دیپک بدکی بحیثیت تبصرہ نگار : – ڈاکٹر صفیہ بانو ۔ اے شیخ

Share
دیپک بدکی

دیپک بدکی بحیثیت تبصرہ نگار

ڈاکٹر صفیہ بانو ۔ اے شیخ
احمد آباد ۔ گجرات

تخلیقی ادب کے اپنے مثبت و منفی مسائل و اثرات ہوتے ہیں۔ تخلیق کار اپنی تخلیقی صلاحیت سے مطالعے اور مشاہدے کا سہارا لے کر روزمرہ کے حالات،زندگی کی اٹل سچائیوں اورتصوراتی دنیا سے روشناس کراتا ہے۔ اپنے خیالات کی ترسیل میں کون کتنا کامیاب ہوتا ہے یہ اس کے اسلوب پر منحصر ہونا ہے ۔تاہم ہر شاعرو نثر نگار فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ہر تخلیق کواپنے مخصوص انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں ہمیشہ ترقی کی منزلیں طے کرنے کی کوششیں جاری و ساری رکھتاہے تاکہ پڑھنے والوں کے دل و دماغ پر اپنے تاثرات چھوڑ سکے۔ بقول غالبؔ


ہیں اور بھی دنیا میں سخنو ر بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
اس شعرکے ذریعے غالبؔ نے اپنے انداز بیان کو ہم عصروں سے الگ اور منفرد بتا د یا ہے ۔ وہ اسلئے کیوں کہ غالبؔ جس زمانے میں شاعری کر رہے تھے اس وقت ایک سے بڑھ کر ایک معیاری شاعری کرنے والے شاعر کار زارِ ادب میں موجود تھے مثلاً ذوقؔ ، مومنؔ ،سودا ،ؔ حالیؔ ،وغیرہ ۔اسی طرح جیسے شاعر اپنی بات شعری پیرائے میں کہنے میں ماہر ہوتا ہے ویسے ہی نثر نگار بھی اپنی بات نثر میں کہنے کے لیے فکشن ،مضامین ، مکتوب نگاری ا ور تنقید وغیرہ کا سہارا لیتا ہے اور اسے بڑی خوبصورتی سے قاری کے سامنے رکھ لیتا ہے۔ مثال کے طور پر سرسید نے اپنی نگارشات سے ثابت کر دیا کہ اردو زبان میں بھی ہر طرح کی اور ہر طرح سے بات کہی جا سکتی ہے۔ اس بات کی تصدیق عبداللطیف اعظمی نے اپنے مضمون میں سر سید کے بیان سے اس طرح کی ہے :
’’ جہاں تک ہم سے ہوسکا ، ہم نے اردو زبان کی علم و ادب کی ترقی میں ، اپنے ناچیز پرچوں کے ذریعہ سے کوشش کی (۱) مضمون کے ادا کا ایک سیدھا اورصاف طریقہ اختیار کیا (۲) رنگین عبارت سے جو تشبیہات اور استعاراتِ خیالی سے بھری ہوتی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا ، پرہیز کیا (۳) اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو مضمون کے ادا میں ہو (۴) جو اپنے دل میں ہو ، وہی دوسرے کے دل میں پڑے ، تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے ۔ ‘‘ ۱؂
سرسید جس زمانے میں لکھ رہے تھے اس وقت لوگوں میں نثری اصناف کی اتنی بیداری نہیں تھی۔ سرسید نے پڑھنے اور لکھنے کے آداب سکھائے اور یہی وجہ ہے کہ قوم میں علمی بیداری لانے والے سرسید جیسی شخصیت کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے حالانکہ سرسید کے زمانے میں نواب محسن الملک ، نواب وقارالملک ، مولوی چراغ علی ، مولوی ذکاء للہ، خواجہ الطاف حسین حالی ، شبلی نعمانی ، مولانا نذیر احمد ، اور مولوی زین العابدین جیسے ادیب موجود تھے ۔
جس طرح شعر کہنا اور نثر میں اظہارِ خیال کرنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح تخلیقات کو ادب کی کسوٹی پر پرکھ کر اس پرتنقید کرنا یا پر مغز تبصرہ کرنا بھی بہت مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ اردو کے ابتدائی زمانے میں اس کا رواج عام نہیں تھا جس کے سبب بہت سی اہم کتابیں گمنامی کی بھول بھلیوں میں کھو گئیں۔ حالانکہ ابتداء زمانے میں چند ادیبوں نے تذکرے رقم کرکے اردو پر بہت بڑا احسان کیا مگر حقیقی شروعات حالی کی تنقید نگاری سے ہوئی۔حالی کے بعد تنقید نگاروں کا ایک کارواں سامنے آیا جس میں کچھ اہم نام یوں ہیں؛ کلیم الدین احمد، رشید احمد صدیقی،امداد امام اثر،مولوی عبدالحق،افسر میرٹھی،وزیرآغا اورشمس الرحمٰن فاروقی وغیرہ۔
دراصل تبصرہ ایسا فن ہے جس کے ذریعے مبصر تخلیق کی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کرتا ہے اور اس طرح قارئین کو کتاب پڑھنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ بعض لوگ تبصرہ کو تنقید کا ہی ایک جزو مانتے ہیں کیونکہ اس میں تبصرہ نگار کی علمیت اور تجزیاتی ذہن کار فرما ہوتے ہیں اور وہ تخلیق کو اپنے تنقیدی میزان کی کسوٹی پر پرکھ کر اس پر اپنی رائے ظاہر کرتا ہے۔ عبادت بریلوی تبصرہ نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
’’ تبصرہ نگاری کو پوری طرح تنقید تو نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ اس کا مقصدتنقید سے قدرے مختلف ہوتا ہے ۔‘‘ ۲؂
اسی بات کو کلیم الدین احمد نے بھی اپنے انداز میں لکھا ہے ۔ وہ اپنے مضمون ’اردو میں تبصرہ نگاری ‘میں اس کی یوں وضاحت کرتے ہیں :
’’ تبصرہ ایک فن ہے اور فن تنقید کی ایک شاخ۔ اردو میں فن تنقید،اس کے اصول اور اغراض و مقاصدسے صحیح واقفیت نہیں۔‘‘ ۳؂
مذکورہ حوالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تبصرہ تنقید کے بہت نزدیک ہوتے ہوئے بھی الگ حیثیت رکھتے ہیں ۔ پس یہ ثابت ہوا کہ تبصرہ تنقیدی صنف کی ہی ایک شاخ ہے مگر اس میں وہ بال کی کھال اتارنے والا معاملہ نہیں رہتا ہے جو تنقیدی مضامین میں نظر آتا ہے ۔در اصل یہ پرنٹ میڈیا کی دین ہے ۔ جب کتابیں بڑی تعداد میں چھپنے لگیں تو ایک طرف ان کی نکاسی کا مسئلہ سامنے آیا اور دوسری طرف تعلیم کے پھیلاؤ کے سبب بازار میں کتابوں کی طلب بہت زیادہ بڑھنے لگی ۔ان دونوں مسئلوں کا حل ڈھونڈنے کے لیے اخباراور رسالے سامنے آئے تاکہ صحیح کتاب صحیح ہاتھ میں پہنچ سکے۔ اشتہاروں سے یہ کام نا ممکن تھا کیونکہ اشتہاروں میں مبالغہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے ۔اس لیے ضروری تھا کہ کوئی تیسرا آدم جو نہ مصنف ہو اور نہ ہی قاری ہو ، کتاب پڑھے اور اس پر اپنی بے لاگ رائے ظاہر کرے تاکہ انجان قاری یہ سمجھ سکے کہ کتاب کا موضوع کیا ہے اور کار آمد ہے کہ نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم عصر اور آنے والی نسلوں کی رہبری کے لیے نئی کتابوں پر تبصرے لکھے جانے لگے تاکہ لوگ کتاب کی غرض وغایت سے روشناس ہوں اور اس سے فائدہ اٹھاسکیں ۔تاہم مبصر پر یہ ذمہ داری عائد ہو گئی کہ وہ کتاب سے متعلق جو کچھ بھی تاثرات ، تجربات و مشاہدات حاصل کرے، اس کو خوش اسلوبی سے اور صرف کام کی باتوں کو اہمیت دیتے ہوئے اس انداز سے تبصرے کے توسل سے قاری تک پہنچائے کہ دلچسپ کتاب سے پڑھنے والا اس قدر راغب ہوجائے کہ وہ نہ صر ف خود اس کتاب کو پڑھے بلکہ دوسروں تک بھی اس کا پیغام پہنچا سکے ۔ اس بات کو وقار عظیم مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’ بات کہنے والا بات کہے اور اس نیت اور مقصد سے کہے کہ سننے والا اسے توجہ سے سنے اور اس میں دلچسپی محسوس کر ے تو اس کے دل میںیہ معلوم کرنے کی خواہش بھی بیدار ہوتی ہے کہ سننے والے پر اس کی بات کا کیا ردّعمل ہوا ، اور یوں اظہار کی خواہش اور اس اظہار کا ردّعمل دیکھنے کی آرزو ایک ہی احساس کے دولاینفک جز بن جاتے ہیں ۔ اب اگر بات کہنے والا یہ اندازہ کرے کہ اس کی بات اس کے سامع یا مخاطب کے دل میں اپنی جگہ بنا رہی ہے تو اس کا اثر اس کے اسلوب اظہار پر پڑتاہے اور اس کا یہ احساس مسرت کہ اس کی کہی ہوئی بات دوسروں کے لیے باعث کشش اور دل نشینی ہے ۔ ‘‘ ۴؂
نقاد کی طرح ہی مبصر کا کام بہت ہی مشکل ہوتا ہے ۔ ایک طرف مصنف یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کی صرف تعریف کرے کیونکہ اپنی تصنیف کو وہ اولاد کی طرح عزیز رکھتا ہے اور دوسری طرف قاری یہ توقع رکھتا ہے کہ مبصر دیانت داری اورکسی تعصب کے بغیر اپنا کام انجام دے اور کھوٹے کو کھرا نہ کہے۔ یہ تو تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے۔ مبصر جتنی غیر جانبداری، اختصار اور خوش اسلوبی سے کسی بھی کتاب کے متعلق تبصرہ پیش کرتا ہیں اتنا ہی وہ موئثر ہوتا ہے اور اسے اپنی پہچان بنانے اور پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لینے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ہے۔ انجام کار اس مختصر سی معلومات کے زیراثر لوگ مذکورہ کتاب کو پڑھنے کے لیے راغب ہوجاتے ہیں۔ جدید اردو ادب میں ایسے بہت سے ادیب و صحافی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے تخلیقی فن کے جوہر دکھائے ہیں بلکہ وہ ایک مبصر کی حیثیت سے بھی سامنے آئے ہیں ۔حال ہی میں یہ روش بھی عام ہو چکی ہے کہ تبصرے تو اخبار وں اور رسائل میں چھپے گے ہی مگر ان کو آنے والی نسل کے لیے محفوظ کرنے کے لیے کتابی صورت میں بھی پیش کیا جانے لگا ہے۔ مگر اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ تبصرہ بہت عرق ریزی کے بعد لکھا گیا ہو، رقم کرنے سے پہلے ساری کتاب کا مطالعہ کیا گیا ہو، کتاب کے مثبت و منفی پہلوؤں کو اختصار کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہو، تجزیے کے دوران اپنے نظریاتی تعصب کو دور رکھ گیا ہو اور تبصرے کو خوش اسلوبی کے ساتھ لکھا گیا ہو۔
ہم عصر افسانوی ادب کے ایک ایسے ہی قلم کار دیپک بدکی ہیں جنہوں نے سنجیدگی سے تبصرہ نگاری کی صنف کو اپنا لیا ہے ۔ ان کے افسانے ہند و پاک سے لے کر سمندر پار اردو کی نئی بستیوں تک مقبول ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنیزندگی کا بیش قیمت وقت یا تو افادۂ عام کے لیے سرکاری ملازمت یا پھر ادبی خدمات میں صرف کیا ہے ۔ چنانچہ ان کی تحریریوں سے ان کے گہرے مطالعے اور مشاہدے کا پتہ چلتا ہے۔وہ زندگی کے سفر کے اس پڑاؤ پر بھی دن میں آٹھ دس گھنٹے کتب بینی میں صرف کرتے ہیں۔ ان کی ملازمت کی بات کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے پانچ سال کشمیر ایمپوریم میں نوکری کرکے انڈین سوِل سروس کا امتحان پاس کیا اور پھر بھارتیہ ڈاک محکمے میں تعینات ہوئے۔اسی نوکری کے دوران وہ نو سال فوج میں ڈیپوٹیشن پر رہے اور لیفٹینٹ کرنل کا عہدہ پاکر واپس اپنے محکمے میں چلے آئے۔ آخر میں وہ ۲۰۱۰ء میں ممبر (پلاننگ)،پوسٹل سروسز بورڈ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔ انہوں نے جہاں ایک جانب پچھتّرسے زائد خوبصورت افسانے لکھے ہیں وہیں عصری اردو ادب ، ادیبوں اور ان کے کارناموں پر تنقیدی مضامین و تبصرے بھی رقم کیے ہیں۔اس سلسلے میں ایم مبین اپنے خیالات کا یوں اظہارکرتے ہیں:
’’ دیپک بدکی نے نہ صرف افسانہ نویسی کی ہے بلکہ عصری اردو ادب اور عالمی ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے ۔ انہیں اس دوران جو بھی عصری اردو ادب کی کتابیں پڑھنے کی ملیں انہوں نے بڑے خلوص سے ان کتابوں پر اپنی بیباک رائے لکھی ہے ۔ ‘‘ ۵؂
جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے دیپک بدکی کے تخلیقی سفر کی ابتداء یوں تو بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی سے ہوئی مگرموافق حالات نہ ہونے کے سبب انہوں نے سات آٹھ سال کے بعد لکھنا ترک کردیا۔لیکن دل کے کسی گوشے میں لکھنے کی خلش اور اظہار کی چبھن ابھی بھی باقی تھی اس لیے انھوں نے ۱۹۹۶ء سے دوبارہ لکھنا شروع کیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے گزشتہ سولہ سال میں اردو ادب کو چار افسانوی مجموعے اور تین تنقیدی مضامین و تبصروں کے مجموعے دیے جن کے نام یہ ہیں:
افسانوی مجموعے (۱) ادھورے چہرے (۲) چنار کے پنجے (۳) زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی (۴) ریزہ ریزہ حیات ؛ تنقیدی مضامین و تبصروں کے مجموعے : (۱) عصری تحریریں (۲) عصری شعور (۳) عصری تقاضے
اول الذکر مجموعوں کے افسانے ہندوستان ، پاکستان اور یوروپ کے کئی مؤقر اخباروں اور رسالوں میں چھپے ہیں اور اس کے بعد کتابی شکل میں منظر عام پر آئے ہیں ۔ اسی طرح ان کے تنقیدی مضامین و تبصرے بھی مختلف اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً شائع ہوئے ہیں اور ان کو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ انٹر نیٹ پر بھی دیپک بدکی کے دو نجی بلاگ چل رہے ہی جن پر وہ اپنی تخلیقات کو انٹرنیٹ کی وساطت سے قارئین تک پہنچاتے ہیں۔
budki.blogspot.com) (deepakbudki.com &
بدکی نے جب باقاعدگی سے افسانے لکھنا شروع کیا تھا تب اس بات کا اندازہ لگاناناممکن تھا کہ وہ جتنے اچھے افسانے تحریر کرتے ہیں اتنے ہی اچھے تبصرے بھی تحریر کریں گے ۔ اس بات کی توثیق عصری اردو ادب کی کتابوں پر کئے گئے ان کے تبصروں اور تنقیدی مضامین سے ہوتا ہے جو اب کتابی شکل میں ’عصری تحریریں ‘ اور’ عصری شعور‘ کے نام سے ہمارے سامنے آچکے ہیں۔اس میدان میں قدم رکھنے کے بارے میں تبصرہ نگار خود ہی ’عصری تحریریں‘ کے’ حرف اول‘ میں فرماتے ہیں کہ:
’’ یہ محض اتفاق تھا کہ میں نے تبصرہ نگاری کے میدان میں قدم رکھا ۔ ہوا یوں کہ ماہنامہ انشاء کولکتہ کے مدیر ف س اعجاز نے اپنی تصنیف ’صاحب فن ‘ میری رائے جاننے کے لیے بھیج دی۔رائے قلم بندکرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ میں کتاب پڑھوں ، سمجھوں اور پھر اپنے تاثرات لکھ دوں۔ سو میں نے ایسا ہی کیا ۔ پھر نہ جانے کہاں سے کتابوں کا ایک سیلاب سا آیا۔……..تاثرات لکھتے وقت میں نے کبھی بخیلی سے کام نہیں لیا البتہ جن کتابوں پر تبصرے لکھے ، ان کواول تا اخیر پڑھا ، نوٹس بنائے ، اور پھر اپنے تاثرات قلم بند کیے۔یہی وجہ ہے کہ ان تبصروں میں نہ تو عام تبصروں کی سطحیت اور اختصارملے گا اور نہ ہی تنقیدی مضامین عمق اور طوالت۔ ہ تاثراتی تبصرے کسی مخصوص مکتب فکر کی دین نہیں ہیں‘‘۶؂
اپنی تبصرہ نگاری کے بارے میں دیپک بدکی ’عصری شعور‘ کے حرف آغاز میں مزید لکھتے ہیں :
’’یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میں نے روایتی تبصرے قلمبند کرنے سے ہمیشہ گریز کیا ہے ۔ چنانچہ میں نہ تو کسی رسالے سے وابستہ ہوں اور نہ ہی کسی ایڈیٹر کے تقاضے کی امید کرتا ہوں۔ اس لیے میں زمانی و مکانی بندشوں اور حد بندیوں سے آزاد ہوں۔عام طور پر رسالوں کے لیے عجلت میں بہت ہی مختصر تبصرے تحریرکیے جاتے ہیں جن سے قاری کی تشنگی برقرار رہتی ہے۔ میں جب تک تصنیف کو اوّل سے آخر تک نہیں پڑھتا ، اس پر قلم نہیں اٹھاتا اور جب اس تصنیف کو پورا پڑھتاہوں تو کم سے کم الفاظ میں اس کا لب لباب پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی اپنی بے لاگ رائے بھی قلمبند کرتا ہوں۔اس کے علاوہ زیر نظرتصنیف سے چیدہ چیدہ اشعار یا اقتباسات بھی ہائی لائٹ کرتا ہوں۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری اس کتاب کامطالعہ کرنے کی جانب راغب ہو جائے اور تخلیق کار کو اپنی محنت کا پھل مل جائے۔‘‘ ۷؂
دیپک بدکی کی تبصرہ نگاری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے رفیق شاہین تحریر کرتے ہیں کہ:
’’تبصروں اور تاثرات میں مباحث اور تماثیل کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ شعور ادراک اور افہام تفہیم کو بروئے کار لاکر ہی اپنے Subject کا محاسبہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنی نپی تلی زبان کا استعمال کرتے ہیں اور کسی فنکارکے محاسن بیان کرتے وقت نہ تو جذباتی ہوتے ہیں اور نہ جانب داری کے غار میں گرتے ہیں۔‘‘ ۸؂
اسی طرح ڈاکٹر انوار احمد انصاری دیپک بدکی کی تبصرہ نگاری پر یوں رقم طراز ہیں:
’’تبصرے اور تنقیدی مضمون مین کافی فرق ہوتا ہے لیکن دیپک بدکی نے اپنی رائے ظاہر کرنے کے لیے بیچ کا راستہ اپنایا ہے جسے تاثراتی تنقید کہا جاسکتا ہے۔ ایک طرح سے انھوں نے ایک نئی صنف کی بنیادڈالی ہے ۔‘‘ ۹؂
اس طرح یہ واضح ہے کہ دیپک بدکی نے نہ صرف انتقادیات کو بلکہ تبصرہ نگاری کو بھی بری سنجیدگی سے لیا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ اس میدان میں بھی ادب کی نئی راہیں ڈھونڈ نکالیں گے۔
——–
حوالہ جات
نمبر مضمون ؍ تصنیف مصنف؍ مد یر صفحہ
(۱)عبدالطیف اعظمی اردو نثر کی ترقی میں سرسید کا حصہ ( سہ ماہی ادیب علی گڈھ ، جولائی تا دسمبر ۔۱۹۹۳ء ) ۱۷۳
(۲) عبادت بریلوی تبصرہ نگاری ( اردو تنقید کا ارتقاء) ۴۵۸
(۳) کلیم الدین احمد اردو میں تبصرہ نگاری (اردو تنقید پر ایک نظر) ۳۲۷
(۴) وقار عظیم مضمون ’ افسانہ نگار اور قاری (فن افسانہ نگاری ) ۲۵۱۔۱۵۲
(۵)ایم مبین مضمون ’ عصری تحریریں ۔ معاصر ادب کا آئینہ‘ (بحوالہ ورق ورق آئینہ : دیپک بدکی شخصیت اور فن ) ۲۱۶
(۶) دیپک بدکی حرفِ اوّل عصری تحریریں ( تنقیدی مضامین و تبصرے ) ۱
(۷) دیپک بدکی حرفِ آغاز عصری شعور ( تنقیدی مضامین و تبصرے ) ۱
(۸)رفیق شاہین آسمان تنقید کا درخشاں ستارہ ۔ دیپک بدکی ( بحوالہ ورق ورق آئینہ : دیپک بدکی شخصیت اور فن) ۲۰۶
(۹) انو احمد انصاری عصری تحریریں ( بحوالہ ورق ورق آئینہ : دیپک بدکی شخصیت اور فن) ۲۵۵
——–
Dr. Sufiyabanu .A. Shaikh
Ahmedabad – Gujarat

ڈاکٹر صفیہ بانو
Share
Share
Share