اپنی اردو تو محبت کی زبان تھی پیارے
فرہاد احمد فگارؔ
مظفر آباد
میں اکثر لوگوں کو جب اپنی قومی زبان میں بڑی بڑی غلطیاں کرتے دیکھتا ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہوتا ہے۔ اکثر پڑھے لکھے لوگ ان غلطیوں کو غلطی ہی نہیں سمجھتے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ اور ہمارے ادارے صحتِ زبان کے حوالے سے قطعاً محتاط نہیں۔ غلط اردو لکھنے اور بولنے کا رواج عام ہو چکا ہے۔ گو کہ ہر ایک کو درست کرنا میرے اختیار میں نہیں لیکن اپنے تئیں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ اپنی زبان سے محبت کا حق ادا کرتے ہوئے اغلاط کی نشان دہی کرتا رہوں۔
میرا یہ ایمان ہے کہ اگر فردِواحد نے بھی میری کوشش سے سیکھ لیا تو یہ کوشش بارآور ہوگی۔ میری اصلاح زبان کی کوشش پر کئی لوگوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کے پیغامات موصول کر کے میرے حوصلے کو تقویت ملتی ہے اور یہ اسی کا ثمر ہے کہ میں نے مزید کچھ اغلاط کو دیکھتے ہوئے نشان دہی کی ٹھانی ۔ ذیل میں کچھ ایسے ہی الفاظ درج ہیں جو کہ ہمارے ہاں غیر محتاط انداز سے معنی پر غور کیے بغیر غلط بولے اور لکھے جاتے ہیں۔
استاتذہ کرام سے خطاب:
۲۶،ستمبر ۲۰۱۶ کے روزنامہ سیاست مظفرآباد میں ایک کالم نظر سے گزرا۔ عنوان تھا۔ ’وزیراعظم آزاد کشمیر کا استاتذہ کرام سے خطاب‘۔ معزر کالم نگار سید محمود علی گیلانی تھے اور نام کے ساتھ شعبۂ پریس وزیراعظم سیکرٹریت بھی کندہ تھا۔ معزز کالم نگار نے کالم میں جو لکھا سو لکھا لیکن استاتذہ کس زبان کا لفظ ہے؟ اردو میں استاد یا استاذ ہے۔ جمع جس کی اَساتذہ مستعمل ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ اکثر لوگ استاد یا استاذ میں الف کے مضموم ہونے کی وجہ سے اساتذہ میں بھی الف کو مضموم کردیتے ہیں جو غلط ہے۔ استاد میں الف مضموم ہے جب کہَ اساتذہ میں الف مفتوح ہے۔ لہذٰ اساتذہ درست جمع ہے۔ استاتذہ اور اُساتذہ غلط ہے۔
آئندہ بعد:
مظفرآباد کے ایک معروف کالج کے پرنسپل ایک بچے کو ڈانٹ رہے تھے کہ آئندہ بعد تم نے یہ کام کیا تو تمھاری خیر نہیں ہوگی۔ بتاتا چلوں کہ آئندہ کا مطلب ہی اب کے بعد آنے والا یا آگے چل کر ہوتا ہے۔ آئندہ کے بعد یا آئندہ بعد معنوی اعتبار سے ایک بڑی غلطی ہے۔ آج کے بعد یا آئندہ کہنا درست ہوگا۔
تحریر لکھ رہا ہوں:
ایک صاحب نے لکھا کہ میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔اسی طرح اکثر کہا جاتا ہے آپ یہ تحریر لکھ دیں۔ فرہنگِ تلفظ، نور اللغات، فرہنگِ آصفیہ سمیت تمام لغات میں تحریر کا مطلب ہی لکھنا، لکھی ہوئی چیز درج ہے۔ تو تحریر کرنا درست ہوا نہ کہ تحریر لکھنا، تحریر کر رہا ہوں، لکھ رہا ہوں، آپ تحریر کر دیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
ہم شیرہ:
میں نے بڑوں بڑوں کو یہ غلطی کرتے دیکھا ۔ ’’ہم شیرہ‘‘ بہن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو غلط ہے۔ بہن یا بھائی کے لیے درست لفظ’’ ہم شیر‘‘ہے جو کہ ہمارے مستند اردو لغات میں بھی موجود ہے ۔ ’’شیر ‘‘فارسی میں دودھ کو کہتے ہیں جس کو ’’ہم ‘‘کا سابقہ لگا کر ترکیب بنی ہے۔ ’’شیرہ‘‘ کا مطلب ’’چاشنی یا عرق جو کسی چیز سے نکالا جائے‘‘ ہوتا ہے۔ گلاب جامن یا جلیبی کوپکانے کے بعد مٹھاس لانے کے لیے جس چیز میں ڈالا جاتا ہے وہ ’’شیرہ‘‘ کہلاتی ہے۔ ’’ہم شیرہ ‘‘ مطلب ساتھ شیرہ پینے والے اور ’’ہم شیر‘‘ ساتھ دودھ پینے والے۔ واضح کرتا چلوں کہ’’ ہم شیر‘‘ بہن اور بھائی دونوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے تاہم اَساتذہ کے ہاں یہ بہن کے لیے مستعمل ملتا ہے۔میر انیس ؔ کے ایک شعر سے وضاحت کردوں۔
دیکھی جو نہ تھی دیر سے وہ چاند سی تصویر
قدموں پہ محبت سے گری دوڑ کے ہم شیر
ایسے ہی خدائے سخن کے ہاں ہم شیر کا استعمال دیکھیں:
اک شور سا ہوا ٹھتارونے کا جب نسا میں
منہ دیکھ دیکھ روتا ہم شیر کا اور ما کا
فضول بکواس:
ہمارے ہاں اکثر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب کسی پر اظہاربرہمی کرتے ہیں تو سختی سے کہتے ہیں فضول بکواس مت کرو۔ عرض ہے کہ بکواس کارآمد ہوتی ہی نہیں فضول بھی لگایا جائے تو وہ فضول ہی رہے گی۔ فرہنگ آصفیہ کے مؤلف کے مطابق بکواس کا مطلب ہی ہرزہ گوئی یا بسیار گوئی ہے اور ظاہر ہے ہرزہ گوئی اور بسیار گوئی کو ہر کوئی ناپسند کرتا ہے۔ اسی طرح فضول کے معنی پر نظر ڈالیں تو وہ بھی کشیر،بے فائدہ یا بے معنی ہی ہیں۔ بکواس مت کریں کہہ دینا کافی ہے اور یہ جملہ مکمل معنی و مفہوم رکھتا ہے۔
آپ ٹھیک ہیں:
ہماری اکثریت جب آپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہیں آپ ٹھیک ہیں۔ عرض کرتا چلوں آپ ٹھیک کہنے کی بہ جائے آپ کیسے ہیں؟ کہنا استفہامیہ بھی ہے اور درست بھی معلوم ہوتا ہے۔دوسری صورت میں آپ ٹھیک ہیں نا؟ انگریزی زبان میں کبھی ہم کسی کو نہیں کہتے۔ You are fine. بلکہ سوالیہ بنانے کے لیےAre you fine? ARE, کو شروع میں بولتے ہیں۔ یا پھر How are you? کہتے ہیں تو میرے خیال کے مطابق اردو میں بھی آپ ٹھیک ہیں کی بہ جائے آپ کیسے ہیں؟ کہنا مناسب اور معقول معلوم ہوتا ہے۔ اس میں یہ بھی اضافہ کر دوں کہ اکثر آپ ٹھیک ہو۔ یا آپ کیسے ہو؟ کہتے ہیں۔ یہ دونوں طرح سے غلط ہے۔ اردو کی ایک اصطلاح ہے’شتر گربہ‘ جس کے مطاق جملے کے آغاز میں جمع کا صیغہ ہوگا تو اسی کی مطابقت سے آخر میں بھی جمع ہی آے گا۔ آپ کیسے ہیں؟ تم کیسے ہو؟ انگریزی میں ہم ان باتوں کا خیال کرتے ہیں اوران کو غلطی گردانتے ہیں لیکن اردو کے معاملے میں اس کو فخر سمجھتے ہیں۔
میں آپ کا مشکور ہوں:
کس قدر افسوس ناک صورت حال ہے کہ ہم الفاظ کے معنی جانے بغیر ہی ان کا استعمال کرتے چلے جاتے ہیں۔بھیڑ چال چلنا اور لکیر کے فقیر بننا شاید ہماری سرشت بن چکی ہے۔ بہت جی کڑھتا ہے جب اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان سے سنتا ہوں کہ میں آپ کا مشکور ہوں۔ یاد رہے کہ مشکور فاعل نہیں مفعول ہے اورمشکور کا مطلب ہے شکریہ ادا کرنے والاہے۔ بالکل ایسے ہی جس طرح مخدوم خدمت کروانے والا ہوتا ہے اور خادم خدمت کرنے والا، مقتول قتل ہونے والا ہوتا ہے تو قاتل قتل کرنے والا، مجبور جبر سہنے و الا ہوتا ہے اور جابر جبر کرنے والا۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ہی لفظ اگر االلہ کے لیے استعمال کیا جائے تو نعوزباللہ یہ شانِ ایزدی میں گستاخی تصور ہوگی۔ مشکور کی جگہ میں آپ کا شکر گزار ہوں، میں آپ کا شاکر ہوں۔ میں آپ کا احسان مند ہوں وغیرہ۔
درستگی :
ہمارے اخبارات اور ہمارے اَساتذہ کے ہاں درستگی کا استعمال بہ کثرت ملتا ہے۔ درستگی غلط العوام ہے اس کا درست استعمال’’ درستی‘‘ ہوگا۔ اس حوالے سے میں ان لوگوں سے اکثر کہتا ہوں کہ اس کو درستگی لکھتے اور پڑھتے ہو تو پھر تن درستی کو بھی تن درستگی کر لو۔ براہِ مہربانی زبان کا صحیح استعمال کریں ۔ اردو ہماری پہچان ہے اور یہ ہماری تہذیب ہے۔ بہتر اردو کے لیے بے شمار کتب موجود ہیں نہ تو اچھے لغات کی کمی نہیں۔ فرہنگِ تلفظ، نور اللغات، فرہنگِ آصفیہ، فرہنگِ عامرہ، لغاتِ نظامی کے علاوہ اردو املا، عبارت کیسے لکھیں؟، انشا اور تلفظ جیسی سیکڑوں کتب موجود ہیں۔امید کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں اصلاح قبول کرنے والے تو قبول کریں گے اور ہٹ دھرم اور بد قسمت ہمیشہ غلطی پر ہی رہیں گے آپ کی دعاؤں کا طلب گار۔ روشؔ صدیقی کے اس شعر کے ساتھ اجازت مطلوب ہے:
اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی