کھانے پینے کے آداب و احکام : – محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی

Share
محمد ہاشم قادری صدیقی

کھانے پینے کے آداب و احکام

الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
رابطہ: 09386379632

الحمدللہ کہ ہم اسلام کے ماننے والے ہیں۔ مذہب اسلام نے اپنے پیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں زندگی گزارنے کا شعور بخشا اور بے شمار نعمتوں سے مالا مال فرمایا۔ زندگی گزارنے کی جو بنیادی ضروریات بتائی جاتی ہیں ان میں روٹی، کپڑا اور مکان اول درجہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام نے جو احکام ہم پر عائد کئے ہیں ان میں سے پانچ اہم شعبے ہیں۔ (۱) عقائد(۲) عبادات(۳) معاملات(۴) معاشرت (۵) اخلاق۔دین ان پانچ شعبوں سے مکمل ہوتا ہے۔

اگر ان میں سے ایک کو بھی چھوڑ دیا جائے گا تو پھر دین مکمل نہیں ہوگا۔ عقائد بھی درست ہوں، عبادات بھی صحیح طریقے سے انجام دینا چاہئے۔ لوگوں کے ساتھ لین دین ، معاملات بھی اسلامی طریقہ یعنی شریعت (جو اسلامی قانون ہے) کے مطابق ہونا چاہئے۔ اخلاق بھی صحیح ہونا چاہئے اور زندگی گزارنے کا طریقہ بھی درست ہونا چاہئے،جس کو معاشرت کہا جاتاہے۔ مشہور امام نووی علیہ الرحمتہ نے ایک باب ہی قائم فرمایا ہے۔ اس میں دین کے جس شعبے کے بارے میں احادیث مبارکہ سے ذکر فرمایا ہے وہ ہے معاشرت۔ معاشرت کا مطلب ہے دوسروں کے ساتھ زندگی گزارنا۔ زندگی گزارنے کے صحیح طریقے کیا ہیں؟ یعنی کھانا کس طرح کھایا جائے ، پانی کس طرح پیا جائے؟گھر میں کس طرح رہا جائے۔ سماج میں کس طرح رہے۔ یہ سب باتیں معاشرت سے تعلق رکھتی ہیں۔ آج کل لوگوں نے معاشرت کو دین سے نکال دیا ہے۔ اسی وجہ کر اچھے لوگوں کی معاشرت بھی خراب ہے۔ دین کے مطابق نہیں ہے۔ اس لئے معاشرت کے بارے میں جو احکام اور تعلیمات اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عطا فرمائی ہیں ان کو جاننا اور ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔
معاشرت کے بارے میں علامہ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے پہلا باب :کھانے پینے کے آداب سے شروع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے جس طرح زندگی کے ہر شعبے میں تعلیمات ارشاد فرمائی ہیں اسی طرح کھانے پینے کے بارے میں بھی اہم تعلیمات ہمیں عطا فرمائی ہیں۔ پہلا ادب: بسم اللہ پڑھنا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی کھانا شروع کرے تو اللہ کا نام لے۔اور اگر کوئی شخص شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تو اس کو چاہئے کہ کھانا کھانے کے دوران جب بھی بسم اللہ پڑھنا یاد آجائے، اس وقت یہ الفاظ کہے: بسم اللہ اولہ و آخرہ(اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتاہوں، اول میں بھی اللہ کا نام اور آخر میں بھی اللہ کا نام)ایک اور حدیث میں حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ کھانے کے وقت اللہ کا نام لو، یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر کھانا شروع کرو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور برتن کے اس حصے سے کھاؤ جو تم سے قریب تر ہے۔آگے ہاتھ بڑھا کر دوسری جگہ سے مت کھاؤ ۔اس حدیث پاک میں تین آداب بیان فرمائے ہیں۔(۱) بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ(۲) اپنے سامنے سے کھاؤ(۳) سیدھے ہاتھ سے کھاؤ(ابو داؤد ، کتاب الاطعمہ ، باب التسمیہ علی الطعام، حدیث نمبر ۳۷۶۷) کھانے سے پہلے بسم اللہ زور سے پڑھیں تاکہ دوسروں کو بھی یاد آجائے ۔کھانے کے بعد کم از کم الحمد للہ ضرور کہیں یا پھر یہ دعا پڑھیں : اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِی اَطْعَمْنَا وَسَقَانَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْن۔
مل کر کھانے کی فضیلت اور برکت:
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اکٹھے ہو کر کھاؤ۔ الگ الگ نہ کھاؤ کہ برکت جماعت کے ساتھ ہے۔ دوسری حدیث پاک میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ کو یہ بات سب سے زیادہ پسند ہے کہ وہ اپنے کسی مومن بندہ کو بیوی اور بچوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھے اور جب سب کھاتے ہیں تو اللہ ان کو رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے اور قبل الگ ہونے سے ان کو بخش دیتا ہے۔(ابن ماجہ، نزھتہ المجالس)

شیطان کے رہنے اور کھانے کا انتظام نہ کرو:
کھانے سے پہلے بسم اللہ نہ پڑھنے سے کھانے میں بے برکتی ہوتی ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم حضور کی بارگاہ میں حاضر تھے ،کھانا پیش کیا گیا ۔شروع میں اتنی برکت ہم نے کسی کھانے میں نہیں دیکھی مگر اخیر میں بے برکتی دیکھی۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ایسا کیوں ہوا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہم سب نے کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھی تھی،پھر ایک شخص بغیر بسم اللہ پڑھے کھانے کو بیٹھ گیا اس کے ساتھ شیطان نے کھانا کھا لیا۔ دوسری حدیث پاک میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔فرماتے ہیں:حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا نام لیتا ہے اور کھانے کے وقت بھی اللہ کا نام لیتاہے تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ اس گھر میں نہ تو تمھارے لئے رات کو رہنے کی گنجائش ہے اور نہ ہی کھانے کے لئے گنجائش ہے۔ اس لئے کہ اس گھر میں داخل ہوتے وقت بھی اللہ کا نام لے لیا اور کھانا کھاتے وقت بھی اللہ کا نام لے لیا۔ اس لئے نہ تو یہاں قیام کا انتظام ہے اور نہ طعام کا۔ اور اگر کسی شخص نے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کانام نہیں لیا اور ایسے ہی گھر میں داخل ہوگیا تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتاہے کہ لو بھائی تمہارے لئے قیام کا انتظام ہو گیا ، تم یہاں رات گزارسکتے ہوکیونکہ یہاں پر اللہ کانام نہیں لیا گیا اور جب وہ شخص کھاناکھاتے وقت بھی اللہ کا نام نہیں لیتا تواس وقت شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے تمہارے طعام کا بھی انتظام ہوگیا۔(ابو داؤد کتاب الاطعمۃ،باب التسمیۃ علی الطعام ، حدیث نمبر۳۷۶۵)

کھانے میں بے برکتی:
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کھانے کے وقت ہم حضور ﷺ کے ساتھ حاضر تھے اتنے میں ایک نوعمر بچی بھاگتی ہوئی آئی اور ایسا معلوم ہورہاتھا کہ وہ بھوک سے بیتا ب ہے۔ اور ابھی تک کسی نے کھانا شروع نہیں کیا تھا۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے اب تک کھانا شروع نہیں فرمایا تھا۔ مگر اس بچی نے آکر جلدی سے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو حضور ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو کھانے سے روک دیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد ایک دیہاتی آیا اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ وہ بھی بھوک سے بہت بیتاب ہے اور کھانے کی طرف لپک رہا ہے ۔ اس نے بھی آکر کھانے کی طرف ہاتھ بڑھانے کا ارادہ کیا تو حضور ﷺ نے اس کا بھی ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو بھی کھانے سے روک دیا۔ اس کے بعد پھر اپنے تمام صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :(ترجمہ)شیطان اس کھانے کو اس لئے اپنے لئے حلال کرنا چاہتا تھا کہ اس کے کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے ۔ چنانچہ اس نے اس لڑکی کے ذریعہ کھانا حلال کرنا چاہا۔ مگر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ اللہ کی قسم شیطان کا ہاتھ اس لڑکی کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الاشربتہ،باب آداب اطعام و اشراب و احکامہا۔ حدیث نمبر ۲۰۱۷)کھانے کے پہلے وضو کرنے سے برکت حاصل ہوتی ہے اور محتاجی دور کرتا ہے۔حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:کھانے سے پہلے اور بعد میں وضو کرنا محتاجی کو دور کرتا ہے اور یہ مرسلین علیہم السلام کی سنتوں میں ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو یہ پسند کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گھر میں خیر وبرکت زیادہ کرے تو جب کھانا حاضر کیا جائے ، وضو کرے اور جب اٹھایاجائے اس وقت بھی وضو کرے یعنی منھ دھوئے۔

پانی پینے کے آداب:
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : پینے کی چیز کو خواہ پانی ہو یا مشروب اس کو تین سانس میں پیا کرو ۔آپ پھر سانس لینے کی وضاحت آگے فرماتے ہیں کہ پینے کے دوران برتن منھ سے ہٹاکر سانس لیا کرو ۔آپ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ دوسری حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا:پینے کی کسی بھی چیز کو اونٹ کی طرح ایک ہی مرتبہ نہ پیا کرو یعنی ایک ہی سانس میں ایک ہی مرتبہ نہ پیا کرو۔ یعنی ایک ہی سانس میں غٹ غٹ کرکے پورا گلاس حلق میں انڈیل دے یہ صحیح نہیں ہے۔ اور اس عمل کو آپ نے اونٹ کے پینے سے تشبیہ دی۔ اس لئے کہ اونٹ کی عاد ت یہ ہے کہ وہ ایک ہی مرتبہ میں سارا پانی پی جاتا ہے۔ تم اس کی طرح مت پیو۔ بلکہ جب پانی پیو تو دو سانس میں پیو یا تین سانس میں پیو۔ او ر جب پانی پینا شروع کرو تو اللہ کا نام لے کر بسم اللہ پڑھ کر شروع کرو ۔ یہ نہیں کہ محض غٹ غٹ کرکے پانی حلق میں اتار لو۔(مسلم کتاب الا شربتہ، باب کراہتہ النفس فی نفیس الا ناء)

کھانے پینے کے آداب و احکام میں حلال کی اہمیت:
اسلام میں رزق حلال کی زبر دست تاکید آئی ہے ۔ بندے کو حلال و حرام میں تمیز کی سخت ضرورت ہے۔ حلال و حرام کے احکام قرآن و احادیٹ میں وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن و احادیث سے یہ حکم واضح ہے کہ حرام کھانے پینے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَا اَ یُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْ مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَعْمَلُوْ صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلَیْمُٗ(ترجمہ: اے پیغمبرو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو ۔میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں(القرآن سورہ مومنون ۲۳،آیت۵۱: کنز الایمان)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو طیبات کا حکم دیا ہے اور عمل صالح اور عبادت کو اس پر موقوف فرمایا ہے ۔ کیونکہ حلال کے استعمال سے عبادات میں ذوق پیدا ہوتا ہے اور بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت عطا ہوتا ہے ۔ انبیاء کرام تو معصوم ہوتے ہیں پھر بھی ان کو حلال و طیب کی تاکید کا مطلب غالباً یہ ہے کہ عام مومنین سبق لیں۔ جب انبیا کو رب العالمین نے طیبات کا حکم فرمایا ہے تو دیگر بندوں کے لئے اس کی قدر و اہمیت کتنی ہوگی۔ اس سے وہ جھوٹے صوفی بھی سبق لیں جو شیطان کے بہکاوے سے اپنے کو احکام شریعت سے آزاد سمجھتے ہیں اور جو جی میں آتا ہے کرتے ہیں اور جو چاہتے ہیں کھاتے ہیں۔ اگر حکم شرع سنایا جائے تو جھٹ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم اہلِ طریقت ہیں،یہ سب احکام شریعت کے لئے ہیں۔ یہ شیطان کافریب اور کھلی گمراہی ، کفر سے قریب ترہے۔ العیا ذ باللہ تعالیٰ۔ ا س آیت کریمہ نے بتایا کہ جب انبیاء و رسل کو حلال و طیب کے حصول اور عمل صالح کا حکم ہے تو پھر کوئی کسی بھی درجے کا ولی ہو وہ کیسے ان شرعی احکام سے خود کو الگ قرار دے سکتا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لا ید خلی الجنۃ جسد غذی بالحرام (ترجمہ: جس بدن کو حرام غذا دی گئی وہ جنت میں داخل نہ ہوگا)
بخاری کی حدیث میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگو ں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب کوئی اس بات کی پرواہ نہ کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا ہے ،کھایا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔(بخاری:۲۰۵۹،۲۰۸۳، انوار الحدیث ، کشف القلوب ،جلد۲، صفحہ ۵۵۰۔مشکوٰۃ شریف)حضرت سہل بن عبد اللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بندہ اسی وقت حقیقی ایمان تک رسائی حاصل کر سکتاہے جبکہ وہ پر ہیز گاری کے ساتھ حلال کھائے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حج کے ساتھ فضل حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی جہاد، روزہ اور نماز سے فضل، نجات حاصل ہوگی بلکہ ہمارے نزدیک فضل و شرف اس سے ملے گا جس نے چالیس روز حلال کھایا ۔ اللہ تعالیٰ اس کا دل منور فرمادیتا ہے اور اس کے دل سے حکمت کے چشمے جاری فرما دیتا ہے۔ دوسری حدیث پاک میں ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں۔ ترجمہ: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ وہ گوشت جو حرام سے بڑھا ہو جنت میں داخل نہیں ہوگا ۔ توہر وہ گوشت جو حرام سے بڑھا ہو جہنم کی آگ ہی اسے زیادہ لائق ہے۔ (رواۃ احمد مشکوٰۃ:صفحہ ۲۴۲)۔ دور حاضر میں قناعت (تھوڑی چیز پر راضی اور خوش رہنا) کا جذبہ ختم ہوگیا زیادہ سے زیادہ کی ہوڑ میں حلال و حرام کی تمیز نہ کے برابر رہ گئی ہے۔حرام کی کمائی سے بے شمار بیماریاں ،پریشانیاں وجود میں آرہی ہیں لیکن اس جانب دھیان ہی نہیں جاتا۔حلال میں سکون و اطمنان ہے اور بر کت بھی اللہ کے رسول نے فرمایا کہ ’’ حلال گرچہ قلیل ہے مگر اس میں برکت ہے‘‘ دوسری حدیث میں ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت حاضر ہوکر عرض کیا کہ اگر میں فرض نماز پڑھتا رہوں اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتے ہوئے اس سے بچتا رہوں تو کیا آپ ﷺ کی رائے میں میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا؟ آ پ ﷺ نے فرمایا ہاں! اس شخص نے عرض کیا اللہ کی قسم میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کروں گا(مسلم شریف،جلد اول،حدیث نمبر ۱۶،۱۸،باب جنت میں داخل ہونے کے باب میں) اللہ ہم سب کو حلال کی اہمیت اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
——-
Hafiz Mohammad Hashim Quadri Misbahi
Imam Masjid-e-Hajra Razvia
Islam Nagar, Kopali, P.O.Pardih, Mango
Jamshedpur, Jharkhand.
Pin-831020
Mob. : 09386379632

Share
Share
Share