فاروق طاہر
عیدی بازار،حیدرآباد۔
,9700122826
کمرۂ جماعت پرقابو ،کیوں اور کیسے؟
کسی بھی ملک اور معاشرے کی قسمت اور خوشحالی تعلیم سے وابستہ ہوتی ہے۔ہمارے ذہنوں میں یہ بات ترازو کی طرح قائم کر دی گئی ہے کہ معیاری تعلیم اچھی نصابی کتب کے ذریعہ فراہم کی جاسکتی ہے۔بالکل اس حقیقت سے ہم سرموئے انحراف نہیں کر سکتے ہیں کہ کتاب حصول علم کا ایک کارگر وسیلہ ہے لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ بغیر استاد کے یہ وسیلہ اپنی افادیت گنوا دیتا ہے۔
کتابیں معلومات کی فراہمی میں نہایت کار گر ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن سماج میں تبدیلی اور انقلاب کا نقیب کتاب نہیں بلکہ استا د ہوتا ہے۔ قوموں کی قسمت کی تبدیلی کا کام کتابیں نہیں بلکہ استاد انجام دیتے ہیں۔تعلیم جو تربیت سے عاری ہو وہ تعلیم نہیں محض معلومات کا ڈھیرکہلاتی ہے۔جس کتاب کے الفاظ کے پیچھے استاد کی زندہ شخصیت، جانفشانی و جفاکشی، اور جذبہ تعمیر و تبدل موجود نہ ہووہ کتاب بے جان الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے۔جس تعلیمی نظام میں استاد کو مرکزی اور قابل قدر حیثیت حاصل نہیں ہے وہ نظام ایک مہذب ڈھونگ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔اپنے مضامین میں بارہا میں نے ایک بات پیش کرنی کی کوشش کی ہے کہ ’’استاد کتاب نہیں بلکہ زندگی پڑھاتا ہے۔‘‘استاد کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھناضروری ہے کہ وہ معلومات کے فراہمی کا ایک آلہ نہیں بلکہ وہ قوم و انسانیت کا معمار ہے۔کمرۂ جماعت معلومات کی فراہمی کا ایک پلاٹ فارم ضرورہے لیکن یہاں پر استاد اپنی حکمت اور علم کی توانیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انسانیت اور معاشرے کی تعمیر انجام دیتا ہے۔استاد کے لئے کتاب صرف نصابی سرگرمیوں کی ادائیگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ استاد اگر استاد ہے تو وہ کتاب کیسی بھی کیوں نہ ہو وہ اپنے مطلب کی چیزیں اس سے برآمد کر لے گا۔سیکولرازم کی کتاب سے اسلامیات اور اسلامیات کی کتاب سے سیکولرازم برآمد کرنا ایک استاد کے لئے معمولی کام ہوتا ہے۔تربیت کے لئے استاد کے پاس بڑی اور اعلیٰ ڈگریوں کا ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ تربیت کے جذبے سے سرشار استاد خواہ اس کی ڈگری معمولی اور چھوٹی کیوں نہ ہو تربیت کے جذبے سے عاری اعلیٰ ڈگری کے حامل استاد سے تربیت سازی کا کام بہتر انجام دیتا ہے۔ بڑی ڈگریوں کے حامل اساتذہ اگر تربیت کے جذبے سیعاری ہوں تب بڑی بڑی تعلیمی ڈگریوں کے باوجود بھی وہ چھوٹی سی تربیت کے کام بھی انجام نہیں دے سکتے ہیں۔تدریس آدمی کو ایک اچھی مشین اورمہذب جانور تو بنا سکتی ہے لیکن ایک اچھا انسان بنانا اس کے بس کا روگ نہیں ہے۔تربیت کا زیور ہی اسے شرف انسانیت سے سرفراز کر تاہے۔تربیت کے بغیر ایک اچھے انسان کی تعمیر کا تصور محال نظرآتا ہے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ ’’اچھے استاد کے ہاتھ میں بری کتاب بھی اچھی بن جاتی ہے اور اچھے استاد کے بغیر اچھی کتا ب بھی بری ہوجاتی ہے۔ کسی بھی قوم کے مستقبل کا دارو مداراس کی نوجوان نسل پر منحصر ہوتا ہے۔جو لوگ اپنے مستقبل کو محفوظ اور تابناک بنانا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح پر خاص توجہ دیں۔جس قوم نے بھی اپنی نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور اصلاح میں کوتاہی سے کام لیا ہے اسے اغیار کے رحم و کرم پر زندگی گزارنی پڑی ہے۔تعلیم و تربیت کی کوتاہی نہ صرف قوموں کی شناخت مٹا دیتی ہے بلکہ سیاسی طور پر ان کو بے حیثیت بھی کر دیتی ہے۔آج ملت اسلامیہ کے زوال اور ناگفتہ بہ حالات کے ذمہ دار سیاسی اسباب ہونہ ہو لیکن تعلیم و تربیت سے برتی جانے والی مجرمانہ غفلت ضرور ہے۔نسلوں میں پرورش پانے والی غلطیوں اور خرابیوں کی ذمہ داری والدین اور اساتذہ پر مساوی طورپر عائد ہوتی ہے۔ماں باپ ،اساتذہ اور معاشرے کے وہ افراد جن پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہیں دراصل یہی افراد خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔ان افراد کی کوتاہیاں فی الفور نہیں بلکہ بیس پچیس برس بعد نمودار ہوتی ہیں۔دوراندیش اور ملی فکر سے سرشار افرادجو کسی نسل کے مستقبل کی کامیابی اورناکامی کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں وہ بڑے درست طریقے سے اس بات کا کمرہ جماعت میں اندازہ قائم کر لیتے ہیں اور اپنی تما م تر توجہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور نشوونما میں صرف کردیتیہیں۔
اسکول زندگی کی ایک ایسی تجربہ گاہ ہے جہاں پر زندگی کے مسائل کا حل اور عوارض کا تریاق تیار کیا جاتا ہے۔وہ افراد جو ان وسائل کی فراہمی ،مسائل کے سدباب اور تریاق کی تیاری میں منہمک رہتے ہیں ان کو زمانہ اساتذہ کے نام سے جانتا ہے۔اسکول میں زندگی سے متعلق ہر شئے کا علم فراہم کیا جاتا ہے بلکہ زندگی گزارنے کا ہنر سکھایا جاتا ہے خواہ وہ دنیوی زندگی ہویا اخروی۔استاد زندگی کے اسرار و رموز اور تصورات و واقعات ، فطری اور انسانی اصولوں کو اپنی علمیت کے ذریعے طلبہ کو سمجھاتا ہے۔استاد کمرۂ جماعت میں اپنے آپ کو ایک واعظ کے طور پر نہیں بلکہ ایک رہبر اور رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے ۔طلبہ کی رہنمائی کرتا ہے جس کی وجہ سے ان کی ذات اور زندگی کے واقعات پر پڑے ظلمتوں کے پردے اٹھنے لگتے ہیں ۔ طلبہ کی سوچ و فکر میں سنجیدگی،متانت اور پختگی پیدا کرنے کی فرض شناس اساتذہ ہر پل کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کمرۂ جماعت اسکول کاوہ حصہ ہے جہاں استاد کی اپنی فرماں روائی ہوتی ہے اور اس کے حکم کا سکہ چلتا ہے۔ اسی لئے کمرۂ جماعت کو تعمیر و تخریب کا منبع کہا گیا ہے۔حقیقی استاد اپنی تربیت کے ذریعے طلبہ کو ایک ایسابیج بنادیتا ہے جس میں سایہ دار اور ثمر آور درخت بننے کی تما م خصوصیات بدرجہ اتم موجودرہتیہیں جس کووہ اسکول خاص طور پر کمرۂ جماعت کی ساز گار زمین میں بو کرر اپنے علم کی برکھاسے اس کی آبیاری کرتا ہے ۔جس کی وجہ سے باغ انسانیت مہک اٹھتا ہے اور دنیا میں انسان سکون ،چین و امان پاتے ہیں۔کمرۂ جماعت میں اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے استاد بچوں میں مثالی تصورات کو جاگزیں کرتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق اور انسانی اقدار کو فروغ دیتا ہے جن کی بنیادوں پرطلبہ کی سماجی شناخت استوار ہوتی ہے۔اسی لئے کمرۂ جماعت کے انصرام کے لئے استاد میں بنیادی قابلیت اور دانش مندی کا پایا جانا بے حد ضروری ہے۔درج ذیل سطور میں ان نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر عمل پیرا ہوکر اساتذہ کمرۂ جماعت پر نہ صرف قابو پاسکتے ہیں بلکہ موثر تدریس اور اعلیٰ تعلیم و تربیت کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
کمرۂ جماعت پر قابو پانے میں ناکام استاد موثر تدریسی فرائض کی انجام دہی پر قادر نہیں ہوتا ۔کمرۂ جماعت پرقابو پائے بغیر استاد کی ہر کوشش بے کار و بے سود ثابت ہوجاتی ہے۔طلبہ کو جب احساس ہوجاتا ہے کہ ان کا استاد کمرۂ جماعت پر قابو پانے میں ناکام ہوگیا ہے یا وہ کمرۂ جماعت پر قابو رکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا تب کمرۂ جماعت میں ان سے غیر مہذب ،غیر شائستہ برتاؤ، غیر تعلیمی اور اکتساب میں مانع حرکات و تخریبی واقعات کااظہاہونے لگتا ہے ۔اسی غیر صحت مند برتاؤ کی وجہ سے کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط درہم برہم ہوجاتا ہے اور استاد تدریسی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ایک ابتر نظم و ضبط ،شکستہ اور تفرقہ پرور حالات سے بھرا کمرۂ جماعت درس و اکتساب کا مرکز بننے کے بجائے طلبہ کی عدم دلچسپی اور تفرقہ پروری کی آماجگا ہ بن جاتا ہے۔ایسے نامساعد حالات میں اکتساب تو دور تدریسی سرگرمیوں کی انجام دہی بھی ناممکن ہوجاتی ہے ۔ کمرۂ جماعت پر قابو نہ رکھنے والا استاد بہترین تدریسی صلاحیتیں رکھنے کے باوجوددرس و تدریس سے متنفر ہوکر تکلیف دہ تدریسی دباؤ (Teaching Stress)کا شکار ہوجاتا ہے۔تدریسی دباؤ کے شکنجے میں جکڑے استاد میں ذوق و شوق،امید و حوصلہ اور جوش و ولولے کا فقدان یا کمی پائی جاتی ہے۔ا یسے طلبہ جو پرسکون ماحول میں اکتساب کے خواہاں رہتے ہیں وہ بھی کمرۂ جماعت کے ابتر نظم و ضبط اور شورو غل کی وجہ سے خود کو سیکھنے سے عاجز پاتے ہیں۔لاکھ کوشش کے باوجود اپنی توجہ و انہماک کو جٹانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔کمرۂ جماعت میں نظم و ضبط کے فقدان کے باعث لائق طلبہ کے علاوہ خراب برتاؤ کے حامل طلبہ بھی پڑھنے اور سیکھنے میں رفتہ رفتہ دلچسپی کھو بیٹھتے ہیں۔ بہر کیف استاد کا کمرۂ جماعت پر کنٹرول نہ رکھ پاناایک ایسا نقص ہے جس کی وجہ سے کمرۂ جماعت کا مجموعی نظم و ضبط تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ان وجوہات کے پیش نظر یہ بہت ضروری ہوجاتا ہے کہ استاد کمرۂ جماعت پر قابوپانے کے طور طریقے نہ صرف سیکھیں بلکہ ان میں مہارت پیدا کرے تاکہ طلبہ کے خراب برتاؤ پر قابو پایا جاسکے۔ کمرۂ جماعت کی فضاء کو اکتساب اور درس وتدریس کے لئے سازگار بنایا جاسکے ۔ ساتھ ہی ساتھ درس و تدریس اور اکتساب کے عمل کو بے کیف اور بیزارگی سے محفوظ بنایا جاسکے۔طلبہ میں جوش و ولولہ ،اخلاق و اطور اور بہتر نظم و ضبط کی کیفیت کو پروان چڑھایا جاسکے۔طلبہ کے غیر پسندیدہ اور تخریبی رویوں کا اساتذہ جب بروقت سامنا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو کمرۂ جماعت کی فضاء اکتساب کے لئے تروتازہ اور خوش گوار ہوجاتی ہے۔کمرۂ جماعت کے ابتر اور غیر صحت مند ماحول کواپنی قابلیت اور حکمت عملی سے زیر قابو رکھتے ہوئے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کو اساتذہ آسمان کی بلندیا ں فراہم کرسکتے ہیں۔طلبہ کے ابتر برتاؤ کے لئے ذمہ دارو جوہات ہی کمرۂ جماعت کی اکتسابی و تدریسی فضاء کو مکدر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ذیل میں چند قابل ذکر وجوہات کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔
(1)طلبہ جب اکتساب اور سیکھنے کے عمل کو غیر دلچسپ ،بے کار اور حد درجہ آسان تصور کر تے ہیں تو ان کی توانائی کا رخ ایسی، خو د تخلیق کردہ سرگرمیوں کی سمت گامزن ہوجاتا ہے جس سے جماعت کا نظم و ضبط بگڑنے کے قوی امکاناتپیدا ہوجاتے ہیں۔
(2)جب طلبہ اپنے اکتساب کی سطح کو دوسروں کے اکتساب کی سطح سے ابتر یا نیچے تصور کرتے ہیں تو ان میں اکتساب اور آموزش سے عدم دلچسپی پروان چڑھنے لگتی ہے ۔جس کی وجہ سے ان میں غیر پسندید ہ ،غیر مہذب ،غیر شائستہ برتاؤ اور تخریبی کیفیات سر ابھار نے لگتی ہیں جو کمرۂ جماعت کے نظم وضبط کو برباد کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔
(3)عدم دلچسپی،عدم توجہ کے باعث طلبہ استاد کی تدریسی ہدایات اورسبق کی تفہیمی مکالموں کو واضح سماعت کرنے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمرۂ جماعت میں بات چیت اور دیگر غیر ضروری کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
(4)اپنی اکتساب کمزوریوں کو چھپانے ،ہم جماعت ساتھیوں یا دیگر افرادکی توجہ پانے کی کوشش میں اپنی توجہ گنوا بیٹھتے ہیں اور غیر کارآمد سرگرمیاں اور نا پسندیدہ برتاؤ کا ان سے اظہار ہونے لگتا ہے۔
(5) طلبہ کے جارحانہ برتاؤ ،ہر بات پر حد سے تجاوز کرنا یا غیر متوازن ردعمل کی وجہ اکثر ان کا خراب سماجی پس منظر و ماحول ہوتا ہے۔
(6)کمرۂ جماعت میں نظم و ضبط کی برقراری کے لئے نظم و ضبط کے قاعدے اور قوانین کے فقدان کے سبب کمرۂ جماعت پر قابوپانے میں اساتذہ ناکام ہوجاتے ہیں۔
کمرۂ جماعت میں طلبہ کو نظم و ضبط کا پابند بنانے اور ان پر قابو رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ نظم و ضبط کی برقراری کے لئے بہتر قاعدے اور قوانین مرتب کریں ۔نظم و ضبط کی حکمت عملیوں کو مرتب اور نافذ کرتے وقت بہت دانش مندی سے کام لیں۔تشدد اور جارحیت کاہرگزمظاہر نہ کریں۔ صبر وتحمل سے کام لیں۔ درج ذیل مشوروں پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ بچوں کے خراب برتاؤ پر قابو پانے، کمرۂ جماعت میں پسندیدہ اقدار و مزاج کو پروان چڑھانے کے ساتھ کمرۂ جماعت کا ماحول خوش گوار اور درس و تدریس کو اپنی معلنہ منصوبوں کے تحت انجام دینے کے لائق بن سکتے ہیں۔
(1)کمرۂ جماعت میں تدریس کے دوران استاد کی نظر جماعت کے تمام طلبہ پر رہے اور ہر طالب علم یہ محسوس کر ے کہ ان کی ہر سرگرمی پر استاد کی گہری نظر ہے۔بچوں میں جب یہ احساس جاگزیں ہوجاتا ہے تب کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط بڑی حد تک قابومیں رہتا ہے۔
(2)طلبہ کے خراب برتاؤ پر اپنی ناراضگی کا اظہار ضرور کریں لیکن انہیں ہدف تنقید و ملامت نہ بنائیں۔طلبہ کے خراب برتاؤ کی وجہ سے آپ کو پہنچنے والی تکلیف کے بارے میں انہیں آگاہ کریں اور بتائیے کہ خراب برتاؤ کی وجہ سے کسی کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔طلبہ کو ان کے برتاؤ میں تبدیلی اور بہتری پیدا کرنے کی تلقین کریں۔
(3)جماعت میں اگر کوئی طالب علم دوسروں کو تنگ یا پریشان کر رہاہے تب اس کے پاس جاکر اس کی وجہ دریافت کریں۔پریشانی کی وجہ کا سد باب کریں اور برتاؤ کی اصلاح کے لئے واضح احکامات صادر کریں۔تدریسی سرگرمی کو چند لمحات کے لئے روک کر واضح احکامات صادر کرنا ،تمام طلبہ پر کڑی نگاہ رکھنا اور خراب برتاؤ پر قابو پانے والی حکمت عملیوں پر عمل کر تے ہوئے استاد بچوں کے خراب برتاؤ اور تدریسی الجھنوں پرقابو پانے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
(4) خراب برتاؤ اور کمرۂ جماعت میں گڑبڑ پیدا کرنے والے طلبہ کی اکثریت دباؤ (Stress)کا شکار ہوتی ہیں اور اسی دباؤ کی وجہ سے وہ خراب برتاؤ کا مظاہرہ کرتے ہیں استاد ایک مربی اور رہنما کی طرح ان کے دباؤ کی وجوہات معلوم کرے اور انھیں دباؤ کے بھنور سے باہر نکالیں۔ استاد کا یہ اقدام کمرۂ جماعت کے ماحول کو خوش گوار بنانے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی زندگی کو بدلنے میں معاون ہوتا ہے۔
(5) دوسروں کے سامنے گڑبڑ پیدا کرنے والے طلبہ کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کریں ان کے خراب برتاؤ کا تذکرہ کرنے کے بجائے ان کی اچھائیوں کو بیان کریں۔گڑبڑ پیدا کرنے والے طلبہ کے ساتھ استاد اپنا کچھ وقت گزرے ۔ ان کو چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں تفویض کرتے ہوئے ان میں احساس ذمہ دار کے جذبے کو پروان چڑھائیں۔طلبہ میں احساس ذمہ داری کا جذبہ جب فروغ پانے لگتا ہے طلبہ اپنے آپ، خراب برتاؤ سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
(6)طلبہ کو سمجھائیں کہ کسی بھی خراب برتاؤ کے نتیجے میں تعلقات متاثر ہوجاتے ہیں اور کشیدہ صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔تناؤ اور تنازعات کی اصل وجہ بھی بیشتر موقعوں پر خراب برتاؤ ہی ہوتا ہے۔طلبہ کو عمل اور ردعمل پیش کرنے میں احیتاط برتنے کی تلقین کریں۔
(7) کمرۂ جماعت کے نظم وضبط (ڈسپلن) کی برقراری کے لئے اصول و ضوابط مرتب کریں تاکہ بچوں کے خراب اور الجھنیں پیدا کرنے والے برتاؤ پر قابو پایا جاسکے۔اچھا برتاؤ پیش کرنے والے طلبہ کی ستائش کریں تاکہ خراب برتاؤ کے عادی طلبہ کوتحریک ملے اور وہ اپنے خراب برتاؤ کو ترک کردیں۔
(8) کمرۂ جماعت میں نظم وضبط کی خرابی میں قوت ارتکاز کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ طلبہ میں قوت ارتکاز کے فروغ سے خراب برتاؤ پرباآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ اساتذہ طلبہ میں قوت ارتکاز(Power of Concenteration)پیدا کریں۔طلبہ میں اچھی صحت مند سماجی مہارتوں کو فروغ دیں۔عزت نفس(Self-esteem)کی اہمیت سے واقف کرائیں اور عزت نفس کو پامال کرنے والے عناصر و عوامل سے آگاہ کریں تاکہ طلبہ اپنی عزت نفس اور وقار کا تحفظ کر سکیں۔اکتسابی معذوریوں اور کمزوریوں کا شکار طلبہ کے مسائل کو پیار و شفقت سے دور کریں اور ان میں اعتماد کی فضا بحال کرے۔اکتسابی الجھنو ں اور معذوری سے دوچار طلبہ سے بھی خراب اور ناپسندیدہ برتاؤ کا اظہار ایک عام بات ہے۔خراب برتاؤ اور برے اخلاق سے ہونے والی تباہ کاریوں سے طلبہ کو مطلع کریں تاکہ ان کی زندگی کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکے۔
(9)منفی اور مثبت برتاؤ کے درمیان اساتذہ توازن برقرار رکھیں۔ شدت پسندی اور لاپرواہی( تجاہل) سے ہر گز کام نہ لیں۔مثبت سرگرمیوں اور اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو بھی لگاتار رہنمائی اور رہبری کی ضرورت درپیش ہوتی ہے تاکہ ان کے برتاؤ میں مزید نکھار پیدا ہوا اور وہ اپنے کام کو مزید بہتر بنا سکیں۔
تعلیم تدریس سے مختلف ہوتی ہے بہت سے لوگ پڑھا سکتے ہیں لیکن تعلیم دینے والے بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں۔وہ معاشرہ جو اعلیٰ تصورات ،اخلاق اور انسانی اقدار پر قائم نہ ہو وہ ایک بے جان معاشرہ کہلاتا ہے اور ایسے معاشرے کے افراد اخلاقی اقدار سے عاری ااجڈ اور گنوار ہوتے ہیں۔اسکول زندگی سے وابستہ ہر چیز کا علم فراہم کرتا ہے۔ مختصریہ کہ’’ اسکول میں زندگی سیکھائی جاتی ہے۔‘‘اسکول میں طلبہ کو اس قابل بنا یا جاتا ہے کہ وہ فطری اور انسانی اصولوں کو سمجھ سکے۔اسکول کے بتائے گئے راستے پر چل کر طلبہ موجودات و واقعات سے پردہ اٹھاتے ہیں ان کی سوچ و فکر میں سنجیدگی اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔قصہ مختصر اسکول ایک ایسی عبادت گاہ ہے جہاں استاد ایک متبرک اور مقدس حیثیت رکھتا ہے۔ اساتذہ اپنے مقام و مرتبے کا خاص خیال رکھیں۔تعلیم میں صبر و استقامت کی بہت اہمیت ہے۔تعلیم وتربیت ایک مقدس کام ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ زندگی کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔استاد اپنے آپ کو ایک مثالی نمونے کے طور پر پیش کرنے کے ساتھ مطلوبہ نتائج کے حصول میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ بہتر نتائج کا انتظار صبر و استقامت کے ساتھ کرے۔تربیت میں عجلت تباہ کن ہوتی ہے۔اسی لئے اساتذہ تعلیم و تربیت میں صبر و تحمل اور استقامت کا دامن ہرگز نہ چھوڑیں۔