مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
07207326738
گو خاک کی آغوش میں وہ مہر مبیں ہے
مولانا ریاست علی ظفر بجنوری ؒ – احساسات و تأثرات
۲۳/ شعبان ۱۴۳۸ ھ مطابق ۲۰ /مئ۰۱۷ ۲ء سالانہ تعطیل میں اپنے وطن پہنچا ،تو اسی دن ایک صاحب نے خبر دی کہ دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی بجنوری کا انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔خبر چونکہ توقع کے بالکل خلاف تھی اس لئے جلدی یقین نہیں آیا ، سفر میں ہونے کی وجہ سے واٹس ایپ بند تھا ، خبر سن کر واٹس ایپ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر گروپ میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہی ہے ، فون پر بعض احباب سے معلوم کیاتوپتہ چلا کہ معمولی علالت کے بعد آپ اس دنیائے آب و گِل سے رخصت ہوگئے اور پوری قاسمی فضا مغموم کرگئے-
دارالعلوم ،دیوبنداور ان سے منسلک تمام اداروں پرغم کاسناٹاچھاگیا،آپ کے چلے جانے سے نہ صرف دارالعلوم کے بام و در سکتے میں تھے ؛بلکہ امت کا بہت بڑا طبقہ ماتم کناں تھا ،لیکن کیا کیجئے قضاء و قدر پر کس کی اجارہ داری ہے اور موت سے کس کو رستگاری ہے ہر ایک کو مٹی کی چادر تان کر ملک بقا کا سفر کرنا ہے ۔
اجل نے نہ کسری ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
واقعہ یہ ہے کہ جانے والا اپنی طبعی عمر پوری کرکے سفر آخرت کی طرف کوچ کرجاتا ہے ،لیکن جانے والے میں بہت سے ایسے ہوتے ہیں جن کی یادیں بار بار آتی ہیں ؛بلکہ ستاتی اور رلاتی ہیں ، جن کی روشن زندگی ان کے تاریک کوٹھری میں چلے جانے کے بعد بھی روشنی بکھیرتی ہیں ، ستاروں کے مانند ان کی حیات مستعار ان کے رحلت کرجانے کے بعد بھی منزل کا پتہ دیتی ہے، جن کے کردارو عمل کی بلند ی ان کے روپوش ہوجانے کے بعد بھی عزم و استقامت کی تعلیم دیتی ہے ،جن کی زبان کی لطافت و شیرینی اور شفقت و پیار کی حلاوت برسوں تک شیرہ کا کام کرتی ہے ،اور احساسات کو تازگی و فکر و عمل کو تابندگی عطا کرتی ہے ،جن کا اخلاص و تقوی اور زہد و استغناء جینے کا قرینہ سکھلاتا ہے ۔انہی خلوص و وفا اور کردار و عمل کے ایک مجسم کا نام مولانا ریاست علی بجنوریؒ ہے ۔
گلستانِ دارالعلوم میں جن پھولوں سے ہر طرف خوشبو پھیل رہی ہے ان ہی پھولوں میں سے ایک پھول آپ تھے ؛بلکہ گلِ سر سبد تھے ،دارالعلوم کے بام و در کو جن قمقموں کی روشنی نے پر نور بنا رکھا ہے اور مناسب اور معتدل روشنی سے فکر و اعتدال کی جو شمع روشن ہے اس کے جھومر آپ تھے ، تحریک دارالعلوم کی موجودہ عمارت جن ستونوں پہ قائم ہے اس کے ایک ستون آپ تھے ،اس لئے اگر کہا جائے کہ آپ کے چلے جانے سے برقی قمقموں کی روشنی ماند پڑگئی ہے ، باغیچے کے پھول مرجھاگئے ہیں ،ایک مضبوط ستون کے گر جانے سے ایک خلا سا پیدا ہوگیا ہے تو شاید کوئی مبالغہ نہیں ہے ،یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالی چمنستان قاسمی کی آبیاری فرماتا رہے گا ،اور عمدہ سے عمدہ پھول اس گلستاں کو سدا بہار رکھیں گے ،اسلام کے فکر و اعتدال کا یہ کوہ ہمالہ قیامت تک کے لئے ہے، علم و فن کا یہ مضبوط قلعہ ہر دور میں اقبال کامرد مومن اور اسلام کی علمی و فکری سرحد کامرد مجاہد پیدا کرتا رہے گا ،لیکن جانے والے کی یاد تو ضرور آئے گی ،ان کی شفقت ،رس گھولتی اوردل کو چھولیتی ان کی باتیں ،تکلف و تصنع سے خالی کی ان ادائیں ، ان کی مسکراہٹیں ان کے چاہنے والو ں کو غم کے کچوکے دیتی رہے گی ،
روشن شب حیات کے مہتاب کی طرح
آتی ہے ان کی یاد حسیں خواب کی طرح
ممکن نہیں ہے ان سے زمانہ ہو بے نیاز
وہ تھے جہاں میں گوہر نایاب کی طرح
مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ علم و فن کے آفتاب عالم تاب تھے ، فن حدیث کے روشن مینار تھے ،ریاست علم و ادب کے تاجدار تھے ،وہ ہمہ گیر و ہمہ جہت صلاحیت کے مالک تھے ،ان کی فکر میں اعتدال کے ساتھ آفاقیت تھی ،اللہ تعالی نے علم وادب کے قیمتی گوہر سے مالا مال کیا تھا اور مختلف علوم و فنون میں ملکہ عطافرمایا تھا ؛لیکن انہوں نے حدیث کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا اور حدیث کا درس دیتے اور حدیث کی شرح لکھتے ان کی روح قفص عنصری کو پرواز ہوئی یہ یقیناًخاتمہ بالخیر کی طرف اشارہ ہے علامہ شبلی نعمانی نے اپنے تعلق سے ایک شعر لکھا تھا جو یہاں موزوں معلوم ہوتا ہے
عجم کی مدح کی عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے چندے مقیم آستان غیر ہونا ہے
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ با لخیر ہونا تھا
ربع صدی سے زائد عرصے تک انہوں نے درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا، ہزاروں تلامذہ پوری دنیا میں ان کی روشن تعلیمات کی روشنی بکھیر رہے ہیں جو ان کے لئے بہترین صدقہ جاریہ ہے ،آپ مولانا فخرالدین ؒ صاحب سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے شاگرد خاص تھے اور حدیث میں انہی کے رنگ و آہنگ کی پیروی کرتے تھے،’’ ایضاح البخاری ‘‘کے نام سے آپ بخاری کی شرح لکھ رہے تھے جو کہ مولانا فخر الدین کے افادات کا مجموعہ ہے یہ شرح بخاری کی اردو میں سب سے جامع اور مبسوط شرح ہے اس کی دس جلدیں طبع ہو کر قارئین کی آنکھوں کا سرمہ بن چکی ہیں ،خدا کرے کہ باقی جلدوں کے منظر عام پر آنے کا سامان پیدا ہو۔
مولانا موصوف کی زندگی پرایک نظر ڈالئے جو چیز سب سے زیادہ ان کی زندگی میں نمایاں اور ابھر کر سامنے آتی ہے وہ ہے ان کی متواضعانہ طرز زندگی ، ہر جگہ دیکھئے ، بڑوں کے ساتھ ، چھوٹوں کے ساتھ ، اپنوں کے ساتھ ، پرایوں کے ساتھ، نجی محفل میں یا پھر سیمینار اور کانفرنس میں ہرجگہ تواضع و خاکساری آپ کا خاص وصف دکھائی دیتا ہے، آپ طلبہ کے ہجوم میں بھی اس طرح چلتے جیسے کوئی طالب علم جا رہا ہو، غیر شناسا شخص آپ کے حلیے سے کبھی آپ کو نہیں پہچان سکتا تھا، احقر نے فراغت کے بعد گھر پر بھی آپ سے ملاقات کی تو آپ کا یہی وصف نمایاں طور پر نوٹ کر پایا اور دو مرتبہ جمعیۃ العلماء ہند کے زیر اہتمام ہونے والے مباحث فقہیہ کے پروگرام میں آپ سے ملاقات کی تو آپ کی یہی صفت دل کو دستک دیتی ہوئی نظر آئی ۔مباحث فقہیہ کا گیارہواں اجلاس دارالعلو م حیدرآباد میں ہوا تھا اور تیرہواں اجلاس مدراس کے حج ہاؤس میں ہر جگہ آپ کی تقریر ہوتی تھی، لیکن حیرت ہے ہرجگہ آپ نے اپنے خطاب میں یہی کہا کہ میں یہاں کچھ سیکھنے ،آپ کو سننے اور آپ لوگوں سے ملاقات کے لئے آتا ہوں ۔اندازا لگائیے کہ دارالعلوم کی مسندپر چار دہائی تک درس دینے والا ، دارالعلوم کا مؤقر اور ممتاز استاذ کس سادگی سے کہتا ہے کہ میں تو آپ لوگوں کو سننے آتا ہوں ۔واقعہ یہ ہے کہ اسی تواضع و خاکساری کی صفت نے آپ کو بلندی کے اس عظیم منصب تک پہنچا دیا کہ آپ کے ملک عدم چلے جانے کے بعد آپ کا ہر شناسا آپ کا ذکر جمیل کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ کی اس سادگی اور متواضعانہ زندگی کو دیکھ کر من تواضع للہ رفعہ اللہ کی عملی تفسیر سامنے آجاتی ہے ۔
مولانا موصوف بلند اخلاق و صفات کے حامل تھے ، طلبہ کے ساتھ شفقت و پیار ان کا خاص وصف تھا ، طبیعت میں سادگی اور نرمی تھی، ورع و تقوی ، خلوص و للہیت ،خوف وخشیت انابت الی اللہ، ز ہد واستغناء آپ کا امتیاز تھا ،غم خواری و دلداری اور غرباء پروری ،آپ کی زندگی کا لازمہ تھا ،آپ سادگی کے پیکر مجسم تھے ،اور یہ سادگی آپ کے لباس ،چال ڈھال ،طرز زندگی اور رسم معاشرت سے ہویدا تھی ،سخاوت وفیاضی اور مہمان نوازی میں آپ معروف تھے ،سچ پوچھئے تو آپ خلیق و ملنساراوربڑے نرم گفتار تھے ،اسی لئے اساتذہ، طلبہ اور ملنے والوں کاآپ کے مے خانے میں ہجوم لگا رہتا تھا۔
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانہ میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق
آپ کا شمار دارالعلوم کے مؤقر اساتذہ میں ہوتا تھا ،آپ دارالعلوم کے مختلف مؤقر عہدوں کی زینت بن چکے تھے ،نائب مہتمم ، ناظم تعلیمات ، نگراں شیخ الہند اکیڈمی ، کے علاوہ آپ جمعیۃ العلماء ہند کے نائب صدر تھے ،آپ اپنی متوازن اور پختہ رائے کے لئے جانے جاتے تھے، دارالعلوم میںآپ کی رائے اور فکر کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور اہم مٹنگوں میں آپ کی شرکت لازمی ہوا کرتی تھی، آپ کی فکرمیں اعتدال تھا اور اس اعتدال پر تصلب سے قائم رہتے تھے ،۲۰۱۰ھ کی بات ہے دارالعلوم وقف میں فقہ اکیڈمی کا سیمینار ہو رہا تھا عنوان تھا ’’مدارس اسلامیہ میں فقہ کی تدریس ۔منہج اور طریقہ کار ‘‘لیکن اس میں بہت سے شرکاء تبدیلی نصاب پر بحث کر رہے تھے،یہ وہ عنوان ہے جس میں ہندوستان کے بہت سے اہل علم ،مفکرین کی علیحدہ علیحدہ رائے ہے خود دیوبند میں بھی ایسے ارباب فکر ہیں جو تبدیلی نصاب کے قائل ہی نہیں ؛بلکہ محرک ہیں اس لئے گرما گرم بحث جاری تھی کہ موجودہ حالات میں نصاب کی تبدیلی نا گزیر ہے،اسی دوران حضرت الاستاذ کا نام پیش ہو گیا آپ تشریف لائے اور بڑے ہی سنجیدہ انداز میں گفتگوکا آغاز فرمایا جس کا حاصل یہ تھا ’’کہ بھائی نصاب میں جزوی تبدیلی تو ہوتی رہتی ہے دارالعلوم میں پہلے بہت سی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں اب وہ نہیں پڑھائی جاتی ہے، جہاں تک مسئلہ ہے کلی تبدیلی کا یا عصری علوم کو شامل کرنے کا تو جب تک اس کا تجربہ نہ ہوجائے اس کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے اس لئے جو لوگ تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ کوئی ادارہ قائم کرکے اس میں نئے نصاب کا تجربہ کرلیں اگر مفید ثابت ہوا تو ہم بھی قبول کرلیں گے ‘‘آپ کا یہ تجزیہ اگر چہ الزامی تھا ؛لیکن اس وقت کے لئے یہی ضروری تھا آپ نے اپنی گفتگو میں اپنا اور دارالعلوم کا موقف پیش کردیا کہ جو نصاب ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے اور جو لوگ تبدیلی کی بات کرتے ہیں پہلے وہ نیا نصاب لائیں اور اس کا تجربہ پیش کریں ، آپ کی اس تقریر کے بعد مولانا خالد سیف ا للہ صاحب رحمانی کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ حضرات ہمارا یہ پروگرام نصاب کی تبدیلی سے متعلق ہے ہی نہیں، اس لئے موضوع کو دوسرے رخ کی طر ف نہ لے جائیں اس طرح بات ختم ہو گئی ۔
حضرت کی معتدل فکر اور پختہ رائے کا اندازا ایک اور واقعے سے لگائیے، دیوبند میں جمعیۃ العلماء کا پروگرام ہو رہا تھا ،آپ کو مائک پر مدعو کیا گیا آپ نے مختصر خطاب کیا جس میں آپ نے فرمایا کہ’’ اسلام امن و اعتدال کا مذہب ہے اور دیوبندیت امن و اعتدال کا مسلک ہے ‘‘جملہ بہت مختصر ہے ؛لیکن اس میں دیوبندیت کی بھر پور ترجمانی ہے آپ نے اس مختصر جملہ میں اس کی وضاحت فرمادی کہ قرآن نے اسلام کو امت وسط یعنی معتدل دین قرار دیا ہے اور دیوبندیت اسی راہ اعتدال پر گامزن فکر و نظر کا نام ہے ۔
اللہ تعالی نے آپ کو زبان و بیان اور قرطاس و قلم ہر دو کا تاجدار بنایا تھا ،بولتے تو چھوٹے چھوٹے جملوں کے ذریعہ سامعین پر سحر کرجاتے اور لکھتے تو قارئین پر وجد سا طاری ہوجاتا ،آپ دو سال تک ماہنامہ دارالعلوم کے مدیر رہے ،اس عرصے میں آپ نے متعدد مضامیں لکھے ،اس کے علاوہ بھی آپ کے قلم ژرف نگار سے متعددتحقیقی وتخلیقی مضامین تاریخ کی زینت بن چکے ہیں، آپ اردو کے انشاء پرداز ادیب تھے’’، شوری کی شرعی حیثیت‘‘ اور’’ ایضاح البخاری‘‘ کتابی شکل میں آپ کی تصنیفی خدمات میں دو عظیم شاہ کار ہیں، اس کے ساتھ آپ بلند پایہ شاعر تھے ،آپ نے شاعری کو اپنا مشغلہ نہیں بنایاتھا اس کے باوجود آپ کا شعری مجموعہ’’ نغمہ سحر ‘‘کے نام سے طبع ہوکر قبولیت حاصل کرچکا ہے ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس نے آپ کی شاعری کوعروج بخشا اور شاعر کی حیثیت سے آپ کو پوری دنیا میں متعارف کرایا وہ دارالعلوم کا ترانہ ہے، یہ ترانہ آپ کی فنی مہارت کا عملی نمونہ ہے، جب میں دارالعلوم آنے سے پہلے مدرسہ ریاض العلوم میں زیر تعلیم تھا تو وہاں اپنے ایک ساتھی کے پاس’’ دارالعلوم کاپی‘‘ دیکھی جس کی پشت پہ یہ ترانہ ثبت تھا ،سچ پوچھئے آپ کے دیدار سے پہلے اسی ترانہ کے ذریعہ آپ تک رسائی حاصل ہوئی اور اسی ترانہ نے آپ سے ملنے اور آپ کو دیکھنے کا شوق پیدا کیا ،ترانہ کیا ہے اردو ادب کا ابلتا دریا ہے ، جس کی تہ میں آپ کو لعل و گہر ہی ملیں گے،ترانہ پڑھیے تو ایسا لگتا کہ شاعر تاریخ کی سیر کرارہا ہے ، دیوبندیت کی تشریح کر رہا ہے، دارالعلوم کی خدمات کا تذکرہ کررہا ہے ، اکابر دیوبند سے روشناس کرارہا ہے ،دارالعلوم کے کردارکی منظر کشی کر رہا ہے اور یہ سب کچھ الفاظ و تعبیرات اور نظم و قوافی کے بلند معیار پر اتر کرہورہا ہے ، جب ذکر ترانہ کا آہی گیا ہے تو چند اشعار پڑھ کر آپ بھی اپنے قلب و دہن کو تازگی دیجئے اور اشعار کی چاشنی کا لطف اٹھائیے ۔
مہتاب یہاں کے ذروں کو ہر روز منانے آتا ہے
خورشید یہاں کے غنچوں کو ہر صبح جگانے آتا ہے
جووادی فاراں سے اٹھی گونجی ہے وہی تکبیر یہاں
ہستی کی صنم خانوں کے لئے ہوتا ہے حرم تعمیر یہاں
کہسار یہاں دب جاتے ہیں طوفان یہاں رک جاتے ہیں
اس کاخ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں
حضرت الاستاذ گونا گوں صفات کے حامل تھے ، فکر و نظرکے بہت سے چشمے آپ سے ابلتے تھے ، علم و ادب کے بہت سے سوتے آپ سے نکلتے تھے ،شعر و شاعری ہو کہ قرطاس و قلم کی رفاقت ،زبان و بیان ہو یا فن حدیث کی مہارت ہر جگہ آپ کی ایک الگ ہی شان تھی یہ حقیر تو ہزاروں کی بھیڑ میں معمولی سا طالب تھا ،جس کی ان کے فضل و کمال تک کیا رسائی ہوسکتی تھی ؟ اور اس سب پر مستزاد یہ کہ میرے قلم میں وہ طاقت کہاں ہے جو ان کے حالات کی مکمل ترجمانی کرسکے۔
یہ رمزی بے بصیرت ہے تیرے اوصاف کیا جانے
جو ہم رتبہ ہو تیرا وہ تیرے اوصاف پہچانے
اس لئے اپنی اس تحریر کو دارالعلوم دیوبند کے ایک مؤقر استاذ،ماہنامہ دارالعلوم کے مدیر حضرت مولاناسلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہم کے ایک اقتباس پر ختم کرتا ہوں جو مولانا موصوف کی علمی و فکری زندگی سے اچھی طرح واقف ہیں اور انہوں نے جو لکھا ہے الفاظ کی ذمہ داری کے ساتھ لکھاہے۔ وہ لکھتے ہیں
حضرت مولانا ریاست علی صاحب نوراللہ مرقدہ کی وفات دیوبند میں ایک عہد کا خاتمہ ہے ،ان کی ذات میں اللہ تعالی نے ایسے گونا گوں اوصاف جمع کردئے تھے جو کسی ایک فرد میں کم ہی جمع ہوتے ہیں جس سے ان کی شخصیت میں جامعیت کی شان پیدا ہوگئی تھی،اگر آپ رسوخ فی العلم ،قوت استنباط ، دقت نظر، سلاست بیان ، فکر و تدبر، اصابت رائے ، سلامتی فکر،صبر و قناعت ، زہد و استغنا ء، تقوی و پاک دامنی ، جود و سخا ،غریب پروری و مہمان نوازی ،ادائے حقوق ، عالی حوصلگی و سیر چشمی ،خوش گفتاری و نرم ٖخوئی، شفقت و محبت و احساس ذمہ داری ،ذہانت و ظرافت بھر پور خود اعتمادی کے ساتھ کامل تواضع ، قوت فیصلہ دور بینی ،دیانت و امانت ، اعلی تدریس وخطابتیں ،بے مثال نظم و نثر پر مثالی قدرت ، سلیقہ زندگی ،آداب مجلس کی رعایت اور سادگی و بے تکلفی کا مجسمہ نمونہ دیکھنا چاہیں تو وہ حضرت مولانا کی شخصیت تھی اور یقین فرمائیں کہ ان اوصاف میں کسی کا تذکرہ بھرتی کے لئے نہیں کیا گیا ؛بلکہ ان کی شخصیت کے طویل مطالعہ پر مبنی ہے (ماہنامہ دارالعلوم شوال۱۴۳۸ھ)
اللہ تعالی مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے ان کے نقش پاکی پیروی نصیب فرمائے اور ان کے مشن ، تحریک،فکر اور ان کے ادھورے خوابوں کو تکمیل تک پہنچائے۔
گو خاک کی آغوش میں وہ مہر مبیں ہے
مومن کے لئے موت مگر موت نہیں ہے
نغمہ سحر ص :۱۳۰