تحقیقی جریدہ
’ ادب و ثقافت ‘ کا پانچواں شمارہ
پروفیسر محمد ظفرالدین
مدیر ادب و ثقافت
مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے تحقیقی جریدے ’ادب و ثقافت‘ کا پانچواں شمارہ پیش خدمت ہے۔ سابقہ شماروں پر قارئین کی حوصلہ افزا آرا نے ہمارے اندر مزید توانائی پیدا کی۔ لہٰذا زیرنظر شمارے کو مزید وقیع بنانے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے۔
ہمیشہ کی طرح ادب و ثقافت کے گزشتہ شمارے کے تعلق سے بھی ہمیں کئی خطوط اور تبصرے موصول ہوئے جن میں عموماً جریدے کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ مگر ایک خط نے سوال کھڑا کیا اور گفتگو کا جواز فراہم کیا۔یہ خط ممتاز دانشورشفیع مشہدی کا ہے جنہوں نے تحریر کیا ہے کہ ’’بارخاطر نہ ہو تو عرض کروں کہ ’’ایڈیٹوریل بورڈ‘اور’ ریسرچ اور ریفریڈ جرنل‘ جیسے الفاظ کے لیے اُردو متبادل دیا جا سکتا ہے۔‘‘
اُردو متن میں انگریزی الفاظ کی آمیزش ‘ انگریزی اصطلاحات کومن و عن قبول کرنے اوراِن اصطلاحات کے لیے اُردو/ فارسی/عربی متبادل کی تلاش کی بحث بہت قدیم ہے۔ اس موضوع پراکثر کوئی نہ کوئی تحریرسامنے آتی رہتی ہے ۔مگرتمام مباحث اوردلائل و شواہد کامجموعی حاصل یہی نکلتا ہے کہ انگریزی اصطلاحات سے ہمیں مفر نہیں۔امتداد زمانہ نے یہ بھی ثابت کیا کہ انگریزی زبان ہی ترقی کی شاہراہوں پر لے جانے والے پل کا کام کرتی ہے۔ فورٹ سینٹ جارج کالج‘ فورٹ ولیم کالج اور دارالترجمہ شمس الامرا کے بعد اُردو تراجم کے تین ایسے مراکز قائم کیے گئے جو ملک کے تین بڑے تعلیمی اداروں سے وابستہ تھے ۔ ورناکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی 1842 (دلی کالج) ‘ سائنٹفک سوسائٹی 1864 (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) اور دارالترجمہ 1917 (جامعہ عثمانیہ)۔ ان تینوں مراکز میں ترجمے اور اصطلاحات سازی کے جو اُصول وضع کیے گئے اُن میں جا بجا انگریزی اصطلاحات کوقبول کرلینے کی باتیں کی گئی ہیں۔ ورناکلر سوسائٹی میں کہا گیا کہ ایسے سائنسی الفاظ اور خطابات و القاب جن کے مترادفات موجود نہیں‘ اُنہیں بجنسہ لے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ بات پونے دوسوسال قبل طے کی گئی تھی۔اب سے پورے ایک سوسال قبل دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ نے گرچہ اصطلاحات سازی پر خصوصی توجہ دی اور وہاں مختلف علوم کی 91 ہزار اصطلاحات وضع کی گئیں لیکن وہاں بھی یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ اُردو اصطلاحات کے ساتھ انگریزی اصطلاحات بھی لکھی جاتی تھیں تاکہ طلبہ یا قارئین انگریزی اصطلاحات سے بھی واقف رہیں۔ علاوہ ازیں‘ وہاں اُردو میڈیم میں تعلیم دیے جانے کے ساتھ ساتھ انگریزی کی بھی تعلیم دی جاتی تھی اور اس کے لیے حتی المقدور انگریز استادکا تقرر کیا جاتا تھا۔ اُس وقت دفاترمیں اورعوامی سطح پر اُردو کا چلن عام تھا۔اُردو کی نہ صرف سرکاری حیثیت تھی بلکہ اسے وقار بھی حاصل تھا۔آج ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنے میں عار نہیں ہونا چاہیے کہ دوسری کئی ہندوستانی زبانوں کی طرح اُردو بھی سائنس و تکنالوجی کی زبان نہیں رہی۔ شیئربازار اور فینانس کے میدانوں میں خالص اُردو اصطلاحات سے کام نہیں چلایاجا سکتا۔ اُردو ذریعہ تعلیم ہوسکتا ہے۔ مادری زبان میں علم سیکھنے کی قوت و افادیت آج بھی برقرار ہے لیکن اصطلاحات اور اسماء کے ترجمے پر اصرارہمیں ترقی کی راہ میں پیچھے کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ ریڈیو یا ٹی وی کی اصطلاح فریکوئنسی کو اگر ہم ’تعدد‘ کہیں‘ ڈرائیونگ کی اصطلاح ایکسلریشن کو ’اسراع‘ کلوروپلاسٹ کو ’سبز مائع دان‘ میٹابولزم کو تحول‘ نیوٹریشن کوتغذیہ‘ وائرس کو قشبات‘ مسلس کو عضلات ‘ ری ایکشن کو تعامل ‘ وٹامنس کو حیاتین یا ڈی ہائڈریشن کو ناآبیدگی ۔۔۔ تو ہمارا طالب علم یا آج کا قاری کیسے سمجھ پائے گا؟ اور اگر کسی طرح سمجھ بھی گیا تو کیا وہ عملی میدان میں تشریف فرما اعلیٰ تعلیم یا روزگار بازار کے نمائندوں کو سمجھا سکتا ہے۔ لہٰذا آج یہ ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ اُردو میں انگریزی اصطلاحات کو من و عن قبول کیا جائے اور اُنہی کو عام کیا جائے۔ اُردو کا دامن یوں بھی بہت وسیع ہے‘ اس میں قوت انجذاب بے پناہ ہے ۔ کوئی حیرت نہیں کہ کچھ دنوں کے استعمال کے بعد وہ اصطلاحات بھی اُردو اصطلاحات کی طرح زبان زد ہو جائیں !
’’ادب و ثقافت‘‘کے پہلے ہی شمارے سے ہماری کوشش رہی ہے کہ اپنے قارئین کو متنوع موضوعات پر تحقیقی مواد فراہم کیا جائے ۔ سو اِس بار بھی اگرفہرست پر نظرڈالیں تو آپ کوکلچر‘ لغت سازی‘ ہندی شاعری‘ کشمیری زبان کی تنقید‘ دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ سے لے کر اُردو ادب کی مختلف اصناف اور شخصیات کے حوالے سے مضامین مل جائیں گے۔ہم اپنے ان تمام قلمکاروں کے شکرگزار ہیں جن کی بدولت ’’ادب و ثقافت‘‘ کا خصوصی اور امتیازی وصف برقرار ہے۔
پروفیسر افصح ظفر نے کلچر‘ ادب اور جنگ کے موضوع پر بہت ہی وسیع پس منظرمیں سیرحاصل مضمون قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے ان تینوں عناصر کے آپسی رشتے دلائل و براہین کے ساتھ مخصوص ادبی پیرائے میں بیان کیے ہیں اور کہا ہے کہ معاشرے میں آج سے کچھ پہلے انسان تنہا ہورہا تھا مگر اب خوفزدہ بھی ہو رہا ہے۔ پروفیسر حسین الحق پاکستانی افسانہ نگار ضمیر احمد کے ایک افسانے ’’پروائی‘‘ کا بہترین تجزیہ پیش کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس کہانی کا اصل کمال اس کا ٹریٹمنٹ ہے اور یہ کہ بیشتر پاکستانی کہانیاں کسی منفرد تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار نہیں بلکہ ہندو پاک کی مشترکہ وراثت کی امین ہیں۔ ڈاکٹر نریش نے اپنے عالمانہ مقالے میں مثالوں کے ذریعے بتایا ہے کہ جدید ہندی شعرا کو اُردو شاعری نے بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر کیا ہے اور جدید ہندی شاعری کی مختلف اصناف پر اُردو کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔پروفیسر اے آر فتیحی نے اپنے تحقیقی مقالے میں یہ بتایا ہے کہ اُردو میں لغت سازی کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب اُردو اپنی علیحدہ ادبی زبان کی شکل میں ظاہر ہونے لگی تھی۔ اُنہوں نے لغت سازی کے مراحل اور لغت کی اقسام بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ لغت سازی ایک علمی ضرورت ہی نہیں بلکہ تہذیبی اور سماجی ضرورت بھی ہے۔ لغت نگار کا کام الفاظ وضع کرنا نہیں بلکہ رائج الفاظ کو لغت کا حصہ بنانا ہے۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے شموئل احمد‘ غضنفر‘ ذوقی‘ سید محمد اشرف‘ حسین الحق‘ عبدالصمد‘ شفق‘ سلام بن رزاق‘ شوکت حیات‘ ذکیہ مشہدی‘ مشتاق احمد نوری وغیرہ کے افسانوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم عصر کہانیوں میں روحِ عصر اور سماج کا کرب موجود ہے۔ اس کرب میں مٹتی قدروں کا المیہ بھی ہے اور کمزور ہوتی ہوئی یادداشتوں کا نوحہ بھی۔ جناب اسیم کاویانی نے ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کا مفصل تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ فطری طور پر ایک ظرافت نگار ہیں اور صنف خاکہ وغیرہ اُن کے تحریری وسیلے ہیں۔روانی بیان‘ شگفتگی تحریر‘ اختصار و جامعیت اُن کے خاکوں کی خصوصیات ہیں۔ ڈاکٹر مصطفی علی خاں فاطمی مرحوم کا مضمون مہاراجہ کشن پرشاد شاد اور علامہ اقبال کے خطوط اس اعتبار سے ہمارے لیے بہت اہم ہے کہ اس میں ان دونوں نابغہ روزگار شخصیات کی تحریر کا عکس بھی شامل ہے۔ڈاکٹر فاطمی خالص تحقیقی مزاج کے مالک تھے اور اگر کسی نکتے پر انہیں شبہ ہوجائے تو اُس کی تہہ تک پہنچے بغیر نہیں رہتے تھے۔یہ مضمون ہمیں اُن کی اہلیہ پروفیسر اشرف رفیع سے حاصل ہوا ہے جس کے لیے ہم اُن کے شکرگزار ہیں۔ڈاکٹر خالد اشرف نے لکھا ہے کہ اخترالایمان کو فیض اور راشد کے بعد اُردو نظم کا اہم ترین شاعر قرار دیا جا سکتا ہے۔مضمون میں اخترالایمان کی مشہورنظموں کے ساتھ اُن کی خودنوشت’ اِس آباد خرابے میں ‘سے بھی خوبصورت اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے ’’ہندوستانی تہذیب اور اُردو شاعری ‘‘ میں واضح کیا ہے کہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی روایات کی اشاعت‘ تشہیر اور استحکام کے لیے اُردو شاعری نے ہر دور میں اپنا کردار نبھایا ہے۔ڈاکٹر محمد کاظم نے ’’ڈراما انار کلی‘‘ کا انتہائی مفصل جائزہ پیش کرتے ہوئے تقریباًاُن تمام پہلوؤں کا احاطہ کرلیا ہے جن کا ذکر انارکلی کی تفہیم و تدریس کے دوران آتا ہے ۔ ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی نے اقبال سہیل کے تصور غم کے حوالے سے لکھا ہے کہ اُن کی شاعری اور انسانی دکھ بھری زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں بلکہ یہ ان کے فن کا لازمی جزو اور حیات کا اثاثہ ہے۔ڈاکٹر وسیم بیگم نے ’’علامہ شبلی نعمانی کی شخصیت اور اُن کی مختلف جہات ‘‘ میں شبلی کی متنوع خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین نے عمیق حنفی کے عہد اور ادبی تناظر کے عنوان سے اُن کی شاعری کا مکمل جائزہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد جنید ذاکر نے دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ پر ایک جامع اورمبسوط مقالہ تحریرکیا ہے جس کی معنویت اور اہمیت اس وجہ سے بھی بہت زیادہ ہے کہ سال 2017 ء اُس تاریخ ساز ادارے کے قیام کے سوسال کی تکمیل کا سال ہے۔ڈاکٹر الطاف انجم نے کشمیری زبان کی تنقید پر اُردو تنقید کے اثرات کو اُردو تنقید پر انگریزی تنقید کے اثرات کے تناظر میں دیکھنے کی بڑی اچھی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر محمد مستمر نے 1980 ء کے بعد اُردو غزل میں ہندوستانی عناصر کے موضوع پراپنے مفصل مضمون میں لکھا ہے کہ اس تکنیکی اور سائنسی دور میں بھی ہمارے غزل گو شعرا اُن علامتوں ‘ استعاروں اور اسماء سے کام لے رہے ہیں جن کی جڑیں ہندوستان کی مٹی میں پیوست ہیں۔
قارئین ’’ادب و ثقافت ‘‘ کو یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے اِس جریدے کو اپنے منظورشدہ جرائد کی فہرست میں اُردو اور ترجمے کے زمروں میں شامل کرلیا ہے۔
جریدے کو مزید وقیع بنانے کے لیے ہمیں آپ کے غیرمطبوعہ تحقیقی مقالوں اور مفید مشوروں کا انتظار رہے گا۔
——-
Prof. Mohd. Zafaruddin
Director
Directorate of Translation and Publications
[Editor, Adab o Saqafat, A bi-annual refereed Journal, ISSN: 2455-0248]
Maulana Azad National Urdu University
Gachibowli, Hyderabad – 500 032 (AP)
Mobiles: 09347690095, 09052607590
, www.manuu.ac.in
—-