اردو ہے مرا نام
</p”>تحریر:تحریر: فرہاد احمد فگارؔ
اُردو ہماری قومی زبان ہے اکثر لوگ اس زبان کو بہت سہل اور آساں سمجھتے ہیں۔ایم ۔اے اردو کرنے والے اکثر طلبہ سے جب اس میدان میں آنے کی وجہ پوچھی جائے تو جواب ملتا ہے کہ آسان سمجھ کر آئے یا پھر کسی اور شعبے میں داخلہ نہیں ملا تو اردو میں مل گیا۔ یہ لوگ جب ڈگری لے کر عملی زندگی میں آتے ہیں تو کئی طرح کی اغلاط جنم لیتی ہیں۔اردو میں اگر کوئی شوق کی وجہ سے آ تا بھی ہے تو اس پر غلامانہ اور منفی سوچ رکھنے والے طنز کے نشتر برساتے ہیں۔
اردو پڑھانے والے ہمارے اکثر اساتذہ الفاظ کے تلفظ اور املا سے بھی واقف نہیں ہوتے اور نتیجے کے طور پر غلط اردو لکھی اور بولی جاتی ہے۔ میری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ اردو کو بہتر طریقے سے سیکھوں اور کسی دوسرے کی اصلاح کا سبب بنوں۔ اس سلسلے میں کچھ الفاظ اور تراکیب کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جن کا ہمارے ہاں غلط استعمال ہوتا ہے۔
جل تھل:
ہمارے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر کئی مرتبہ پڑھنے اور سننے میں آتا ہے کہ بارش کے بعد جل تھل ہو گیا۔جل تھل سے مراد لی جاتی ہے کہ بارش کے بعد ہر جگہ پانی جمع ہو گیا۔ جل بہ معنی ’’پانی‘‘ اور تھل بہ معنی’’ صحرا‘‘۔ اس اعتبار سے جل تھل کا مطلب ہوا ’’جل خشک ہو گیا‘‘مراد پانی سوکھ گیا۔ تھل جل کہیں گے تو اس کا درست مطلب بنے کہ اتنی بارش ہوئی کہ تھل(صحرا) بھی جل(پانی) ہو گیا۔ اردو محاورہ’’جل تھل ایک ہونا‘‘ ہے۔جس کا مطلب واضح ہے کہ بہت زیادہ بارش ہونا۔
صُبح کا ناشتا:
ایک صاحب نے اپنا سفر نامہ فیس بک پر لگایا جس میں جا بہ جا ’’صبح کا ناشتا ‘‘ لکھا گیا۔ میں نے سوال کیا۔بھائی کیا ناشتا شام یا رات کا بھی ہوتا ہے؟ ان صاحب نے کمال اعلا ظرفی سے اصلاح قبول کی۔ ہمارے اکثر چاے خانوں اور ہوٹلز پر بھی بہت نفاست سے لکھا ہوتا ہے’’صبح کا ناشتا ‘‘ سری پاے ،نہاری وغیرہ وغیرہ۔ یاد رہے کہ یہاں لفظی اسراف ہے صرف ’’ناشتا ‘‘ کہ دینے سے آپ کا مطلب واضح اور صاف ہو جاتا ہے تو ’’صبح کا‘‘ لگانا بے معنی ہے۔
بہت شدید درد:
ایک دوست کے سر میں درد تھا کراہتے ہوئے بولا ’’میرے سر میں بہت شدید درد ہے۔‘‘ میں نے کہا بھائی بہت ہو گا یا شدید ہو گا۔ شدت یا شدید بہت زیادہ ہی ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی یہ غلط ہے جیسے کوئی کہے ’’سب سے بہترین‘‘ یا ’’سب سے خوب صورت ترین‘‘ ایسے جملے اور تراکیب سننے میں بار ہا آئے جو کہ غلطی شمار ہوں گے۔
رنگ بہ رنگ پھولوں کا گُل دستہ:
سید سلمان ندوی کی کتاب خطباتِ مدراس کے پانچویں خطبے ’’جامعیت‘‘ میں ایک جگہ درج ہے’’ دائمی پیغمبر کی زندگی ان تمام مختلف مناظر کے رنگ بہ رنگ پھولوں کا گُل دستہ ہو۔‘‘ ہمارے گیارہوں جماعت کے اردو کے نصاب میں بھی یہ سبق شامل ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اردو لغات میں’’گُل دستہ‘‘ کا مطلب ہی ’’سجا کر باندھے ہوئے پھول‘‘ہے۔
جب گُل آگیا تو واضح ہو جاتا ہے کہ پھولوں کا دستہ ہی ہو گا نہ کہ کانٹوں کا۔اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پھولوں کا گل دستہ کہنا یا لکھنا غلط ہو گا۔رنگ بہ رنگ پھولوں کا دستہ یا پھر رنگ بہ رنگ گُل دستہ میرے خیال کے مطابق درست ہو گا۔
محفلِ مُشاعَرَہ:
شعر خوانی کی محافل کے لیے عموماً ’’محفلِ مشاعرہ‘‘ کی ترکیب کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو کے مستند لغات کی رو سے اگر دیکھا جائے تو ’’مُشاعَرَہ‘‘ کا مطلب ’’شعر خوانی کی محفل‘‘ ہوتا ہے۔مشاعرے کے ساتھ محفل لگانا بھی غیر ضروری ہے اورغلطی شمار ہو گی۔محفلِ شعریا مشاعرہ کہ دینا درست اور بہتر ہو گا۔
قریب المرگ:
کسی ایسے شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے جو بسترِ مرگ پر موجود ہو۔اردو قواعد کے اعتبار سے دیکھیں تو قریب المرگ غلط ترکیب ہے۔ قریب اور مرگ فارسی جب کہ ال عربی ہے اس لیے فارسی کے ساتھ عربی کا جوڑ غلط ہے۔درست ترکیب ’’قریبِ مرگ‘‘ یا ’’قریب الموت‘‘ ہو گی۔
نعتیہ کلاموں:
باباے اردو مولوی عبدالحق اپنی کتاب ’’چند ہم عصر‘‘کے پہلے خاکے منشی امیر احمد صاحب مرحوم میں ایک جگہ امیر مینائی کے نعتیہ کلام کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ان کا کلام ’’نعتیہ کلاموں میں بہت قابلِ تعریف ہے۔‘‘ کلام از خود کلمے کی جمع ہے۔ جب ہم کلام کہیں گے تو مراد کل یا کچھ شاعری ہو گی۔ اگر ہم کلامِ میر یا کلامِ غالب وغیرہ کہتے ہیں تو اس سے مراد ان شعرا کا تمام یا کچھ کلام ہو گا۔اگر کلاموں کہیں گے تو یہ غلطی تصور ہو گی۔ دیوانِ غالب ؔ میں ان کے تمام کلاموں کو یک جا کر دیا گیا ہے نہیں ہو گا بل کہ دیوانِ غالب ؔ میں ان کے تمام کلام کو یک جا کر دیا گیا ہے۔
جناب پرنسپل صاحب:
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جناب کے ساتھ صاحب کا استعمال لازمی قرار دیا جاتا ہے۔اردو کے اساتذہ بھی یہ غلطی اپنا فرضِ عین سمجھتے ہوئے کرتے ہیں۔ایک طرف ہم آبِ زم زم کا پانی بولنا اس وجہ سے غلط مانتے ہیں کہ آب اور پانی ہم معنی ہیں۔دوسری جانب جناب اور صاحب کو ہم معنی ہوتے ہوئے بھی ساتھ ملا کر لکھنا غلطی تصور نہیں کرتے۔اردو لغات کے بہ موجب دونوں کلماتِ تخاطب ہیں اور احترام کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے جناب پرنسپل یا پرنسپل صاحب کہ دینا کافی ہو گا۔کچھ لوگ یہاں ایک مزید غلطی کرتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں کہ خاتون کے لیے ’’جنابہ‘‘ کر دیتے ہیں جو صریحاً غلط ہے۔جنابہ کا مطلب ایسی حالت ہے جس میں غسل واجب ہو جاتا ہے جنابہ گندگی اور ناپاکی کو کہتے ہیں۔ایسے ہی خاتون کے لیے بھی جناب لکھنا درست ہے۔ جیسے جناب زینب یا جناب فاطمہ ۔
س کا اضافہ:
کسی بھی زبان پر مقامی لہجے کا اثر انداز ہونا لازمی امر ہے۔ہماری اکثریت اردو بولتے وقت قصداً یا سہواً مقامی لہجے کو استعمال میں لے آتے ہیں۔مثلاً مقامی لہجے میں ’’س‘‘ کا استعمال بہت زیادہ کرنے کی وجہ سے اکثر لوگ اردو بولتے وقت بھی اس سے پیچھا نہیں چھڑا پاتے۔ ہمارے اردو کے اساتذہ بھی اس بات کا خیال نہ رکھتے ہوئے ’’نہ کرو‘‘ کو ’’ نہ کروس ‘‘اور ’’دیکھو نا‘‘ کو ’’دیکھوس نا‘‘ بول رہے ہوتے ہیں۔ایسی غلطیوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے اور خیال رکھا جانا چاہیے کہ اردو کو مقامی اثرات سے محفوظ رکھ کر درست انداز میں بولا جائے۔
اس طرح کے بے شمار الفاظ اور جملے ہیں جن کو درست استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہمارے اخبارات اور ہمارے اردو کے اساتذہ ان غلاط پر قابو پا کر اردو کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔امید ہے میری اس اصلاحی کوشش کو قبول کیا جائے گا۔ وحشت ؔ کلکتوی کے اس شعر کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔
کِس طرح حُسنِ زباں کی ہو ترقی وحشتؔ
میں اگر خدمتِ اردوئے معلی نہ کروں