دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 15
معانی قرآن کی اہمیت
مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ 14 ویں قسط کے لیے کلک کریں
یوں تو کلام الٰہی میں الفاظ و معانی یکساں طور پر مقصود کا درجہ رکھتے ہیں جیساکہ اصول فقہ کی مشہور و مستند کتاب نور الانوار میں قرآن کا تعارف ہُوالْلَّفظُ وَاَلْمَعْنٰی جَمِیْعاً سے واضح ہے یعنی قرآن الفاظ و معانی کے مجموعہ کا نام ہے، لیکن دین کی تعلیم و تفہیم کے باب میں معانی قرآن کی اہمیت الفاظِ قرآن کی اہمیت سے بڑھی ہوئی ہے کیوں کہ علم وعمل کا تعلق الفاظ سے زیادہ معانی سے ہے-
چنانچہ سورہ الشعراء کی آیت (۱۹۶)سے یہی بات واضح ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کے متعلق فرمایا وَاِنَّہُ لَفِیْ زُبْرِ الاَوَّلِیْن(یعنی بیشک یہ (قرآن) پہلی کتابوں میں بھی ہے) اورظاہر ہے کہ پہلی کتابوں میں موجودہ عربی الفاظ کے ساتھ نہیں ہوگا بلکہ اس کے معانی دوسرے الفاظ میں ہوں گے، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن ہی قرار دیا۔ مذکورہ آیت کی تفسیر میں ، علم تفسیر کے ایک مشہور امام علامہ ابوبکر جصّاص نے جو کلمات تحریر فرمائے وہ ملاحظہ ہوں :(اللہ تعالیٰ نے یہاں ارشاد فرمایا یہ قرآن پہلی کتابوں میں بھی تھا اور ظاہر ہے کہ ان کتابوں میں وہ عربی الفاظ کے ساتھ نہیں تھا لہٰذا کسی دوسری زبان میں اس کے مضامین کو نقل کردینا اسے قرآن ہونے سے خارج نہیں کرتا۔)
(احکام القرآن جلد سوم ۴۲۹)
اسی آیت کی تفسیر میں ہند و پاک کے ایک مشہور عالم دین اور مفسر قرآن مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے جو کلمات تحریر فرمائے وہ بھی ملاحظہ ہوں ( قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ معانی قرآن جو کسی دوسری زبان میں ہوں وہ بھی قرآن ہے۔ لیکن جمہورِ اُمّت کا یہی عقید ہ ہے کہ قرآن نہ صرف الفاظ کا نام ہے اور نہ صرف معانی قرآن کا بلکہ الفاظ و معانی کا مجموعہ کا نام ہے۔ ( معارف القران جلد ششم صفحہ ۵۵۱) اسی طرح سورہ حٰم سجدہ کی آیت ۴۴ سے بھی دین کی تعلیم و تفہیم کے باب میں الفاظ قرآن سے زیادہ معانی قرآن کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ارشاد ربّانی ہے وَلَوجَعَلْنٰہُ قُرْاٰناً اَعْجَمِیَّا لَّقَالُوْالَوْلَا فُصِّلَتْ اٰےٰتُہُءَ اَعْجَمَیُّ وَّ عَرَبِیُّ
( حٰمٓ سجدہ ۴۴ (یعنی اگر ہم اس قرآن کو غیر عربی کا بناتے تو (کفار مکہ) کہتے کہ اس کی آیات کھول کر بیان کیوں نہیں کی گےءں ( عجیب بات ہے کتاب توغیر عربی ہے اور رسولؐ عربی ہے۔)اس آیت نہیں کی گےءں ،اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہا ں کفار مکہ کے لغواعتراض کا جواب دیا کہ اگر یہ قرآن غیرعربی زبان میں ہوتا تو ہم اسے کلام الہٰی تسلیم کرلیتے وہیں، یہ بات بھی واضح ہوئی کہ قرآن عربی زبان میں اس لئے نازل ہوا کیوں کہ اس کے اوّلین مخاطب ، عربی زبان بولنے اور سمجھنے والے تھے۔ اس سے یہی معلوم ہوا کہ کلام الہٰی میں الفاظ کی حیثیت ذریعہ کی ہے اور معانی کی حیثیت مقصد کی ہے۔
آنحضورﷺ کی چند احادیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کلام الٰہی میں معانی کی اہمیت الفاظ سے بڑھی ہوئی ہے۔ بطور نمونہ ہم یہاں ایک حدیث متن اور ترجمہ کے ساتھ پیش کررہے ہیں، جو بخاری و مسلم میں ہے۔
عَنْ عُمَرَا بْنِ الْخَطَّابِؓ قَالَ سَمِعْتُ ھِشَامَ بِنْ حَکِےْمِ بْنِ حِزَاْمِِ یَّقَرَاءُ سُورۃَ الفُرْقَانِ عَلٰی غَےْرِ مَا اَقْرَاُ ھَا وَکَانَ رَسوُل اللَّہِ ﷺ اَقْرَانِےْھَاَ فَکِدْتُّ اَنْ اَعْجَلَ عَلْیہ ثُمَّ اَمْھَلْتُہُ حَتَّی اِنْصَرَ فَ ثُمَّ لَبَّبْتُہُ بِرِدَآءِہِ فجِئتُ بِہِ رَسُوْلَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیہِ وَسَلَّم فَقُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللَّہِ اِنّیِ سَمِعْتُ ھٰذا ےَقرْاُ سُوْرَۃَالفُرْقَانِ عَلٰی غَےْرِ مَا اَقرْ اْتَنِیھَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلّیَ اللَّہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ اَرِسِلُہ اِقْرَا فُقَرَاَ الْقِرَآء ۃَ الّتیِْ سَمِعْتُہُ ےَقْرَاُ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ صَلَّی اللَّہِ عَلَےْہِ و سَلّمَ ھٰکَذَا اُنْذِلَتْ ثُمَّ قَالَ لیِ اِقْرَاْ فَقَرَاْتُ فَقَالَ ھٰکَذا اُنْزِلَتْ اِنَّ ھٰذالقُرآنَ اُنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ اَحْرُفِِِ فَاقْرَاَوُمَاَتَیسَّرَ مِنْہُ‘۔ترجمہ : (حضرت عمر بن خطابؓ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام کو سورۂ فرقان پڑھتے سنا لیکن مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے جس طرح پڑھائی تھی وہ اس کے خلا ف پڑھ رہا تھا۔میں نے چاہا کہ اس کو درمیان میں ہی روک دوں مگر میں نے اس کو پوری سورۃ فارغ ہونے کی مہلت دی جب وہ پڑھنے سے فارغ ہوا تو میں نے اس کی گردن
میں چادر ڈالی اور اس کو کھینچ کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے گیا اور کہا : اے اللہ کے رسولؐ آپﷺ نے مجھ کو سورۂ فرقان جس طرح پڑھائی تھی یہ اس کے خلاف پڑھتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا اے عمرؓ اس کو چھوڑدے اور ہشام سے کہا پڑھ ہشام نے اس طرح پڑھی جو میں نے سنی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا اسی طرح اتاری گئی پھر مجھ سے فرمایا پڑھ میں نے پڑھی ، آپﷺ نے فرمایا اسی طرح اتاری گئی پھر آپﷺ نے فرمایا قرآن حروف کے لحاظ سے سات طریقوں پر اتارا گیا ہے۔ ان میں سے جو تمہیں آسان لگے پڑھو۔)
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سات طرح سے قرآن کا نزول صرف الفاظ کے لحاظ ہوا معانی کے لحاظ سے نہیں یعنی ساتوں بھی طریقوں کے معانی ایک ہی ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ معانی قرآن کی کتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی معانی کو واضح کرنے کے لیے اسے سات لفظوں میں نازل فرمایا۔ اس سے بھی یہی بات واضح ہوئی کہ معانی اصل ہیں الفاظ ان کے تابع ہیں۔ لیکن جب مختلف قرأتوں کے سبب لوگوں میں اختلاف ہونے لگا تو حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے دورِ خلافت میں چند جلیل القدر صحابہؓ کے مشورہ سے قرآن کو ایک ہی قرأت پر مرتب فرمادیا جیسا کہ بخاری شریف کی روایت سے واضح ہے۔ چنانچہ آج تک قرآن اسی ایک قرأت میں مرتب ہے۔