حلالہ کیا ہے ؟ : – مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
مفتی امانت علی قاسمی

حلالہ کیا ہے ؟

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
07207326738 Mob:

اگست کے مہینہ میں سپریم کورٹ کا تین طلاق پر فیصلہ آیا ، فیصلہ کا استقبال و احترام دونوں حلقوں کی جانب سے کیا گیا حکومت نے بھی اس کو مسلم عورتوں کی جیت قرار دی ؛لیکن جوں جوں سپریم کورٹ کے تین سو پنچانوے صفحات کا مطالعہ ہوتا گیا تو منظر صاف ہونے لگا کہ یہ فیصلہ مسلم پرسنل لاء کے خلاف ہے بہر حال یہ ایک مقدمہ تھا اس سے پہلے بھی عدالت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء کے خلاف فیصلے ہوئے ہیں شاہ بانو کیس میں بھی مسلم پرسنل لاء کے خلاف فیصلہ ہوا تھا ،جس کو نظیر بنا کر آج بھی مطلقہ کے نفقہ کا فیصلہ عدالتوں میں ہوتا ہے-

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے بعد کچھ ارباب دانش و بینش کی رائے ہورہی ہے کہ تین طلاق کے مسئلہ پر اسلام کی شبیہ بگاڑی جارہی ہے ، میڈیا میں مسلمانوں کا مذاق بنایا جا رہا ہے حلالہ سینٹر سے میڈیا پردہ اٹھا رہا ہے ، اور عورتوں پہ ہو رہے ظلم کو منظر عام پر لاکر اسلام پر حملے کئے جارہے ہیں ، اسلام پر کیچڑ اچھالے جارہے ہیں اس پورے صورت حال میں جس چیز نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ حلالہ ہے اس لئے اگر شریعت میں موجود گنجائش جس پر بعض مکاتب فکر کا عمل ہے ان کی راے کو اختیار کر لیا جائے اور ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مان لیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ جب کہ ضرورت پڑنے پر ہم نے بہت سے مسائل میں دوسرے مکاتب فکر کی آراء سے استفادہ کیا ہے جضرت تھانوی ؒ کی الحیلۃ الناجزۃ اسی پس منظر میں وجود میں آئی ہے اس لئے اگر موقع کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے مسلم خاندان کے ٹوٹتے شیرازے کو بچانے کے لئے اس دوسری رائے پر عمل کر لیا جائے تو بہتر فیصلہ ہوگا۔ اس صورت میں حلالہ جیسے مکروہ عمل سے نجات مل سکتی ہے اور حلالہ کا دروازہ بند ہو جائے گا ،گویا حالات سے نمٹنے کا ایک حل یہ پیش کیا جارہا ہے ۔جو حضرات یہ رائے پیش کر رہے ہیں وہ اہل علم ہیں ؛بلکہ پختہ کا ر لوگ ہیں ، حالات ، تاریخ ، اور قرآن و سنت پر ان کی گہری نظر ہے،سماج سے جڑے ہوئے ہیں اور سب سے اہم بات کہ یہ لوگ مخلص ہیں اس وقت حالات نے جس موڑ پر لاکر کھڑا کر دیا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی وہ حل ہے جس کے ذریعہ ہم سلام کی شبیہ کو درست کر سکتے ہیں جو میڈیا نے بگاڑ دی ہے، بہت ممکن ہے کہ جس طرح یہ حضرات اہل علم اپنے اخلاص میں سچے ہیں اپنی اس فکر اور نظریے میں بھی درست ہوں ؛لیکن اس سلسلے میں کچھ باتیں میں اپنے قارئین کے سامنے رکھناچاہتا ہوں
سب سے پہلے میں حلالہ کا کی حقیقیت آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ حلالہ کیا ہے ؟اسلام سے پہلے طلاق دینے کی کوئی تحدید نہیں تھی ایک آدمی اپنی بیوی کو جتنی چاہے طلاق دے سکتا تھا اور بعض لوگ اپنی بیوی کو پریشان کرنے لئے بار بار طلاق دیتے تھے پھر رجوع کرلیتے تھے اس طرح نہ وہ اس عورت کو اپنی بیوی بنا کر رکھتے تھے نہ ہی آزاد کرتے تھے، اسلام کی آمد کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری تھا ایک صحابی نے اپنی بیوی سے یہی جملہ کہا تھا کہ تم کو لٹکا کر رکھوں گا اس نے پو چھا وہ کیسے تو اس صحابی نے کہا کہ تم کو طلاق دے دوں گا پھر جب عدت ختم ہونے کو ہوگی تو رجوع کر لوں گا پھر طلاق دے دوں گا اور یہ سلسلہ قائم رہے گا اس عورت نے اس کی شکایت آپﷺسے کی اس موقع پر قرآن قریم کی یہ آیت نازل ہوئی الطلاق مرتان کہ اب طلاق کی تحدید کر دی گئی ہے، ایک طلاق دو اور اگر دوبارہ پھر طلاق کی ضرورت پڑے تو دوسری طلاق دو ،لیکن دوسے زائد طلاق مت د،و اب اگر کوئی تیسری طلاق دینے کی غلطی کرے گا تو اب اس کے لئے دروازا بند ہوگیا اور وہ عورت اس مرد پر مکمل طور پرحرام ہوگئی ہے اس سے نکاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،وہ عورت عدت کے بعدشوہر سے مکمل طور پر آزاد ہو گئی ہے ،پہلے شوہر پر اس کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہی پہلا شوہر اب اس پر مزید ظلم کر سکتا ہے ،وہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرسکتی ہے اس کے لئے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ، قرآن کی اس ہدایت کے مطابق وہ عورت دوسرے مرد سے شادی کرے گی اور اسی کے ساتھ اپنی زندگی گزارے گی، لیکن اگر یہ دوسرا مرد بھی کسی وجہ سے طلاق دے دے یا اس دوسرے مر د کا انتقال ہو جائے تو عدت کے بعد عورت پھر آزاد ہے ،یہاں شریعت نے عورت کو اس کی اجازت دی ہے کہ اگر عورت چاہے تو کسی تیسرے مرد سے شادی کرلے اور اگر چاہے تو وہ پہلے مرد سے بھی شادی کر سکتی ہے ،قرآن کریم کی اس آیت فان طلقہا فلا تحل لہ من فان بعد حتی تنکح زوجا غیرہ میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے ،شریعت کی اصطلاح میں اسی کو حلالہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔قارئین آپ ہی فیصلہ کرکے بتائیے کہ اس میں کیا چیز غلط ہے اور کیا آپ کو لگتا ہے اس میں عورت کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے ؟
حلالہ کی یہ صورت قرآن کریم سے ثابت ہے جو شریعت کا ایک لازمی حصہ ہے اس کے علاوہ حلالہ کی اور صورتیں ہو سکتی ہیں مثلا کہ ایک عورت کو اس کے ظالم اور اسلامی تعلیم سے نا بلد شوہر نے تین طلاق دے دیا ہے اور اب وہ اپنی اس بیوی کے ساتھ پھر سے رشتہ ازدواج کو برقرار رکھنا چاہتا ہے وہ ظلم کی ماری اپنا کوئی مناسب سہارا نہ دیکھ کر اور بسے بسائے گھر کو اجڑتا دیکھ کر ہر طرح کی تکلیف اور ذلت برداشت کرکے اسی مرد کے ساتھ رہنے کے لئے تیار ہوجاتی ہے اور دونوں اس پر راضی ہوجاتے ہیں کہ ہم ہر صورت میں ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو مفتیان کرام یہ فتوی بتا دیتے ہیں کہ جب تک اس عورت کی دوسری شادی نہ ہو جائے ہو اپنے پہلے شوہر کے حلال نہیں ہوسکتی ہے، تو حالات کا شکار وہ عورت اس عمل کے لئے بھی راضی ہوجاتی ہے اب وہ عورت کسی مرد کے ساتھ اسی شرط کے ساتھ شادی کرتی ہے وہ اس کو پہلے مرد کے لئے حلال کردے گا ، اور بعض بہتی گنگامیں نہانے والے ضمیر فروش ایسے بھی دستیاب ہوجاتے ہیں جو پیسے (اجرت )لے کر شادی کرتے ہیں تاکہ عورت کو اس کے پہلے شوہر کے لئے حلال کردے آپ ﷺکو معلوم تھا کہ ایسے ضمیر فرو ش پیدا ہوسکتے ہیں اس لئے آپ نے انہی دو قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی لعن اللہ المحلل و المحلل لہ کہ حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت ہے
غور کیجئے باضابطہ جو حلالہ کا سینٹر چلاتے ہیں اور حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرتے ہیں، اس پر پیسے بھی لیتے ہیں اسلام اس کو پسند نہیں کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں پر لعنت بھیجتا ہے ایسے حلالہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اس طرح کے حلالہ پر قانونی طور پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے، لیکن جس حلالہ کا تذکرہ قرآن نے کیا ہے اس پر کسی قسم کے تبصرے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،بلکہ یہ تو عورت کے ساتھ عین انصاف ہے۔ حلالہ کی ایک جائز و مناسب صورت یہ بھی ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے کر اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے اب اس سے نکاح کی کوئی صورت نہیں رہتی ہے دونوں بے چینی کی زندگی گزارتے ہیں اور شریعت پر عمل کرتے ہیں، ایک شخص جو اس پورے منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے وہ کوئی بات کئے بغیر عدت کے بعد اس عورت سے شادی کرلیتا ہے اور پھر اس کو طلاق دے دیتا ہے تا کہ یہ عورت اپنے پرانے شوہر سے نکاح کرکے اپنے بسے بسائے گھر کو پھر سے آباد کرلے ،یہاں وہ شخص نکاح سے پہلے نہ تو حلالہ کی بات کرتا ہے اور نہ ہی وہ عورت کو اپنے ارادے سے با خبر کرتا ہے اور نہ کسی قسم کی کوئی شرط لگاتا ہیاور عورت بھی کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں کرتی ہے تو حلالہ کی یہ صورت بھی درست ہے، اس پر کوئی لعنت بھی نہیں ہے ۔
حلالہ کے سلسلے میں ایک بات اور عرض کردوں کہ حلالہ عورت کے ساتھ کوئی ظلم نہیں ہے ؛بلکہ یہ اس نا ہنجار شوہر کے منہ پر طمانچہ ہے جو طلاق کا غلط استعمال کرکے شریعت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں ، اس لئے کہ ایک باغیرت مرد کے لئے اس سے بڑی کیا سزا ہوگی کہ اس کی بیوی کسی دوسرے کی ہم بستر ہو اس لئے یہ کہنا کہ حلالہ عورت کے ساتھ ظلم ہے ؛جبکہ غلطی شوہر نے کی اورسزا عورت کی دی جارہی ہے یہ بالکل غلطاور مہمل فلسفہ ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ کیا تین طلاق کو ایک مان لینے میں حلالہ کا دروازا بند ہو جائے گا ؟میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے، اس لئے کہ ایک شخص غصہ میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیتا ہے آپ اس کو ایک قرار دے دیجئے ، کچھ دنوں کے بعد پھر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوگا اور شوہر غصے میں آکر اس کو تین طلاق دے دے گا ،پھر اس تین کو ایک مان لیا جائے ، وہ شرابی شوہر دوسرے ہی دن شراب پی کر آئے گااور نشے میں کہے گاتو ابھی تک گئی نہیں میں تو تمہیں طلاق دے چکا ہوں ،جا میں نے تمہیں تین طلاق دیا اب تو اس نوکو تین مان لیجئے۔ اب اس کے لئے کیا راستہ ہے ؟سبھی مکاتب کے لوگ کہیں کے کہ حلالہ ہی واحد راستہ ہے۔
اس کے علاوہ یہاں تو بحث ایک مجلس کی تین طلاق کا ہو رہا ہے اگر تین متفرق طلاق دیا جائے اور ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک طلاق دیتا ہے یا پھر دو طلاق دیتا ہے اور بہت دنوں تک دونوں ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں پھر شوہر کو پہلے دیا ہو ا طلاق یاد نہیں رہتا ہے اور وہ پھر طلاق دے دیتا ہے ،اب یہاں صرف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے حلالہ کرے یا اس مر د کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ ہی زندگی گزارے اس لئے یہ کہنا کہ تین طلاق کو ایک مان لینے کی صورت میں حلالہ کا دروزا بندہو جائے گا ،میرے خیال میں یہ توجیہ غلط ہے ،ہاں اتنا ضرور ہے کہ تین کو ایک مان لینے کی صورت میں بہت حد تک حلالہ کے واقعات میں کمی آجائے گی، لیکن حلالہ مکمل ختم نہیں ہوگا ،ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ جب حلالہ کا ذکر قرآن میں ہے تو اس کو ختم کرنے کا منصوبہ کیسے بنایا جاسکتا ہے ، ہاں حلالہ کا جو غلط طریقہ رائج ہو رہا ہے جس کی بنا پر اسلام کو بدنام کیا جارہاہے اور جس پر حدبث میں لعنت آئی ہے اس کو بند کرنے کی عملی صورت پیدا ہونی چاہئے اور اس سلسلے میں ارباب فکر و نظر کو غورکرنا چاہئے او راس کی حکمت عملی طے ہونی چاہئے ۔
ایک تیسرا مسئلہ ہے کہ کیا حالات کے پیش نظر تین طلاق کو ایک قرار دیا جاسکتا ہے ؟اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ مسئلہ سلف کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے، ائمہ اربعہ اس کے قائل ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق ،تین ہیں ایک نہیں ،علامہ ابن تیمیہ تین کو ایک مانتے ہیں؛ لیکن ان کی اس رائے کو خود ان کے شاگر د نے قبول نہیں کیا تھا ، اس وقت علماء اہل حدیث ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں ،بعض مسائل حالات اور زمانے کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں ، بعض مسائل میں ضرورت پڑنے پر دوسری فقہ سے استفادہ کیا جاتا ہے کیا اس مسئلے میں غور کیا جا سکتا ہے کہ فقہ اہل حدیث کے مطابق تین کو ایک مان لیا جائے ؟اس سلسلے میں اہل علم اور ارباب افتاء کو غور کرنا چاہئے اور مناسب حل تلاش کرنا چاہئے ،جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس مسئلے میں تین کو ایک مان لینا مشکل ہے ، اس لئے کہ تبدیلی کے لئے جس ناگزیر ضروت کی ضروت ہے کیا واقعتا اس ضرورت کا تحقق ہوگیا ہے ؟ پھر تبدیلی کی صورت میں کیا ائمہ اربعہ کی فقہ کے علاوہ سے بھی استفادہ کی اجازت ہے ؟کیا ماضی میں فقہ جعفری اور فقہ زیدی سے استفادہ کی کوئی نظیر ہے ؟ مجھے معلوم نہیں ہے بہر حال اس پر ارباب علم و دانش کو غور کرنا چاہئے ۔
ایک مسئلہ کی طرف توجہ دلاتا چلوں کہ پورے واقعہ میں جس کا سب سے زیادہ جس کا حوالہ دیا گیاہے، وہ ہے میڈیا کے کردار کا ، کہ میڈیا نے حلالہ آپریشن دکھایا اور اس کو اجاگر کیا کہ دھرم کے نام کس طرح عورتوں کی عزت سے کھیلا جارہا ہے سوال یہ ہے کہ ایسے حلالہ سینٹر کے خلاف حکومت نے کیا کاروائی ہے کتنوں کو جیل میں بند کیا گیا ؟ اگر حکومت ان پر شکنجہ کستی تو میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی مسلم تنظیموں کو اعتراض نہیں ہوتا اس لئے کہ ایسے حلالہ سینٹر سب کے سب غیر مذہبی اور غیر اخلاقی ہیں ، لیکن ان پر کوئی کیس نہیں ہوا ہے اور نہ ہی اس تعلق سے کوئی خبر میڈیا میں آئی اس لئے کہ جس طرح کے شو اور آپریشن دکھائے جارہے تھے واقعہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ صرف اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش تھی،آخر کیا ہم میڈیا کے اس طرح کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہو کر شرعی مسائل میں لچک پیدا کرتے رہیں گے ، جہاں تک مسئلہ میڈیا یا حکومت کا ہے تو اس پورے منظر نامے میں یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ ان کا مقصد مسلم پرسنل لاء میں چھیڑ خانی کا تھا اور ہے اور اس کے لئے یہ سب وسائل کی حد استعمال ہوئے ہیں ۔
ایک آخری بات یہ کہ موجودہ حالات میں کیا کرنا چاہئے ؟اس سلسلے میں ہمیں اعتراف ہے اصلاحی کوششیں پہلے سے کہیں زیادہ ہورہی ہیں، لیکن حالات پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہو رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے دینی مسائل کی اہمیت اور اس سے دلچپی عمرکے جس مرحلے میں پیدا ہونی چاہئے وہ نہیں ہو رہی ہے ،نکاح وطلاق کے مسائل ہمارے نصاب کا حصہ ہونا چاہئے؛ جبکہ آج کل بچوں کو عصری تعلیم دلانے پر اکتفاء کر لیا جاتا ہے اور دینی تعلیم دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، بہت سے بہت قرآن اور مختصر اردو و ینیات کی تعلیم کسی حافظ سے دلادی جاتی ہے، بچہ جوان ہوجاتا ہے اور شادی کی عمر پہنچ جاتا ہے، لیکن اسے نکاح و طلاق کے مسائل کا علم نہیں ہوتاہے طلاق تو عام طور پرہمارا نوجوان طلاق دینے کے بعد ہی جانتا ہے کہ یہ کس چیز کا نام ہے اور کیا کرنا چاہئے تھا اور کیا نہیں کرنا چاہئے ،ظاہر ہے کہ اس وقت زمانہ بہت آگے نکل چکا ہوتا ہے اور سوائے پچتانے کہ اور کچھ باقی نہیں رہتا ،اس لئے ضرورت ہے کہ نکاح و طلاق کے مسائل کو ہمارے اسکولی نصاب کا حصہ بنا نا چاہئے اور ہر طالب علم کو شعور کی عمر میں ضرو رپڑھانا چاہئے اس لئے کہ جلسے جلوس سے لوگوں میں کسی حد بیداری تو پیدا ہوسکتی ہے، لیکن مکمل واقفیت نہیں ہو سکتی ہے ہم تو مسجدوں میں دیکھتے ہیں نماز کاصحیح طریقہ بتانے کے بعد اسی مسجد میں اسی وقت بتائے ہوئے طریقے کے خلاف لوگ نماز پڑھتے ہیں اس لئے کہ محض سننے سے عملی مشق نہیں ہو پاتی ہے اس کے لئے علیحدہ تربیت ضروری ہے۔ اس کے بعد بھی یہ مسئلہ ان لوگوں کے حق میں باقی رہ جائے گا جو اسکول اور مدرسہ کہیں بھی تعلیم کے لئے نہیں پہنچ پاتے ہیں ۔

Share
Share
Share