حافظ شیرازیؒ اور ان کی رباعیات : – قریشی زیتون بانو

Share
قریشی زیتون بانو

قریشی زیتون بانو
جز وقتی لکچرر ٗ شعبۂ ارود
مہاراشٹرا اودے گری کالج ٗ اودگیر

حافظ شیرازیؒ اور ان کی رباعیات

خالق کائنات نے آدم کو عظیم نعمتو ں سے سر فراز کیا ہے ۔جن میں قوت گویائی ایک عظیم نعمت ہے۔ِ اسی کے وسیلے سے انسان اپنے جذبات واحساسات کو الفاظ کا پیراہن عطا کرتا ہے اور جو کچھ کہ دل پہ گزرتی ہے ٗ اس کواپنے زاوےۂ نگاہ سے صفحہ قرطاس پر تحریر کرتا ہے ۔کیو نکہ ادب میں فنکار کے خیالات کے ساتھ زمانے کی روح اور رفتار پیوست ہوتی ہے ۔ادب کی اسی طاقت کو دیکھتے ہوئے سا حر لدھیانوی نے ایک شعر میں یہ کہا تھا کہ

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا تھا لوٹا رہا ہوں میں
اردوکی شعری روایات کامنبع و مرکزفارسی اور عربی شاعری ہے ۔۔عربی زبان کے مایہ نازشعراء میں امراؤالقیس ،اعشی زہیر بن ابی سلمی ٗ کعب بن زہیر، حضرت خنساء ،حسان بن ثابت وغیرہ کے اسمائے گرامی آتے ہیں جنہوں نے عربی شعر و ادب کے خزینوں میں اپنے فکر و خیال کے اضافے کیے تو بھرت منی (ناٹیہ شاستر) با المیکی ویاس (مہا بھارت ) کا لی داس( شکنتلا) وغیرہ شعراء نے سنسکرت کے لا زوال ورثے کو وسعت دی ۔اسی طرح فارسی زبان وادب میں خواجہ فرید الدین عطارؒ (اسرار نامہ ،الہی نامہ ،تذکرۃالاولیاء)کمال اسمٰعیل اصفہانی (غزلیں ) مولانا سعدی شیرازیؒ ( گلستان ،بوستان )،مولانا جلال الدین رومی ؒ (مثنوی معنوی )،امیر خسرو (ہشت بہشت ،قران السعدین ) اور مولانا حافظ شیرازی ؒ (دیوان حافظ ) نے اپنے تخلیقی جواہر پار ے شامل کیے۔ بقول علامہ اقبال
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگرکے بغیر
حافظ شیرازیؒ کے جد امجد اصفہان کے مضافات کے رہنے والے تھے ۔والد کا نام بہاء الدین تھا جو پیشۂ تجارت سے وابستہ تھے ۔خواجہ حافظ کی ولادت شیراز میں ہوئی ۔کم عمری میں پدری شفقت سے محروم ہوئے ۔سن شعور کو پہنچنے کے بعد خمیر گیری کا پیشہ اختیار کیا اور علم کی تحصیل میں لگ گئے ۔ کلام پاک کو حفظ کیا اور حافظ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ انہیں قران مجید سے خاص شغف تھا ۔فن قرات میں کمال حا صل تھا ۔اپنی خوش الحانی سے ہمیشہ جمعہ کی رات قران پاک پڑھتے تھے ۔ان کی اولاد میں شاہ نعمان کا ذکر آتا ہے۔ حافظ شیرازی کی شاعری احباب کی صحبتوں کی دین ہے ۔ ایک مرتبہ حافظ شیرازی کو یہ احساس ہواکہ ان کی شاعری میں تمسخر کا پہلو غالب ہے ٗ اسی وقت ’’بابا کوہی ‘‘کے مزار پر گئے اورزاروقطار رونے لگے۔ رات یہ خواب دیکھتے ہیں کہ ایک بزرگ انہیں لقمہ کھلارہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’’جا۔اب تجھ پہ تمام علوم کے دروازے کھل گئے ہیں ‘‘۔دوسری صبح حافظ شیرازی نے اپنی بہترین غزل یوں تحریر کی :
دوش وقت سحر از غصہ نجا تم داوند
وندراں ظلمت شب آب حیا تم داوند (۲)
فارسی غزل کی بنیاد حضرت شیخ سعدی ؒ شیرازی نے ڈالی۔ سلمان ساؤجی اور خواجہ کرمانی نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ۔حافظ شیرازی نے خواجہ کرمانی کے کلام کو سامنے رکھ کر فارسی صنف غزل کو بام عروج تک پہنچایا ۔ لہذاوہ خود کہتے ہیں کہ :
’’دارو سخن حافظ طرز روش خواجو ‘‘
حافظ شیرازی نے عربی کے مصرعوں کو اپنے کلام میں خوبصورتی سے استعمال کیا ہے ۔روز مرہ محاورات ومصطلحات کا استعمال بھی ان کے ہاں جا بجا ملتا ہے ۔نیز صنعت مۂاۃالنظیر اور ایہام وطباق جیسے لفظی صنعتوں کے استعمال سے کلام میں خوش آہنگی اور خوش نوائی کی فضا قائم کی ۔حافظ شیرازی کے معاصرین میں انوری ،ظہیری،فاریابی ،سلمان ساؤجی کا شمار ہو تا ہے وہ جب کسی کی مدح کرتے اور صلہ کم ملتا تو ہجو شروع کر دیتے تھے لیکن ٗ حافظ شیرازی کو صلہ کم بھی ملے تو قناعت کرتے تھے اور یہ کہہ کر چپ ہو جاتے تھے کہ ’’تقدیر میں نہ تھا ‘‘۔حافظ شیرازی اپنے کلام میں بطور احسان مندی عزیز واقرباء کا ذکر بھی کرتے تھے ۔
حضرت خواجہ حافظ شیرازی ؒ کے اسمِ خاص پر نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے چوں کہ حضرت خواجہ کرمانی کی تقلید میں غزل لکھنی شروع کی ٗ اس لیے خواجہ کہلائے ۔قران پاک حفظ کرنے سے حافظ اور جائے پیدائش کی مناسبت سے شیرازی کہلائے۔حافظ شیرازی کے کلام کی اہمیت کے پیشِ نظربادشاہ سلطان محمود بہمنی نے انہیں دکن آنے کی دعوت دی۔ لیکن موسمی تغیر کے سبب وہ ہندوستان( گلبرگہ) آنے سے قاصر ہوئے اور جواباً ایک غز ل لکھ کر میر فضل اللہ کے ذریعے بھیجی۔سلطان کو یہ غزل بہت پسند آئی اور اس نے انمول و بیش قیمت تحفے تحائف حافظ شیرازی کی خدمت میں روانہ کیا۔ان کی کلیات کو عوام الناس فا ل کے طور پر دیکھتے تھے۔ مشہور واقعہ ہے کہ اورنگ زیب عالمگیرؒ کی شاہی مہر کی آنگوٹھی گم ہو نے پرکسی کے مشورے سے حافظ کا کلام لایا گیاور فا ل نکالا گیااورساتویں صفحہ کے ساتویں لائن پر جوشعر نکلا ٗ اس کا ترجمہ یہ تھا کہ ’’چور کتنا سینہ زور ہے ہتھیلی پہ چراغ لئے کھڑا ہے ‘‘۔پاس ہی خادمہ چراغ لئے کھڑی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اسی نے انگشت چرائی تھی۔ وہ جان کی بخشش مانگتی ہے اور جرم قبول کرتی ہے ۔
حافظ شیرازی ؒ فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے۔ انہوں نے غزل کے علاوہ قصا ئد،مثنویات،قطعات اور رباعیات تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ان کے دیوان میں تقریباً(۵۰۰) غزلیں اور( ۴۲) رباعیات شامل ہیں ۔اوزان اور مو ضوعات کے لحاظ سے یہ رباعیات اہمیت کی حامل ہیں ۔خواجہ حافظ شیرازی سے پہلے فارسی میں رباعی کے فن کو ،عبداشکور بلخی ،،بایزید بسطامی ؒ رودکی ،ابو سعید ابولخیر،فریدالدین عطارؒ مولانا روم ؒ ،عمر خیام ،مولانا سعدی ؒ اور جامی نے تقویت پہنچائی ۔رباعی کے آغاز مولانا شبلی نعمانی کے تئیں یوں ہوا کہ ایرانی بادشاہ یعقوب بن صفار کا کم سن لڑکا اخروٹوں سے کھیل رہا تھا۔کھیل کے دوران ایک اخروٹ گڑھے میں جا گرا ۔اس کے منہ سے نکلا کہ ’’غلطاں غلطاں ہمی رود طالب گور ‘‘ابو الحسن رودکی نے بحر ہزج کی شناخت کرتے ہوئے اس پرتین مصرعے لگائے اور دو بیتی کے نام سے موسوم کیا۔اس طرح موجد رباعی رودکی کو کہا جانے لگا ۔
خواجہ حافظ کی رباعیاں اخلاقی عناصر کی آئینہ دار ہیں ۔انہوں نے فلسفہ اخلاق کو اپنی رباعیات میں کافی جدت طرازی اور جوش بیان سے پیش کیا ہے۔ پندو نصائح سے متعلق جن زرّین خیالات کا اظہار کیا ہے وہ قاری کو متاثر کرتے ہیں ۔ انسان دوستی بھی ان کا ایک اہم مو ضوع رہا ہے ٗ اس سلسلے میں وہ خود کہتے ہیں کہ ’’ہم کو صرف مہر ومحبت سے کام ہے۔ دشمنی ،بغض کینہ ہمارا طرز عمل نہیں ہے ۔‘‘حافظ شیرازی ؒ کی رباعیات میں اخلاقی عناصرکے علا وہ عشقِ حقیقی ٗوقت کی اہمیت ٗ ایثار و ہمدردی ٗ دنیا کی بے ثباتی ٗ صحبتِ صالح اور خوش مزاجی جیسے مو ضوعات ملتے ہیں ٗ جن کا سرسری جائزہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

(۳)
عشق حقیقی:
حافظ شیرازی ؒ کے رباعیات میں عشق الہی کا موضوع کافی اہم ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ نمائشی طاعت بے سود ہے ۔عشق الہی کے لئے صحیح ذوق کی ضرورت ہو تی ہے۔ زاہد خشک عشق وعاشقی کی لذت کیا جانے ۔انہوں نے زاہد خشک کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ظاہری باتوں کا سختی سے تو پابند ہو سکتا ہے لیکن دلی رو حانی کی لذت سے محروم ہوتا ہے۔ ذات ربانی کا عرفان حاصل ہونے کے بعد اسے کائنات حقیر شئے نظر آتی ہے۔ حافظ شیرازی ؒ نے عرفان کو جام حقیقت سے مستعار بتایا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ’’شرابِ معرفت کا جام پی کر ہی قلبی وروحانی سکون حاصل کیا جا سکتاہے ۔‘‘ذیل کی رباعی سے اس خیال کی تفہیم ہوتی ہے۔
من بندہ آں کسم کہ شوقے دارد
بر گر دن خود ز عشق طوقے دارد
تو لذت عشق وعاشقی کے دانی
ایں بادہ کسی خورد کہ ذوقے دارد
وقت کی اہمیت:
وقت انسان کی متاع ہے ۔قران پاک میں بھی وقت کی قدرومنزلت سے متعلق آیات ملتی ہیں ۔سورہ العصر کی ’’قسم ہے زمانے کی انسان بڑے خسارے میں ہے ‘‘کی آیت کے پیش نظر وقت کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں ۔جس کسی نے وقت کا صحیح مصرف کیا وہ فائدہ میں رہا اور نہ کرنے والا نقصان میں ۔حافظ شیرازی ؒ کہتے ہیں کہ زندگی غفلت میں گذاری ٗ مگر اب وقت ہے کہ مئے عرفان سے سر شار ہو جائیں اور نغمۂ ربانی کی طرف دھیان دیں
تا کہ گزشتہ کی تلافی ہو سکے ۔
اے کاش کہ بخت ساز گاری کرتے
با چر خِ زمانہ باز یاری کرتے
از دست جو انیم چوں بر بودِ عناں
پیری چو رکاب پائیداری کر دے
(جوانی آئی اور گئی پیری کا کیا ٹھکا نہ وہ بھی غفلت کی گہری نیند میں ہے ۔اعمال حسنہ سے ہاتھ دھو بیٹھاور طاعتِ الہی سی دور رہے افسوس!)
دنیا کی بے ثباتی :
حافظ شیرازی ؒ نے عشق حقیقی کی معرفت کے بعد دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا ہے۔دنیا فانی ہے اور اللہ کی ذات باقی ہے ۔اللہ باقی من کلی فانی ۔ ذیل کی رباعی سے انہی خیالات کی وضاحت ہوتی ہے :
اس دہر سے اے طفل نہ تو دل کو لگا
اچھا ہے قیامت سے لگانا دل کا
حافظ کی طرح اْس کی ہو بو شاداں
پھر نقد نظر کو اْس کی تو سمجھے گا(۴)
(سامان مسرت میسر ہوں یعنی گوشہ عزلت ہو ٗمئے عرفان ہو ،نغمات الہی کانوں میں گونجتے ہوں اور محبوب حقیقی کا تصور ہو تو پھر اس کو کس چیز کی حاجت باقی رہے گی ۔)
’’ ایثار و ہمدردی ‘‘ :
حافظ کی رباعیات میں ایثار و ہمدردی کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ ان کی رباعیات شخصیت کو جامع اور پر اثربنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں ۔ حافظ کہتے ہیں کہ غمگین ہوں مگر کسی اور کی دردِ دل کی آواز سنتاہوں تو تڑپ اْٹھتا ہوں اور خون کے آنسوجاری ہوتے ہیں ۔ایسے انسان کی مثال اس درخت کے مانند ہے جو خود دھوپ میں رہ کر لوگوں کو فرحت و انبساط فراہم کرتا ہے ۔حافظ کی درجِ ذیل رباعی سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ ان کا دل کسی اور کے لئے مغموم ہوتا ہے اور تڑپ جاتے ہیں
مانند صراحی ہوں میں اشک خونیں
فرقت میں شمع سے فزوں روتا ہوں
مثل ساغر ہوں دل کے تنگی کے سبب
آتے ہی صدا چنگ سے خوں روتا ہوں
شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی ایثار وہمدردی اوراخوت و محبت کے سلسلے میں بیشتر اشعار قلمبند کیے ہیں ۔ذیل کا شعر آفاقی قدروں کا حامل بن گیا ہے ۔ ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
’’ خوش مزاجی ‘‘:
حدیث شریف ہے کہ ’’مسکراکر بات کرنا بھی صدقہ ہے ۔‘‘حافظ شیرازی کے اخلاقی رباعیات میں ایک پہلو خوش مزاجی بھی ہے انھوں نے
’’ خنداں لب‘‘ کا استعمال کر کے خوش مزاجی کی تصویر کشی کی ہے ۔‘شیریں طرز گفتگو سے زمانے کو فتح کیا جا سکتا ہے ۔دلوں کی سلطنت جیتنے کے لئے تلوار کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ محبت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مختصر سی زندگی میں انسان کو خوش مزاج ہونا چاہئے تا کہ دنیا ہمیشہ یاد رکھے ۔غصہ و غضب کی تیز آندھی سے انسانی زندگی تہس ونہس ہو جاتی ہے ۔ حافظ شیرازی کی زیرِ نظر رباعی سے یہی بات سامنے آتی ہے ۔
دریا کے کنارے بادۂ نوشی بہتر
اور غیز و غضب سے ہو حزراْلی تر
جب اپنی متاع عمر دس روز کی
خندہ روئی سے ہی گذاریں اکثر
——
حواشی : رباعیاتِ حافظ شیرازی ۔مشورہ بک ڈپو ۔رام نگر دہلی
شعر العجم ۔حصہ دوم ۔شبلی نعمانی ۔معارف اعظم گڑھ 1947
دیوانِ حافظ ۔سید سجاد حسین
دیوان حافظ مترجم:خواجہ سید سجاد حسین

حافظ شیرازی
Share
Share
Share