میں بہت مصروف انسان ہوں
از:صادق رضامصباحی،ممبئی
موبائل نمبر:09619034199
اگرآپ کوبہت زیادہ بھوک لگی ہو اور آپ اپنے گھرمیں دسترخوان پربیٹھے کھانا تناول فرمارہے ہوں کہ اچانک پڑوس میں آگ لگ جائے توآپ کیاکریں گے؟ کھانا کھائیں گےیا آناًفاناً اٹھ کر آگ بجھانے کے لیے دوڑ پڑیں گے؟اس سوال کے جواب کے لیے زیادہ مغزماری کی ضرورت نہیں۔ظاہرہے کہ آپ آگ بجھانے کے لیے فوراً سرپٹ بھاگ پڑیں گے اوراُس وقت کتناہی اہم کام کیوں نہ ہوگا،انہیں ایک کنارے ڈال دیں گے ۔
اس مثال سے ایک بات سمجھ میں آئی کہ انسانی زندگی میں ترجیجات کی بہت بڑی اہمیت ہے۔اگرترجیحات کاتعین نہ ہوتوزندگیاں بکھررہ جائیں گی ،ان میں تعطل درآئےگا،ان کا نظام درہم برہم ہوجائےگااوراس کے نتائج اتنے ہولناک برآمدہوں گے کہ پھراس کی تلافی بھی نہیں کی جاسکے گی کیوں کہ ترجیحات کامطلب ہی یہی ہے کہ وقت کی جوضرورت ہے اس پرفوراًلبیک کہاجائے ۔ لبیک نہ کہنے کی صورت میں وقت آگے نکل جائے گاانسان پیچھے رہ جائے گااوریوں دونوں میں دوریاں بڑھتی جائیں گی مگر کیا کریں ہمارے معاشرے کے لوگوں کواتنی چھوٹی سی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔کہنے کوتوہم بہت پڑھے لکھے ہیں ،ڈگری یافتہ ہیں مگرتعلیم یافتہ نہیں ہیں۔آج ہرکسی کی زبان پروقت کی کمی کاشکوہ ہے ۔اس شکوے نے معاشرے کوایک بہت بڑے بحران سے دوچارکیاہے ۔بھائی کوبھائی سے ملنے کا وقت نہیں ،رشتے داروں کوتوہم نے ایسےچھوڑرکھاجیسے کہ ان سے ہماراکوئی تعلق ہی نہیں ۔ بس صرف پیسے کمانے کی ایسی ہوڑمچی ہے کہ اللہ کی پناہ ،اب چاہے یہ پیسہ حرام کاہویاحلال کا،بس پیسہ آناچاہیے ۔اسی پیسے نے وقت کی کمی کاشکوہ عام ترکردیاہے اوراسے زبان زدعام وخاص بنا دیا ہے۔
آپ کسی سے بھی کوئی اہم بات کہیں تووہ آپ سے ضروریہ شکوہ کرے گاکہ ’’میں بہت مصروف ہوں یار،مجھے وقت نہیں مل پاتا۔‘‘اس بحران میں بڑے زیادہ ہی ملوث ہیں ،بلکہ وہی اس کے ذمے دارہیں کیوں کہ ’’کام کاج ‘‘انہی کے پاس زیادہ ہوتاہے اور’’ذمے داری ‘‘ وہی نبھاتے ہیں ۔ان سے پوچھاجاسکتاہے کہ جناب !آپ کوذمے داری کی تعریف معلوم ہے ؟اس سوال پرہی فوراً ان کی بھنویں تن جائیں گی اور ان کے اندر بیٹھا ہوا ’’تعلیم یافتہ ‘‘انسان اپنے دونوں ہاتھوں میں ڈگریا ں لے کرباہرآجائے گامگرجب آپ انہیں ٹٹول کردیکھیں گے تویہ رازواشگاف ہوگاکہ موصوف محض ڈگری یافتہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں حقیقی ذمے داری کی تعریف کی ہوابھی نہیں لگی ہے ۔ذمےداری کاحقیقی اورواقعی مطلب یہ ہے کہ جوکام زیادہ ضروری ہو،اسےترجیحی طورپرپہلے انجام دے کراپنی ذمے داریاں نبھانی چاہیے ۔ صحیح معنوں میں ذمے دار شخص وہی ہے جوترجیجی طورپرکاموں کوسرانجام دے ورنہ اگرانسان یوں ہی کام پرکام کرتاچلاجائے ،اسے معلوم نہ ہوکہ ضرورت کیا ہے ، تقاضے کیاہیں،چیلنج کیاہےمگرپھر بھی وہ خودکوذمے دار سمجھے توآپ یقین کر لیجیے کہ یہ شخص ذمے دار ہرگز نہیں ہے ،یہ بہت بڑاریاکارہے اورمحض ذمے دارہونے کا ناٹک کر رہاہے،یہ شخص مکھی پرمکھی مارنے کاماہرہے ۔ایساشخص یاتوخوش فہمی کاشکارہے یااپنے چاہنے والوں کودھوکہ دے رہاہےاوراس تناظرمیں یہ شخص مجرم بھی ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے اشرافیہ میں ایسے ہی ’’مجرموں ‘‘ کی کثیرتعداد ہے جوذمے دارسمجھے جاتے ہیں مگرذمے دارہیں نہیں۔
مذہبی طبقے کےعلاوہ متوسط عام طبقے میں بھی یہ بیماری آج بہت تیزی سے پھیل چکی ہے ،گوکہ یہ بات درست ہے کہ معاشی ضرورتوں نے انسانوں کوبہت مصروف بنادیاہے۔اگرایک طبقہ اپنے گھرکی گاڑی کھینچنے کے لیے صبح سے شام تک پسینہ بہاتاہے تودوسری طرف ایک طبقہ وہ ہے جوزیادہ سے زیادہ کما کراپنا اوراپنے بچوں کامستقبل’’محفوظ ‘‘ کرلیناچاہتاہے ، وقت کم کی شکوہ ایسے لوگوں کی زبانوں پربہت زیادہ جاری ہوتا ہے ۔ایسے لوگوں کامستقبل کتنا’’محفوظ‘‘ہوتاہے یہ بھی وقت نے ثابت کردیاہے ۔وقت میں بے برکتی کاشکوہ کرنے اوروقت نہ ہونے کاعذرپیش کرنے والوں کو سمجھ لیناچاہیے کہ اہم کام چھوڑ کر غیر اہم کام کرنا یا اہم ترین کاموں کونظراندازکرکے اہم کاموں کے پیچھے بھاگناایساہی ہے جیسے آپ کوپڑوس میں لگی ہوئی آگ کی فکرنہیں ہے اورنہ ہی کوئی غم ،بس آپ اپنے گھر میں دسترخوا ن پربیٹھےاپناپیٹ بھر رہے ہیں تو آپ سے بڑابے حس ،بے ضمیراورمفادپرست کون ہوگا۔جس طرح یہ خطرہ اکثرہوتاہے کہ پڑوس میں لگی ہوئی آپ کے گھرکوبھی متاثرکرسکتی ہے اسی طرح یہ خطرہ بھی اپنی جگہ برقراررہتاہے کہ غیر اہم کواہم کام ترجیح دینے کے منفی نتائج آج نہیں توکل نکلنے ہی والے ہیں اوراس کا خمیازہ اگرآپ نہیں توآپ کے بچوں اورآنے والی نسلوں کوتوملنے ہی والاہے کیوں کہ آپ بس ایک ہی جملے کی سلاخوں میں قید ہیں :’میں بہت مصروف انسان ہوں‘۔
—
SADIQUE RAZA MISBAHI MUMBAI
MOB:09619034199