جاگیردار عذرا شیرین ایوب خان
جز وقتی لکچرر و ریسرچ اسکالر
شعبۂ اردو ٗ مہاراشٹرا اودے گری کالج ٗ اودگیر
Mob:07721952754
مولانا روم کی حکایات: کارِ پیمبرانہ
قادرِ مطلق نے بنی نوعِ آدم کی جب تخلیق کی تواُسے عقل و دانش سے سرفراز کیا اور علم و عرفاں کے خزینوں کو اُس کے سینے میں محفوظ کر دیا۔ اسی علوم اور جذبۂ فنون نے انسان کو نگاہِ شوق کی دلبری و رعنائی ٗ سوز و گداز ٗ تازہ افکار اور کمالِ جنوں کے جذبوں سے روشناس کروایا۔جب جذبات اشاروں ٗ آوازوں اور لفظوں میں ڈھلنے لگے تو زبان کا وجود عمل میں آیا۔
زبان نے انسانی شعور کو پختہ کیا اور مذہب و ادب کی تزئین کی۔قصہ کہانی کی پریوں نے پر پھیلائے ۔اخلاق ٗ پند و مو عظت پر مشتمل حکایتوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا۔ جہاں بانی سے جہاں بینی تک کے انسانی سفر نے داستانوں کووجود بخشا ۔ قلم نے تحریر کا قرینہ سیکھا کہ شعر وادب کے گل بوٹے مہک مہک اٹھے۔
حکایتیں داستانوں کا بنیادی جز کہلاتی ہیں۔جن میں اخلاق و نصیحت کے موتی جگمگاتے ہیں ۔ جہاں انسانی دنیا و آخرت کا حقیقی شعور اورعبرت کا سامان ملتا ہے۔معاشرے کو صالح فکر و نظر کی روشنی اور جوشِ عمل کی حرارت انہی حکایتوں سے فراہم ہوتی ہے۔اخلاقی حکایتوں کے اولین نمونے عربی زبان میں موجود ہیں۔قرآن مجید میں قدیم اقوام اور انبیائے کرام کے قصص اس طور سے بیان ہوئے ہیں کہ ویسی عبرت و نصیحت ٗ نفسِ مضمون اور طرزِ بیان کی جامعیت اور اختصار کی دلکشی عدیم الامثال ہے۔قرآن پاک کے طرزِ نگارش سے دنیا کا نثری ادب کے تخلیق کار نا واقف تھے۔اہلِ مشرق خوابِ گراں میں محو تھے اور اہلِ مغرب نے جب قرآنی طرزِ تحریر کو اپنایا تو ناول اور افسانہ اُفقِ ادب پر نمودار ہوئے۔
تاریخی اعتبار سے عربی ادب کی ’’کلیلہ و دمنہ ‘‘اور ’’مقامہ‘‘ ابتدائی حکایتوں کے عمدہ نمونے ہیں۔اسی نہج پر فارسی اور سنسکرت زبانوں میں فقید المثال حکایتی ادب کا ظہور ہوا۔جن میں حکایاتِ حافظ شیرازی ٗ حکایاتِ سعدی شیرازی اور حکایاتِ مولانا رومی کو اعلی ٰ و ارفع مقام حاصل ہے۔زمانے نے جن بر گزیدہ ہستیوں کے نام اور کام کو باقی رکھا ٗ جن کے افکار اورعلم و حکمت کی روشنی سے ادوار مستنیر ہوتے رہے ٗ جن کی حکایتوں نے سوچنے کے سانچے بدلے اور اخلاقی قدروں کا تعین کیا ٗ اُن میں ایک نام مولانا جلال الدین رومیؒ کا ہے ۔جن کی شہرۂ آفاق مثنوی ’’ مثنوئ معنوی‘‘ ہے۔جسے دنیا بھر میں قرآن وحدیث کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے کا شرف حاصل ہے۔جو اپنے اندر انسانی فکر کی بلندی ٗ حکمت ودانائی کے سر چشمے اور معرفت کے بیش بہا خزینے سمیٹے ہوئے ہے۔چناں چہ خود مولانا روم اس سلسلے میں رقمطراز ہیں کہ’’ میں نے مغزِ قرآن خود مثنوی میں پیش کر دیا ہے۔‘‘
عارفِ زماں ٗ قطب و ابدال مولانا محمد جلال الدین رومی ؒ جن کا اصل نام محمد بن محمد رومی ہے۔ /16ربیع الاول 604 ھ مطابق /30 ستمبر 1912ء کو شہر بلخ کے خراسان میں پیدا ہوئے۔آپ کی ابتدائی تعلیم والدِ ماجد سلطان العلوم مولانا بہا ء الدین کے زیرِ تربیت ہوئی۔والد محترم کے ساتھ آپ ترکی کے شہر (قونیہ) روم میں سکونت پذیر ہوئے ٗ اسی لیے رومی کہلائے۔بعد ازاں مولانا روم ٗ حق و معرفت کی تلاش میں مدینہ منورہ ٗ مکہ مکرمہ ٗ نیشا پور ٗ شام ٗ عرا ق ٗ افغانستان ٗ اور روم میں سرگرداں رہے ۔اللہ رب العزت نے اپنے ایک بر گزیدہ بندے حضرت شمس تبریزی کو مولانا روم سے ملایا ٗ اُستاد و شاگرد کی صحبتیں (۲) رنگ لائیں ٗ حضرتِ شمس تبریزی ؒ نے اپنے روحانی علوم اپنے شاگرد کے سینے میں منتقل کر دیے اورمشرقی علوم کی ساری وسعتیں مولانا کے قلب و ذہن میں سما گئیں ۔انہوں نے مذکورہ مثنوی کے آغاز میں ہی استاد و مرشد مولانا تبریزی کے فراق کا صدمہ اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’ بشنوز چوں حکایت می کند
بس جدائی ہا شکایت می کند‘‘
عالَم مشرق کے جن علماء نے مشرقی علوم کو فکر ونظر کی آگہی دی اور قدیم فلسفے ٗ اسلامی روایات اور علم کلام کے گہرہائے آبدار عطا کیے۔اُن میں ابنِ عربی ٗ علامہ غزالی ٗ عبدالکریم جیلی اور مولانا روم کے نام سرِ فہرست ہیں ۔ لیکن مولاناروم کے شعور کی بالیدگی و پختگی اُنہیں ہم عصرعلماء میں ممتاز بناتی ہے۔اُن کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے کے تصوف کے عقائد کو جو آرام پسندی اور بے عملی کو مہمیز دے رہے تھے ٗ حرکت و عمل میں بدل دیا۔مولاناروم کی علمی بصیرت اور دانشمندی سے اقبال ؔ بے حد متاثر تھے ۔انہوں نے جگہ جگہ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ رومی اُن کے روحانی اور معنوی مرشد ہیں۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ
’’عقل و خرد کی ساری گتھیاں جسے یوروپ کی مادیت نے اور الجھا دیا ہے ٗ اُن کا حل صرف آتشِ رومی
کے سوز میں پنہاں ہے اور میری نگاہِ فکر اُنہی کے فیض سے روشن ہے اور انہی کا احسان ہے کہ میرے
چھوٹے سے سبو میں فکر و نظر کا ایک بحرِ ذخار پوشیدہ ہے۔‘‘ (1)
مولانارومی اور علامہ اقبال میں علم و ہنر کی قوت ہو کہ ٗ عقل و عشق کا نظریہٗ خودی کا فلسفہ ہو کہ جبر و اختیار کا مسلک ٗ مردِ مومن کی تعبیر ہو کہ ذوقِ عمل کے نظریات ٗ قدرِ مشترکہ پائے جاتے ہیں تو اس کی وجہہ اقبال کا حضرتِ رومی کی ذات اور صفات سے متاثر ہونا ہے۔یہی وجہہ ہے کہ اقبال نے کہیں رومی کے اشعار پر تضمینیں تحریر کی ہیں اور کہیں اُن کے اشعار کو اپنی کتابوں پر بطورِ انتساب استعمال کیا ہے۔اسرارِ خودی کے پہلے صفحے پر مولانا رومی کے اشعار درج ہیں۔اسی طرح ’’ جاوید نامہ‘‘ میں افلاک کی سیر حضرتِ رومی کی رہنمائی میں کی گئی ہے۔زندگی کے رموز و نکات ٗ روحانیت ٗ مادیت ٗ ارتقائے حیات ٗ جدوجہدِ آزادی اور خودی کے فلسفے پر رومی سے سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ تحریر ہواہے۔
روحِ رومی پردہ ہا را بر درید
از پسِ کہ پارہۂ آمد پدید (جاوید نامہ)
صحبتِ پیر و ررم نے مجھ پر کیا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ٗ ایک کلیم سر بکف (ضربِ کلیم)
’’مثنوئ معنوی‘‘ میں مو لانا نے مسائلِ تصوف کے تشریح طلب نکات کو حکایات کے انداز میں بیان کیا ہے۔کلامی مباحث اور خشک فلسفیانہ مو شگافیوں سے پرہیز کرتے ہوئے قارئین کے لیے تطہیرِ قلب کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔مولانا کی اس عظیم خد مت کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لیے 2007 ء میں UNISCO نے Univarsal Year of Maulana Jalaluddin Roomi منایا ۔جس میں مولانا کے Spritual
Secrifices or Values پر قابلِ غور احاطہ کیا گیا۔نیز عالمی سطح پر کئی زبانوں میں مولانا روم کی حکایات کا ترجمہ کیا گیا۔جس سے مولانا کی حکایات کی اہمیت اور اِس قدیم صنف کی ضرورت کا پتہ چلتا ہے۔درجِ ذیل میں مولانا کی چند منتخب حکایات تحریر کی جاتی ہیں۔
حکایت:’’کل کی فکر‘‘
’’ایک سر سبز اور شاداب جزیرے میں ایک گائے رہتی تھی۔وہ صبح کو چرنے کے لیے نکلتی اور رات تک سارے جنگل کو چر کر خوب مو ٹی تازی ہو جاتی۔لیکن ساری رات اس غم میں گھلتی رہتی کہ کل کیا کھاؤں گی۔صبح تک وہ اسی فکر میں سوکھ کر کانٹا ہو جاتی۔خدا کی قدرت کہ ہر صبح وہ جنگل پھر ہرا بھرا ہو جاتا اور اُس میں کمر تک سبزہ اُگ آتا۔گائے پھر چرتی اور رات کو پھر ’’غمِ فردا‘‘ کے بخار میں مبتلا ہو جاتی۔غرض یہ کیفیت برسوں تک جاری رہی اور گائے کے سمجھ میںیہ نہیں آیا کہ جب خالقِ کائنات ہر روز اس کی روزی کا سامان خود مہیا کر دیتا ہے تو پھر کل کی فکر میں گھلنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
مندرجہ حکایت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ گائے انسان کا نفس ہے اور سر سبز جزیرہ دنیا ہے۔اللہ تعالیٰ انسان کو ہر روز رزق عطا کرتا ہے ۔لیکن انسان اس غم میں دُبلا ہوتا ہے کہ کل کیا ہوگا۔روزی ملے گی کہ نہیں۔بقولِ شاعر
سالہا خوردی و کم نامد زخور
ترکِ مستقبل کن و ماضی نگر
(ترجمہ:تو سالہا سال سے کھا رہا ہے اور تیرے رزق میں کمی نہیں آئی ۔پس تو کل کی فکر کو ترک کر اور ماضی سے سبق لے۔)
حکایت : فیصلہ ہو گیا
’’ایک مر تبہ کا ذکر ہے کہ کسی مقام پر رومی اور چینی ماہرین کافی تعداد میں جمع تھے۔اُن کی آپس میں بحث شروع ہو گئی کہ بہترین مصور اور نقاش کون سی قوم ہے۔جب بحث عروج پر پہنچ گئی تو یہ فیصلہ کرانے کی غرض سے یہ طے کیا گیا کہ دو دیواریں بنوا کراُن کے درمیان پردہ حائل کیا جائے۔تاکہ کسی کی نظر ایک دوسرے پر نہ پڑے۔ایک دیوار پر چینی اپنے فن کا مظاہرہ کریں اوردوسری دیوار پر رومی اپنے کمال کو دکھلائیں۔اس طرح ایک طرف چینیوں نے بے شمار رنگ و روغن منگوائے اور دیوار پر نقش و نگارتیار کیے۔پورے ایک مہینے میں انہوں نے عرق ریزی کے ساتھ دیوار پر پورا باغ تیار کر دیا۔دوسری طرف رومیوں نے کچھ بھی نہ کیا اور دیوار کو رگڑ رگڑ کر صاف کر دیا۔دیوار اس قدر صاف و شفاف ہو گئی کہ آئینہ میں تبدیل ہوگئی۔ جب فیصلے کا وقت آیا تو چینیوں کے فن کو دیکھ کر لوگ عش عش کرنے لگے۔پھر رومیوں کے فن کو دیکھنے کے لیے حائل پردہ اٹھایا گیا تو چینیوں کا باغ اُس آئینے میں منعکس ہو گیا اور مزید نکھر گیا۔
مذکورہ بالا حکایت سے ثا بت ہوا کہ آئینہ جھوٹ بولتا ہے۔لیکن فنکاررانہ صلاحیتیں یہ ہوئیں کہ سنگ و خشت کی دیوار کو آئینہ بنایا گیا اور اہلِ فن کی صلاحیتوں کو دنیا مانتی ہے۔جو لوگ بولتے نہیں وہ کر دکھاتے ہیں ۔سبھی کو گفتار کا نہیں کردار کا غازی بننا چاہیے۔رومی قوم جس کی مثال ہے۔
حکایت:ادھورا علم
’’ایک نحوی (علم نحو کا عالم) کشتی پر سوار تھا۔جب کشتی بادِ موافق کے سہارے مزے سے دریا پر تیرتی جا رہی تھی تو نحوی نے ملّاح سے بات کرنی شروع کی۔’’بھائی ملّاح ٗ کیا تم نے نحو پڑھا ہے۔؟‘‘ملاح نے کہا ’’نہیں‘‘نحوی نے جواب دیا ۔پھر تم نے اپنی آدھی عمر برباد کردی۔ملّاح جواب سُن کر لاجواب اور خاموش ہو گیا۔
جب کشتی عین دریا کے وسط میں جا رہی تھی تو قضا کار بادِ مخالف زور سے چلنے لگی۔ملّا ح نے کہا ۔’’کشتی بچتی نظر نہیں آتی تیر کر پار اُترنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ پھر نحوی سے پوچھا ’’ کیا آپ تیرنا جانتے ہیں‘‘؟نحوی نے کہا ’’ کبھی اس طرف خیال ہی نہیں گیا۔ساری عمر کتابوں میں رہے۔‘‘ نحوی نے کہا ’’ پھر آپ نے ساری عمر یوں ہی بر باد کی۔یہاں فنِ تیراکی کام آتا ہے – علمِ نحوی اب ڈوبنے سے نہیں بچا سکتا۔‘‘
درجِ بالا حکایت یہ بتاتی ہے کہ حصولِ تعلیم کے ساتھ ہنر مندہونا سونے پر سہاگہ ہے۔ بسا اوقات صرف تعلیم سے ہی کام نہیں چلتا بلکہ ٗ ہنر مندی سے ظفریابی ملتی ہے ۔اسی طرح نرا ہنر مند ہونا بھی کمال نہیں ہے ٗ تعلیم بھی ضروری ہوجاتی ہے۔اگر یہ دونوں مل جائیں تو انسان کبھی دوسروں کا محتاج نہ رہے۔دوسرے یہ کہ علماء کو اپنی تعلیم پر ناز نہیں کر نا چاہیے ۔کبھی کبھی منہ کی کھانی پڑتی ہے۔
غرض یہ کہ مولانا رومی نے ’’ مثنوئ معنوی ‘‘کے ذریعے ایسی شاندار حکایتیں پیش کی ہیں کہ جن کو پڑھنے پر لطف حاصل ہوتا ہے اور دوبارہ پڑھنے پر لطف دوبالا ہوتا ہے۔متلاشیانِ حق کو اطمینانِ قلبی میسر ہوتا ہے۔بے روح اور گمراہ خیالات کو صراطِ مستقیم کی روشنی نصیب ہوتی ہے۔یہ سچ ہے کہ عبرت آموز قصے ٗ نصیحت بھری حکایتیں دل و دماغ کو راحت اور عملی قوت عطا کرتے ہیں۔یہ وہ تاریخٰ صداقتیں ہیں کہ جن سے ایمانیات اور اخلاقیات کے زیور بھی سنور جاتے ہیں۔
موجودہ دور ٹیلی ویژن ٗ انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کی زہر افشانی کا دور ہے۔نئی نسل جس سے گمراہ ہو کر شرافت ٗ انسانیت ٗ تہذیب اور اخلاق سے نا بلد ہوتی جا رہی ہے۔کل کے بچوں کا اپنے بوڑھوں سے کہانی سُننا ٗ ہمت ٗ استقلال ٗ بہادری اور جاں نثاری کے جذبوں کو بڑھاوا دینا تھا۔آج کے بچے ٹی ۔وی کے اوٹ پٹانگ پروگرامز کی دنیا میں کھو کر خرافات کا حصہ بن رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صنعتی ٗ مادّی اور احساس سے عاری دنیا میں پھر کوئی ’’رومی ‘‘ پیدا ہو جائے کہ اُس کی حکایتوں کے سہارے آج کا انسان اپنے زنگ آلود دل کو عشق کی بھٹی میں ڈال کر صاف کر سکے۔بقولِ علامہ اقبالؔ
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب وگلِ ایراں ٗ وہی تبریز ہے ساقی
*****
حواشی: نقوشِ اقبال ۔مولانا سید ابولحسن علی ندوی ص 58 مجلسِ تحقیقات ونشریاتِ اسلام ٗ لکھنو
ضربِ کلیم ٗ کلیاتِ اقبال
مثنوئ معنوی ( بزبانِ فارسی) مولانا روم