نئی حج پالیسی شریعت میں مداخلت : – محمد نصیر الدین

Share
محمد نصیر الدین

محمد نصیر الدین
سکریٹری حج سوسائٹی، نظام آباد

نئی حج پالیسی شریعت میں مداخلت
اور عازمین حج کیلئے مایوس کن

حکومت ہند نے اگلے پانچ سالوں 2018 تا 2022کیلئے حج سے متعلق امور کے بارے میں ایک نئی پالیسی وضع کر نے کی خاطر ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ عازمین حج کو بہتر سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ اس کمیٹی نے گذشتہ دنوں اپنی رپورٹ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور جناب عباس نقوی کو پیش کر دی ہے۔ لیکن اس کمیٹی کی سفارشات نہ صرف شریعت میں صریح مداخلت ہیں بلکہ یہ عازمین حج کی خدمات کو بہتر بنا نے کے بجا ئے ان کیلئے مصیبت اور پریشانی کا سامان لے آئی ہیں ۔

اس کمیٹی کی یہ سفارش کہ 45سال سے کم عمر کی خواتین کیلئے ہی محرم کی شرط ہو اور 45 سال سے زائد عمر کی خواتین بغیر محرم کے گروپ کی شکل میں حج کیلئے جا سکیں گی۔ شرعی اعتبار سے بالکل یہ غلط اور پرسنل لا میں مداخلت کی ایک اور مدموم کوشش کے علاوہ کچھ نہیں۔ بلکہ اس سفارش کے ذریعہ کمیٹی نے عازمین حج کے لگیج میں چپکے سے مسلک کی چھری کا اضافہ کر دیا ہے تاکہ ملت کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا عمل تیز تر ہو جا ئے۔ اب حج کے فارم میں مسلک کا خانہ ہو گا جس میں عازمین حج کو واضح کر نا ہو گا کہ وہ حنفی ہے، شافعی ہے یا حنبلی کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ ویسے بھی پہلے ہی سے جحفہ کے نام پر شیعہ حضرات کیلئے فارم میں ایک کالم موجود ہے۔ اس سفارش میں سازش کا پہلو س لئے بھی جھلکتا ہے کہ ڈی ڈی نیوز نے دوسرے ہی دن اس مسئلہ پر فوراً مباحثہ کا اہتمام کر دیا اور نام نہاد ترقی پسند خواتین نے سفارشات کی تعریف میں زمین آسمان کے قلا بے ملا دیئے اور عورتوں کو با اختیار بنا نے کی طرف اسے ایک اور قدم قرار دیا ۔ مرکزی وزیر جناب عباس مختار نقوی نے
بھی صاف طور پر کہہ دیا کہ45سال سے زائد عمر کی خواتین کو محرم کے بغیر سفر کی اجازت سے خواتین کو بھی مردوں کے مطالق مساویانہ حقوق دینے سے متعلق مودی حکومت کے سیاسی عزم و عہد کا اظہار ہو تا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طلاق ثلاثہ پر حکومت کے موقف کی طرح یہ فیصلہ بھی ہندوستانی
سماج میں مسلمانوں کی بدلتی ہوئی ہیت و نوعیت کی توثیق ہے۔ ہم نے امتناع ہٹا دیا اور اب یہ مسلم برادری پر منحصرہیکہ وہ اصلاحات پر کام کریں۔
معزز وزیر نے ا س کمیٹی میں علمائے دین کے شامل رہنے کی بات بھی کہی ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی بھی عالم دین شامل نہیں ہے۔ یہ کمیٹی پانچ
ارکان افضل امان اللہ، شفیع پرکار، قیصر شمیم، کمال فاروقی اور جے عالم پر مشتمل تھی اور یقیناًان میں کوئی بھی عالم نہیں ہے ۔ ہاں البتہ تعجب اس بات پر ضرور ہے کہ کمال فاروقی جو مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبر ہیں وہ اس کمیٹی میں شامل تھے انہوں نے اس سفارش کو کیسے مان لیا۔ مولانا خلیل الرحمن سجاد ندوی ترجمان مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملک کے دیگر علماء اکرام نے اس کی شدت سے مخالفت کی ہے۔ حج ایکٹ 2002ء کے مطابق حج کمیٹی کا کام حاجیوں کیلئے سفر کے انتظامات ، زر مبادلہ کی فراہمی ، ٹریننگ، ٹیکہ اندازی ،اور ان کیلئے سہولتیں فراہم کر نا ہے۔ حج اور عمرہ کا طریقہ کیا ہو کس مسلک کے تحت ہو یہ حج کمیٹی کی ذمہ داری نہیں۔ لہذا خواتین کوبااختیار بنا نے کے نام پر بغیر محرم کے سفر کی اجازت حج کمیٹی کے فرائض میں نہیں۔ اب اسطرح
مسا وات کے نام پر اگر مداخلت کا دروازہ کھل جا تا ہے تو پھر کل کے دن یہ بھی طئے ہو گا کہ محرم کون ہو اور کون نہیں۔ عورت بھی امامت کیوں نہ کرے، حالت چاہے کیسی ہو مسجد حرم میں کیوں نہ جا ئے، طواف کیوں نہ کرے،اس کیلئے علحدہ کوٹہ کیوں نہ ہو، ریزرویشن کیوں نہیں، اس لئے قبلہ بدلنے کی ان کوششوں پر لگام لگنی چاہئے۔ بہتر ہے حج کمیٹی اپنے آپ کو انتظامات تک محدود رکھے اورکوئی نئی شریعت وضع کر نے کی کوشش نہ کرے۔
اس کمیٹی نے اپنی ایک سفارش کے ذریعہ چوتھی بار کے درخواست گذار اور 70سال سے زائد عمر کے عازمین کے بنا قرعہ انتخاب کو یکسر ختم کر دیا۔ اس سے یہ تمام عازمین حج جن کا انتخاب طئے تھا سخت مایوسی کا شکار ہو گئے۔ ان دو کیٹگری کے عازمین سے اس سے بد تر نا انصافی ہو ہی نہیں سکتی۔

Share
Share
Share