وہ مسلمان کی نفسیات ،خصوصیات، مذہبی و تہذیبی شنا خت اور ان کی تاریخی و تہذیبی پس منظر میں ان کے مسائل کا جائزہ لیں اور ان کے مذہبی اور کلچرل دائرہ میں مداخلت کی نا پاک کوشش سے باز رہیں ۔
مولانا مسلمانوں کو پورے فخر و اعتماد اور مساویانہ حقوق کے ساتھ ہندوستان میں رہنے کی ترغیب دیتے ہیں ، اور ہندوستان میں رہائش کا پیدائشی حق خیال کرتے ہیں :
’’اگر ہندو مذہب کئی ہزار برس سے اس سر زمین کے باشندوں کا مذہب رہا ہے ، تو اسلام بھی ایک ہزار برس سے اس کے باشندوں کا مذہب چلا آتا ہے ، جس طرح آج ایک ہندو فخر کے ساتھ کہ سکتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہے اور ہندو مذہب کا پیرو ہے ، ٹھیک اسی طرح ہم بھی فخر کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ ہم ہندوستانی ہیں اور مذہب اسلام کے پیرو ہیں ۔ ‘‘
مولانا کی تعلیمات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بہ یک وقت مسلمانوں کی دینی و سیاسی رہنمائی کو اپنا فریضہ خیا ل کرتے تھے ، وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا رشتہ عملی اور سیاسی زندگی میں قرآن و حدیث اور شریعت مطہرہ سے مضبوط وہ استوار رہے ، انہیں ہندستان میں با وقار اور پر سکون زندگی حاصل ہو ، ان کے اندر خود اعتمادی ، خود آگہی اور خوش اعتقادی پیدا ہو ، وہ ہندوستان میں فخر کے ساتھ رہیں ، اور ہندوستان کی ترقی و خوشحالی میں سر گرم قائدانہ رول ادا کرے ، چنانچہ ایک خط میں انھوں نے اپنے پیغام کو اس طرح واضح کیا ہے:
’’1912ء سے میرع دعوت مسلمانوں کے لئے یہی رہی ہے کہ جہاں تک ملک کی سیاسی جد وجہد کا تعلق ہے ، انہیں بلا کسی شرط کے شریک ہو نا چاہئے ، اور یہ کہہ کر شریک ہونا چاہئے کہ وہ محض ادائے فرض کے لئے شریک ہو رہے ہیں ، اس لئے شریک نہیں ہو رہے ہیں کہ ہندوؤں نے انہیں ان کے مستقبل کی طرف سے مطمئن کر دیا ہے ، مستقبل کے لئے ان کا تمام تر اعتماد اپنی ہمت اور خود اعتمادی پر ہونا چاہئے ، جب تک ان میں یہ احساس باقی رہے گا کہ ان کے حقوق ہیں اور وہ ضائع نہیں ہونے چاہئیں، دنیا کی کوئی طاقت نہیں کہ ضائع کر سکے ۔‘‘(نوادرِ ابولکلام مرتب ظہیر احمد خان ظہیر،30جون 1937ء)
آج مسلمانوں کے دینی مدارس حکومتوں کے نشانہ پر ہیں ، جب کہ ان ہی دینی مدارس کے علماء و فضلاء نے جنگ آزادی کی قیادت کی ، تحریک ترک مولات میں کانگریس ، مولانا آزاد اور مہاتما گاندھی کا بھر پور ساتھ دیا، مدرسہ عالیہ کلکتہ کے طلباء نے شاندار عمارت ، عالی شان ہاسٹل اور بہترین سامان آرائش و آسائش کو محض احکام الٰہی کی پابندی اور سچے ہندوستانی کی حیثیت سے چھوڑ دیا ، ترک مولات کی راہ میں ہر طرح کی تکالیف بر داشت کیں ،بھوک پیاس کی سختی جھیلی اور جاڑے کی طویل راتیں ٹھنڈی زمین پر گزاری ہیں ۔ان طلباء کے لئے مولانا آزاد کی کوششوں سے مدرسہ ء اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا ، اس کی افتتا حی تقریب (13دسمبر1920ء)میں مولانا آزاد کے ساتھ گاندھی جی بھی موجود تھے ، مولا نا آزاد نے مہا تما گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے اس مدرسہ کے طلباء کے دینی و قومی جذبہ کی تعریف کی ، انہیں علم کا حقیقی شیدائی اور خدا کی پاک امانت کا حامل قراردیا :
’’میں آپ کے علم میں یہ حقیقت لانی چاہتا ہوں کہ علم کی اس عام توہین و تذلیل کی تاریکی میں سچی علم پرستی کی ایک روشنی برابر چمکتی رہتی ہے ، یہ ہندوستان کے طالبینِ علم کی وہ جماعتیں ہیں ، جو اسلام کے قدیم مذہبی علوم اور مذہبی زبان کے فنون مختلف عربی مدرسوں میں حاصل کر رہی ہیں ، آپ یقین کیجئے بجا طور پریہی ایک جماعت علم کی سچی پرستار کہی جا سکتی ہے ۔ ‘‘
مولانا آزادنہ صرف ایک مذہبی وقومی رہنما تھے ،بلکہ حقیقت میں وہ ایک آفاقی رہنما اورآفاقی پیغام کے علمبردار تھے ، وہ پوری دنیا سے ظلم و استبداد اور نو آبادیاتی استحصال کا خاتمہ چاہتے تھے ، وہ برٹش گورنمنٹ کو نہ صر ف ایشیاء و مشرق بلکہ تمام کرۂ ارضی کو اللہ کی عالمگیر صداقت کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے تھے ۔(ملاحظہ ہو :خلافت کمیٹی آگرہ کا خطبہ ء صدارت)
مارچ 1947ء کو ایشیا کے بائیس ممالک کے تقریباً پچیس نمائندوں کی کانفرنس نئی دہلی میں بلائی گئی تھی، جس میں ایشیائی بھائیوں کو مل بیٹھ کر مستقبل کے امن و امان ، اتحاد اخوت اور باہمی میل جول کی بنیاد رکھنے کی دعوت دی گئی تھی ، اس موقع پر مولا نا آزاد نے اپنے بے مثال بصیرت افروز خطاب میں کہا تھا :
’’اب وقت آ کیا ہے کہ قدم بڑھا یا جائے ، اب عرصہ تک ہماری دنیا خوابوں اور تصورات تک محدود نہیں ہوگی ، بلکہ حقائق کی ایک زندہ تصویر بنے گی ، انسانی اتحاد کے مقاصد کے لئے وقت اور فاصلہ کا سوال ختم ہو گیا ہے ، لہذا یہ ایشیا ئی کانفرنس ایک عالمگیر کلچر کانفرنس کا خاکہ تیار کرے ، جس میں صر ف مشرق ہی نہیں ، بلکہ مغربی اقوام بھی شرکت کرے ۔…ایسی کلچر ل کانفرنس میں تنگ نظر سیاست کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ، اور نہ فرقہ وارانہ اور جماعتی تعصب پیدا کرنے کی گنجائش ہے ۔‘‘
مذکورہ اقتباس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ مولا نا ایک عبقری اور عہد آخری شخصیت کے مالک تھے، ان کی تعلیم اور ان کا پیغام آفاقی ہے ، جو انسان کو انسان سے نفرت کے بجائے محبت تعصب کے بجائے رواداری اور دشمنی کے بجائے دوستی ،اخوت اور بھائی چارہ کا سبق سکھاتا ہے ۔وہ علامہ اقبال کے مثالی مرد مومن کی عملی تفسیر تھے ، جن کی گفتار اور کردار میں اللہ کی برہان تھی ، جن کے طوفان سے دریاؤ ں کے دل دہل جاتے تھے :
ہو صحبتِ یاراں توبریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
غرض مولانا ابوالکلام آزاد جیسی فکری صلابت کا حامل ، دور اندیش سیاست داں ، عزم وہمت کا کوہِ گراں ، زبان و قلم کا شہسوار ،فکر وعمل کا مجاہد اور مجتہدقدرت کا خاص عطیہ ہوتا ہے ،جو مدتوں میں پیدا ہوتا ہے :
عمر ہادرکعبہ وبت خانہ میں نالد حیات
تا زبزمِ عشق یک دانا ئے راز آید بروں
——
Dr.Syed Asrarul Haque Sabili
اسسٹنٹ پروفیسر وصدر شعبہء اردو
گورنمنٹ ڈگری اینڈ پی۔جی کالج سدی پیٹ 502103
09346651710